رباعی: عالم یہ ہوا کہ تنہا غم میں اکثر

ن

نامعلوم اول

مہمان
عالم یہ ہوا کہ تنہا غم میں اکثر
جلتا ہوں بہ آتشِ دل میں خستہ جگر
دوپہر میں گرمیوں کی جیسے کاملؔ
بے سایہ سڑک پہ کوئی تپتا پتھّر​
 

محمد وارث

لائبریرین
اس کا دوسرا مصرع دیکھ لیجے گا، شاید مجھے ہی تسامح ہو رہا ہے لیکن رباعی کی بحر میں نہیں لگ رہا۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
اس کا دوسرا مصرع دیکھ لیجے گا، شاید مجھے ہی تسامح ہو رہا ہے لیکن رباعی کی بحر میں نہیں لگ رہا۔
وارث صاحب۔ زہے نصیب کہ آپ سا صاحب علم مخاطب ہوا۔ آپ کی تحریروں سے یہ عاجز خوب کسبِ فیض کرتا رہا ہے۔

جہاں تک رباعی کے وزن کا تعلق ہے، تو اس معاملے میں میں کافی سے زیادہ بدعتی واقع ہوا ہوں۔ میں نے ابتدا میں ہی یہ قاعدہ بنا لیا کہ کبھی رباعی کہہ کر اس کی تقطیع نہ کروں گا۔ سو جو اپنے کانوں کو بھلا لگتا، ویسا لکھ ڈالتا۔ ساتھ ہی ذہن میں یہ بات تھی کہ "رباعی" دراصل ایک "معنوی" صنف ہے، جو ایک خاص موڈ اور مقصد کو ظاہر کرتی ہے۔ اور وہی موڈ اس کی بحروں میں بھی جھلکتا ہے۔ بس یہ تھی میری فکر اورساتھ خوش فہمی یہ تھی کہ ایک دن ایسی رباعیات زبانِ اردو میں لکھوں گا کہ عروضی اور مستقبل کے شاعر قائل ہو جائیں گے اور پچھلے چوبیس اوزان چھوڑ کر ، رباعی کے موڈ کے مطابق، نئی نئی بحروں میں رباعی لکھیں گے ۔ پھر یہ بھی سوچا کیا کہ چوبیس اوزان بھی تو ہم جیسے انسانوں ہی نے بنائے ہیں۔ تو ہم کیوں نہ مناسب اضافہ کریں۔ بس اسی سرمستی میں مگن رباعی کہتا رہا۔ پھر میں ان معاملات میں انگریزی شاعروں کی روش کا تتبع کرتا ہوں جو معنی اور موڈ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ آپ ذرا فٹزجیرالڈ کے خیام کی رباعیات کے تراجم دیکھیں۔ کسی اردو شاعر کی رباعیات میں ہے وہ دم؟

مزید، غالب کی "دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب" والی رباعی بھی ابتدا ہی سے ذہن میں رہی۔ مجھے یقین ہے کہ غالب نے صد فیصد وہی روش اپنائی ہو گی جو میرا قاعدہ ہے۔ یعنی رباعی کو چوبیس اوزان میں محدود نہ سمجھا۔ غالب کے لیے شاید اپنے دور کی مناسبت سے کھل کر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اور وہ یہیں پر رک گیا۔ پھر وہ رباعی کا شاعر بھی نہ تھا۔ مگر مجھے یقینا اس نئے دور میں ایسی کسی پابندی کا سامنا نہیں۔ اور میں خود کو رباعی کے بڑا قریب بھی پاتا ہوں۔ اسی سبب سے میں اس ضمن میں غالب کی نسبت تجربات کا زیادہ مشتاق ہوں۔

اب تو زمانہ ہوا شعر لکھنا موقوف کیا مگر ارادہ اب بھی یہی ہے کہ اگر پھر رباعی لکھی، تو پچھلی روش پر ہی چلوں گا۔ اگر مقصد میں کامیاب رہا، تو زہے عزوشرف۔ وگرنہ پھر کیا فرق پڑتا ہے!

اب آپ خود بتائیں، جب سر مستی و جذب و شو ق کا یہ عالم ہو تو تقطیع کیوں کر ہو گی!

