آج ہمارا دلّی میں آخری دن تھا۔ آج کے دن صرف شاپنگ کرنی ہے۔ آنٹی وعدے کے مطابق پرانی دلّی کے بازار لے گئیں۔ ہم ساڑھیوں کی ایک دوکان میں بیٹھے ہوئے تھے۔
دوکان دار نے پوچھا: ’’کس قسم کی ساڑھی دکھاؤں؟‘‘
’’ڈبل بارڈر والی۔‘‘ ہم نےآنٹی کے بولنے سے پہلے ہی خالہ کی پڑھائی پٹی سنادی۔
’’آپ پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘ دوکاندار نے چھوٹتے ہی کہا۔
’’دیوبند سے آئے ہیں۔‘‘ ہمیں سرعام پاکستان کا نام لینے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔
’’نہیں، آپ پاکستانی ہیں، یہاں کے لوگ ایسے نہیں بولتے۔‘‘دوکاندار چپکو قسم کا آدمی تھا، کسی صورت اپنی پاکستان شناسی پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ ہوا۔
’’آپ ساڑھی تو دکھائیں۔‘‘ آنٹی اپنے بھاری پاؤں سے ہمارا پاؤں زور کچلتے ہوئے دوکاندار سے مخاطب ہوئیں۔ یوں دوکاندار کا دھیان ہم سے اور ہمارے پاکستانی ہونے سے ہٹا اور ہمیں اطمینان کا سانس لینا نصیب ہوا۔ مگر یہ ہماری خوش فہمی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چائے منگوالی اور کپ ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:
’’یہ ہمارے پاکستانی مہمانوں کے لیے۔‘‘ظالم کسی صورت ہمارا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔
ہم جواب میں یقیناً کچھ کہتے مگر کچلے ہوئے پاؤں کی ٹیسیں آنٹی کے تشدد کی یاد دلا رہی تھیں۔ ہم نے خاموشی سے چائے پینے میں عافیت جانی۔آنٹی نے گرے رنگ کی ایک چمکدار ریشمی ساڑھی پسند کی جس پر آسمانی اور فیروزی رنگ کے دو بارڈر بنے ہوئے تھے۔ شاید اسی لیے یہ ڈبل بارڈر ساڑھی کہلائی جاتی ہے۔ مگر اسے یہاں ایسا کیا کہتے ہیں جو ہم نے نہیں کہا اور یوں ہمارے پاکستانی ہونے کا پردہ فاش ہوا۔ ہم بعد میں آنٹی سے بھی پوچھنا بھول گئے۔ ساڑھی کے تینوں کلر کا کنٹراس زبردست لگ رہا تھا۔آنٹی کی پسند لاجواب تھی۔ ساڑھی خالہ کو بھی بے حد پسند آئی تھی۔ بار بار کپڑا مٹھی میں دبا کر کہتیں بالکل ملائی کی طرح نرم ملائم ہے۔
دوکاندار کو جب بھی موقع ملتا ہمیں شک بھری نظروں سے گھورنا نہ چھوڑتا۔ اٹھتے اٹھتے بھی کہنے لگا:
’’اپنے پاکستانی ہونے کا بتانے میں کچھ حرج نہیں، یہاں کوئی پکڑ تھوڑی رہا ہے۔‘‘ قبل اس کے کہ ہماری دریدہ دہنی شروع ہوتی آنٹی ہمارا بازو پکڑ کر کھینچتی ہوئی دوکان سے باہر لے آئیں۔
یہاں سے نکل کر ہم نے نانی کے لیے چاندی کا ایک چھوٹا سا پاندان لیا تاکہ نانی اسے اپنے ساتھ لے کر کہیں بھی بآسانی آجا سکیں۔ دادی کی طرح نانی بھی بہت زیادہ سوشل تھیں۔ ان کے یہاں ہر وقت کسی نہ کسی کا آناجانا لگا رہتا تھا۔ ہمیں یہاں دو چیزیں اور پسند آئیں جو پاکستان میں نہیں ملتی تھیں۔ ایک دودھ اُبالنے کا برتن اور ایک پریشر کوکر۔
یہاں پریشر کوکر کا ڈھکن کوکر کے منہ کی بنسبت چھوٹا ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ بھاپ کا پریشر زیادہ ہونے کی صورت میں ڈھکن کوکر کے اندر ہی گرجاتا ہے اور پھٹ کر باہر نہیں آتا۔ یوں نقصان کم ہوتا ہے۔ ہمیں یہ وزنی لگا اس لیے اسے چھوڑ دیا۔
دوسری چیز دودھ اُبالنے کا برتن تھی۔ یہ اصل میں ڈبل بوائلر قسم کی چیز تھی۔ اس کی دو تہوں کے درمیان خالی جگہ ہوتی ہے اور باہر کی طرف اوپر ایک سوراخ ہوتا ہے۔ اس سوراخ کے ذریعہ بوائلر میں پانی بھر کر سوراخ کے منہ پر پریشر کوکر کی طرح سیٹی لگا دی جاتی ہے۔ جب پانی ابلتا ہے تو سیٹی بجنے لگتی ہے۔ یہ آپ کو اطلاع دیتی ہے کہ دودھ ابلنے والا ہے آکر چولہا بند کردیں۔ یوں دودھ ابل کر ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔
پاندان اور بوائلر آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں!!!