موسم بڑا اچھا تھا۔اور ماضی بھی۔کبھی حال کبھی ماضی کی بھول بھلیوں میں بھولتے بھٹکتے کتنا وقت بیت گیا کون حساب رکھتا۔گائیڈ نے واپسی کا شور مچانا شروع کیا ۔ واپسی کو کسی کا دل نہ چاہا۔گائیڈ مزید چلایا ۔ اس سے پہلے کہ بدتمیزی پر اُتر آتا سب بوجھل قدموں سے واپس ہونے لگے۔
بادشاہوں کا جلال،شہزادوں کی تمکنت سب پیچھے ہونے لگیں۔ غلاموں کی ساز باز اور وزیروں کی سازشوں کے رنگ مدھم پڑگئے۔ کنیزوں کی چھیڑ چھاڑ پر شہزادیوں کی مترنم ہنسی کی آوازیں دھیمی ہوتی گئیں۔ ہم قلعہ سے باہر آگئے تھے۔ ٹریفک کی آواز نے سب طلسم توڑ دیا۔
پیچھے مڑ کر قلعہ دیکھا۔ لگا سارا فسوں چار دیواری کے پیچھے رہ گیا۔ہم آگے بڑھ گئے۔ ماضی سے چھیڑ چھاڑ مناسب نہیں۔ اسے بس محسوس کیا جاتا ہے۔ ہم سارے احساس دل میں سموئے بس میں بیٹھ گئے۔ بس نے ماضی کی اس جادو نگری سے منہ پھیر کر اپنا رُخ تاج محل کی طرف کرلیا!!!
تاج محل دیکھنے نہ دیکھنے والوں کے دلوں میں بستا ہے۔جو نہ دیکھے وہ بھی للچائے، دیکھنے کے شوق میں دل تڑپائے۔ جو دیکھے وہ بھی للچائے ، مزید دیدار کے شوق میں آنسو بہائے۔ یہ کیا طلسم ہے ، کیا فسوں ہے، نگاہوں کے راستے سیدھا دل میں جا اترتا ہے، اس طلسم نگری کا شکار ہونے سے شاید ہی کوئی بچ پاتا ہے۔
ہم نے شاہجہاں کے جھروکے سے تاج محل کو پہلی بار دیکھا تو مبہوت ہوگئے۔ یہ ایسی چیز نہیں جس پر نظر ڈال کر ہٹائی جائے۔ والد صاحب کہتے تھے شاہجہاں نے برسوں اپنی محبت کی یادگار کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھا تھا ، یہ اسی کی نگاہوں کا سحر ہے جس نے آج تک تاج محل کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ سنگ مرمر کے ڈھیر دنیا میں بہت، مگر تاج محل صرف ایک!!!
آگرہ قلعہ سے تاج محل کا سفر مسحور کن دل لیے طے کیا۔ تھوڑی دیر بعد بس سرخ پتھروں سے بنی چار دیواری کے سامنے آرُکی۔ ہم نیچے اُتر آئے۔ تاج محل کو یوں کھلے عام نہیں چھوڑا گیا۔ چاروں طرف قلعہ کی فصیل نما چار دیواریوں کا پردہ تان دیاٍ۔ ہزار کوشش کے باوجود ایک جھلک نہیں دِکھائی دیتی۔
اندر داخل ہونے کے لیے ڈیوڑھی نما عظیم الشان دروازہ ہے۔ اس دروازہ کے عین سامنے کھڑے ہوجائیں تب بھی تاج محل نظر نہیں آتا۔ بس اس کے مرمریں بدن کا سفید رنگ جھلکتا رہتا ہے،لیکن عام انداز سے نہیں، لگتا ہے بڑے سارے دروازے پر پورے کا پورا چھایا ہوا ہے۔
تاج محل سارے کا سارا عجیب و غریب ٹیکنالوجیز کا شاہکار ہے۔ تعمیراتی انداز ہے تو وہ نرالا اور اسے دیکھنے کے زاوئیے ہیں تو وہ انوکھے۔ آپٹیکل الیوژن کا جس جس طرح استعمال کیا گیا ہے حیران کن ہے۔ اب صدر دروازے سے اس کی پہلی جھلک ہی کو دیکھ لیجیے۔ سوائے دروازے پر چھائی سفیدی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن جوں جوں آپ آگے بڑھتے ہیں لگتا ہے تاج محل پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اور جیسے ہی حدِّ ادب عبور کرکے قدم دروازۂ حرم میں رکھتے ہیں تاج محل ایک دم ہی پورا سراپا پیش کردیتا ہے، اپنا آپ آپ کو سونپ دیتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ سانس لینا بھی بھول جاتے ہیں۔ پتھر کے ہوجاتے ہیں۔ ارد گرد کیا ہورہا ہے سب کہیں دور بیک گراونڈ میں چلا جاتا ہے۔ حتّیٰ کہ آپ خود بھی موجود نہیں رہتے ۔ بس تاج محل رہ جاتا ہے!!!
وسیع و عریض آسمان بیک گراؤنڈ میں لیے عظیم الشان تاج محل سر اٹھائے بانہیں پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔اپنی عظمت سے سارا آسمان بھرتا نظر آتا ہے۔ یوں نظر آتا ہے جیسے مغلیہ سلطنت کا کوئی بادشاہ جلال وسطوت کا تاج سر پہ رکھے تخت نشین ہو اور آپ ایک ادنیٰ غلام کی طرح اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہوں!!!