نعمان
محفلین
السلام علیکم، میرا نام نعمان ہے میں کراچی میں رہتا ہوں۔ میرے بارے میں مزید جاننے کے لئیے میرا بلاگ دیکھیں۔
میں تو یہ سمجھ کر یہاں اس فورم پر آیا تھا کہ چلو کچھ سائنس کی باتیں پڑھیں گے۔ مگر یہاں بھی وہی بحث چھڑی ہے جس سے میں بہت دلبرداشتہ ہوں۔ اسلئیے سوچا کہ اپنے دل کی بات لکھ دوں۔ مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر کسی کی دل آزاری ہوجائے تو ان سے گزارش ہے کہ وہ مجھے جاہل سمجھ کر معاف کردیں۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ میری پوسٹ شاید اس فورم کے لحاظ سے مناسب نہیں۔ اگر ذمہ داران مناسب سمجھیں تو اسے کہیں اور منتقل کرسکتے ہیں۔
میں سائنس کے بارے میں کسی مسلمان سے بات کرتے ہوئے گھبراتا ہوں۔ کئی ایک مواقع پر تو ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑجاتے ہیں اور ڈر لگتا ہے کہ کہیں پٹائی ہی نہ ہوجائے۔ ایک دو بار ایسی صورتحال بھی پیدا ہوئی جب میرے ایک دو جذباتی دوست کامیابی کے ساتھ میرے دل میں یہ وہم بٹھانے میں کامیاب ہوگئے کہ سائنس کی اہمیت کے بارے میں مغربی پروپگنڈا مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرتا ہے اور چونکہ میں اس پروپگینڈے پر یقین رکھتا ہوں اسلئیے میں اچھا مسلمان نہیں ہوں۔
یا پھر وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا مجھے قرآن کے مکمل آسمانی کتاب ہونے میں شک ہے؟ اگر میں کہتا ہوں نہیں تو بھی میں پھنستا ہوں کیونکہ پھر وہ کہیں گے کہ قرآن نے تو آئن اسٹائن کی ساری سائنس چودہ سو سال پہلے پیش کردی تھی۔ اگر میں کہتا ہوں ہاں مجھے شک ہے تب تو میں دائرہ اسلام سے ہی خارج ہوجاتا ہوں۔
ہمارے رشتے داروں میں ایک گھرانہ ہے۔ پہلے وہ بہت مالدار ہوتے تھے لیکن بعد میں وہ آہستہ آہستہ غریب ہوتے گئے اور ان کے کئی قریبی غریب رشتہ دار خوشحال ہوتے گئے۔ ان کا ایک لڑکا ہماری دکان پر اکثر آکر بیٹھتا ہے۔ اپنے والد کے امیری کے دنوں کی بڑی بڑی ڈینگیں مارتا ہے اور جب ہماری برادری کا کوئی ایسا شخص دیکھتا ہے تو عجیب تبصرے کرتا ہے مثلا:
۱۔ نیا نیا پیسہ آیا ہے اسلئیے اترا رہے ہیں۔
۲۔ بندر کے ہاتھ میں ناریل۔
۳۔ باپ کمائی
۴۔ پیسہ تو نائی کے پاس بھی ہوتا ہے۔ وغیرہ
ان کی اس جلن اور حسد کو دیکھ کر لوگ ان سے کتراتے ہیں اور انہیں اپنے پاس نہیں بٹھاتے۔ جس پر وہ الٹا ان لوگوں کو ہی یہ کہہ کر ملزم ٹہراتے ہیں کہ کیونکہ ہم خاندانی لوگ ہیں اور ان کی شوبازیوں میں نہیں آتے اسلئیے یہ ہمیں نہیں پوچھتے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال مسلمانوں کی ہے۔ امت کے عروج کے دور کی داستانیں اب ماند پڑتی نظر آرہی ہیں۔ ہر نئی سائنسی تحقیق کا سہرا مغرب کو بندھنے لگا ہے۔ انسانیت اور ثقافت کا تو مغرب پہلے ہی علمبردار بنا ہوا ہے۔ مسلمان چاہتے ہیں کہ انسانی معاشرے کی ترقی میں امت مسلمہ نے جو کردار ادا کیا ہے بس اسی کے گن گائے جاتے رہیں۔ مگر ظاہر ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیمیا، ریاضی اور طبیعیات بغداد کی مشاہدہ گاہوں سے امریکہ اور یورپ منتقل ہوگئے ہیں اور اب سائنسدان مریخ پر کمند ڈال چکے ہیں۔ نہیں جناب مریخ اور عطارو کی بات نہ کریں بس ہمارے دور عروج کے سائنسدانوں کے کارنامے گاتے رہیں۔
