طوفانِ تمنا سے پرے دور کہیں ہیں

لمحے جو گہرہائے وصالت سے نگیں ہیں
برسوں کی فراقت کا مداوا تو نہیں ہیں

شرمندگی اس پر ہے کہ ہم بارِ زمیں ہیں
اور چاہتے ان کو ہیں کہ جو عرش مکیں ہیں

ہم عربدۂ وہم و حقیقت کے حزیں ہیں
گھائل کبھی شک کے کبھی مجروحِ یقیں ہیں

ہے خوب ہر اک چیز جو جینے کا سبب دے
ہم کفر سے خائف ہیں نہ ہم منکرِ دیں ہیں

چھوڑ آئے ہیں پیچھے اثرِ منزلِ مقصود
طوفانِ تمنا سے پرے دور کہیں ہیں

کچھ مصلحت انکار میں پوشیدہ ہے ان کے
مطلق وہ مری ذات کے منکر تو نہیں ہیں

حاصل نہیں کچھ اور تو ہم خوش ہیں اسی پر
جس مسندِ اشعار پہ ہم لوگ نشیں ہیں

اُس ماہ کی خواہش میں یہ اندیشہ ہے ریحان
ہم دور نہ کر دیں انھیں جو اپنے قریں ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
لمحے جو گہرہائے وصالت سے نگیں ہیں
برسوں کی فراقت کا مداوا تو نہیں ہیں

اس شعر کو پڑھ کر یہ پنجابی کبت یاد آیا:
ہیر رانجھے نوں مل کے دسو کھاں پچھتائی کیوں
وچھڑی دا ارمان لگیوس بن رانجھݨ باجھ گزاری کیوں

ہیر ، رانجھے کو مل کر بتاو ذرا پچھتائی کیوں
جدائی کے اوقات کا ارمان لگا ہوگا کہ وہ وقت رانجھے کے بغیر کیوں گزارا

شرمندگی اس پر ہے کہ ہم بارِ زمیں ہیں
اور چاہتے ان کو ہیں کہ جو عرش مکیں ہیں

بہت خوب!
ایک خیال: محبت بھی محبوب کی عطا ہے ، بن اس کی عطا کے محبت کوئی کر نہیں سکتا۔
دیدار کے قابل تو کہاں میری نظر ہے
یہ اُن کی عنایت ہےکہ رخ اُن کا ادھرہے

ہے خوب ہر اک چیز جو جینے کا سبب دے
ہم کفر سے خائف ہیں نہ ہم منکرِ دیں ہیں

centrist approach
 
آخری تدوین:
لمحے جو گہرہائے وصالت سے نگیں ہیں
برسوں کی فراقت کا مداوا تو نہیں ہیں

اس شعر کو پڑھ کر یہ پنجابی کبت یاد آیا:
ہیر رانجھے نوں مل کے دسو کھاں پچھتائی کیوں
وچھڑی دا ارمان لگیوس بن رانجھݨ باجھ گزاری کیوں

ہیر ، رانجھے کو مل کر بتاو ذرا پچھتائی کیوں
جدائی کے اوقات کا ارمان لگا ہوگا کہ وہ وقت رانجھے کے بغیر کیوں گزارا

شرمندگی اس پر ہے کہ ہم بارِ زمیں ہیں
اور چاہتے ان کو ہیں کہ جو عرش مکیں ہیں

بہت خوب!
ایک خیال: محبت بھی محبوب کی عطا ہے ، بن اس کی عطا کے محبت کوئی کر نہیں سکتا۔
دیدار کے قابل تو کہاں میری نظر ہے
یہ اُن کی عنایت ہےکہ رخ اُن کا ادھرہے

ہے خوب ہر اک چیز جو جینے کا سبب دے
ہم کفر سے خائف ہیں نہ ہم منکرِ دیں ہیں

centrist approach
شکریہ محترم، حوصلہ افزائی پر ممنون ہوں.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ، ریحان بھائی!
لگتا ہے کہ آج کل طبیعت شعر گوئی پر آمادہ ہے۔ یہ تو اچھی بات ہے!
مجموعی طور پر اچھی غزل ہے ۔ ایک دو جگہ البتہ مجھے کچھ تردد ہوا اور جی چاہا کہ کچھ لکھوں۔ امید ہے کہ آپ میری ناقص رائے کو حسبِ معمول فراخدلی سے برداشت کرلیں گے۔

