دوسرا معاشقہ (از مہدی نقوی حجازؔ)

(یہ میرے ناول "نابالغ معاشقے" سے دوسرا اقتباس ہے۔ پہلا یہاں موجود ہے: پہلا معاشقہ)
دوسرا معاشقہ
ہر انسان کی سائکل چلانے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ ہماری یہ عمر اور شوق بھی ایران میں ہی پورے ہوئے۔ میرا ایک معاشقہ اسی شوق سے منسوب ہے۔ گرچہ اس معاشقے کی بہت کم تفصیلات یاد رہی ہیں، لیکن میں اسے اب بھی ایک خوش گوار تجربہ شمار کرتا ہوں۔ دراصل کسی بھی تجربے کی دلنشینی اس کے کرداروں پر موقوف ہوتی ہے۔
جب ہم نے گھر تبدیل کیا تو مجھے نئے ماحول میں بہت اجنبیت محسوس ہوئی، لیکن جلد ہی پڑوسی بچوں سے ہماری گاڑھی چھننے لگی۔ جس کی مجھے اب تین وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ ایک تو ہماری جنگ جویانہ طبیعت، ہمارا برصغیر، یا ان کے نزدیک ہند سے تعلق اور ہماری سانولی رنگت۔ ان دنوں یہ معمول تھا کہ میں اور محلے کے دیگر چار پانچ بچے سہ پہر کو سائکل چلانے نکلتے۔ ہم میں ایک ہم عمر لڑکی بھی شامل تھی جو عین میرے پڑوس میں رہتی تھی۔ اس لڑکی سے میرا ایک خاص روحانی معاملہ ہو گیا تھا۔ گو آپ محبت کہہ لیجیے۔ میرا بہت جی چاہتا تھا کہ اس سے بات کروں، گو کہ اس بالی عمر میں یہی کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے، لیکن شرم بھی بہت آتی تھی اور اس سے گھبراتا بھی بہت تھا۔ اس سے آگے حواس باختہ ہو کر اکثر مجھ سے نامعقول حرکتیں سرزد ہو جاتی تھیں۔ اور ساتھ ہی اس شریف زادی کو بھی ہم سے بہت حیا آتی تھی! بات تو خیر روز ہی ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھی لیکن ایک باقائدہ گفتگو اور گپ شپ کا سلسلہ تب شروع ہوا جب ہم نے ایک دوسرے کو لطیفے سنانے شروع کیے۔ اللہ جانے یہ اس زمانے اور ماحول کی کیا عجیب فینٹسی تھی! میں سارا دن اسکول میں لڑکوں سے نت نئے لطیفے سیکھتا، کچھ خود گھڑتا اور کچھ کتابوں رسالوں اور ماہناموں میں سے ڈھونڈتا تا کہ شام کو بات چیت کا سلسلہ طویل تر رہے۔
اس عمر میں بھی مجھ پر حسن کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ لطیفہ سناتی تو میں یہاں وہاں دیکھنے لگ جاتا۔ ہمارے گھروں کے درمیان ایک پیڑ تھا، کس چیز کا تھا یہ اب یاد نہیں رہا، لیکن پیڑ تھا۔ یہ اس لیے اتنے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ہم نے اس پیڑ کے دونوں جانب کھڑے ہو کر گفتگو کی اور لطیفے سنائے۔ میں اپنے گھر کی طرف پیڑ کے ایک حصے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو جاتا اور وہ عین میرے پیچھے پیڑ کے اس طرف اپنے گھر کے پاس اسی درخت سے لگ کر کھڑی ہو جاتی۔ ایک بار اسی طرح جب میں اس کے معصوم حسن کی تاب نہ لا کر اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹائے اطراف کا جائزہ لے رہا تھا تو اس نے لطیفہ سناتے سناتے اچانک ٹھٹک کر پوچھا۔
”تم سنتے کیوں نہیں؟“
اس پر میں نے انتہائی معصومانہ جواب دیا،
”سنتے تو کان سے ہیں، تم سناؤ“
