الف نظامی

لائبریرین
دجلہ خوں کشمیر
ستم و جور وہی
رگ جاں بھی وہی نشتر بھی وہی
دست اغیار میں خنجر بھی وہی
دیکھتا ہوں کہ مرے شہر کے بازاروں میں
قلزم کفر سے امڈی ہوئی ہے اک موج فنا
اسی انداز سے پھر ابھری ہے
ہر قدم خون میں نہلائے ہوئے پیکر ہیں
نئے انداز سے پھر فصل بہار آئی ہے
موت کس کس کو پکار آئی ہے

کیسا جذبہ ہے کہ جو خانہ زنجیر کا پابند نہیں
پھر امڈ آئی ہے بازاروں میں
موت پر خندہ کناں
اک تمنائے جواں
لب پہ آجائے تو اک نعرہ مستانہ ہے
ہاتھ میں آئے تو اک خشت جنوں بنتی ہے
دل میں آجائے تو اک ولولہ نو کی طرح
در و دیوار ہلا جاتی ہے
سوئی قسمت کو جگا جاتی ہے
کوئی دیکھے تو مرے شہر کے بازاروں میں
دجلہ خوں تو رواں آج بھی ہے
رسم شبیر جواں آج بھی ہے

از احمد شمیم
 
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رُہبانی

یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری
 

زبیر مرزا

محفلین
منیر نیازی کے بعد دوسرے شاعر ہیں احمد شمیم جو ہر مصرعے پر حیران کرتے ہیں
نظم کہنے میں ان جواب نہیں اور موضوعات ایک سے بڑھ کر ایک
 
Top