۱۔ ایٹم کا تو قرآن نے پہلے ہی ذکر کردیا ہے فلاں فلاں سورتہ میں۔
۲۔ کائنات کی تشکیل اور انسان کی تخلیق تو قرآن میں بیان ہوچکی ہے۔ ڈارون تو جھوٹا ہے۔
۳۔ سائنسدان اب بتا رہے ہیں کہ پانچ ٹائم ہاتھ دھونے سے انسان تندرست رہتا ہے۔ دیکھا وضو کی افادیت اب سائنس سے بھی ثابت ہوگئی۔
بعض خوش گمانیاں تو اتنی مزاحیہ ہوتی ہیں کہ ان پر لطیفوں کی ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ جیسے یہ اوپر والا بیان نمبر تین ہی دیکھیں۔ یہ بات قطعا نظر انداز کردی جاتی ہے کہ صابن سے ہاتھ دھونے کی افادیت کا ذکر ہوا ہے۔ وضو کے لئیے صابن کا استعمال کوئی شرط نہیں۔
بات دراصل یہ نہیں کہ انسان کو مذہبی ہونا یا نہیں ہونا چاہئیے۔ مجھے اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ اگر ہم یونہی کرتے رہے تو وہ نشاط ثانیہ جس کی ہم راہ تک رہے ہیں، شاید کبھی نہیں آئے گی۔ ایسے وقت میں جب یورپ اور امریکہ میں انسانی اوسط عمر پچھتر سال کو چھورہی ہے ہمارے پاکستان میں ہر دس میں سے ایک بچہ دس سال کی عمر کو پہنچنے تک اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہاں لوگ آج بھی ٹی بی اور ملیریا سے مر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں اوسط عمر پچپن سال تک پہنچ رہی ہے اور ہم ذرعی اور صنعتی ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں۔ ہم اتنا اناج پیدا نہیں کرپاتے جتنی ہماری ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں بیروزگاری آسمان کو چھو رہی ہے۔ مہنگائی اتنی ہے کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ہماری گلیاں اور سڑکیں اس وقت بھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
یقینا قرآن شریف اللہ کی کتاب ہے۔ آئیے ہم سب ملکر قرآن شریف پڑھیں تاکہ یہ سب مسائل ختم ہوجائیں۔ ایسے موقع پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھائی سمجھ کر پڑھو تو کچھ ہوگا۔
اسلامی دنیا کے تمام ادوار میں اس کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں طالبعلم علوم قرآنی میں مہارت اور تحقیق کرتے رہے ہیں۔ جب چنگیزیوں نے بغداد اجاڑا تب بھی مسلمان اسی کام میں (زیادہ تر) مصروف تھے۔ اس طویل عرصے میں فقہہ، حدیث، قرآن پر بے تحاشہ کام ہوا ہے۔ ہزاروں لوگوں نے لاکھوں جلدیں اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہیں۔ کیا ہم اتنی صدیوں بعد بھی اتنی افرادی قوت لگا کر بھی قرآن کو نہیں سمجھ سکے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ امت چودہ سو سال کی قرآنی تحقیقات (جو کہ ہمیشہ سے مسلمان حکومتوں کا پسندیدہ تحقیقی شعبہ رہا ہے) کے بعد بھی اتنی بے حال کیوں ہے؟
شاید اس کا حل یہ ہے کہ ہم قرآن پر عمل کریں اور انسانی فائدے کی باتیں سوچیں یعنی سائنسی علوم میں مہارت کی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مغرب کی کامیابیوں پر جلنے کے بجائے اپنے بچوں کو سائنسی علوم میں مہارت دلوائیں۔ یہ ایک بہت لمبا اور کٹھن راستہ ہے جس کے لئیے سب سے زیادہ ضروری چیز ہے اعتراف شکست۔
