شاعری نہیں اتصال

مزمل حسین

محفلین
ہجوں کے تعارف سے پہلے تک کی اپنی کوئی تخریب کاری ہمیں یاد نہیں، لیکن جب سے ہجے سیکھے ہیں وہ توڑ پھوڑ کی کہ الامان والحفیظ!
کوئی شعر نظر سے گزرا نہیں کہ ہمارے ہاتھوں پاش پاش ہوا نہیں. لیکن جب تخریب کاری کے عمل سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے تو تقطیع نگاری میں دل جمعی برقرار نہیں رہتی. آب و ہوا کی تبدیلی کے لیے تقطیع سے ہٹ کر اتصال کی کوشش میں چند الفاظ جوڑے ہیں، جن پر بھائی صاحب کے مطابق شاعری کا اطلاق ممکن نہیں، جس بات کا ہمیں قطعا رنج نہیں کہ ہم تو تقطیع نگار ہیں شاعر نہیں.
اساتذہ کرام سے گذارش ہے کہ تقطیع کے سلسلے میں سرزد ہونے والے اتصال کو (اگر اس قابل ہے تو) تنقید و اصلاح سے نواز دیں.
شکریہ
 

مزمل حسین

محفلین
دشت کی لا مکانیاں دیکھو
اور یہ خستہ خرامیاں دیکھو
زیر شبنم بھی خود نما ہے گل
فصل تازہ کی شوخیاں دیکھو
اب یہ کہتا ہے لوٹ جاؤ تم
جب جلا دیں ہیں کشتیاں دیکھو
خون دل سے وہ ہولی کھیلیں گے
ان کی رنگیں مزاجیاں دیکھو
پائے نازک کو کر نہ دیں گھائل
شیشۂ دل کی کرچیاں دیکھو
یہ جو میت پہ رونے آئے ہیں
ان کے ہونٹوں کی سرخیاں دیکھو
جیسے ناگن ہو کوئی ڈسنے کو
زلف برہم کی خفگیاں دیکھو
مہر انور سے پھوٹتی کرنیں
ید بیضا کی انگلیاں دیکھو
شوق بے باک کی جسارت پر
رخ پہ اڑتی ہوائیاں دیکھو
مجھ کو الزام بعد میں دینا
دیکھو، آنچل کی مستیاں دیکھو
شعلۂ حسن کی تمازت سے
بزم جاناں میں گرمیاں دیکھو
میرے شانوں سے تیری زلفوں تک
کتنے سالوں کی دوریاں دیکھو
سائباں کی تلاش میں ہمدم
میرے دامن کی دھجیاں دیکھو
شب غم کٹ چکی ہے مزمل
صبح نو کی تجلیاں دیکھو..!
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے مزمل۔ اور سب سے اچھی بات مزمل کا درست تلفظ مقطع میں!!!
پہلی قرات میں محض ایک معمولی سا سقم محسوس ہوا ہے۔
میرے شانوں سے تیری زلفوں تک
کتنے سالوں کی دوریاں دیکھو
میں صیغہ یکساں نہیں ہے۔ ردیف کا ’دیکھو‘ تم کا متقاضی ہے پہلے مصرع میں بھی۔ ’اپنی‘ زلفوں کر دیں۔ اوت ہو سکے تو دوسرے مصرع میں ’ہیں‘ کی بھی کمی ہے کہ بات صاف ہو جائے۔
مجموعی طور پر خوب غزل ہے، پسند آئی۔ مبارک ہو مزمل۔
 

مزمل حسین

محفلین
استاد محترم آپ کا بہت بہت شکریہ!
مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ آپ اسے "غزل" قرار دیں گے.
بہت ممنون ہوں آپ کا. ڈرتے ڈرتے اسے پوسٹ کیا تھا کہ استاد محترم جناب محمد وارث صاحب کی ناپسندیدگی کا اندیشہ تھا وہ کیا ہے کہ لاکھ ضبط کے با وجود بھی زلف و رخسار جیسے الفاظ در ہی آتے ہیں.
مولانا حالی رحمتہ اللہ علیہ تو اب محشر میں رحمت کی نظر ہم پر نہیں ڈالیں گے.
 

مزمل حسین

محفلین
حضور مقطع میں مزمل کا صحیح تلفظ بھی استاد محترم کی شفقتوں کا نتیجہ ہے ورنہ میں تو فعولن ہی باندھ چکا ہوتا.
اپنی زلفوں والا حل تو آپ نے بتا ہی دیا ہے پر دوسرے مصرع میں "ہیں" کی جگہ بنانا مجھے دشوار لگتا ہے، امید ہے تفصیلی جائزے کے بعد مزید اغلاط کی نشاندہی اور قیمتی آرا سے نوازیں گے.
Once again, thanks a lot to you!
 

مزمل حسین

محفلین
استاد محترم یہ تو آپ کی اعلی ظرفی ہے بڑاپن ہے آپ کا ورنہ میں کہاں اور غزل کہاں. آپ کا دل و جان سے شکر گزار ہوں.
 

مزمل حسین

محفلین
استاد محترم ایک صورت نظر تو آئی ہے
"میرے شانوں سے اپنی زلفوں تک
ہیں جو سالوں کی دوریاں، دیکھو..!"
لیکن حضور مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح
idea اور situation
دونوں تبدیل ہو گئے ہیں.
Genuine ideaبرقرار نہیں رہا.
آپ کی آمد کا انتظار ہے...
 

