عارضی شادیاں

عارضي شادي/نکاح
ابھی بی بی سی کے سیربین میں پتہ لگا ہے سعودي عرب کے جوان اور ادھیڑ عمر کے نوجوان انڈونیشیا میں جاتے ہیں اور عورتوں سے شادیں کرتے ہیں اور پھر چھوڑدیتے ہیں اب انڈونیشیا نے باضابطہ طور پر سعودیہ سے شکایت کی اور سعودی میں ایک صحافی کے مطابق تین طرح کے نکاح ہے جن کے نام یہ ہیں
  • مسيار
  • مسفار
  • وناسا
اب اگر کوئی ان شادیوں کے بارے میں جانتا ہوتو میری معلومات میں اضافہ فرمائے۔
 
مجھے یہی شک تھا کہ ایسا سوال آئے گا لہٰذا میں نے وہ پروگرام کا حصہ ریکارڈ کرلیا ہے۔ آپ کی منفی سوچ کو داد دینی پڑے گی۔
یہاں سے سنیں یا بی بی سی کی سائٹ پر جائیں اور سیربین سنیں یہ کل شام تک دستیاب رہے گا۔
 

طالوت

محفلین
سیدھا سا کہیں نا کہ سعودی بھی متعہ کو مختلف نام دے کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔۔ ( منفی سوچ والی بات سمجھ لیں میں نے پڑھی ہی نہیں۔)
کوئی خبر ہو تو اس کا لنک دیں ، یہ آڈیو میرے حلق سے نہیں اترے گی ۔۔ یا براہ راست بی بی سی کا لنک مہیا کریں ۔۔
وسلام
 

نایاب

لائبریرین
عارضي شادي/نکاح
ابھی بی بی سی کے سیربین میں پتہ لگا ہے سعودي عرب کے جوان اور ادھیڑ عمر کے نوجوان انڈونیشیا میں جاتے ہیں اور عورتوں سے شادیں کرتے ہیں اور پھر چھوڑدیتے ہیں اب انڈونیشیا نے باضابطہ طور پر سعودیہ سے شکایت کی اور سعودی میں ایک صحافی کے مطابق تین طرح کے نکاح ہے جن کے نام یہ ہیں
  • مسيار
  • مسفار
  • وناسا
اب اگر کوئی ان شادیوں کے بارے میں جانتا ہوتو میری معلومات میں اضافہ فرمائے۔

السلام علیکم
محترم ظہور احمد سولنگی جی
زواج مسیار کے بارے میں تو سنا ہے ۔
اور جیسی اس کی شرائط ہیں ۔ یہ متعہ سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔
اور کچھ علما نے اس کو جائز بھی قرار دیا ہے ۔
یہاں مختلف ملکوں کے تارکین وطن کے درمیان یہ شادیاں وقوع پزیر ہوتی ہیں ۔
اور ان کا باقاعدہ اندراج بھی ہوتا ہے ۔ باقی دوسری شادیوں کے نام سے میں ناآشنا ہوں ۔
نایاب
 

شمشاد

لائبریرین
اس خبر کے لیے شکریہ ظہور بھائی۔

آج 18 اپریل 2009 کے Arab News پر صفحہ 3 پر چوتھائی صفحے کی خبر ہے :

Temporary marriages with Indonesian women on rise
Saudi Men marry tem with the intention of divorce
P. K. Abdul Ghafour - Arab News​

خبر خاصی لمبی ہے۔

Some poor Indonesians marry off their girls to Saudis hoping it would put an end to their poverty and miseries. If the Council of Senior Islamic Scholars does not ban this type of marriages, things will go out of control."
(Khaled Al-Arrak)​

اگر کہیں گے تو پوری خبر سکین کر کے یہاں لگا دوں گا۔
 

فاتح

لائبریرین
اس خبر کے لیے شکریہ ظہور بھائی۔

آج 18 اپریل 2009 کے Arab News پر صفحہ 3 پر چوتھائی صفحے کی خبر ہے :

Temporary marriages with Indonesian women on rise
Saudi Men marry tem with the intention of divorce
P. K. Abdul Ghafour - Arab News​

خبر خاصی لمبی ہے۔

Some poor Indonesians marry off their girls to Saudis hoping it would put an end to their poverty and miseries. If the Council of Senior Islamic Scholars does not ban this type of marriages, things will go out of control."
(Khaled Al-Arrak)​

