سوکن ۔۔

یوسف سلطان

محفلین
سوکن کے لفظ کو سمجھنے کے لئے آپ کا نظام دین کو جاننا بہت ضروری ہے۔ یہ نام ہم لوگوں کے لئے شاید اجنبی ہو، لیکن ہماری دادیاں، نانیاں اس نام کو بہت اچھی طرح جانتی تھیں۔ ریڈیو پاکستان پر مزاحیہ پروگرام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس لفظ کو ایسے واضح کیا تھا کہ یہ لفظ “کِن” سے نکلا ہے اور کِن کہتے ہیں بھاپ والے ریلوے انجن سے اُڑنے والی پتھر کے کوئلے کی چنگاری کو۔ اگر ریل میں بیٹھے کسی مسافر کی آنکھ میں کِن پڑجائے تو اُس کی تکلیف کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کسی عورت کو اگر اپنے شوہر کے ساتھ ایک اورعورت برداشت کرنا پڑجائے تواُس کواُتنی تکلیف ہوتی ہے جتنی سو کِن آنکھ میں پڑنے پر کسی کو ہو سکتی ہے۔
اس ساری تمہید کا اصل مقصد آپ کو ایک واقعہ سنانا تھا جو پڑھا تو یہ تمہید ذہن میں آ گئی۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک نوجوان اپنی بیوی پر ڈنڈے سے ہلکا پھلکا تشدد کر رہا تھا کہ ادھر سے ایک دانا بزرگ کا گزر ہوا۔ یہ ماجرا دیکھ کرنوجوان سے کہا: پُتر، ڈنڈے سے تو جانوروں کو مارا کرتے ہیں، عورت کو تو عورت سے مارا جاتا ہے {یعنی عورت پر عورت (اس کی سوکن)} لا کر۔
نوجوان نے بزرگ کے احترام میں ڈنڈا زمین پر رکھ دیا، بات سنی۔ اور کہا: بابا جی، میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھ پایا؟
بابا جی نے ابھی بات سمجھانے کے لیے سٹارٹ بھی نہیں تھا لیا کہ عورت نے بابے سے مخاطب ہو کر کہا: چل اوئے بابا، چل، کدرے ہور جا کے اپنا لُچ تَل، یہ ہم دونوں میاں بیوی میں آپس کا معاملہ ہے۔
پھر زمین سے ڈنڈا اُٹھا کر اپنے خاوند کو دیتے ہوئے بولی: لیجیئے جی؛ آپ مجھے دوبارہ مارنا شروع کیجیئے۔

ربط
 
آخری تدوین:
Top