الف عین

لائبریرین
استاد محترم ایک صورت نظر تو آئی ہے
"میرے شانوں سے اپنی زلفوں تک
ہیں جو سالوں کی دوریاں، دیکھو..!"
لیکن حضور مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح
idea اور situation
دونوں تبدیل ہو گئے ہیں.
Genuine ideaبرقرار نہیں رہا.
آپ کی آمد کا انتظار ہے...
بات تو تمہاری درست ہے، کچھ اور سوچو۔
 

الف عین

لائبریرین
دشت کی لا مکانیاں دیکھو
اور یہ خستہ خرامیاں دیکھو
//درست۔ لیکن دونوں مصرعوں میں تعلق زیادہ واضح نہیں

زیر شبنم بھی خود نما ہے گل
فصل تازہ کی شوخیاں دیکھو
//پہلے مصرع میں ’بھی‘ کیوں، کیا شبنم میں پھول کو بد شکل نظر آنا چاہئے تھا؟ دوسرا مصرع بہت عمدہ ہے۔ لیکن گرہ اچھی نہیں۔

اب یہ کہتا ہے لوٹ جاؤ تم
جب جلا دیں ہیں کشتیاں دیکھو
//یہاں ردیف کی ضرورت نہیں لگتی۔ ویسے درست ہے

خون دل سے وہ ہولی کھیلیں گے
ان کی رنگیں مزاجیاں دیکھو
//پہلا مصرع یوں رواں ہو گا۔
ہولی کھیلیں گے خون دل سے وہ

پائے نازک کو کر نہ دیں گھائل
شیشۂ دل کی کرچیاں دیکھو
//درست، گھایل کی جگہ زخمی بھی لا سکتے ہو

یہ جو میت پہ رونے آئے ہیں
ان کے ہونٹوں کی سرخیاں دیکھو
//درست

جیسے ناگن ہو کوئی ڈسنے کو
زلف برہم کی خفگیاں دیکھو
//درست

مہر انور سے پھوٹتی کرنیں
ید بیضا کی انگلیاں دیکھو
//موسیٰ کی تلمیح سے کیا کہنا چاہ رہے ہو؟

شوق بے باک کی جسارت پر
رخ پہ اڑتی ہوائیاں دیکھو
//درست

مجھ کو الزام بعد میں دینا
دیکھو، آنچل کی مستیاں دیکھو
// مجھ کو الزام بعد میں دینا
پہلے آنچل کی مستیاں دیکھو
بہتر رہے گا

شعلۂ حسن کی تمازت سے
بزم جاناں میں گرمیاں دیکھو
///درست

میرے شانوں سے تیری زلفوں تک
کتنے سالوں کی دوریاں دیکھو
//
میرے شانوں سے ان کی زلفوں تک
کتنے سالوں کی دوریاں دیکھو


سائباں کی تلاش میں ہمدم
میرے دامن کی دھجیاں دیکھو
//شعر دو لخت ہے، کچھ تعلق پیدا کرو دونوں مصرعوں میں،

شب غم کٹ چکی ہے مزمل
صبح نو کی تجلیاں دیکھو..!
//درست
 

مزمل حسین

محفلین
استاد محترم سب سے پہلے آپ کا شکر گزار ہوں کہ اس قدر تفصیلی اصلاح سے نوازا، جاں گسل انتظار کے بعد ہی سہی

"زیر شبنم بھی خود نما ہے گل
فصل تازہ کی شوخیاں دیکھو
//پہلے مصرع میں ’بھی‘ کیوں، کیا شبنم میں پھول کو بد شکل نظر آنا چاہئے تھا؟ دوسرا مصرع بہت عمدہ ہے۔ لیکن گرہ اچھی نہیں۔"

حضور میری مراد یہ تھی کہ پھول شبنم میں مکمل طور پر نہیں چھپ سکتا تو کم از کم ہیئت ہی مبہم ہو جاتی پر یہاں معاملہ الٹ ہوا.

"مہر انور سے پھوٹتی کرنیں
ید بیضا کی انگلیاں دیکھو
//موسیٰ کی تلمیح سے کیا کہنا چاہ رہے ہو؟"

استاد گرامی 'ید بیضا' کو تھوڑی سی وسعت دینے کی جسارت کی تھی اگر مکروہ ہے تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں

"مجھ کو الزام بعد میں دینا
دیکھو، آنچل کی مستیاں دیکھو
// مجھ کو الزام بعد میں دینا
پہلے آنچل کی مستیاں دیکھو
بہتر رہے گا"

بہت بہتر حضور، دیکھو سے پہلے 'پہلے' ہی استعمال کیا تھا پھر دیکھوسے بدل ڈالا تھا

"میرے شانوں سے تیری زلفوں تک
کتنے سالوں کی دوریاں دیکھو
//
میرے شانوں سے ان کی زلفوں تک
کتنے سالوں کی دوریاں دیکھو"

یہ تو آپ نے ایک دم پرفیکشن عطا کر دی بیان کو، کیا کہنے

"سائباں کی تلاش میں ہمدم
میرے دامن کی دھجیاں دیکھو
//شعر دو لخت ہے، کچھ تعلق پیدا کرو دونوں مصرعوں میں"

کوشش کرتا ہوں
آخر میں ہر قسم کی گستاخی کے لیے معافی کا خواستگار ہوں
بہت شکریہ
 
Top