تسکین اوسط والا اصول جس طرح ارکانِ عروض میں جاری ہوتا ہے۔۔۔
کیا شعر کی لفظی ساخت میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
مثال کے طور پر لفظ ”ام سلمہ“ کو فاعلاتن کے مقابل رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟( ”سلمہ“ میں اصلا ”ل“ مفتوح ہے۔)
مثلا:
ابو سلمہ اور سلمہ دونوں جدا تھے
اور ان سے بہت دور تھیں ام سلمہ

کیا یہ شعر خارج از وزن مانا جائے گا؟
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
تسکین اوسط والا اصول جس طرح ارکانِ عروض میں جاری ہوتا ہے۔۔۔
کیا شعر کی لفظی ساخت میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
مثال کے طور پر لفظ ”سلمہ“ کو فاعلاتن کے مقابل رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟( ”سلمہ“ میں اصلا ”ل“ مفتوح ہے۔)
مثلا:
ابو سلمہ اور سلمہ دونوں جدا تھے
اور ان سے بہت دور تھیں ام سلمہ
کیا یہ شعر خارج از وزن مانا جائے گا؟
@محمداسامہ سرسری بھائی۔
یہ تو ایک عمومی سا قاعدہ ہے لفظی ساخت کے لحاظ سے فائدہ تو تمام ممکنہ تحریفات (لچک وغیرہ) سے اٹھا یا جاسکتا ہے لیکن یہ سیاق و سباق پر منحصر ہو گا ،جس میں لفظ کی مکمل نوعیت اور مستعمل حروف کے مخارج و اصوات وغیرہ جواز و عدم جواز کو متعین کریں گے۔اس میں آراء مختلف ہو نا بھی عین ممکن ہو گا۔
سَلَمہ کو فاعلاتن پر باندھا جانا شاید کسی بھی صورت میں ممکن نہ ہوگا تاہم کسی مثال سے حتمی طور پر واضح ہو گا۔
مندرجہ بالا شعر مجھے تو شعری و بحری حدود سے متجاوز نہیں لگ رہا۔ اس ضمن میں مسدس حالی پہ ایک طائرانہ نگاہ بھی ڈالی جاسکتی ہے۔
 
@محمداسامہ سرسری بھائی۔
یہ تو ایک عمومی سا قاعدہ ہے لفظی ساخت کے لحاظ سے فائدہ تو تمام ممکنہ تحریفات (لچک وغیرہ) سے اٹھا یا جاسکتا ہے لیکن یہ سیاق و سباق پر منحصر ہو گا ،جس میں لفظ کی مکمل نوعیت اور مستعمل حروف کے مخارج و اصوات وغیرہ جواز و عدم جواز کو متعین کریں گے۔اس میں آراء مختلف ہو نا بھی عین ممکن ہو گا۔
سَلَمہ کو فاعلاتن پر باندھا جانا شاید کسی بھی صورت میں ممکن نہ ہوگا تاہم کسی مثال سے حتمی طور پر واضح ہو گا۔
مندرجہ بالا شعر مجھے تو شعری و بحری حدود سے متجاوز نہیں لگ رہا۔ اس ضمن میں مسدس حالی پہ ایک طائرانہ نگاہ بھی ڈالی جاسکتی ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
اصل میں میں ام سلمہ لکھنا چاہ رہا تھا۔ لفظ ام لکھنے سے رہ گیا۔ میں نے تدوین کردی ہے۔
یعنی آپ کی بات کا خلاصہ میں یہ نکالوں کہ سلمہ کے ل کو بوقت ضرورت ساکن مانا جاسکتا ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جزاکم اللہ خیرا۔
اصل میں میں ام سلمہ لکھنا چاہ رہا تھا۔ لفظ ام لکھنے سے رہ گیا۔ میں نے تدوین کردی ہے۔
یعنی آپ کی بات کا خلاصہ میں یہ نکالوں کہ سلمہ کے ل کو بوقت ضرورت ساکن مانا جاسکتا ہے؟
میں یہ بات اس طرح کہنا چاہوں گا کہ یہ بحر سلمہ کے لام کو ساکن نہیں کر رہی بلکہ مفتوح رہتے ہوئے اپنے اندر جگہ اور اجازت دے رہی ہے۔:)
 