اگر کہیں گے تو پوری خبر سکین کر کے یہاں لگا دوں گا۔

ارے شمشاد بھائی! سکین کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ عرب نیوز آن لائن بھی میسر ہے اور یہ رہا اس خبر کا ربط:
http://www.arabnews.com/services/pr...orary marriages with Indonesian women on rise
 
اس خبر کے لیے شکریہ ظہور بھائی۔

آج 18 اپریل 2009 کے arab news پر صفحہ 3 پر چوتھائی صفحے کی خبر ہے :

temporary marriages with indonesian women on rise
saudi men marry tem with the intention of divorce
p. K. Abdul ghafour - arab news​

خبر خاصی لمبی ہے۔

some poor indonesians marry off their girls to saudis hoping it would put an end to their poverty and miseries. If the council of senior islamic scholars does not ban this type of marriages, things will go out of control."
(khaled al-arrak)​

اگر کہیں گے تو پوری خبر سکین کر کے یہاں لگا دوں گا۔

شمشاد بھائی ،مسیار کی تعریف کا پتہ تو لگ گیا اگر آپ باقی دو کی بھی تعریف بتادیں تو میری معلومات میں اضافہ ہوگا میں نے ایک یمنی نژاد سعودی دوست سے بھی پوچھا تھا مگر اس کو بھی مسیار ہی کا پتہ ہے باقی کا نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
زواج مسیار ایسی شادی کو کہا جاتا ہے جس میں مرد اس قابل نہ ہو کہ وہ لڑکی کے لواحقین کو لڑکی کی تعلیم و تربیت پر کیا گیا خرچ ادا کر سکے ۔ اورمال حیثیت بہت کمزور ہو ۔ وہ کسی ایسی لڑکی سے جس کی عمر ڈھل رہی ہو سے شادی کر کے لڑکی کے ساتھ اسی کے گھر رہتا ہے ۔ اس شادی میں مرد نان و نفقہ کی ذمہ داری سے آزاد ہوتا ہے ۔ اور گھر کے سب اخراجات وغیرہ کی ذمہ داری لڑکی پر ہوتی ہے ۔ لیکن طلاق کا حق مرد کے پاس ہوتا ہے ۔
زواج اسفار ایسی شادی کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی لڑکی کسی مرد سے اس شرط پر شادی کر لیتی ہے کہ طلاق کا حق لڑکی کے پاس رہے گا ۔ اس شادی کی بنیادی ضرورت اک محرم کی تلاش ہوتی ہے ۔ جس کے ساتھ رہ کر کوئی لڑکی گھر سے دور کسی دوسری جگہ بسلسلہ تعلیم و روزگار مقیم ہو ۔ اور اس کا باپ یا بھائی اس کے ساتھ رہنے سے مجبور ہوں ۔
زواج موانسہ یا وناسہ ۔ابھی تک اس کی تعریف نہیں مل سکی ۔ جس بھی شیخ و عالم سے پوچھا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ اخباری بہتان ہے ۔ و اللہ عالم
زواج مسیار اور مسفار میں کچھ زیادہ فرق نہیں ۔ دونوں ہی مصلحت اور ضرورت کی ایجاد ہیں ۔ زواج مسیار میں مرد بنا کسی ذمہ داری کے عورت پر غالب رہتا ہے ۔ اور زواج اسفار میں عورت مرد کی حاکم ۔
کچھ علما اس کے وجوب کے قائل ہیں اور کچھ اسے حرام سمجھتے ہیں ۔
اللہ ہم سب کو راہ ہدایت سے نوازے آمین
نایاب
 

