محمد ریحان قریشی
محفلین
لمحے جو گہرہائے وصالت سے نگیں ہیں
برسوں کی فراقت کا مداوا تو نہیں ہیں
شرمندگی اس پر ہے کہ ہم بارِ زمیں ہیں
اور چاہتے ان کو ہیں کہ جو عرش مکیں ہیں
ہم عربدۂ وہم و حقیقت کے حزیں ہیں
گھائل کبھی شک کے کبھی مجروحِ یقیں ہیں
ہے خوب ہر اک چیز جو جینے کا سبب دے
ہم کفر سے خائف ہیں نہ ہم منکرِ دیں ہیں
چھوڑ آئے ہیں پیچھے اثرِ منزلِ مقصود
طوفانِ تمنا سے پرے دور کہیں ہیں
کچھ مصلحت انکار میں پوشیدہ ہے ان کے
مطلق وہ مری ذات کے منکر تو نہیں ہیں
حاصل نہیں کچھ اور تو ہم خوش ہیں اسی پر
جس مسندِ اشعار پہ ہم لوگ نشیں ہیں
اُس ماہ کی خواہش میں یہ اندیشہ ہے ریحان
ہم دور نہ کر دیں انھیں جو اپنے قریں ہیں
برسوں کی فراقت کا مداوا تو نہیں ہیں
شرمندگی اس پر ہے کہ ہم بارِ زمیں ہیں
اور چاہتے ان کو ہیں کہ جو عرش مکیں ہیں
ہم عربدۂ وہم و حقیقت کے حزیں ہیں
گھائل کبھی شک کے کبھی مجروحِ یقیں ہیں
ہے خوب ہر اک چیز جو جینے کا سبب دے
ہم کفر سے خائف ہیں نہ ہم منکرِ دیں ہیں
چھوڑ آئے ہیں پیچھے اثرِ منزلِ مقصود
طوفانِ تمنا سے پرے دور کہیں ہیں
کچھ مصلحت انکار میں پوشیدہ ہے ان کے
مطلق وہ مری ذات کے منکر تو نہیں ہیں
حاصل نہیں کچھ اور تو ہم خوش ہیں اسی پر
جس مسندِ اشعار پہ ہم لوگ نشیں ہیں
اُس ماہ کی خواہش میں یہ اندیشہ ہے ریحان
ہم دور نہ کر دیں انھیں جو اپنے قریں ہیں