سوال

صائمہ شاہ

محفلین
علم صرف سر اٹھا کر سوال کرنے سے نہیں ملتا علم سر جھکا کر سننے کا بھی محتاج ہے وہ علم ہی کیا جو سننے کی عاجزی کے بغیر سر اٹھانے کے غرور میں مبتلا ہو جائے ۔
سوال اس توازن سے جنم لیتا ہے جو سننے کی عاجزی اور سر اٹھانے کے اعتماد کی گود میں پلتا ہے ۔
ہمارے ہاں علم اچھی نوکری کیلئے حاصل کیا جاتا ہے علم کا حصول اپنی ذات کی آگہی یا شعور کے لیے نہیں اور نہ ہی ایک اچھے انسان یا شہری بننے کے لیے تو ایسا علم لکیر کا فقیر ہوتا ہے ۔
حقیقی علم نصابی کتب کا محتاج نہیں حقیقی علم جستجو کا نام ہے وہی جستجو جو سوال کو جنم دیتی ہے وہی جستجو جو برسوں اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرواتی ہے ۔ جس میں جستجو نہیں اس نے کچھ نہیں سیکھا ۔
اور سوال صرف دوسروں سے نہیں سوال خود سے بھی ضروری ہے ۔ جب تک خود کو چیلنج نہ کیا خود کو سوال سے نہ پرکھا تو کسی اور سے کیا سوال ہوگا ۔اور سوال اس علم پر بھی جو دوسروں کے آگے سوال رکھ سکتا ہے ، سوال اس اعتماد پر بھی اور سوال علم کے تکبر پر بھی ۔
سوال کی کوئی حد نہیں ۔ کسی بھی موضوع کو سوال سے ماورا رکھنا خود اپنے آپ میں جہالت کی ایک دلیل ہے ۔ جس علم یا موضوع پر سوال نہ ہو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس کے لئے کوئی جواب نہیں اور مجھ جیسے منطقی لوگوں کو بغیر جواب اور جواز کے کچھ نہیں سوجھتا ۔
سوال کیجیے سوال علم اور مکالمے کو جنم دیتا ہے ۔
 

زیک

مسافر
بیٹا ایسے سوال نہیں کرتے۔ سوال سے سوال اور اس سے شک جنم لیتا ہے جو ایمان کو مار دیتا ہے۔ جب میں نے کہہ دیا کہ ایسا ہی ہے تو پھر سوال کا کیا معنی۔
 

صائمہ شاہ

محفلین

صائمہ شاہ

محفلین
بیٹا ایسے سوال نہیں کرتے۔ سوال سے سوال اور اس سے شک جنم لیتا ہے جو ایمان کو مار دیتا ہے۔ جب میں نے کہہ دیا کہ ایسا ہی ہے تو پھر سوال کا کیا معنی۔
یہی تو المیہ ہے زیک
کروڑوں کی تعداد میں ایک خاص مائنڈ سیٹ پیدا ہورہا ہے جو پروڈکٹو نہیں ہے بلکہ سیلف ڈسٹرکٹو ہے ۔
 

محمد امین

لائبریرین
علم صرف سر اٹھا کر سوال کرنے سے نہیں ملتا علم سر جھکا کر سننے کا بھی محتاج ہے وہ علم ہی کیا جو سننے کی عاجزی کے بغیر سر اٹھانے کے غرور میں مبتلا ہو جائے ۔
سوال اس توازن سے جنم لیتا ہے جو سننے کی عاجزی اور سر اٹھانے کے اعتماد کی گود میں پلتا ہے ۔
ہمارے ہاں علم اچھی نوکری کیلئے حاصل کیا جاتا ہے علم کا حصول اپنی ذات کی آگہی یا شعور کے لیے نہیں اور نہ ہی ایک اچھے انسان یا شہری بننے کے لیے تو ایسا علم لکیر کا فقیر ہوتا ہے ۔
حقیقی علم نصابی کتب کا محتاج نہیں حقیقی علم جستجو کا نام ہے وہی جستجو جو سوال کو جنم دیتی ہے وہی جستجو جو برسوں اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرواتی ہے ۔ جس میں جستجو نہیں اس نے کچھ نہیں سیکھا ۔
اور سوال صرف دوسروں سے نہیں سوال خود سے بھی ضروری ہے ۔ جب تک خود کو چیلنج نہ کیا خود کو سوال سے نہ پرکھا تو کسی اور سے کیا سوال ہوگا ۔اور سوال اس علم پر بھی جو دوسروں کے آگے سوال رکھ سکتا ہے ، سوال اس اعتماد پر بھی اور سوال علم کے تکبر پر بھی ۔
سوال کی کوئی حد نہیں ۔ کسی بھی موضوع کو سوال سے ماورا رکھنا خود اپنے آپ میں جہالت کی ایک دلیل ہے ۔ جس علم یا موضوع پر سوال نہ ہو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس کے لئے کوئی جواب نہیں اور مجھ جیسے منطقی لوگوں کو بغیر جواب اور جواز کے کچھ نہیں سوجھتا ۔
سوال کیجیے سوال علم اور مکالمے کو جنم دیتا ہے ۔

