ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا خوبصورت عکاسی ہے ! نظر صاحب کی شاعری کی نمایاں اور خاص بات شکوہِ الفاظ ہے اور یہ خوبی اس نظم میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے ۔ واہ !

بہت شکریہ بہن۔
پھوپھی مرحومہ نے یہ نظم با قاعدہ خطاط سے لکھوا کر فریم کروائی تھی۔ جو کہ اب تک ان کے گھر میں دیوار پر موجود ہے۔

تابش بھائی ، یہ بھی ہماری تہذیبی روایات میں سے ایک خوبصورت روایت ہے ۔ سالوں پہلے میں نے بھی اپنی ایک بھانجی کی رخصتی لکھی تھی ۔ شادی کی تقریب میں خود تو جاکر نہ سنا سکا لیکن پڑھی گئی تھی اور اسی طرح فریم بند کرکے ساتھ روانہ کی گئی تھی ۔ اب تو سہرے اور رخصتی کی روایت بھی ختم ہوتی جارہی ہے ۔
 
کیا خوبصورت عکاسی ہے ! نظر صاحب کی شاعری کی نمایاں اور خاص بات شکوہِ الفاظ ہے اور یہ خوبی اس نظم میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے ۔ واہ !
بہت شکریہ ظہیر بھائی۔
تابش بھائی ، یہ بھی ہماری تہذیبی روایات میں سے ایک خوبصورت روایت ہے ۔ سالوں پہلے میں نے بھی اپنی ایک بھانجی کی رخصتی لکھی تھی ۔ شادی کی تقریب میں خود تو جاکر نہ سنا سکا لیکن پڑھی گئی تھی اور اسی طرح فریم بند کرکے ساتھ روانہ کی گئی تھی ۔ اب تو سہرے اور رخصتی کی روایت بھی ختم ہوتی جارہی ہے ۔
جی ایسا ہی ہے۔ رواج بدل گئے ہیں۔ دسمبر میں ماموں زاد بھائی کی شادی تھی۔ ہمارے ایک اور ماموں شاعری کا "شوق" رکھتے ہیں، ردیف اور قافیہ ملا لیتے ہیں۔ :)
انہوں نے سہرا لکھا اور پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ مگر دیر مصرفیات میں سہرا پڑھنے کی نوبت نہ آئی۔ بعد میں ان کا دل رکھنے کے لیے گھر میں ہم نے ان سے سہرا سنا۔ :)
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
یہ نظم دادا مرحوم نے اپنی بیٹی (میری پھوپھی مرحومہ) کی رخصتی کے موقع پر لکھی۔ احبابِ محفل کے ذوق کی نذر:
رخصتی

نورِ عینی لختِ دل پاکیزہ سیرت نیک نام
بنتِ خوش اختر مری ہوتا ہوں تجھ سے ہم کلام
عقد تیرا کر دیا بر سنتِ خیر الانامؐ
آج تو ہم سے جدا ہو جائے گی تا وقتِ شام

دل میں اک طوفانِ غم ہے روح میں اک اضطراب
ہے طبیعت میں تکدر بے نہایت بے حساب
آگ سی سینے میں ہے اک ہے جگر میں التہاب
اک تری فرقت سے اف برپا ہیں کتنے انقلاب

ہے تری دنیائے دل میں ہر طرف غم کا غبار
از وفورِ سیلِ غم آنکھیں تری ہیں اشک بار
چھٹ رہا ہے گھر تری بے چینیوں کا کیا شمار
لیکن اے بیٹی سنبھل خود کو نہ کر یوں دلفگار

سن توجہ سے ذرا اے دخترِ شیریں دہن
باپ کا گھر بیٹیوں کے حق میں ہے مثلِ چمن
جب جوانی کی بہار آ جائے اے گل پیرہن
چھوڑنا پڑتا ہے یہ صحنِ چمن بن کر دلہن

میں خبر دیتا ہوں تجھ کو دخترِ غمگیں مری
تیرگئ غم کے پس منظر میں ہے اک روشنی
ساغرِ تلخِ الم میں ہے نہاں کیفِ خوشی
ختم ہے پامال منزل آگئی منزل نئی

میہماں تھی تو یہاں اب تجھ کو تیرا گھر ملا
اب قدم باہر نہ نکلیں جس سے ایسا در ملا
ایک پاکیزہ گھرانہ نیک دل شوہر ملا
شکر واجب تجھ پہ ہے سب کچھ تجھے بہتر ملا

تو کہ تھی محروم لے ماں کی محبت مل گئی
اپنے والد کی طرح ایک اور شفقت مل گئی
پانچ بھائی اور دو بہنوں کی الفت مل گئی
رحمتِ حق سے تجھے ہر شے بکثرت مل گئی

ہے خسر تیرا سبحان اللہ غلامِ آں رسولؐ
ایک سادہ دل مسلماں آدمی اک با اصول
ہو گئیں میری دعائیں سب ترے حق میں قبول
کیوں نصیبِ دشمناں ہوتی ہے تو اتنی ملول

رخصتی کو جمع ہیں کیا اقربا کیا دوسرے
جمگھٹا مردوں کا بھی ہے عورتوں کے بھی پرے
ماں تری لاؤں کہاں سے جو تجھے رخصت کرے
اف پرانے زخم دل کے ہو گئے اس دم ہرے

رخصتی کا مرحلہ لاریب ہے دشوار و سخت
آ کہ سینہ سے لگا لوں اے مری فرخندہ بخت
دیر اب کیوں کر رہی ہے لے سنبھال اپنا یہ رخت
ہو مبارک تجھ کو بیٹی اپنے گھر کا تاج و تخت

اے مرے نوشاہِ خوش خو اے مرے بیٹے رفیق
آ کہ پیشانی پہ بوسہ دوں بہ جذباتِ عمیق
ہے قسم اس ذات کی مجھ کو جو ہے بے حد شفیق
ہم سفر تو نے جو پایا ہے ہنر مند و خلیق

ہے دعا گو اب نظرؔ دونوں سدا شاداں رہو
غم نہ بھٹکے پاس کوئی خوش رہو خنداں رہو
دہر کی نیرنگیوں میں دین کے خواہاں رہو
با مراد و کامراں دونوں بہ ہر عنواں رہو

محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی​
سبحان اللہ ۔۔۔۔انتہائی خوبصورتی سے جذبات کا اظہار
 

سیما علی

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت انداز میں ایک والد کے جذبات کی ترجمانی ۔۔اب سہرا اور رخصتی آہستہ آہستہ لکھنا بہت کم ہوگیا ہے ۔۔۔
 
Top