footprints

محفلین
زواج مسیار جن علماء کے نزدیک درست ہے وہ اسے کچھ اس طرح واضح کرتے ہیں:
یہ مرد کی مستقل دوسری شادی ہوگی جس میں ایک خوشحال اور خود کفیل خاتون ضرورتا مرد کی دوسری شادی کو آسان اور ممکن بنانے کے لیے اپنے بعض ازدواجی حقوق سے دستبردار ہوجاتی ہے جیسے نان، نفقہ، رہائش، وقت اور عدل بین الزوجین وغیرہ - یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جن کی اپنے بعض مسائل کی وجہ سے یا چند معاشرتی مسائل کی وجہ سے عام شادی ممکن نہ ہو رہی ہو اس طرح وہ اپنے ازدواجی حقوق میں کمی کرکے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتی ہیں۔
کچھ علماء اس پر اپنی رائے کچھ اس طرح سے ظاہر کرتے ہیں کہ: یہ ایک حق ہے جس سے ارادہ باطل کا ہوتا ہے۔
اور کچھ علماء معاشرے میں اس جواز کے بعد کے اثرات کا جائزہ لینے اور اس پر نقد کے بعد اپنا احساس اس طرح سے ظاہر کرتے ہیں کہ: یہ مغربی معاشرے میں پھیلی جنسی بے راہ روی کا اسلامی جواز بن جائے گا۔
 

طالوت

محفلین
شادی کا سیدھا سادہ مسئلہ قران نے چند آیات میں پیش کر دیا ہے ۔۔ یہ ہمارے علماء کے ہی کارنامے ہیں کہ ہر معاملے کو پیچدہ بنانا اور پھر اپنی دین بینی کا دعوٰی کر کے عوام کو بےوقوف بنانا ۔۔
وسلام
 

خرم

محفلین
یہ تو وہی بات ہوئی جیسے "ہیر"‌میں مولوی صاحب اشرفیوں کی تھیلی پکڑ کر فرماتے ہیں "البتہ ہُن جائز ایہہ"
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ



سعودی عرب والوں کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں ھے پرانے کھیل ہیں ان کے۔ آپ پر اب ظاہر ہوئے ہیں۔




نکاح مسیار 1




نکاح مسیار 2



نکاح مسیار 3



نکاح مسیار 4




اسلام اون لائن فتوی
http://www.islamonline.net/servlet/...h-Ask_Scholar/FatwaE/FatwaE&cid=1119503544160



( اس میٹیریل کے لئے عتیق الرحمن کا شکریہ)
 

مہوش علی

لائبریرین
مسیار شادی اور نکاح المعتہ میں فرق
اکثر لوگ دونوں کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ مگر نوٹ فرما لیجئے کہ:
1۔ مسیار شادی کا اہل تشیع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
2۔ اور نہ ہی مسیار شادی کا عقد متعہ سے کوئی تعلق ہے جو اہل تشیع کے ہاں رائج ہے۔

مسیار: دھوکے کی شادی

اور آجکل جو عرب ممالک میں مسیار شادی کو فروغ دیا جا رہا ہے تو یہ ہرگز ہرگز عقد متعہ نہیں، بلکہ یہ دھوکے کی شادی ہے، جس میں لڑکی سے نکاح کرتے وقت اسے بتلایا جاتا ہے کہ مکمل دائمی نکاح کیا جا رہا ہے، مگر دل میں نیت کچھ عرصے بعد طلاق دینے کی ہوتی ہے۔ [فتوی از سعودی شیخ ابن باز کہ طلاق کی نیت دل میں رکھتے ہوئے نکاح کر نا جائز ہے]
سعودی شیخ ابن باز عقد مسیار کے متعلق لکھتے ہیں [فتوی کا لنک]:
[شیخ ابن باز صاحب سے سوال]: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟
[شیخ ابن باز کا جواب]:
جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانبت سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے [ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔
اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کے رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔
عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ مگر اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔
ہمارے پاکستان کے اہلسنت برادران سعودی مفتی حضرات کے اس فتوے کا انکار کرتے ہیں، مگر ہمارے اہلسنت برداران کو علم ہونا چاہیے کہ شیخ ابن باز اور سعودی مفتی حضرات کی اس مستقل کونسل کے اس فتوے سے قبل ہی یہ مسئلہ اہلسنت میں رائج ہے کہ طلاق کی نیت سے کیا گیا نکاح باطل نہیں بلکہ حلال ہے۔ فتاوی عالمگیری ہمارے اہلسنت بردارن کی فقہ کی مستند ترین کتب میں سے ہے اور ہر مدرسے میں پڑھائی جاتی ہے۔ اسکو کئی سو اہلسنت علماء نے مل کر بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر لکھی تھی۔ اس میں درج ہے:
اور اگر نکاح مطلقا بلا قید مدت کیا لیکن اپنے دل میں کچھ نیت کر لی کہ اتنی مدت تک اسکو اپنے ساتھ رکھونگا تو نکاح صحیح ہو گا۔ یہ تبیین میں ہے۔ اور اگر اس سے نکاح کیا برینکہ بعد ایک ماہ کے اُسکو طلاق دے دونگا تو یہ جائز ہے۔
فتاوی عالمگیری جلد دوم، صفحہ 155، اس فتوے کا عکسی امیج دیکھیے