مجھے اس تحریر سے مشرقی علم و تمدن کی جھلکیاں نظر آرہی ہیں۔ مغربی تعلیم اور pedagogy کے بارے میں میرا خیال اور اندازہ تھوڑا مختلف ہے۔ حالانکہ نہ میں کبھی باہر گیا نہ کسی غیر ملکی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، مجھے پھر بھی لگتا ہے کہ مغربی ممالک میں استاد اور طالبِ علم کے درمیان مشرق کی طرح خلیج موجود نہیں ہوتی۔ یہاں استاد کا تصور ایسا ہے کہ جو اپنے طلباء سے الگ تھلگ رہے، رعب داب رکھے اور طلباء اس کے برابر کبھی نہ آئے اور نہ آسکیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ مشرقی استاد میں انا زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے طالبِ علم کو اپنے برابر یا اپنے سے آگے دیکھنا نہیں چاہتا، عمومی بات کر رہا ہوں، ضروری نہیں کہ سب ہی ایسے ہوں۔ بدنیتی پر مبنی ایسے بہت سے کیسز میں نے دیکھے اور سنے ہیں کہ تحقیق وغیرہ میں اساتذہ اور سپروائزر اپنے طالبِ علم کے کام کو سراہتے نہیں بلکہ اپنے نام سے شایع کروانا یا کم از کم فرسٹ اوتھر First author کے طور پر اپنا نام لکھواتے ہیں۔ واضح رہے یہ صرف ایک خاص مثال ہے تحقیق کے حوالے سے۔

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ مغربی ممالک میں خاص کر جامعاتی تعلیم و تحقیق میں اساتذہ اپنے طلباء کو اپنا کولیگ سمجھتے ہیں۔

موضوع سے تھوڑا انحراف کرنے پر معذرت۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
مجھے اس تحریر سے مشرقی علم و تمدن کی جھلکیاں نظر آرہی ہیں۔ مغربی تعلیم اور pedagogy کے بارے میں میرا خیال اور اندازہ تھوڑا مختلف ہے۔ حالانکہ نہ میں کبھی باہر گیا نہ کسی غیر ملکی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا، مجھے پھر بھی لگتا ہے کہ مغربی ممالک میں استاد اور طالبِ علم کے درمیان مشرق کی طرح خلیج موجود نہیں ہوتی۔ یہاں استاد کا تصور ایسا ہے کہ جو اپنے طلباء سے الگ تھلگ رہے، رعب داب رکھے اور طلباء اس کے برابر کبھی نہ آئے اور نہ آسکیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ مشرقی استاد میں انا زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے طالبِ علم کو اپنے برابر یا اپنے سے آگے دیکھنا نہیں چاہتا، عمومی بات کر رہا ہوں، ضروری نہیں کہ سب ہی ایسے ہوں۔ بدنیتی پر مبنی ایسے بہت سے کیسز میں نے دیکھے اور سنے ہیں کہ تحقیق وغیرہ میں اساتذہ اور سپروائزر اپنے طالبِ علم کے کام کو سراہتے نہیں بلکہ اپنے نام سے شایع کروانا یا کم از کم فرسٹ اوتھر First author کے طور پر اپنا نام لکھواتے ہیں۔ واضح رہے یہ صرف ایک خاص مثال ہے تحقیق کے حوالے سے۔