آخری تدوین:
میں یہ بات اس طرح کہنا چاہوں گا کہ یہ بحر سلمہ کے لام کو ساکن نہیں کر رہی بلکہ مفتوح رہتے ہوئے اپنے اندر جگہ اور اجازت دے رہی ہے۔:)
بحر کے ارکان ہیں:
فعولن فعولن فعولن فعولن

ابوسلمہ اور سلمہ دونوں جدا تھے
ابو سل ۔۔۔ فعولُنُ
مَ اُر سل ۔۔۔ فعولُنُ

یعنی کیا اس بحر میں ارکان کا ”ن“ متحرک کیا جاسکتا ہے؟
مزمل شیخ بسمل
 
تسکین اوسط والا اصول جس طرح ارکانِ عروض میں جاری ہوتا ہے۔۔۔
کیا شعر کی لفظی ساخت میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
مثال کے طور پر لفظ ”ام سلمہ“ کو فاعلاتن کے مقابل رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟( ”سلمہ“ میں اصلا ”ل“ مفتوح ہے۔)
مثلا:
ابو سلمہ اور سلمہ دونوں جدا تھے
اور ان سے بہت دور تھیں ام سلمہ

کیا یہ شعر خارج از وزن مانا جائے گا؟

یہ شیوہ ہے اہل فارس کا۔ دراصل وہ لوگ اصلی الفاظ (قطع نظر عروضی ارکان کے) کو بھی تسکین اوسط سے معلول کرتے ہیں۔ اب جو لوگ اس اصول سے آشنا نہیں وہ اکثر اشعار کو نہ ترنم میں پڑھ پاتے ہیں ہیں نہ اس امر سے ہی واقف ہیں۔
یہاں ایک مثال میرے ذہن میں فوری طور پر آگئی ہے، دیکھو خاقانی جیسے جلیل القدر شاعر کا شعر ہے:

آنکہ آں چشمۂ حیواں پسِ ظلمات مدر
تشنگاں را رہِ ظلمات مدر بگشاید

اب دیکھو اس شعر سے کس قدر کھل کر یہ بات سامنے آگئی ہے تسکین اوسط عام الفاظ میں بھی موجود ہے۔ لفظ ظلمات کو دو مرتبہ دونوں مصرعوں میں لام ساکن باندھا ہے۔ حالانکہ یہ متحرک تھا۔ دوسری بات کہ بہ گشاید میں گاف اصلی حالت میں کسی طور ساکن ممکن نہیں کیونکہ گاف سے تو لفظ شروع ہے۔ لیکن گاف حرکت سے پڑھیں تو مصرع خارج از بحر ہوگا۔ یہاں ب گ ش کے تین متحرکات میں درمیان ساکن کردیا، یوں گاف ساکن ہوا۔ اور یہ عمل حافظ، سعدی اور دوسرے شاعروں کے یہاں عام ہے۔ کہیں بہ گشاید کو بگ شاید۔ کہیں بہ کجا کو بک جا وعلی ہذا القیاس۔ اہل فارس کو جب بھی ضرورت ہو (اور جیسا کہ واضح کیا کہ یہ ضرورت انہیں اکثر پیش آتی ہے) تو درمیان کے متحرک کو ساکن کرکے دونوں بازؤوں کی حرکت سے کام چلالیتے ہیں۔ اسی کو تسکین اوسط کہا جاتا ہے۔
اب اس لسانی رویے کی توسیع مشہور محقق نصیر الدین طوسی نے عروض میں کر دی ہے۔ اور یہ اجازت با قاعدہ منضبط کردی کہ کسی رکن میں تین متوالی حرکات ہوں تو درمیان والی حرکت کو عروضی ارکان میں ساکن کیا جاسکتا ہے۔ محقق طوسی نے باقاعدہ تسکین اوسط کا قاعدہ پہلی بار عروض میں متعارف کروایا تھا لیکن حقیقت میں یہ رودکی سے خاقانی، اور خاقانی سے سعدی تک شعرا کا معمول تھا۔ بس محقق نے یہ شرط رکھی جو یاد رکھنے کی بات ہے کہ جہاں بحر بدل جائے وہاں تسکین اوسط کا استعمال جائز نہیں۔
امید ہے میں آپ کی بات کا جواب دینے میں کامیاب رہا ہوں۔
 