ہم نے دو سال کی مدت میں کبھی محبت کا اعتراف نہیں کیا لیکن ہم دونوں کو یہ بات بہت اچھے سے معلوم ہو چکی تھی کہ ہم (بزعم خود) ایک دوسرے سے پیار کرنے لگے ہیں۔ اور صرف ہمیں ہی نہیں محلے کے تمام بچوں کو اس کی خبر ہو گئی تھی۔ یہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ سائکل چلاتے ہوئے سارے لڑکے اکثر یہ نعرہ لگایا کرتے کہ: سرخ پوست عاشقِ سفید پوست شدہ۔ جسکا مطلب ہے یہ سانولا جس سے ان کی مراد ہندی یا پاکستانی ہوتی تھی، ایک گوری یعنی ایرانی کا عاشق ہو گیا ہے۔
اواخر میں ہم بہت دور دور تک سائکلوں پر باتیں کرتے ہوئے جاتے تھے اور نئی نئی جگہیں دریافت کرتے تھے۔ ہم دور دور کی پوشیدہ چڑھائیاں ڈھونڈتے تھے اور آ کر دوسروں کو ان کے بارے میں بتاتے تھے کہ فلاں جگہ اتنی اونچی چڑھائی ہے تو کل وہاں جائیں گے سائکل چلانے۔
جب اس کے ابا کبھی ہم دونوں کو ساتھ کہیں گھمانے لے جاتے یا اپنی گاڑی میں چھوڑنے جایا کرتے تو وہ ابا کے آگے بیٹھنے پر اصرار کے باوجود، میرے برابر میں پیچھے کی سیٹ پر بیٹھا کرتی اور ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے گھڑے ہوئے لطیفے سنایا کرتے تھے، جو اکثر بے نمک ہوتے۔ لیکن ہمارے بیچ یہ ایک ناگفتہ معاہدہ تھا کہ کچھ بھی ہو، لطیفے پر ہنسنا ضروری ہے، ورنہ سنانے والا سخت ناراض ہونے کا مستحق ہوگا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس کے گلے پر چمک کے کچھ ذرات موجود تھے، جو بہت غور سے دیکھنے پر نظر آ رہے تھے۔ باتیں کرتے ہوئے میں نے اچانک وہ ذرات صاف کرنے کے لیے اس کے گلے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے گھبرا کر اپنے دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر کچھ لمحوں بعد اپنے آپ کو بڑے اعتبار سے میرے حوالے کر دیا۔ جب میں نے اس کے گلے پر ہاتھ پھیرا تو اس نے اپنا سر جھکا کر اپنا رخسار میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور ٹکٹکی باندھ کر میری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ اس کی اس ادا پر مجھے بےطرح پیار آیا اور میں نے فرطِ جذبات میں بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی۔ اور اس نے اپنے بال کھول لیے۔
اس مکان میں ہم دو سال رہے اور اس کے بعد دوبارہ پرانے گھر میں منتقل ہو گئے۔ آخری دو تین دنوں میں وہ اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں رکنے گئی تھی لہٰذا ہماری الوداعی ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد میں کئی برس ایران کے اسی شہر میں رہا، اور مختلف بہانوں سے اس گلی میں جاتا بھی رہا لیکن وہ پھر نظر نہ آئی۔ سوچتا ہوں کہ اس بار جب ایران گیا تو اسے ڈھونڈ کر اس سے ضرور ملوں گا۔ دیکھوں گا کہ اتنے برسوں بعد بڑی ہو کر کیسی ہو گئی ہے اور کس حال میں ہے۔ وہ شاید اب مجھے پہچانے بھی نہیں، لیکن اس کو یہ جاننا چاہیے کہ شاید اس کے ساتھ لطیفے گھڑنے کی مشق کرتے کرتے میں ایک لکھاری بن گیا، اور زندگی میں جو کچھ پایا اب تک اور پا رہا ہوں، وہ تمام اسی کی دین ہے! اس محلے کے لڑکوں نے کیا ہی سچا فقرہ کسا تھا۔
سرخ پوست عاشقِ سفید پوست شدہ!
-
مہدی نقوی حجازؔ
 
آخری تدوین:

