نورالدین
محفلین
ترک نژاد پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کہتے ہیں کہ "اردو ایک ایسی میٹھی اور پر تاثیر زبان ہے جیسے ہم جانیں یا خدا جانے ۔ "
ادب کے معاملے میں اردو کا دامن کبھی خالی نہيں رہا ۔ جس میں سب سے اہم کردار جرائد و رسائل کا اجرا کرنے والوں کا بھی ہے ۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس میں صرف دلی و جذباتی طور پر ہی حصہ لیا جا سکتا ہے نیز اس میں کئے گئے اخراجات بھی کسی وصولی کی امید کے بغیر کرنی پڑتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں ہر کوئی اس شعبے میں طبع آزمائی نہيں کر پاتا ۔ تو ایسے میں جرائد کی ادارت بڑی مشکل ہی سے کوئی نبھا پاتا ہے مگر جب یہ ذمہ داری شروع ہو جائے تو بڑی دور تک نبھانا پڑتا ہے حتٰی کہ بہ قول ایک صاحب ایڈیٹر جان تک لڑا دیتا ہے ۔ تو کچھ ایسی ہی جان توڑ کوشش کی ہے معروف شاعر و افسانہ نگار نظر امروہوی کے فرزند جناب اقبال نظر صاحب نے جو کہ خود بھی ایک شاعر و افسانہ نگار ہیں ۔ اور پاکستان کی ادبی حلقوں میں ایک نام رکھتے ہيں ۔ یہاں ہم بات کر رہے ہيں ان کی دیرینہ کاوش اردو سہ ماہی "کولاژ "کی ۔ اس کوشش میں ان کے ساتھ شاعرہ و افسانہ نگار محترمہ شاہدہ تبسم صاحبہ بھی شامل ہیں جس پر بلا شبہ دونوں شخصیات تعریف اور مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
آج کل کے زمانے میں جہاں اوروں کے لیے جریدہ پڑھنا مشکل ہوتاہے کجا کہ جریدہ جاری کیا جائے وہ بھی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ۔ اقبال نظر صاحب نے جب اس جریدے کے اجراء کا تذکرہ پہلی بار کیا تو ایسا لگا کہ جیسے حیرتوں میں ایک اور حیرت وقوع پذیر ہونے جا رہی ہو جو کہ کوئی حیرت کی بات نہ ہو ۔ مگر جب شمارہ پروف ریڈنگ کے لیے بہ طور نمونہ ہاتھ میں آ گیا تو اک حیرتِ واقعی اور خوشی کا تاثر دیکھنے والوں کے چہروں پر تھا کہ کہاں تو ایسے میگزين کا اجرا کرنے میں پوری ٹیم کی محنت لازمی سمجھی جاتی ہے اور کہاں دونوں مدیران نے یہ کام کر دکھایا ۔
شمارے کے اجرا کے بعد اب بات ہو جائے اس کے اجزاء کی ۔ شمارے میں ادب کے کئی اصناف کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں کچھ خاص شعبے کے اعداد و شمار کچھ یوں ہيں ؛
افسانے 21 __ میورل 1 __ طویل مختصر افسانہ 1 __ غزلیں 37 __ قطعات 1 __ مضامین 20 __ تمثیل 1 __ اسٹریٹ تھیٹر 2 __ انشائیہ __ فکاہیہ __ ناولٹ __ دوہے اور گیت __ خصوصی مطالعہ ۔ سعود عثمانی __ آرٹ __ رپورتاژ __ خطوط
یوں دیکھا جائے تو یہ مواد کی اتنی بڑي مقدار ایک شمارے کے قارئین کے لیے ایک بیش بہا خزینہ نعمت سے کچھ کم نہیں ہے ۔