یہ شیوہ ہے اہل فارس کا۔ دراصل وہ لوگ اصلی الفاظ (قطع نظر عروضی ارکان کے) کو بھی تسکین اوسط سے معلول کرتے ہیں۔ اب جو لوگ اس اصول سے آشنا نہیں وہ اکثر اشعار کو نہ ترنم میں پڑھ پاتے ہیں ہیں نہ اس امر سے ہی واقف ہیں۔
یہاں ایک مثال میرے ذہن میں فوری طور پر آگئی ہے، دیکھو خاقانی جیسے جلیل القدر شاعر کا شعر ہے:

آنکہ آں چشمۂ حیواں پسِ ظلمات مدر
تشنگاں را رہِ ظلمات مدر بگشاید

اب دیکھو اس شعر سے کس قدر کھل کر یہ بات سامنے آگئی ہے تسکین اوسط عام الفاظ میں بھی موجود ہے۔ لفظ ظلمات کو دو مرتبہ دونوں مصرعوں میں لام ساکن باندھا ہے۔ حالانکہ یہ متحرک تھا۔ دوسری بات کہ بہ گشاید میں گاف اصلی حالت میں کسی طور ساکن ممکن نہیں کیونکہ گاف سے تو لفظ شروع ہے۔ لیکن گاف حرکت سے پڑھیں تو مصرع خارج از بحر ہوگا۔ یہاں ب گ ش کے تین متحرکات میں درمیان ساکن کردیا، یوں گاف ساکن ہوا۔ اور یہ عمل حافظ، سعدی اور دوسرے شاعروں کے یہاں عام ہے۔ کہیں بہ گشاید کو بگ شاید۔ کہیں بہ کجا کو بک جا وعلی ہذا القیاس۔ اہل فارس کو جب بھی ضرورت ہو (اور جیسا کہ واضح کیا کہ یہ ضرورت انہیں اکثر پیش آتی ہے) تو درمیان کے متحرک کو ساکن کرکے دونوں بازؤوں کی حرکت سے کام چلالیتے ہیں۔ اسی کو تسکین اوسط کہا جاتا ہے۔
اب اس لسانی رویے کی توسیع مشہور محقق نصیر الدین طوسی نے عروض میں کر دی ہے۔ اور یہ اجازت با قاعدہ منضبط کردی کہ کسی رکن میں تین متوالی حرکات ہوں تو درمیان والی حرکت کو عروضی ارکان میں ساکن کیا جاسکتا ہے۔ محقق طوسی نے باقاعدہ تسکین اوسط کا قاعدہ پہلی بار عروض میں متعارف کروایا تھا لیکن حقیقت میں یہ رودکی سے خاقانی، اور خاقانی سے سعدی تک شعرا کا معمول تھا۔ بس محقق نے یہ شرط رکھی جو یاد رکھنے کی بات ہے کہ جہاں بحر بدل جائے وہاں تسکین اوسط کا استعمال جائز نہیں۔
امید ہے میں آپ کی بات کا جواب دینے میں کامیاب رہا ہوں۔
خلاصہ یہ کہ لفظی ساخت میں بھی اگر تین حرکتیں یکجا ہوں تو تسکین اوسط کیا جاسکتا ہے۔
لہٰذا میرا یہ شعر الفاظ میں تسکین اوسط کی رو سے درست اور خارج از بحر ہونے سے محفوظ ہے:
ابو سلمہ اور سلمہ دونوں جدا تھے
اور ان سے بہت دور تھیں ام سلمہ
 