شرمندگی اس پر ہے کہ ہم بارِ زمیں ہیں
اور چاہتے ان کو ہیں کہ جو عرش مکیں ہیں
عرش مکیں تو بس وہی ایک اللہ کی ذاتِ احد ہے۔ سو یہاں جمع کا صیغہ عجیب اور مضطرب لگ رہا ہے۔ کم از کم میں ایسا نہیں لکھوں گا۔
ہم عربدۂ وہم و حقیقت کے حزیں ہیں
گھائل کبھی شک کے کبھی مجروحِ یقیں ہیں
یہ شعر اچھا ہے! خوب!
شعر فارسی لفظیات اور ترکیبات سےمزین ہے اس لیے گھائل کا لفظ شعر کی مجموعی فضا سے میل نہیں کھاتا۔ اسے اگر یوں کہیں تو آپ کے خیال میں کیسا رہے گا۔
ہم عربدۂ وہم و حقیقت کے حزیں ہیں
مضروبِ گماں ہیں کبھی مجروحِ یقیں ہیں
یوں کہنے سے "شک کے" کی صوتی کرختگی بھی دور ہوجاتی ہے۔
اُس ماہ کی خواہش میں یہ اندیشہ ہے ریحان
ہم دور نہ کر دیں انھیں جو اپنے قریں ہیں
مصرعِ اول میں ماہ کا لفظ ابہام پیدا کررہا ہے۔ شعر میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ یہاں ماہ سے مراد مہینہ نہیں بلکہ چاند ہے۔ ماہ کی جگہ چاند کہنے میں کیا حرج ہے؟
 
واہ! بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ، ریحان بھائی!
بہت نوازش ظہیر بھائی.
عرش مکیں تو بس وہی ایک اللہ کی ذاتِ احد ہے۔ سو یہاں جمع کا صیغہ عجیب اور مضطرب لگ رہا ہے۔ کم از کم میں ایسا نہیں لکھوں گا۔
اس کا متبادل سوچتا ہوں.
اسے اگر یوں کہیں تو آپ کے خیال میں کیسا رہے گا۔
ہم عربدۂ وہم و حقیقت کے حزیں ہیں
مضروبِ گماں ہیں کبھی مجروحِ یقیں ہیں
یوں کہنے سے "شک کے" کی صوتی کرختگی بھی دور ہوجاتی ہے
بہت بہتر. ایسے بھی کہا جا سکتا ہے:

افگارِ گماں ہیں کبھی مجروحِ یقیں ہیں
مصرعِ اول میں ماہ کا لفظ ابہام پیدا کررہا ہے۔ شعر میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ یہاں ماہ سے مراد مہینہ نہیں بلکہ چاند ہے۔ ماہ کی جگہ چاند کہنے میں کیا حرج ہے؟
متفق ہوں، ماہ کو چاند کر دینے کے بارے میں پہلے بھی سوچ رہا تھا.
 

الف نظامی

لائبریرین
ویسے اللہ تعالی کے لیے جمع کا صیغہ قرآن مجید میں آیا ہے۔
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ‎﴿١٦
اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں
متعلقہ:
خودی اور میں کا فرق
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ویسے اللہ تعالی کے لیے جمع کا صیغہ قرآن مجید میں آیا ہے۔
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ‎﴿١٦
اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں
متعلقہ:
خودی اور میں کا فرق
الف نظامی صاحب، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات تو مالک الملک ہے، وہ تو شہنشاہ ہے، اس کی ذات عالی کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے لیے ہم کا صیغہ استعمال کرے۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ قرآن انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے تو اس میں جو مثالیں اور زبان استعمال کی ہے وہ بھی انسانوں کے لحاظ سے استعمال کی ہے۔ جس طرح دنیا میں دستور ہے کہ بڑے لوگ، اقتدار والے لوگ، بادشاہ لوگ اپنے لیے ہم کا لفظ استعمال کرتے ہیں (جسے انگریزی میں royal -we کہا جاتا ہے۔) اسی طرح اللہ تعالیٰٰ نے اپنے لیے قران میں متعدد جگہوں پر ہم کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ لیکن اس کی ذاتِ لا شریک تو واحد اور احد ہے چنانچہ جب ہم بندوں کی طرف سے اس ذات کو مخاطب کیا جائے گا تو ہم اس کے لیے واحد کے صیغے کے علاوہ اور کچھ استعمال نہیں کریں گے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ سورہ اخلاص میں ہے: قل ھو اللہ احد: کہو کہ وہ اللہ ایک ہے۔
اس نکتے کو سمجھنے کے لیے اس کی ایک برعکس مثال دیکھیے۔ کوئی شخص انکساری میں اپنے آپ کو حقیر، فقیر، احقر، خاکسار، ہیچمدان، ناچیز وغیرہ کہہ سکتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا شخص اس کو مخاطب کرے گا تو وہ اس کے لیے یہ الفاظ قطعی استعمال نہیں کرے گا۔ اور اگر کرے گا تو بھگتے گا۔ :)
دنیا کی تمام زبانوں میں خدا کو مخاطب کرنے کے لیے واحد کا صیغہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ اردو میں مخاطب کے لیے کئی صیغے موجود ہیں جنہیں حسبِ مراتب استعمال کیا جاتا ہے۔ ( تو، تم، آپ وغیرہ) سو بہت سے لوگ اللہ تعالی ٰکو ادب و احترام میں آپ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جب صیغہ غائب کی بات ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہمیشہ واحد کا صیغہ استعمال کرنا چاہیے۔ ریحان کے شعر میں چونکہ صیغہ غائب کی بات ہو رہی ہے تو وہاں ضروری ہے کہ واحد کا صیغہ لایا جائے کیونکہ عرش مکین تو اللہ کی ذات احد ہی ہے۔
امید ہے کہ میری بات اب واضح ہوگئی ہوگی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
لمحے جو گہرہائے وصالت سے نگیں ہیں
برسوں کی فراقت کا مداوا تو نہیں ہیں