دیکھئیے اس بارے میں عیسائی اور یہودیوں کا بھی قریبا یہی کہنا ہے۔
میں تو یہ سمجھ کر یہاں اس فورم پر آیا تھا کہ چلو کچھ سائنس کی باتیں پڑھیں گے۔ مگر یہاں بھی وہی بحث چھڑی ہے جس سے میں بہت دلبرداشتہ ہوں۔ اسلئیے سوچا کہ اپنے دل کی بات لکھ دوں۔ مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے لیکن پھر بھی اگر کسی کی دل آزاری ہوجائے تو ان سے گزارش ہے کہ وہ مجھے جاہل سمجھ کر معاف کردیں۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ میری پوسٹ شاید اس فورم کے لحاظ سے مناسب نہیں۔ اگر ذمہ داران مناسب سمجھیں تو اسے کہیں اور منتقل کرسکتے ہیں۔
میں سائنس کے بارے میں کسی مسلمان سے بات کرتے ہوئے گھبراتا ہوں۔ کئی ایک مواقع پر تو ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑجاتے ہیں اور ڈر لگتا ہے کہ کہیں پٹائی ہی نہ ہوجائے۔ ایک دو بار ایسی صورتحال بھی پیدا ہوئی جب میرے ایک دو جذباتی دوست کامیابی کے ساتھ میرے دل میں یہ وہم بٹھانے میں کامیاب ہوگئے کہ سائنس کی اہمیت کے بارے میں مغربی پروپگنڈا مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کرتا ہے اور چونکہ میں اس پروپگینڈے پر یقین رکھتا ہوں اسلئیے میں اچھا مسلمان نہیں ہوں۔
یا پھر وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا مجھے قرآن کے مکمل آسمانی کتاب ہونے میں شک ہے؟ اگر میں کہتا ہوں نہیں تو بھی میں پھنستا ہوں کیونکہ پھر وہ کہیں گے کہ قرآن نے تو آئن اسٹائن کی ساری سائنس چودہ سو سال پہلے پیش کردی تھی۔ اگر میں کہتا ہوں ہاں مجھے شک ہے تب تو میں دائرہ اسلام سے ہی خارج ہوجاتا ہوں۔
ہمارے رشتے داروں میں ایک گھرانہ ہے۔ پہلے وہ بہت مالدار ہوتے تھے لیکن بعد میں وہ آہستہ آہستہ غریب ہوتے گئے اور ان کے کئی قریبی غریب رشتہ دار خوشحال ہوتے گئے۔ ان کا ایک لڑکا ہماری دکان پر اکثر آکر بیٹھتا ہے۔ اپنے والد کے امیری کے دنوں کی بڑی بڑی ڈینگیں مارتا ہے اور جب ہماری برادری کا کوئی ایسا شخص دیکھتا ہے تو عجیب تبصرے کرتا ہے مثلا:
۱۔ نیا نیا پیسہ آیا ہے اسلئیے اترا رہے ہیں۔
۲۔ بندر کے ہاتھ میں ناریل۔
۳۔ باپ کمائی
۴۔ پیسہ تو نائی کے پاس بھی ہوتا ہے۔ وغیرہ
ان کی اس جلن اور حسد کو دیکھ کر لوگ ان سے کتراتے ہیں اور انہیں اپنے پاس نہیں بٹھاتے۔ جس پر وہ الٹا ان لوگوں کو ہی یہ کہہ کر ملزم ٹہراتے ہیں کہ کیونکہ ہم خاندانی لوگ ہیں اور ان کی شوبازیوں میں نہیں آتے اسلئیے یہ ہمیں نہیں پوچھتے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال مسلمانوں کی ہے۔ امت کے عروج کے دور کی داستانیں اب ماند پڑتی نظر آرہی ہیں۔ ہر نئی سائنسی تحقیق کا سہرا مغرب کو بندھنے لگا ہے۔ انسانیت اور ثقافت کا تو مغرب پہلے ہی علمبردار بنا ہوا ہے۔ مسلمان چاہتے ہیں کہ انسانی معاشرے کی ترقی میں امت مسلمہ نے جو کردار ادا کیا ہے بس اسی کے گن گائے جاتے رہیں۔ مگر ظاہر ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیمیا، ریاضی اور طبیعیات بغداد کی مشاہدہ گاہوں سے امریکہ اور یورپ منتقل ہوگئے ہیں اور اب سائنسدان مریخ پر کمند ڈال چکے ہیں۔ نہیں جناب مریخ اور عطارو کی بات نہ کریں بس ہمارے دور عروج کے سائنسدانوں کے کارنامے گاتے رہیں۔
