فرخ منظور
لائبریرین
شاعرِ ازل گیر و ابد تاب ۔۔۔ ن م راشد کی برسی پر خصوصی مضمون
زیف سید
واشنگٹن
October 8, 2008
NM Rashid
ن م راشد
اردو کے عظیم شاعر راجا نذر محمد راشد، المعروف بہ ن م راشد 1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ابتدا میں وہ علامہ مشرقی کی خاک سار تحریک سے بہت متاثر تھے، اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتے تھے۔
اردو شاعری کو روایتی تنگنا سے نکال کر بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا ن م راشد اور میرا جی کے سر جاتا ہے۔ 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کا پہلی کتاب بھی ہے۔ ماورا سے اردو شاعری میں انقلاب بپا ہو گیا،اور یہ انقلاب صرف صنفِ سخن یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیوں کہ تصدق حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے، بلکہ راشد نے اسلوب، موضوعات اور پیش کش کی سطح پر بھی اجتہاد کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے انتقال کے 33 برس بعد راشد کے فنی قد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تقریباً ہر مہینے کسی نہ کسی ادبی رسالے میں راشد کے بارے میں کوئی نہ کوئی تحریر شائع ہوتی ہے، اور جدید شعرا راشد کی کسی نظم یا موضوع کے جواب میں نظمیں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر بیسویں صدی کے کئی ایسے شعرا ہیں جو اپنے زمانے میں دیوقامت سمجھے جاتے تھے لیکن آج ان کا کلام فقط نصابی کتب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
ن م راشد اور میرا جی سے پہلے اردو نظم سیدھی لکیر پرچلتی تھی۔ پہلے موضوع کا تعارف، پھر تفصیل اور آخر میں نظم اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ نظم کے موضوعات زیادہ تر خارجی مظاہر سے عبارت ہوا کرتے تھے، جنھیں ایک لحاظ سے صحافتی نظمیں کہا جا سکتا ہے: واقعات کے بارے میں نظمیں، موسم کے بارے میں نظمیں، میلوں ٹھیلوں کا احوال، یا حبِ وطن یا اسی قسم کے دوسرے موضوعات کا احاطہ نظم کے پیرائے میں کیا جاتا تھا۔
راشد اور میرا جی نے جو نظمیں لکھیں وہ ایک طرف تو ردیف و قافیہ کی جکڑبندیوں سے ماورا ہیں، تو دوسری جانب ان کے موضوعات بھی زیادہ تر داخلی، علامتی اور تجریدی نوعیت کے ہیں، اور ان کی نظمیں قارئین سے کئی سطحوں پر مخاطب ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ ان نظموں میں فکر کا سفر خطِ مستقیم میں نہیں چلتا بلکہ نظمیں دائروی اور پیچ دار بھی ہو سکتی ہیں۔ اس اسلوب کی بہترین مثالوں میں سے ایک ن م راشد کی درجِ ذیل نظم ہے:
زمانہ خدا ہے
’زمانہ خدا ہے، اسے تم برا مت کہو‘
مگر تم نہیں دیکھتے ۔۔۔ زمانہ فقط ریسمانِ خیال
سبک مایہ، ارزاں، طویل
جدائی کی ارزاں سبیل
وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں
وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی
انھیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں
کہ موجود ہیں، اب بھی موجود ہیں وہ کہیں
مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے
اسے دیکھ سکتے ہو، اور دیکھتے ہو
کہ یہ وہ عدم ہے
جسے ہست ہونے میں مدت لگے گی
ستاروں کے لمحے، ستاروں کے سال
مرے صحن میں ایک کم سن بنفشے کا پودا ہے
طیّارہ کوئی کبھی اس کے سر پر سے گزرے
تو وہ مسکراتا ہے اور لہلہاتا ہے
گویا وہ طیارہ اس کی محبت میں
عہدِ وفا کے کسی جبرِ طاقت رباہی سے گزرا
وہ خوش اعتمادی سے کہتا ہے
’لو، دیکھو، کیسے اسی ایک رسی کے دونوں کناروں
سے ہم تم بندھے ہیں
یہ رسی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم
ہو پیدا یہ راہِ وصال‘
مگر ہجر کے ان وسیلوں کو وہ دیکھ سکتا نہیں
جو سراسر ازل سے ابد تک تنے ہیں
جہاں یہ زمانہ، ہنوزِ زمانہ
فقط اک گرہ ہے!