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ مغربی ممالک میں خاص کر جامعاتی تعلیم و تحقیق میں اساتذہ اپنے طلباء کو اپنا کولیگ سمجھتے ہیں۔

موضوع سے تھوڑا انحراف کرنے پر معذرت۔
مشرق ہو یا مغرب جستجو ہی علم کا دروازہ ہے ۔
مغرب میں باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور ان کی فکری اور شعوری بلوغت ہم سے کہیں آگے ہے ۔
یہاں اساتذہ بالکل روایتی نہیں ہیں ۔
 
آخری تدوین:

صفی حیدر

محفلین
حدِ ادب سے آگے بڑھ کر سوال کرنا ۔۔۔ وہ شجرِ ممنوع ہے جس کا ثمر چکھنے والا تہذیب و مذہب کے دائرے سے خارج سمجھا جاتا ہے ۔۔۔ گھر کا آنگن ہو کہ درس و تدریس کی چار دیواری ۔۔۔۔ جو کہا جائے اسے ہی حتمی سمجھا جائے ۔۔۔ نوخیز ذہنوں کی ذرخیز زمینوں سے اگتی سوالوں کی کونپلیں بار آور ہونے سے پہلے ہی خزاں رسیدہ ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔ ادب و احترام کے تصورات میں سوالات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔۔۔ یہ دو چار دن کی بات نہیں ۔۔ کئی صدیوں کا المیہ ہے ۔۔۔۔۔
 

گلزار خان

محفلین
علم صرف سر اٹھا کر سوال کرنے سے نہیں ملتا علم سر جھکا کر سننے کا بھی محتاج ہے وہ علم ہی کیا جو سننے کی عاجزی کے بغیر سر اٹھانے کے غرور میں مبتلا ہو جائے ۔
سوال اس توازن سے جنم لیتا ہے جو سننے کی عاجزی اور سر اٹھانے کے اعتماد کی گود میں پلتا ہے ۔
ہمارے ہاں علم اچھی نوکری کیلئے حاصل کیا جاتا ہے علم کا حصول اپنی ذات کی آگہی یا شعور کے لیے نہیں اور نہ ہی ایک اچھے انسان یا شہری بننے کے لیے تو ایسا علم لکیر کا فقیر ہوتا ہے ۔
حقیقی علم نصابی کتب کا محتاج نہیں حقیقی علم جستجو کا نام ہے وہی جستجو جو سوال کو جنم دیتی ہے وہی جستجو جو برسوں اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرواتی ہے ۔ جس میں جستجو نہیں اس نے کچھ نہیں سیکھا ۔
اور سوال صرف دوسروں سے نہیں سوال خود سے بھی ضروری ہے ۔ جب تک خود کو چیلنج نہ کیا خود کو سوال سے نہ پرکھا تو کسی اور سے کیا سوال ہوگا ۔اور سوال اس علم پر بھی جو دوسروں کے آگے سوال رکھ سکتا ہے ، سوال اس اعتماد پر بھی اور سوال علم کے تکبر پر بھی ۔
سوال کی کوئی حد نہیں ۔ کسی بھی موضوع کو سوال سے ماورا رکھنا خود اپنے آپ میں جہالت کی ایک دلیل ہے ۔ جس علم یا موضوع پر سوال نہ ہو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ اس کے لئے کوئی جواب نہیں اور مجھ جیسے منطقی لوگوں کو بغیر جواب اور جواز کے کچھ نہیں سوجھتا ۔
سوال کیجیے سوال علم اور مکالمے کو جنم دیتا ہے ۔



بہت اچھی تحریر لکھی ہے آپ نے مجھے تو آپ کی کہی ہوئی ایک بات یاد آگئی کل اسکا بھی ربط پیش کروں گا
 