۱۔ ایٹم کا تو قرآن نے پہلے ہی ذکر کردیا ہے فلاں فلاں سورتہ میں۔
۲۔ کائنات کی تشکیل اور انسان کی تخلیق تو قرآن میں بیان ہوچکی ہے۔ ڈارون تو جھوٹا ہے۔
۳۔ سائنسدان اب بتا رہے ہیں کہ پانچ ٹائم ہاتھ دھونے سے انسان تندرست رہتا ہے۔ دیکھا وضو کی افادیت اب سائنس سے بھی ثابت ہوگئی۔
بعض خوش گمانیاں تو اتنی مزاحیہ ہوتی ہیں کہ ان پر لطیفوں کی ایک پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ جیسے یہ اوپر والا بیان نمبر تین ہی دیکھیں۔ یہ بات قطعا نظر انداز کردی جاتی ہے کہ صابن سے ہاتھ دھونے کی افادیت کا ذکر ہوا ہے۔ وضو کے لئیے صابن کا استعمال کوئی شرط نہیں۔
بات دراصل یہ نہیں کہ انسان کو مذہبی ہونا یا نہیں ہونا چاہئیے۔ مجھے اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ اگر ہم یونہی کرتے رہے تو وہ نشاط ثانیہ جس کی ہم راہ تک رہے ہیں، شاید کبھی نہیں آئے گی۔ ایسے وقت میں جب یورپ اور امریکہ میں انسانی اوسط عمر پچھتر سال کو چھورہی ہے ہمارے پاکستان میں ہر دس میں سے ایک بچہ دس سال کی عمر کو پہنچنے تک اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہاں لوگ آج بھی ٹی بی اور ملیریا سے مر رہے ہیں۔ ہمارے یہاں اوسط عمر پچپن سال تک پہنچ رہی ہے اور ہم ذرعی اور صنعتی ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں۔ ہم اتنا اناج پیدا نہیں کرپاتے جتنی ہماری ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں بیروزگاری آسمان کو چھو رہی ہے۔ مہنگائی اتنی ہے کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ہماری گلیاں اور سڑکیں اس وقت بھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
یقینا قرآن شریف اللہ کی کتاب ہے۔ آئیے ہم سب ملکر قرآن شریف پڑھیں تاکہ یہ سب مسائل ختم ہوجائیں۔ ایسے موقع پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ بھائی سمجھ کر پڑھو تو کچھ ہوگا۔
اسلامی دنیا کے تمام ادوار میں اس کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سینکڑوں طالبعلم علوم قرآنی میں مہارت اور تحقیق کرتے رہے ہیں۔ جب چنگیزیوں نے بغداد اجاڑا تب بھی مسلمان اسی کام میں (زیادہ تر) مصروف تھے۔ اس طویل عرصے میں فقہہ، حدیث، قرآن پر بے تحاشہ کام ہوا ہے۔ ہزاروں لوگوں نے لاکھوں جلدیں اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہیں۔ کیا ہم اتنی صدیوں بعد بھی اتنی افرادی قوت لگا کر بھی قرآن کو نہیں سمجھ سکے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ امت چودہ سو سال کی قرآنی تحقیقات (جو کہ ہمیشہ سے مسلمان حکومتوں کا پسندیدہ تحقیقی شعبہ رہا ہے) کے بعد بھی اتنی بے حال کیوں ہے؟
شاید اس کا حل یہ ہے کہ ہم قرآن پر عمل کریں اور انسانی فائدے کی باتیں سوچیں یعنی سائنسی علوم میں مہارت کی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مغرب کی کامیابیوں پر جلنے کے بجائے اپنے بچوں کو سائنسی علوم میں مہارت دلوائیں۔ یہ ایک بہت لمبا اور کٹھن راستہ ہے جس کے لئیے سب سے زیادہ ضروری چیز ہے اعتراف شکست۔
دیکھئیے اس بارے میں عیسائی اور یہودیوں کا بھی قریبا یہی کہنا ہے۔