بلاشبہ شمارے کا ایک ایک حصہ دلچسپی سے پڑھے جانے کے قابل ہے ۔ جس میں بر صغیر کے علاوہ سمندر پار مصنفین نے بھی اپنا جوہر قلم عنایت کیا ہے ۔ شمارے کی شروعات عقیدت مندانہ مجموعہ جات سے کی گئی ہے جس میں جرمن شاعر گوئٹے کی تعتیہ نظم کا اردو منظوم ترجمہ شان الحق حقی صاحب نے کیا ہے ۔ خاص طور پر ایک یاد گار ہے ایک غیر مسلم کی طرف سے آں حضرت ﷺ کے اعتراف عظمت کی ۔
ایک اور انوکھی بات اس شمارے میں فن مصوری سے متعلق شعبے کی ہے جس میں دنیا کے مشہور زمانہ فن پارہ " آرنولِ فنی " پورٹریٹ کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے اور امید ہے کہ یہ موضوع بھی اپنی تمام تر تازگی اور دلچسپی کے ساتھ آئندہ شماروں میں بھی جاری رہے گا ۔ یقینا یہ شعبہ بھی فن مصوری کے شائقین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گا ۔
راقم نے شمارے کو پڑھنے کی شروعات سرسری انداز سے کی اور پہلی نظر جس تحریر پر پڑی وہ تھی مدیرۂ شمارہ ہذامحترمہ شاہدہ تبسم کے افسانے " ایک عورت دو مرد " ۔ افسانے کو اسی وقت کھڑے کھڑے پڑھا تو اس کے آخری جملے نے ذہن کو جکڑ کر رکھ لیا ۔ جس میں مرکزي کردار ماں اپنے بیٹے کے باپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیٹے سے کہتی ہے کہ " جا بلا رہا ہے " اس ایک جملے میں اس آبلہ پا عورت کی پوری زندگی کا ثمر پوشیدہ تھا ۔ گویا ساري زندگی ایک جلتے صحرا میں سفر کرتے کرتے اس کے پیروں میں جو چھالے پڑ گئے تھے وہ اب امڈ آنے والے آنسوؤں سے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں ۔ اس افسانے نے "کولاژ" کے اس شمارے کے متعلق پہلا تاثر قائم کر دیا کہ شمارہ یقینا اس وقت معیار کے انتہا کو چھو رہا ہے ۔
مدیر کولاژ جناب اقبال نظر صاحب نے بھی ایک تصنیف اسٹریٹ تھیٹر کے شعبے کے حوالے سے لکھی ہے " چاندی کے ورق " ۔ جو مختصر ہونے کے باوجود پڑھنے والوں کے ذہن میں ایک تھیٹر کے نظارے کا سماں باندھ دیتی ہے ۔
مذکورہ پہلا شمارہ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۲کا ہے ۔ جب کہ دوسرے شمارے کی آمد بھی عن قریب متوقع ہے ۔ جس کے لیے ادبی حلقوں کی طرف سے بے چینی سے انتظار کیا جا رہا ہے ۔ شمارے کے بارے میں تعارف کئی معروف اخبار و جدید ذرائع ابلاغ نے شائع کیا ہے جن میں جنگ ، ایکسپریس اور بی بی سی اردو سائٹ قابل ذکر ہيں ۔ اس کے علاوہ کئی اداروں اور حلقۂ احباب میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ۔
شمارے میں چھپنے والے کئی ایک نام فیس پر بھی نظر آئے اور کچھ اس فورم پر بھی ۔
کہنے کو اور بھی باتيں ہیں جو ذہن میں آتی جا رہی ہيں اور میں رقم لکھتا جا رہا ہوں ۔ اوپر مذکورہ چند نکات تو صرف اپنے مطالعے کی حد تک ہیں ورنہ شمارے میں دیگر کئی اہم تصانیف ادبی پیاس رکھنے والوں کے لیے موجود ہيں ۔ جس کے نتیجے میں قارئین کی آراء و تجاویز بہت اہم ہیں ۔ جس کے لیے دھاگۂ ہذا میں آپ کے تبصرے اور آراء کی ضرورت ہے ۔ ۔