خلاصہ یہ کہ لفظی ساخت میں بھی اگر تین حرکتیں یکجا ہوں تو تسکین اوسط کیا جاسکتا ہے۔
لہٰذا میرا یہ شعر الفاظ میں تسکین اوسط کی رو سے درست اور خارج از بحر ہونے سے محفوظ ہے:
ابو سلمہ اور سلمہ دونوں جدا تھے
اور ان سے بہت دور تھیں ام سلمہ

جی ایسا ہی ہے۔
 
ایک سوال اور تکلیف کی معذرت کے ساتھ۔
میں صحابیات کرام رضی اللہ عنہن کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں جس کے کچھ حصے ہوں گے ہر حصے میں پانچ یا چھ صحابیات کا ذکر ہوگا۔
ہر صحابیہ کے بارے میں کچھ واقعات ، ایک نظم اور دیگر معلومات مذکور ہوں گی۔
اس کتاب کا نام تجویز کیا ہے:
صحابیات کرام
قدم بہ قدم ، نظم بہ نظم
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ قدم بہ قدم تو لغت میں موجود ہے ، مگر ”نظم بہ نظم“ کہیں دیکھا نہ سنا۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا ترکیب ”نظم بہ نظم“ اردو یا فارسی لحاظ سے درست ہے؟
 
ایک سوال اور تکلیف کی معذرت کے ساتھ۔
میں صحابیات کرام رضی اللہ عنہن کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں جس کے کچھ حصے ہوں گے ہر حصے میں پانچ یا چھ صحابیات کا ذکر ہوگا۔
ہر صحابیہ کے بارے میں کچھ واقعات ، ایک نظم اور دیگر معلومات مذکور ہوں گی۔
اس کتاب کا نام تجویز کیا ہے:
صحابیات کرام
قدم بہ قدم ، نظم بہ نظم
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ قدم بہ قدم تو لغت میں موجود ہے ، مگر ”نظم بہ نظم“ کہیں دیکھا نہ سنا۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا ترکیب ”نظم بہ نظم“ اردو یا فارسی لحاظ سے درست ہے؟

ہر چیز کا لغت میں ہونا معیار تو نہیں ہے۔ اور ترکیب اگر نحوی قواعد کو متاثر نہیں کرتی تو یقیناً درست ہے۔ میرے خیال میں یہ کوئی غلط نہیں۔
مزید تصدیق کے لیے محمد یعقوب آسی صاحب کو تکلیف دیتے ہیں۔
 
ایک سوال اور تکلیف کی معذرت کے ساتھ۔
میں صحابیات کرام رضی اللہ عنہن کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں جس کے کچھ حصے ہوں گے ہر حصے میں پانچ یا چھ صحابیات کا ذکر ہوگا۔
ہر صحابیہ کے بارے میں کچھ واقعات ، ایک نظم اور دیگر معلومات مذکور ہوں گی۔
اس کتاب کا نام تجویز کیا ہے:
صحابیات کرام
قدم بہ قدم ، نظم بہ نظم
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ قدم بہ قدم تو لغت میں موجود ہے ، مگر ”نظم بہ نظم“ کہیں دیکھا نہ سنا۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا ترکیب ”نظم بہ نظم“ اردو یا فارسی لحاظ سے درست ہے؟

اس سے ایک اور بات یاد آگئی۔ اب یہاں دیکھیں کہ کتنی تراکیب کی توثیق آپ لغت سے کر پائیں گے؟

گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو
شرح دہم غم تُورا نُکتہ بہ نُکتہ مُو بہ مُو
از پئے دیدنِ رُخت ہمچو صبا فتادہِ ام
خانہ بہ خانہ در بہ در کوچہ بہ کوچہ کو بہ کو
میرود از فراق تُو خونِ دل از دو دیدہِ ام
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جو بہ جو
دور دہان تنگ تُو عارض و عنبریں خطت
غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بُو بہ بُو
ابرو و چشم و خال تو صید نمودہ مرغِ دل
طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہرخُو بہ خُو
در دل خویش طاہرہ گشت و ندید جُز تو را
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو

قراۃ العین طاہرہ
 
ہر چیز کا لغت میں ہونا معیار تو نہیں ہے۔ اور ترکیب اگر نحوی قواعد کو متاثر نہیں کرتی تو یقیناً درست ہے۔ میرے خیال میں یہ کوئی غلط نہیں۔
مزید تصدیق کے لیے محمد یعقوب آسی صاحب کو تکلیف دیتے ہیں۔
میرے ذہن میں ایک سوال ہے۔ کیا جناب محمد اسامہ سَرسَری منظوم لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
’’قدم بہ قدم نظم بہ نظم‘‘ میں کوئی لسانی مسئلہ تو خیر نہیں، تاہم مجھے محسوساتی سطح پر کتاب کا یہ ذیلی سرنامہ محض تکلف لگتا ہے۔ قوسین میں لفظ ’’منظوم‘‘ لکھ دیجئے۔
ساتھ ہی وہی اصولی بات ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔ اختیار بہر حال مصنف (یا شاعر) کا اپنا ہے۔ میری یہ گزارش مشورہ سے زیادہ کچھ نہیں۔
آداب
 
اس سے ایک اور بات یاد آگئی۔ اب یہاں دیکھیں کہ کتنی تراکیب کی توثیق آپ لغت سے کر پائیں گے؟

گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو
شرح دہم غم تُورا نُکتہ بہ نُکتہ مُو بہ مُو
از پئے دیدنِ رُخت ہمچو صبا فتادہِ ام
خانہ بہ خانہ در بہ در کوچہ بہ کوچہ کو بہ کو
میرود از فراق تُو خونِ دل از دو دیدہِ ام
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جو بہ جو
دور دہان تنگ تُو عارض و عنبریں خطت
غنچہ بہ غنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بُو بہ بُو
ابرو و چشم و خال تو صید نمودہ مرغِ دل
طبع بہ طبع دل بہ دل مہر بہ مہرخُو بہ خُو
در دل خویش طاہرہ گشت و ندید جُز تو را
صفحہ بہ صفحہ لا بہ لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو

قراۃ العین طاہرہ

اب تو یار لوگ ’’دن بہ دن‘‘ اور ’’گھر بہ گھر‘‘ کو بھی درست ماننے لگے ہیں، جناب مزمل شیخ بسمل صاحب۔ ۔۔۔ (جملہ معترضہ)۔
 
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

میری میٹرک کے زمانے کی ایک پسندیدہ اشعار کی ڈائری میں دوسرا مصرع کچھ اس طرح لکھا ہوا ہے

صبح دم گر کوئی بالائے بام آیا تو کیا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
میری میٹرک کے زمانے کی ایک پسندیدہ اشعار کی ڈائری میں دوسرا مصرع کچھ اس طرح لکھا ہوا ہے
صبح دم گر کوئی بالائے بام آیا تو کیا
خالد محمود چوہدری صاحب۔۔۔ میٹرک تک تو چلو خیر ہے ۔ لیکن اب آپ کو درست کر نا چاہیے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین

ابن رضا

لائبریرین
دن بہ دن تو عام بھی ہے لیکن گھر بہ گھر کے بجائے۔ گھر گھر ۔استعمال ہوتا ہے۔
اور دِن بَدِن یوں لکھا جاتا ہے۔ جبکہ دن سنسکرت سے ماخوذ ہے اور بہ فارسی سے ۔اور کہا جاتا ہے کہ دنوں کا خلط جائز نہیں کیا خیال ہے عاطف بھائی؟؟؟ تاہم یہ عام مستعمل ہے
 
Top