سید عمران

محفلین
ہمارے ہاں علم اچھی نوکری کیلئے حاصل کیا جاتا ہے علم کا حصول اپنی ذات کی آگہی یا شعور کے لیے نہیں اور نہ ہی ایک اچھے انسان یا شہری بننے کے لیے تو ایسا علم لکیر کا فقیر ہوتا ہے ۔
حقیقی علم نصابی کتب کا محتاج نہیں حقیقی علم جستجو کا نام ہے وہی جستجو جو سوال کو جنم دیتی ہے وہی جستجو جو برسوں اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرواتی ہے ۔ جس میں جستجو نہیں اس نے کچھ نہیں سیکھا ۔
صحیح بات ہے!!!
۱) ہمارے یہاں نصابی علم صرف اس لیے سیکھا جاتا ہے کہ اچھی ملازمت مل جائے۔۔۔ یعنی خوب مال بنایا جائے۔۔۔
۲)اور نصابی علم میں بھی تربیت، اخلاق ، معاشرے میں دوسرے انسانوں کے ساتھ رہنے کی تعلیم کا فقدان ہے۔۔۔۔ تربیت کی تو بات ہی نہ کریں۔۔۔
تعلیم و تربیت میں تعلیم پہلے ہے تربیت بعد میں۔۔۔
علم تربیت کے عمل کا امام ہے۔۔۔
امام ناقص تو نماز ناقص۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فکر انگیز تحریر ہے۔

سوال کی حوصلہ شکنی تو ہم اپنے گھر ہی سے شروع کر دیتے ہیں، بچوں کے سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اکثر تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا، اگر جواب دیا بھی جاتا ہے تو بچوں کی ذہنی سطح پر جا کر نہیں بلکہ اسرار کے دبیز پردے میں، جس سے یا تو بچے ڈر جاتے ہیں یا ہمیشہ کے لیے زبان بند کر لیتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
حدِ ادب سے آگے بڑھ کر سوال کرنا ۔۔۔ وہ شجرِ ممنوع ہے جس کا ثمر چکھنے والا تہذیب و مذہب کے دائرے سے خارج سمجھا جاتا ہے ۔۔۔ گھر کا آنگن ہو کہ درس و تدریس کی چار دیواری ۔۔۔۔ جو کہا جائے اسے ہی حتمی سمجھا جائے ۔۔۔ نوخیز ذہنوں کی ذرخیز زمینوں سے اگتی سوالوں کی کونپلیں بار آور ہونے سے پہلے ہی خزاں رسیدہ ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔ ادب و احترام کے تصورات میں سوالات کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔۔۔ یہ دو چار دن کی بات نہیں ۔۔ کئی صدیوں کا المیہ ہے ۔۔۔۔۔
درست ہے!!!
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کے سوال کو نہیں جھڑکا نہ رد کیا۔۔۔
شرم و حیا سے متعلق ایسے سوالات کے بھی جواب دئیے کہ سوال پوچھنے والے کی پیشانی بھی حیا سے عرق آلود ہوتی تھی اور آپ کی بھی۔۔۔
لیکن آپ نے امتیوں کو اتنا حوصلہ دیا تھا کہ وہ علم و آگہی حاصل کرنے کے لیے آپ سے ہر قسم کے سوال کرلیتے تھے۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
'سوال' پر ایک فکر انگیز تحریر ہے ۔ میں ،میری ذات سوالی رہی مگر جواب نہیں ملا۔ جب اساتذہ ، دوست ، رشتہ دار سوالات کے جواب دینے سے قاصر رہیں تو سمجھ لیجئے جوابی اکتساب بھی اپنی ذات سے خود ہوتا ہے ۔ آئنے میں روبرو ہونا آسان ہے مگر خود سے ہونے کے لیے اضطراب و حوصلہ چاہیے ۔
 