[ای میل پتے محذوف]
ادب کے معاملے میں اردو کا دامن کبھی خالی نہيں رہا ۔ جس میں سب سے اہم کردار جرائد و رسائل کا اجرا کرنے والوں کا بھی ہے ۔ یہ ایک ایسا کام ہے جس میں صرف دلی و جذباتی طور پر ہی حصہ لیا جا سکتا ہے نیز اس میں کئے گئے اخراجات بھی کسی وصولی کی امید کے بغیر کرنی پڑتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں ہر کوئی اس شعبے میں طبع آزمائی نہيں کر پاتا ۔ تو ایسے میں جرائد کی ادارت بڑی مشکل ہی سے کوئی نبھا پاتا ہے مگر جب یہ ذمہ داری شروع ہو جائے تو بڑی دور تک نبھانا پڑتا ہے حتٰی کہ بہ قول ایک صاحب ایڈیٹر جان تک لڑا دیتا ہے ۔ تو کچھ ایسی ہی جان توڑ کوشش کی ہے معروف شاعر و افسانہ نگار نظر امروہوی کے فرزند جناب اقبال نظر صاحب نے جو کہ خود بھی ایک شاعر و افسانہ نگار ہیں ۔ اور پاکستان کی ادبی حلقوں میں ایک نام رکھتے ہيں ۔ یہاں ہم بات کر رہے ہيں ان کی دیرینہ کاوش اردو سہ ماہی "کولاژ "کی ۔ اس کوشش میں ان کے ساتھ شاعرہ و افسانہ نگار محترمہ شاہدہ تبسم صاحبہ بھی شامل ہیں جس پر بلا شبہ دونوں شخصیات تعریف اور مبارک باد کے مستحق ہیں ۔
آج کل کے زمانے میں جہاں اوروں کے لیے جریدہ پڑھنا مشکل ہوتاہے کجا کہ جریدہ جاری کیا جائے وہ بھی معیار کو برقرار رکھتے ہوئے ۔ اقبال نظر صاحب نے جب اس جریدے کے اجراء کا تذکرہ پہلی بار کیا تو ایسا لگا کہ جیسے حیرتوں میں ایک اور حیرت وقوع پذیر ہونے جا رہی ہو جو کہ کوئی حیرت کی بات نہ ہو ۔ مگر جب شمارہ پروف ریڈنگ کے لیے بہ طور نمونہ ہاتھ میں آ گیا تو اک حیرتِ واقعی اور خوشی کا تاثر دیکھنے والوں کے چہروں پر تھا کہ کہاں تو ایسے میگزين کا اجرا کرنے میں پوری ٹیم کی محنت لازمی سمجھی جاتی ہے اور کہاں دونوں مدیران نے یہ کام کر دکھایا ۔
شمارے کے اجرا کے بعد اب بات ہو جائے اس کے اجزاء کی ۔ شمارے میں ادب کے کئی اصناف کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں کچھ خاص شعبے کے اعداد و شمار کچھ یوں ہيں ؛
افسانے 21 __ میورل 1 __ طویل مختصر افسانہ 1 __ غزلیں 37 __ قطعات 1 __ مضامین 20 __ تمثیل 1 __ اسٹریٹ تھیٹر 2 __ انشائیہ __ فکاہیہ __ ناولٹ __ دوہے اور گیت __ خصوصی مطالعہ ۔ سعود عثمانی __ آرٹ __ رپورتاژ __ خطوط
یوں دیکھا جائے تو یہ مواد کی اتنی بڑي مقدار ایک شمارے کے قارئین کے لیے ایک بیش بہا خزینہ نعمت سے کچھ کم نہیں ہے ۔
