تبسم
محفلین
ہاہاہاہاہاہااس کی سمجھ نہیں آئی۔
ہاہاہاہاہاہااس کی سمجھ نہیں آئی۔
اپ نے بہت مشکل سوال پوچھ لیا کیوں کے جب گھر کی صفائی کرتے تو کیسی ایک کا سامن نہیں ہوتا اس لیے جس کا ہوتا اس سے پوچھ کر پھنکتی اور رکھتی ہوں
میں اس بات پر سو فیصد متفق ہوں۔
میرے گھر میں سوائے میرے اور کسی کو کتاب پڑھنے کا بالکل شوق نہیں۔ بلکہ میرے ارد گرد میرے جتنے رشتہ دار ہیں، ان میں سے بھی کسی کو یہ شوق نہیں ہے۔ مزید یہ کہ جب سے یہ نئے سیل فون آئے ہیں، انہوں نے لوگوں کو کتاب سے بالکل ہی دور کر دیا ہے۔
روز بادام کھاتے تو سمجھ آجانی تھی اپ کوایک تو تمہاری بات کی سمجھ نہیں آئی، اوپر سے ہاہاہاہاہا کر رہی ہو۔ عجیب لڑکی ہو۔
محمد احمد بھائی اہلیہ کو اپنی دینی کتابوں سے فرصت نہیں ملتی۔ بیٹا موبائل میں اور بیٹی اپنی کرافٹس کے کام میں مشغول رہتے ہیں۔آپ اُنہیں ہمارا مضمون "کتاب پڑھنا کیوں ضروری ہے" پڑھوائیے۔
اس "ہاہاہاہاہا" کا باداموں سے کیا تعلق؟روز بادام کھاتے تو سمجھ آجانی تھی اپ کو
ہاہاہاہاہا نا کروں تو کیا
ہے نہ اپ کے بادام نا کھانے کی وجہ کھا تے تو اپ بھی میری طرح ہاہاہاہا کر تےاس "ہاہاہاہاہا" کا باداموں سے کیا تعلق؟
پتہ نہیں کب سے، لیکن مجھے "وسائل" کو سنبھالنے کی عادت ہے۔اپنے لیے ہی نہیں دوسروں کے لیے بھی۔ اس عادت کی وجہ سے خواری بھی ہوتی ہے لیکن بندہ اپنی عادات کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔
الماری کا ایک خانہ اس لیے بنایا ہوا ہے کہ اس میں ایسی نئی یا پرانی استعمال شدہ اشیاء رکھی جائیں گی جو دینی ہیں۔ یہاں دوستوں، رشتہ داروں، ضرورت مندوں سب کے لیے چیزیں جمع ہوتی اور نکلتی رہتی ہیں۔
جب بھی الماریوں وغیرہ کی پھرولا پھرولی ہوتی ہے، کتابیں کاپیاں اور دیگر سٹیشنری وغیرہ کی ترتیب کی جاتی ہے تو کپڑے، یونیفارم، بستر، اور دیگر چیزیں تو ہوتی ہیں لیکن استعمال شدہ کاپیاں، آدھے چلے مارکرز، رنگین گھسی ہوئی پنسلیں وغیرہ بھی میں نہیں پھینکتی۔۔۔ فلاں چیز فلاں کے بچے کے کام آ جائے گی۔ فلاں طالب علم/طالبہ ریاضی کے لیے یہ رف کاپی استعمال کر سکتا ہے۔ یہ بیٹی کا سوٹ فلاں رشتہ دار کی بیٹی کے کام آ جائے گا۔ اور الحمدللہ یہ سب چیزیں کام آتی بھی ہیں۔ بھرے پیٹ والے نہیں جانتے کہ خالی پیٹ کی بھوک کیسی محسوس ہوتی ہے سو ایک صفحہ خالی اور ایک صفحہ لکھا بھی ہو تو بھی ایسا رجسٹر ملنے کی خوشی ہوتی ہے کہ رف کاپی لینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے۔
لیکن اس کے باوجود بھی میرے پاس ایسی بظاہر بیکار اشیاء کا ڈھیر رہتا ہے۔ بہت سی تصاویر کی کٹنگ، پرانی نصاب کی کتابیں(سب نہیں، صرف وہی جو اب نصاب میں نہیں اور میرے بھتیجوں کے کام آ سکتی ہیں) اور کئی ایسی چیزیں جو آرٹ کی چیزیں بنانے میں کام آتی ہیں۔ میرے بچے چھوٹے تھے تو ان کے کام آتی تھیں۔ اب بھتیجوں کے اور طالبات کے کام آتی ہیں۔۔۔۔۔
پتہ نہیں کب سے، لیکن مجھے "وسائل" کو سنبھالنے کی عادت ہے۔اپنے لیے ہی نہیں دوسروں کے لیے بھی۔ اس عادت کی وجہ سے خواری بھی ہوتی ہے لیکن بندہ اپنی عادات کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے۔
دوسرو ں کیا خیال کیسے رکھا جائے ، یہ آپ سے سیکھنا چاہیے۔
اللہ آپ کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے۔ آمین
احمد بھائی ، ترکیب تو اچھی ہے لیکن ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ چند ہفتوں کے بعد آپ کو الٹے لٹکے ہوئے تمام سوٹ سیدھے لٹکے نظر آئیں ۔کپڑوں کی الماری کی صفائی / چھانٹنے کا ایک طریقہ یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ اپنی الماری میں تمام سوٹ ہینگر میں الٹ کر لٹکا دیں (یعنی اُن کا منہ پیچھے کی طرف ہو) ۔ اب جو جو سوٹ آپ پہننے کے لئے نکالیں اُنہیں اگلی بار سے سیدھا ہینگ کریں۔ کچھ عرصے بعد آپ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے کچھ سوٹ ابھی بھی آپ سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ بس یہی وہی سوٹ ہیں کہ جو آپ نہیں پہنتے۔ آپ ان سے جان چھڑا سکتے ہیں۔
بالکل یہی وجہ ہے کہ میں ہر ایک دو سال کے بعد اپنی پرانی غزلیں محفل میں پھینک دیتا ہوں ۔اسی طرح چیزوں کو رکھنے یا پھینکنے کے لئے "ایک سالہ فارمولا" اپنایا جاتا ہے۔ یعنی جو چیز آپ کے ہاں رکھی رہے اور ایک سال تک کسی کام نہ آئے تو اُس سے آپ جان چھڑا لیں۔
یہ الگ بات کہ کچھ چیزیں برسوں بعد کام آجاتی ہیں۔
لیکن اُنہیں اتنے عرصے رکھے رہنے کی بھی ایک قیمت بہرحال ہوتی ہے۔
بیٹسی ڈیووس کی جگہ؟جاسمن برائے وفاقی وزیرِ تعلیم!
آمین!اللہ آپ کو اجرِ عظیم عطاء فرمائے۔ آمین
جاسمن برائے وفاقی وزیرِ تعلیم!
میرے اور اہلِ خانہ کے ساڑھے سات ہزار ووٹ خواہرم جاسمن کے لئے ۔