بلاشبہ یہ مسیار شادی سوائے غریب لڑکی کو دھوکے دینے کے علاوہ کچھ نہیں اور اسکا عقد متعہ سے کوئی تعلق نہیں، جہاں عورت اور مرد کو پہلے سے ہی ہر چیز کھل کر معلوم ہوتی ہے کہ کتنی مدت کی بعد طلاق خود بخود ہو جانی ہے اور دونوں اس بات پر جب متفق ہو جاتے ہیں تب ہی یہ عقد متعہ عمل میں آ سکتا ہے۔



 
السلام علیکم، زواج مسیار اور متعہ میں بہت فرق ہے۔ متعہ میں وقت کا تعین ہوتا ہے مثلا یہ کہ فلاں نے فلاں سے دو مہینے یا دو سال کے لیے نکاح کیا۔ زواج مسیار میں‌ یہ چیز نہیں پائی جاتی بلکہ وہ عام نکاح کی طرح ہی ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس میں عورت کسی وجہ سے اپنے کسی حق مثلا رہائش، نان و نفقہ وغیرہ سے دستبردار ہو جاتی ہے۔
والسلام علیکم
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

نکاح ایک ہی ھے جو لیگل ھے اور اس پر تمام مسلمانان متفق ہیں۔

جس کو سعودی عرب والوں کے ناجائز کو مسیار کے لئے جائز کا نام دیا جا رہا ھے اس پر معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

پاکستان یا ایشین مسلمان گھرانوں میں جب شادی ہوتی ھے تو اس میں لڑکی والے اپنی بیٹی کو اس کا حق سمجتے ہوئے یا اپنی بیٹی کی خوشی کے لئے یا دولہا والوں کی طرف سے کسی شرط کے لئے جو بھی سامان یا ضروریات زندگی اور استعمال کی چیزیں یا نقدی ساتھ دیتے ہیں اس کا نام ھے جہیز جو کہ لیگل نکاح کی ایک رسم ھے۔ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی فاطمۃالزہرہ کے نکاح کے وقت بھی دیا تھا۔

ملک سعودی عرب اور سات اور امیر ترین عرب ممالک کے ساتھ جتنے بھی غریب عرب ممالک ہیں ان سب میں جب وہ اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کی شادی کرتے ہیں تو اس میں رسم جہیز پر کوئی بھی عمل نہیں کرتا بلکہ رسم مسیار ہی کرتے ہیں۔

عرب ممالک میں لڑکی کی شادی پر اس کے والدین لڑکی کو اپنی طرف سے رسم جہیز میں ایک سوئی بھی نہیں دیتے بلکہ شادی کے وقت عرب ممالک میں لڑکی کے والدین لڑکی کے عوض لڑکے والوں سے رسم مسیار کے تحت قیمت وصول کرتے ہیں جو کہ لڑکی والوں کی ڈیمانڈ کے مطابق کم از کم ایک لاکھ ریال/درھم سے زیادہ سے زیادہ تر حسب حیثیت ہوتا ھے جو کہ لڑکے والوں کو لڑکی والوں کے دینا ہوتا ھے۔

عرب ممالک میں یہ لیگل شادی کی ایک رسم ھے جسے مسیار کہتے ہیں اور عرب ممالک والے لڑکی کو جہیز نہیں دیتے بلکہ اس کے عوض اس کی قیمت وصول کرتے ہیں۔

اب ایسا ہی کچھ پاکستان میں فرنٹئر سائیڈ میں بھی کہیں کہیں شادیوں پر ہوتا ھے جسے پاکستان میں رہنے والے یہ کہتے ہیں کہ وہ لڑکیاں بیچتے ہیں اور آپ لوگوں کو سعودی عرب والوں کے متعلق آج پتہ چلا تو اس پر سعودی عرب والوں نے اسے مسیار کا نام دے کر سعودی مفتیاں نے اسے جائز قرار دے دیا۔