اس نظم میں ایک طرف تو زمانے اور وقت اور اس کے انسان سے تعلق کے بارے میں اظہارِ خیال کیا گیا ہے، دوسری طرف اردو شاعری کے دو روایتی کرداروں گل و بلبل کو اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ گلاب کی بجائے یہاں زیادہ گھریلو پھول بنفشہ ہے جو آسمان پر اڑتے ہوئے جیٹ طیارے کو پرندہ فرض کر بیٹھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ میری محبت میں گھر کے آنگن پر سے گزرا ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے بنفشے کا یہ پودا طیارے کی ماہیت سمجھنے سے قاصر ہے، ایسے ہی انسان بھی ازل اور ابد کے رشتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پرحتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔
ن م راشد کا تقابل اکثر فیض احمد فیض کے ساتھ کیا جاتا ہے، لیکن صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف فیض کے موضوعات محدود ہیں بلکہ ان کی فکر کا دائرہ بھی راشد کے مقابلے پر تنگ ہے۔ ساقی فاروقی بیان کرتے ہیں کہ فیض نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ راشد کی طرح نظمیں نہیں لکھ سکتے کیوں کہ راشد کا ذہن ان سے کہیں بڑا ہے۔
راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔
راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خلائی دور کے انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی تھی۔
راشد اور میرا جی اپنے فنی سفر پر اکیلے نکلے تھے، لیکن بہت جلد دوسرے شعرا آ آ کر اس کاروان میں شامل ہوتے گئے۔ ان سے متاثر ہونے والوں میں مجید امجد، اخترالایمان، وزیرِ آغا، ضیا جالندھری، ساقی فاروقی، ستیہ پال آنند، علی محمد فرشی اور رفیق سندیلوی وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
راشد کی شاہ کار نظموں میں مندرجہ بالا دو نظموں کے علاوہ درویش، تیل کے سوداگر، رقص، سبا ویراں، اظہار اور نارسائی، اسرافیل کی موت، زندگی سے ڈرتے ہو، اور اندھا کباڑی وغیرہ شامل ہیں۔ راشد کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے، ماورا، ایران میں اجنبی، اور لا =انسان، جب کہ گمان کا ممکن ان کی موت کے بعد شائع ہوئی تھی۔
راشد کا انتقال نو اکتوبر 1975ء کو لندن میں ہوا تھا۔ ان کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود تھے، راشد کی انگریز بیگم شیلا اور ساقی فاروقی۔ ساقی لکھتے ہیں کہ شیلا نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے راشد کے جسم کو نذرِ آتش کروا دیا اور اس سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ نہیں پائے۔
زیف سید
واشنگٹن
October 8, 2008
NM Rashid
ن م راشد
اردو کے عظیم شاعر راجا نذر محمد راشد، المعروف بہ ن م راشد 1910ء میں ضلع گوجرانوالا کے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ابتدا میں وہ علامہ مشرقی کی خاک سار تحریک سے بہت متاثر تھے، اور باقاعدہ وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتے تھے۔
اردو شاعری کو روایتی تنگنا سے نکال کر بین الاقوامی دھارے میں شامل کرنے کا سہرا ن م راشد اور میرا جی کے سر جاتا ہے۔ 1942ء میں ن م راشد کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ شائع ہوا جو نہ صرف اردو آزاد نظم کا پہلا مجموعہ ہے بلکہ یہ جدید شاعری کا پہلی کتاب بھی ہے۔ ماورا سے اردو شاعری میں انقلاب بپا ہو گیا،اور یہ انقلاب صرف صنفِ سخن یعنی آزاد نظم کی حد تک نہیں تھا، کیوں کہ تصدق حسین خالد پہلے ہی آزاد نظمیں لکھ چکے تھے، بلکہ راشد نے اسلوب، موضوعات اور پیش کش کی سطح پر بھی اجتہاد کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے انتقال کے 33 برس بعد راشد کے فنی قد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تقریباً ہر مہینے کسی نہ کسی ادبی رسالے میں راشد کے بارے میں کوئی نہ کوئی تحریر شائع ہوتی ہے، اور جدید شعرا راشد کی کسی نظم یا موضوع کے جواب میں نظمیں لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر بیسویں صدی کے کئی ایسے شعرا ہیں جو اپنے زمانے میں دیوقامت سمجھے جاتے تھے لیکن آج ان کا کلام فقط نصابی کتب تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
ن م راشد اور میرا جی سے پہلے اردو نظم سیدھی لکیر پرچلتی تھی۔ پہلے موضوع کا تعارف، پھر تفصیل اور آخر میں نظم اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ نظم کے موضوعات زیادہ تر خارجی مظاہر سے عبارت ہوا کرتے تھے، جنھیں ایک لحاظ سے صحافتی نظمیں کہا جا سکتا ہے: واقعات کے بارے میں نظمیں، موسم کے بارے میں نظمیں، میلوں ٹھیلوں کا احوال، یا حبِ وطن یا اسی قسم کے دوسرے موضوعات کا احاطہ نظم کے پیرائے میں کیا جاتا تھا۔