شرمندگی اس پر ہے کہ ہم بارِ زمیں ہیں
اور چاہتے ان کو ہیں کہ جو عرش مکیں ہیں

ہم عربدۂ وہم و حقیقت کے حزیں ہیں
گھائل کبھی شک کے کبھی مجروحِ یقیں ہیں

ہے خوب ہر اک چیز جو جینے کا سبب دے
ہم کفر سے خائف ہیں نہ ہم منکرِ دیں ہیں

چھوڑ آئے ہیں پیچھے اثرِ منزلِ مقصود
طوفانِ تمنا سے پرے دور کہیں ہیں

کچھ مصلحت انکار میں پوشیدہ ہے ان کے
مطلق وہ مری ذات کے منکر تو نہیں ہیں

حاصل نہیں کچھ اور تو ہم خوش ہیں اسی پر
جس مسندِ اشعار پہ ہم لوگ نشیں ہیں

اُس ماہ کی خواہش میں یہ اندیشہ ہے ریحان
ہم دور نہ کر دیں انھیں جو اپنے قریں ہیں
اعلی غزل ہے ریحان صاحب۔۔۔۔ عمدہ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
۔ کوئی شخص انکساری میں اپنے آپ کو حقیر، فقیر، احقر، خاکسار، ہیچمدان، ناچیز وغیرہ کہہ سکتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا شخص اس کو مخاطب کرے گا تو وہ اس کے لیے یہ الفاظ قطعی استعمال نہیں کرے گا۔ اور اگر کرے گا تو بھگتے گا۔ :)
ابن انشاء کا مضموں استاد مرحوم (خمار گندم)یاد آگیا۔۔۔
خود کو ننگ اسلاف لکھا کرتے تھے، دیکھا دیکھی اوروں نے بھی انہیں یہی لکھنا شروع کر دیا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
الف نظامی صاحب، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات تو مالک الملک ہے، وہ تو شہنشاہ ہے، اس کی ذات عالی کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے لیے ہم کا صیغہ استعمال کرے۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ قرآن انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے تو اس میں جو مثالیں اور زبان استعمال کی ہے وہ بھی انسانوں کے لحاظ سے استعمال کی ہے۔ جس طرح دنیا میں دستور ہے کہ بڑے لوگ، اقتدار والے لوگ، بادشاہ لوگ اپنے لیے ہم کا لفظ استعمال کرتے ہیں (جسے انگریزی میں royal -we کہا جاتا ہے۔) اسی طرح اللہ تعالیٰٰ نے اپنے لیے قران میں متعدد جگہوں پر ہم کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ لیکن اس کی ذاتِ لا شریک تو واحد اور احد ہے چنانچہ جب ہم بندوں کی طرف سے اس ذات کو مخاطب کیا جائے گا تو ہم اس کے لیے واحد کے صیغے کے علاوہ اور کچھ استعمال نہیں کریں گے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے۔ سورہ اخلاص میں ہے: قل ھو اللہ احد: کہو کہ وہ اللہ ایک ہے۔
اس نکتے کو سمجھنے کے لیے اس کی ایک برعکس مثال دیکھیے۔ کوئی شخص انکساری میں اپنے آپ کو حقیر، فقیر، احقر، خاکسار، ہیچمدان، ناچیز وغیرہ کہہ سکتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا شخص اس کو مخاطب کرے گا تو وہ اس کے لیے یہ الفاظ قطعی استعمال نہیں کرے گا۔ اور اگر کرے گا تو بھگتے گا۔ :)
دنیا کی تمام زبانوں میں خدا کو مخاطب کرنے کے لیے واحد کا صیغہ ہی استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ اردو میں مخاطب کے لیے کئی صیغے موجود ہیں جنہیں حسبِ مراتب استعمال کیا جاتا ہے۔ ( تو، تم، آپ وغیرہ) سو بہت سے لوگ اللہ تعالی ٰکو ادب و احترام میں آپ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جب صیغہ غائب کی بات ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہمیشہ واحد کا صیغہ استعمال کرنا چاہیے۔ ریحان کے شعر میں چونکہ صیغہ غائب کی بات ہو رہی ہے تو وہاں ضروری ہے کہ واحد کا صیغہ لایا جائے کیونکہ عرش مکین تو اللہ کی ذات احد ہی ہے۔
امید ہے کہ میری بات اب واضح ہوگئی ہوگی۔
بہت شکریہ، معلومات میں اضافہ ہوا۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
خوبصورت اشعار سے مزین غزل۔۔ داد قبول کیجیے۔۔
کچھ مصلحت انکار میں پوشیدہ ہے ان کے
مطلق وہ مری ذات کے منکر تو نہیں ہیں
حاصل نہیں کچھ اور تو ہم خوش ہیں اسی پر
جس مسندِ اشعار پہ ہم لوگ نشیں ہیں
واہ واہ۔۔ کیا بات ہے!
 
Top