البتہ آپ سے ایک گزارش کرتا ہوں کہ تقطیع کو ذہن سے نکال کر اس رباعی کو دو چار مرتبہ پڑھیں۔ براہِ کرم پھر مجھے مطلع فرمائیں کہ اب بھی کانوں کو بری لگتی ہے کہ بھلی۔ آپ کی رائے کا منتظر رہوں گا۔

فقط آپ کا خادم۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جی افسوس کہ میں اس سلسلے میں تھوڑا سا قدامت پسند یا بنیاد پرست واقع ہوا ہوں۔ اگر رباعی ہے تو رباعی ہے وگرنہ نہیں ہے۔

ویسے ایسی کوئی صورتحال ہو تو بہتر ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا سا نوٹ ساتھ لکھ دیا جائے، جیسا کہ عموماً شعرا کرتے ہیں۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جی افسوس کہ میں اس سلسلے میں تھوڑا سا قدامت پسند یا بنیاد پرست واقع ہوا ہوں۔ اگر رباعی ہے تو رباعی ہے وگرنہ نہیں ہے۔
ویسے ایسی کوئی صورتحال ہو تو بہتر ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا سا نوٹ ساتھ لکھ دیا جائے، جیسا کہ عموماً شعرا کرتے ہیں۔

کوشش کروں گا کہ جب کبھی اپنی رباعیات چھپواؤں، ساتھ ہی ایک مقدمہ بھی لکھوں جس میں کچھ لطائف اور اپنی ذاتی پسند، نا پسند کا ذکر ہو۔ آپ کی قدامت پسندی کو سمجھنا میرے لیے چنداں مشکل نہیں، کہ طویل عرصے اساتذہ کی باتیں پڑھتا رہا ہوں۔ آپ کے پیغام ملنے کا بعد بھی اس رباعی کو متعدد بار پڑھا۔ اس ناچیز کو تو ہر بار مزہ دیتی ہے۔ کوئی جھول معلوم نہیں ہوتا۔ سو میں تو یہی نتیجہ اخذ کرتا ہوں، کہ جس نے پہلے پہل چوبیس اوزان مقرر کیے، اس نے غلط کیا۔ اب اس کی غلطی کی سزا بعد والے کیوں بھگتیں۔ غالب سے بڑا کوئی شاعر نہیں، جس کی سند لائی جائے۔

میں تو اپنی طرف سے مستقبل کے قاری کے لیے لکھ رہا ہوں! اپنے اندازے کے غلط ثابت ہونے پر نہ حیران ہوں گا نہ متاسف۔ شاعری کوئی میرا پیشہ تو ہے نہیں جو کسی قسم کا مسئلہ ہو۔ ایک شوق ہے، جو شوقِ فضول کی حد سے آگے نہ بڑھا تب بھی مجھے کوئی غم نہیں۔

آپ کی رائے میرے لیے ہر حال میں قابل احترام بھی ہے، اور مفید بھی۔ شکریہ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ کاشف صاحب اپنے خیالات سے آگاہی کیلیے۔

فقط یہ کہ ایک طرف آپ کلاسیکی روایات کا تتبع کرتے ہیں بلکہ آپ کی غزل میں بھی وہی رنگ نمایاں ہے اور جدیدیت کے متعلق آپ کے کچھ ارشادات جاننے کا موقع ملا تھا اور دوسری طرف یہ کہ صدیوں سے قائم رباعی کی روایت کو ایک مصرعے پر قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اور رباعی کے چوپیس اوزان والی غلطی بھی آپ نے خوب کہی، اس طرح تو سارا نظام اور ڈھانچہ ہی زمین بوس ہو جاتا ہے اور نثری نظم عظیم ترین تخلیق قرار پاتی ہے۔ خیر یہ آپ کی رائے ہے جس سے ظاہر ہے سب متفق نہیں ہو سکتے۔

فقط ایک گزارش یہ کہ غالب کا جو مذکورہ مصرع آپ اپنے جواز میں سند کے طور پر لا رہے ہیں، اس پر آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ غالب نے رباعی کا نیا وزن اختراع کرنے کی کوئی کوشش کی تھی۔ غالب کے "سخن فہم" ناقدین کا یہ ماننا ہے کہ یہ غالب کی عروضی غلطی تھی جب کہ غالب کے "طرف داروں" کا یہ کہنا ہے کہ یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے بلکہ غالب نے لفظ بند کا تلفظ فع کے وزن پر کیا ہے اور اس طرح مذکورہ مصرع رباعی کے اوزان میں آ جاتا ہے لیکن کسی نے بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جو آپ نکال رہے ہیں۔

خیر، قبلہ مذکورہ چار مصرعے آپ کے اپنے ہیں اور انتہائی ذاتی تخلیق جو جیسا مناسب سمجھیں ان کے ساتھ سلوک کریں۔

میرے خیال میں، میں نے جو عرض کرنا تھا کر چکا۔

والسلام مع الاکرام
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
شکریہ کاشف صاحب اپنے خیالات سے آگاہی کیلیے۔