حسن ترمذی

محفلین
زبردست تحریر ۔۔ انسانی ذہن ہروقت سوال جواب، کیا کیوں اور کیسے میں الجھا رہتا ہے
المیہ یہ ہے کہ وہ سوال تو اپنی مرضی کا کرتا ہی ہے لیکن بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب جواب بھی اپنی مرضی کا چاہے جو کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے
مرضی کا جواب نا ملے تو جس سے سوال کیا گیا وہ جاہل ٹھہرا ۔۔ مطلب اس سوال کا جواب آپ کے ذہن میں پہلے ہی موجود ہوتا ہے بس دوسرے کے جواب
سے اپنے جواب کی تائید مقصود ہوتی ہے ۔۔ اور یہاں المیوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے اس حوالے سے کہ سوال کرنا کبھی بد تمیزی کہلاتا ہے تو سوال اٹھانا بغاوت ۔۔۔
ویسے ایک سوال ہے آپ سے کہ سوال کے حوالے سے اس تحریر کا خیال کیسے آیا آپ کے ذہن میں ؟
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
سوال کرنا غلط نہیں ہے۔ ا س کا انداز درست یا غلط ہوسکتا ہے۔ پھر بھی سوال کرنے پر فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا کیونکہ سوال غلط یا درست نہیں ہوتا، وہ محض سوال ہوتا ہے۔ جیسے یہ سوال کہ خدا کتنے ہیں ؟ ایک یا ایک سے زائد؟ اور اگر ایک ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ نہ غلط سوال ہے نہ درست۔ نہ اس سے بے ادبی جھلکتی ہے نہ کفر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ سوال کافر بھی پوچھ سکتا ہے اور مومن بھی۔ جسے یقین ہے کہ اللہ ایک ہے وہ بھی پوچھ سکتا ہے اور جسے خدا کے ہونے سے بھی انکار ہے، وہ بھی پوچھ سکتا ہے۔ اسلام اس سے نہیں روکتا۔ اللہ اس کا برا نہیں مانتا، بلکہ قدم قدم پر جواب دیتا ہے کہ غور کرو، فکرو کرو۔ کائنات میں، زمین میں، آسمان میں۔ اپنی ذات میں۔ تمہیں ایک خدا ہر جگہ نظر آئے گا۔ رہی یہ بات کہ آج کل سوال پوچھنا جرم بنا دیا گیا ہے، تو جس معاشرے میں تعلیم پر خرچ نہیں کیا جاتا، تعلیمی نظا م کو بے مصرف ، عمل سے عاری اور حالات سے مطابقت نہ رکھنے والے افراد پیدا کرنے کی مشین اور کتابوں کی اشاعت کو کاروبار سمجھا جاتا ہے،وہاں سوال پوچھنا بھی جرم ہے اور اس کا جواب دینا بھی۔ جسے جواب خود معلوم نہیں وہ اسے بدتمیزی اور کفر ہی قرار دے گا۔ مجھے میرے والدین نے بتا دیا کہ اللہ ایک ہے۔ اس کی دلیل نہیں دی۔ دلیل میرے پاس ہے ہی نہیں۔ میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ وہ ایک ہے؟ اس پر میرا فرض یہ بنتا ہے جب مجھ سے ایسا سوال پوچھا جائے جس کا جواب میرے پاس نہیں تو میں یہ تسلیم کرلوں کہ جواب میرے پاس نہیں ہے۔ لیکن میری انا یہ گوارا نہیں کرے گی۔ میں اپنی جہالت کی وجہ سے یہ یقین کرنے پر بھی مجبور رہوں گا کہ اگر میں نے جواب نہیں دیا تو سمجھا جائے گا کہ جواب ہے ہی نہیں۔ اللہ ایک ہے اگر میں ثابت نہیں کرسکا تو مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ ایک سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ یہ محض میرا وہم ہے۔ اگر جواب میرے پاس نہیں ہے تو تلاش کرنا مجھ پر فرض ہے۔ یا پھر یہ کرنا چاہئے کہ جو منصب مجھے عطا کیا گیا ہے، میں اس سے مستعفی ہوجاؤں۔ اگر میں عالم کہلاتا ہوں تو علم میرے پاس ہونا چاہئے۔ نہیں ہے تو عالم کہلانا بھی غلط ہے۔ سوال غلط نہیں بلکہ ضروری ہے اور اس کا جواب بھی، تاکہ علم جو آپ کے پاس ہے، وہ دلیل کی بنیاد پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔ اور اگر کوئی جہالت یا غلط فہمی ہے تو اسے دور کیا جائے۔
 
Top