راشد اور میرا جی نے جو نظمیں لکھیں وہ ایک طرف تو ردیف و قافیہ کی جکڑبندیوں سے ماورا ہیں، تو دوسری جانب ان کے موضوعات بھی زیادہ تر داخلی، علامتی اور تجریدی نوعیت کے ہیں، اور ان کی نظمیں قارئین سے کئی سطحوں پر مخاطب ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ ان نظموں میں فکر کا سفر خطِ مستقیم میں نہیں چلتا بلکہ نظمیں دائروی اور پیچ دار بھی ہو سکتی ہیں۔ اس اسلوب کی بہترین مثالوں میں سے ایک ن م راشد کی درجِ ذیل نظم ہے:
زمانہ خدا ہے
’زمانہ خدا ہے، اسے تم برا مت کہو‘
مگر تم نہیں دیکھتے ۔۔۔ زمانہ فقط ریسمانِ خیال
سبک مایہ، ارزاں، طویل
جدائی کی ارزاں سبیل
وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں
وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی
انھیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں
کہ موجود ہیں، اب بھی موجود ہیں وہ کہیں
مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے
اسے دیکھ سکتے ہو، اور دیکھتے ہو
کہ یہ وہ عدم ہے
جسے ہست ہونے میں مدت لگے گی
ستاروں کے لمحے، ستاروں کے سال
مرے صحن میں ایک کم سن بنفشے کا پودا ہے
طیّارہ کوئی کبھی اس کے سر پر سے گزرے
تو وہ مسکراتا ہے اور لہلہاتا ہے
گویا وہ طیارہ اس کی محبت میں
عہدِ وفا کے کسی جبرِ طاقت رباہی سے گزرا
وہ خوش اعتمادی سے کہتا ہے
’لو، دیکھو، کیسے اسی ایک رسی کے دونوں کناروں
سے ہم تم بندھے ہیں
یہ رسی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم
ہو پیدا یہ راہِ وصال‘
مگر ہجر کے ان وسیلوں کو وہ دیکھ سکتا نہیں
جو سراسر ازل سے ابد تک تنے ہیں
جہاں یہ زمانہ، ہنوزِ زمانہ
فقط اک گرہ ہے!
اس نظم میں ایک طرف تو زمانے اور وقت اور اس کے انسان سے تعلق کے بارے میں اظہارِ خیال کیا گیا ہے، دوسری طرف اردو شاعری کے دو روایتی کرداروں گل و بلبل کو اچھوتے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ گلاب کی بجائے یہاں زیادہ گھریلو پھول بنفشہ ہے جو آسمان پر اڑتے ہوئے جیٹ طیارے کو پرندہ فرض کر بیٹھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ میری محبت میں گھر کے آنگن پر سے گزرا ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے بنفشے کا یہ پودا طیارے کی ماہیت سمجھنے سے قاصر ہے، ایسے ہی انسان بھی ازل اور ابد کے رشتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پرحتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔
ن م راشد کا تقابل اکثر فیض احمد فیض کے ساتھ کیا جاتا ہے، لیکن صاف ظاہر ہے کہ نہ صرف فیض کے موضوعات محدود ہیں بلکہ ان کی فکر کا دائرہ بھی راشد کے مقابلے پر تنگ ہے۔ ساقی فاروقی بیان کرتے ہیں کہ فیض نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ راشد کی طرح نظمیں نہیں لکھ سکتے کیوں کہ راشد کا ذہن ان سے کہیں بڑا ہے۔
راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے۔ اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم حسن کوزہ گر‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح حسن کوزہ گر بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔
راشد کے بڑے موضوعات میں سے ایک خلائی دور کے انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا زمانہ ہے جہاں روایتی تصورات جدید سائنسی اور فکری نظریات کی زد میں آ کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں اور بیسویں صدی کا انسان ان دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ راشد کئی مقامات پر روایتی مذہبی خیالات کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بعض نظموں پر مذہبی حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہوئی تھی۔
راشد اور میرا جی اپنے فنی سفر پر اکیلے نکلے تھے، لیکن بہت جلد دوسرے شعرا آ آ کر اس کاروان میں شامل ہوتے گئے۔ ان سے متاثر ہونے والوں میں مجید امجد، اخترالایمان، وزیرِ آغا، ضیا جالندھری، ساقی فاروقی، ستیہ پال آنند، علی محمد فرشی اور رفیق سندیلوی وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
راشد کی شاہ کار نظموں میں مندرجہ بالا دو نظموں کے علاوہ درویش، تیل کے سوداگر، رقص، سبا ویراں، اظہار اور نارسائی، اسرافیل کی موت، زندگی سے ڈرتے ہو، اور اندھا کباڑی وغیرہ شامل ہیں۔ راشد کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے تھے، ماورا، ایران میں اجنبی، اور لا =انسان، جب کہ گمان کا ممکن ان کی موت کے بعد شائع ہوئی تھی۔
راشد کا انتقال نو اکتوبر 1975ء کو لندن میں ہوا تھا۔ ان کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود تھے، راشد کی انگریز بیگم شیلا اور ساقی فاروقی۔ ساقی لکھتے ہیں کہ شیلا نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے راشد کے جسم کو نذرِ آتش کروا دیا اور اس سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ نہیں پائے۔