دو شاعر۔ دو غزلیں

محمد وارث

لائبریرین
فیض احمد فیض اور احمد فراز کی دلچسپ غزلیں ایک ہی زمین میں پیشِ خدمت ہیں:

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے

پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادیء دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے

(فیض احمد فیض)

---------------------

خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے

(احمد فراز)
 
انتخاب تو ہمیشہ کی طرح لاجواب ہے
دونوں کے حاصل غزل یہ اشعار ہیں
فیض
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
فراز
وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ قند مکرر
اس زمین میں کئیوں نے طبع آزمائی کی ہے بشمول حمایت علی شاعر اور مرتضیٰ برلاس۔۔۔
اور میں نے بھی بچپن میں اس زمین میں کچھ اشعار لکھے تھے :) جن میں سے ایک ہی یاد ہے:
تم کون ہو، میں کیا ہوں، بتا کیوں نہیں دیتے
یہ بارِ گراں سر سے ہٹا کیوں نہیں دیتے
(فاتح)
 
Top