فقط یہ کہ ایک طرف آپ کلاسیکی روایات کا تتبع کرتے ہیں بلکہ آپ کی غزل میں بھی وہی رنگ نمایاں ہے اور جدیدیت کے متعلق آپ کے کچھ ارشادات جاننے کا موقع ملا تھا اور دوسری طرف یہ کہ صدیوں سے قائم رباعی کی روایت کو ایک مصرعے پر قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اور رباعی کے چوپیس اوزان والی غلطی بھی آپ نے خوب کہی، اس طرح تو سارا نظام اور ڈھانچہ ہی زمین بوس ہو جاتا ہے اور نثری نظم عظیم ترین تخلیق قرار پاتی ہے۔ خیر یہ آپ کی رائے ہے جس سے ظاہر ہے سب متفق نہیں ہو سکتے۔

فقط ایک گزارش یہ کہ غالب کا جو مذکورہ مصرع آپ اپنے جواز میں سند کے طور پر لا رہے ہیں، اس پر آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ غالب نے رباعی کا نیا وزن اختراع کرنے کی کوئی کوشش کی تھی۔ غالب کے "سخن فہم" ناقدین کا یہ ماننا ہے کہ یہ غالب کی عروضی غلطی تھی جب کہ غالب کے "طرف داروں" کا یہ کہنا ہے کہ یہ غالب کی عروضی غلطی نہیں ہے بلکہ غالب نے لفظ بند کا تلفظ فع کے وزن پر کیا ہے اور اس طرح مذکورہ مصرع رباعی کے اوزان میں آ جاتا ہے لیکن کسی نے بھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جو آپ نکال رہے ہیں۔

خیر، قبلہ مذکورہ چار مصرعے آپ کے اپنے ہیں اور انتہائی ذاتی تخلیق جو جیسا مناسب سمجھیں ان کے ساتھ سلوک کریں۔

میرے خیال میں، میں نے جو عرض کرنا تھا کر چکا۔

والسلام مع الاکرام

محمد وارث صاحب آپ کی رائے یقینا علم اور منطق پر قائم ہے۔ دوسری طرف میری رائے کا منبع سراسر "وجدان" اور ذاتی پسند ہے۔ اب اس صورت میں ظاہر ہے علمی بحث تو ہونے سے رہی۔ ہاں خیالات کا تبادلہ ضرور ہو سکتا تھا، جو بہت خوب ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دھاگا نئے لکھنے والوں کی لیے بڑی مفید معلومات کا ذخیرہ ثابت ہو گا۔

میری غالب والی سند کو اگر آپ سند نہیں سمجھتے، تو میں اس پر ہر گز اصرار نہ کروں گا۔ وہ میری ذاتی رائے ہے جس کا ماخذ عام منطق پر مبنی ایک ذہنی تجزیہ ہے۔ ظاہر ہے عروضیوں کے نزدیک منطق ایک غیر متعلق علم ہے۔

ایک بات کی ذرا سی تفصیل البتہ ضرور پیش کروں گا تا کہ جدیدت کے بارے میں میری رائے واضح ہو سکے۔ اگرچہ ایک مختصر پیغام میں سارے تفاصیل نہیں سمیٹ سکتا، مگر یہ ضرور کہوں گا، کہ میں کسی طور "جدیدیت زدگی" کا قائل نہیں۔ اور اب بھی اس باب میں اپنی پرانی رائے پر قائم ہوں اور رہوں گا۔ "جدیدیت زدگی" سے میری مراد کم علمی، سُستی اور بے ہنری پر مشتمل ادب ہے جس میں اپنی خرابیوں کو چھپانے کے لیے"جدیدیت" کا نام استعمال لیا جائے۔ چونکہ یہ موضوع تفصیل طلب ہے، اس لیے میں چاہوں گا کہ کبھی ہمت ہوئی اور وقت ملا تو "جدیدت" کے بارے میں اپنی رائے ایک کتابچے کے شکل میں لکھ کر پیش کر سکوں۔ المختصر، اپنے پڑھنے والوں سے یہی درخواست کروں گا کہ میری "جدیدیت" کو نئے دور کی "جدیدیت زدگی" سے نہ ملائیں، کیونکہ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔

آپ کی یہ بات درست ہے کہ میں شاعری میں کلاسیکی روایات کی پاسداری کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن آپ نے شاید اس بات کا مشاہدہ بھی کیا ہو، کہ میں نے یہاں بھی تجربات سے گریز نہیں کیا۔ زیرِ نظر رباعی ہی کو لے لیں: "بے سایہ سڑک پہ کوئی تپتا پتھر" بالکل نئی بات ہے۔ اس سے پہلے کم سے کم میری نظر سے تو ایسی بات نہیں گزری۔ پھر وہ "سنہرے بادلوں اور بالوں" والی غزل بھی نظر میں رہے۔ یہ بھی تو جدیدیت ہی ہے!
 
Top