اس پر مزید تفیصل بھی لکھتا ہوں۔ تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔

الامارات العربیہ المتحدہ کی ایک سٹیٹ جس کا نام ھے ابوظہبئی اور یہاں کا حاکم شیخ زائد بن سلطان ہوتا تھا اب وہ فوت ہو گیا ہوا ھے۔
اس کی زندگی میں ابوظہبی مواطن جو غریب طبقہ تھا اور جو مسیار کی رقم ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے وہ مواطن انڈیا کے شہر حیدرآباد میں جاتے تھے اور وہاں پر مسیار نکاح کرتے تھے اس وقت وہ انڈیا میں لڑکی کے گھر والوں کے بیس ہزار درھم دیتے تھے اور لیگل شادی کر کے دلہن کو ساتھ ابوظیبی لے کر آتے تھے اور ان کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے تھے اور ہیں۔ میرے ساتھ بہت سے حیدرآبادی لڑکے کام کرتے تھے جو کہتے تھے کہ ان کی بہن کی شادی مواطن سے ہوئی ہوئی ھے اور بہن نے یہاں بلایا ہوا ھے اور گورنمنٹ کی نوکری بھی بھائی صاحب نے دلوائی ہوئی ھے۔ پھر ان دنوں بہت سے موطنین نے شیخ زائد کو شکایت کی تھی کہ یہاں کے مواطنین حیدرآباد انڈیا میں جا کر شادی کرتے ہیں اور وہاں سے پھر دلہنیں یہاں لے آتے ہیں اور جو یہاں ان کی لڑکیاں ہیں ان کی شادی کن سے کروائیں۔ تو اس پر پھر شیخ زائد نے 1997 میں ایک ادارہ بنایا تھا شادی آفس جو کہ شارح جوازات اور شارع الیکٹرا کے کارنر پر واقع تھا۔ شیخ زائد نے اعلان کیا تھا کہ کوئی بھی مواطنین حیدرآباد انڈیا میں شادی نہیں کرے گا بلکہ الامارات میں ہی شادی کرے گا اور جس کو مسیار کے لئے جتنی بھی رقم چاہئے اسے اس آفس سے وہ رقم ملے گی۔ پھر اس کے بعد ابوظہبی مواطنین کا رجحان کم ہوا تھا۔

ابوظہبی میں یہ چھوٹے چھوٹے قریہ ہیں جہاں پر لاتعداد حیدر آبادی فیملیوں سے بھرے پڑھے ہیں لیکن وہ سب جائز بیویاں ہیں ۔ بنی یاس، شہامہ، سمحہ، وغیرہ وغیرہ۔

میرا خیال میں آپ کو مسیار رسم کی سمجھ آ گئی ہو گی اب جو سعودی مواطنین انڈونیشیا میں جا کر زنا کر رہے ہیں اور جسے انڈونیشین گورنمنٹ کی شکایت کے جواب میں ان کے مفتیان مسیار کی شکل میں جائز قرار دے رہے ہیں تو اگر ان مفتیاں کی نظر میں اگر یہ مسیار ھے تو انہیں اپنے ملک سعوی عرب میں بھی ایسا مسیار کرنے کی اجازت دینی چاہئے تاکہ وہ باہر جا کر اپنا منہ کالا نہ کریں۔

والسلام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نکاحِ مسیار!
کتاب النکاح

سوال
محترم مفتی صاحب !
نکاح مسیار کیا ہوتا ھے

جواب
ہمارے علم کے مطابق بعض روشن خیال عرب علماء کرام نے " زنا "کے متبادل کے طور پر نکاح کی ایک قسم متعارف کروائی ہے ۔ جس میں بظاہر نکاح کی شرائط و ارکان ( ایجاب و قبول، گواہ و مہر )کا لحاظ رکھا جاتا ہے مگر اصل مقصد ایک وقت تک شہوت رانی ہی ہوتا ہے جو نکاح کے شرعی مقاصد سے خالی ہوتا ہے ۔
دارالافتاء
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
نوٹ : تفصیلی ،مدلل اور باحوالہ فتویٰ کے لیے تحریری سوالنامہ جامعہ کے پتہ پر بھیج کرجواب حاصل کر سکتے ہیں
 
Top