عبدالحسیب

محفلین
یعنی اندازِ یوسفی میں کہا جائے تو، آپ پر جوانی کا عشق نما حملہ لڑکپن میں ہی ہو گیا تھا :):)
خوب است۔
سفید پوست سے اگرملاقات ہو تو بطور ثبوت اس ناول کی اک کاپی دے آئیں۔(لکھاری ہونے کا اگر ثبوت مانگا گیاتو :) )
 
یعنی اندازِ یوسفی میں کہا جائے تو، آپ پر جوانی کا عشق نما حملہ لڑکپن میں ہی ہو گیا تھا :):)
خوب است۔
سفید پوست سے اگرملاقات ہو تو بطور ثبوت اس ناول کی اک کاپی دے آئیں۔(لکھاری ہونے کا اگر ثبوت مانگا گیاتو :) )
اگر انداز یوسفی پر ہی جاتے رہے تو ہم پر حملوں کی تعداد پانی پت اور صلیبی جنگوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ نکل آئے گی!!
سوچتے ہیں کہ اس وقت تک چھپ بھی گیا تو،
”وہ خوب رو تھا مگر میرا ہم زبان نہ تھا“
والا معاملہ رہے گا!
 

عبدالحسیب

محفلین
اگر انداز یوسفی پر ہی جاتے رہے تو ہم پر حملوں کی تعداد پانی پت اور صلیبی جنگوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ نکل آئے گی!!
سوچتے ہیں کہ اس وقت تک چھپ بھی گیا تو،
”وہ خوب رو تھا مگر میرا ہم زبان نہ تھا“
والا معاملہ رہے گا!
گھبرائیں نہیں آپ بھی پھر شہرِ دلی ہے ہزار حملوں کے بعد پھر سے آباد ہو رہیں گے :)

اماں، زبانِ یار من فارسی ہی تو ہے ۔اور آپ سے ماہرِ زبانِ حافظ کے لیے کیا مشکل ہے ایک ترجمہ :)
 
گھبرائیں نہیں آپ بھی پھر شہرِ دلی ہے ہزار حملوں کے بعد پھر سے آباد ہو رہیں گے :)

اماں، زبانِ یار من فارسی ہی تو ہے ۔اور آپ سے ماہرِ زبانِ حافظ کے لیے کیا مشکل ہے ایک ترجمہ :)
اجی آبادکاری کو خود خونِ جگر درکار ہوتا ہے۔
ہم یوں کر دیں گے کہ صرف اسی حصے کا ترجمہ کر کے دے آئیں گے انہیں، کہ عافیت بھی صرف اسی کے پڑھنے میں ہے، مابقی نہ ہی پڑھیں تو ہمارا بھلا ہوگا! :)
 

عبدالحسیب

محفلین
اجی آبادکاری کو خود خونِ جگر درکار ہوتا ہے۔
صرف خونِ جگر سے بات بن جائے تو کیا کہنے :) ویسے بہاریں تو خونِ پا بھی مانگتی ہیں کہ خارِ مغیلاں کب خونِ جگر سے سیراب ہوئے ہیں :)

ہم یوں کر دیں گے کہ صرف اسی حصے کا ترجمہ کر کے دے آئیں گے انہیں، کہ عافیت بھی صرف اسی کے پڑھنے میں ہے، مابقی نہ ہی پڑھیں تو ہمارا بھلا ہوگا! :)
آپ نے تو راہِ فرار بھی تلاش کرلی ہم نے محض گرفتاری کا انتظام ہی کروایا تھا ابھی :)
 
صرف خونِ جگر سے بات بن جائے تو کیا کہنے :) ویسے بہاریں تو خونِ پا بھی مانگتی ہیں کہ خارِ مغیلاں کب خونِ جگر سے سیراب ہوئے ہیں :)


آپ نے تو راہِ فرار بھی تلاش کرلی ہم نے محض گرفتاری کا انتظام ہی کروایا تھا ابھی :)
کہ دوڑتا ہے تو گلشن میں چومنے کو گلاب
ہو خارزار میں تیرے برہنہ پاؤں کی خیر :)