بلاشبہ شمارے کا ایک ایک حصہ دلچسپی سے پڑھے جانے کے قابل ہے ۔ جس میں بر صغیر کے علاوہ سمندر پار مصنفین نے بھی اپنا جوہر قلم عنایت کیا ہے ۔ شمارے کی شروعات عقیدت مندانہ مجموعہ جات سے کی گئی ہے جس میں جرمن شاعر گوئٹے کی تعتیہ نظم کا اردو منظوم ترجمہ شان الحق حقی صاحب نے کیا ہے ۔ خاص طور پر ایک یاد گار ہے ایک غیر مسلم کی طرف سے آں حضرت ﷺ کے اعتراف عظمت کی ۔
ایک اور انوکھی بات اس شمارے میں فن مصوری سے متعلق شعبے کی ہے جس میں دنیا کے مشہور زمانہ فن پارہ " آرنولِ فنی " پورٹریٹ کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے اور امید ہے کہ یہ موضوع بھی اپنی تمام تر تازگی اور دلچسپی کے ساتھ آئندہ شماروں میں بھی جاری رہے گا ۔ یقینا یہ شعبہ بھی فن مصوری کے شائقین کے لیے دلچسپی کا باعث ہو گا ۔
راقم نے شمارے کو پڑھنے کی شروعات سرسری انداز سے کی اور پہلی نظر جس تحریر پر پڑی وہ تھی مدیرۂ شمارہ ہذامحترمہ شاہدہ تبسم کے افسانے " ایک عورت دو مرد " ۔ افسانے کو اسی وقت کھڑے کھڑے پڑھا تو اس کے آخری جملے نے ذہن کو جکڑ کر رکھ لیا ۔ جس میں مرکزي کردار ماں اپنے بیٹے کے باپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیٹے سے کہتی ہے کہ " جا بلا رہا ہے " اس ایک جملے میں اس آبلہ پا عورت کی پوری زندگی کا ثمر پوشیدہ تھا ۔ گویا ساري زندگی ایک جلتے صحرا میں سفر کرتے کرتے اس کے پیروں میں جو چھالے پڑ گئے تھے وہ اب امڈ آنے والے آنسوؤں سے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں ۔ اس افسانے نے "کولاژ" کے اس شمارے کے متعلق پہلا تاثر قائم کر دیا کہ شمارہ یقینا اس وقت معیار کے انتہا کو چھو رہا ہے ۔
مدیر کولاژ جناب اقبال نظر صاحب نے بھی ایک تصنیف اسٹریٹ تھیٹر کے شعبے کے حوالے سے لکھی ہے " چاندی کے ورق " ۔ جو مختصر ہونے کے باوجود پڑھنے والوں کے ذہن میں ایک تھیٹر کے نظارے کا سماں باندھ دیتی ہے ۔
مذکورہ پہلا شمارہ جولائی تا ستمبر ۲۰۱۲کا ہے ۔ جب کہ دوسرے شمارے کی آمد بھی عن قریب متوقع ہے ۔ جس کے لیے ادبی حلقوں کی طرف سے بے چینی سے انتظار کیا جا رہا ہے ۔ شمارے کے بارے میں تعارف کئی معروف اخبار و جدید ذرائع ابلاغ نے شائع کیا ہے جن میں جنگ ، ایکسپریس اور بی بی سی اردو سائٹ قابل ذکر ہيں ۔ اس کے علاوہ کئی اداروں اور حلقۂ احباب میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ۔
شمارے میں چھپنے والے کئی ایک نام فیس پر بھی نظر آئے اور کچھ اس فورم پر بھی ۔
کہنے کو اور بھی باتيں ہیں جو ذہن میں آتی جا رہی ہيں اور میں رقم لکھتا جا رہا ہوں ۔ اوپر مذکورہ چند نکات تو صرف اپنے مطالعے کی حد تک ہیں ورنہ شمارے میں دیگر کئی اہم تصانیف ادبی پیاس رکھنے والوں کے لیے موجود ہيں ۔ جس کے نتیجے میں قارئین کی آراء و تجاویز بہت اہم ہیں ۔ جس کے لیے دھاگۂ ہذا میں آپ کے تبصرے اور آراء کی ضرورت ہے ۔ ۔
[ای میل پتے محذوف]