یار لوگوں کا یہی طریقہ رہا ہے ہمیشہ، اس لیے ہم ہوشیار ہو گئے ہیں! :)
 
بھئی کیا ہی خوبصورت ہے۔۔۔ اور بے پر کی ہے یا نہیں یا کتنی ہے یہ تو آپ ہی جانتے ہوں گے ، لیکن اسے پڑھ کر اب ہمیں جو نثر کا گریبان پکڑ کر لفظوں کا خون کرنے کی سوجھی ہے، وہ آپ کے سر ہے!! :)
اچھا تو لفظوں کے اس گلابی المزاج خون کا منصوبہ بنا رہے تھے قبلہ۔ ویسے دونوں معاملات میں ایک سائکل ہی مشترک ہے اور تو کچھ ہے نہیں۔ :) :) :)
بھئی منظر کشی اور بیان نگاری تو کوئی قبلہ حجاز صاحب سے سیکھے۔ کیسے مختصر مگر مناسب ترین الفاظ میں مکمل بات پوری معنویت اور منظر خیزی کے ساتھ کہہ جاتے ہیں کہ قاری "انگلیاں چاٹتے رہ جانے" کا نعم البدل محاورہ ڈھونڈھتا رہ جائے۔ :) :) :)
 
اچھا تو لفظوں کے اس گلابی المزاج خون کا منصوبہ بنا رہے تھے قبلہ۔ ویسے دونوں معاملات میں ایک سائکل ہی مشترک ہے اور تو کچھ ہے نہیں۔ :) :) :)
بھئی منظر کشی اور بیان نگاری تو کوئی قبلہ حجاز صاحب سے سیکھے۔ کیسے مختصر مگر مناسب ترین الفاظ میں مکمل بات پوری معنویت اور منظر خیزی کے ساتھ کہہ جاتے ہیں کہ قاری "انگلیاں چاٹتے رہ جانے" کا نعم البدل محاورہ ڈھونڈھتا رہ جائے۔ :) :) :)
یہ خون تو ہم دو برس پہلے کر چکے تھے، بس آج ذرا جھاڑ کر محفل پر لاش آویزاں کر دی :)
بھئی اس مراسلے کے لیے اس وقت 15 منٹوں سے جو الفاظ ذہن میں آ رہے ہیں وہ انتہائی غلط ہیں، کوئی اس کیفیت کے لیے مجھے ٹھیک لفظ تجویز کر دے۔۔۔
لاحول، اچھے خاصے لکھنے والوں کا بند کرنے کے لیے جناب کا ایک مراسلہ ہی سنگ تمام ہوتا ہے، ہمیشہ! :)
 
یہ خون تو ہم دو برس پہلے کر چکے تھے، بس آج ذرا جھاڑ کر محفل پر لاش آویزاں کر دی :)
یعنی ابھی وعدہ کردہ تازہ خون ادھار است! :) :) :)
بھئی اس مراسلے کے لیے اس وقت 15 منٹوں سے جو الفاظ ذہن میں آ رہے ہیں وہ انتہائی غلط ہیں، کوئی اس کیفیت کے لیے مجھے ٹھیک لفظ تجویز کر دے۔۔۔
لاحول، اچھے خاصے لکھنے والوں کا بند کرنے کے لیے جناب کا ایک مراسلہ ہی سنگ تمام ہوتا ہے، ہمیشہ! :)
اللہ خیر فرمائیں۔۔۔ آمین! :) :) :)
 
حجاز صاحب یہ ناول ہے ؟
زور قلم اور الفاظ کا خلوص تو آپ بیتی ہونے کا پتا دے رہے ہیں - :):):)
جی یہ ناول زیر تصنیف ہے بہت وقت سے، ہم اپنی یادداشتوں اور سفرناموں میں سے بس معاشقوں کو یک جا کر رہے ہیں اور پھر آخر میں انہیں ناولسٹک انداز میں فکشن سے جوڑ کر ناول کا چہرہ دیں گے۔ پہلے اقتباس والی لڑی میں اس پر کچھ دلچسپ گفتگو ہوئی ہے :)
اور کچھ زیب داستاں ہے ؛)
 
Top