خواب تھا دیدہء بیدار تلک آ گیا تھا :: میثم علی آغا

خواب تھا دیدہ ء بیدار تلک آ گیا تھا
دشت بڑھتا ہوا دیوار تلک آ گیا تھا

میں نے مجبوری میں تلوار اُٹھائی تھی میاں
ہاتھ بڑھتا ہوا دستار تلک آ گیا تھا

اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دشمن مِرے کردار تلک آ گیا تھا

دکھ عزاخانوں کی زینت تھے سو اندر ٹھہرے
درد موسم تھا سو بازار تلک آ گیا تھا

اِتنا گریہ ہوا مقتل میں کہ توبہ توبہ
زخم خود چل کے عزادار تلک آ گیا تھا

عین اُس وقت مقدر نے بغاوت کر دی
جب میں اُس شخص کے معیار تلک آ گیا تھا

میرے اندر کے کسی ہجر نے روکا ہے مجھے
ورنہ میں عشق میں انکار تلک آ گیا تھا

رات آنکھوں سے کوئی اشک بغاوت کر کے
مُسکراتا ہوا رُخسار تلک آ گیا تھا​
میثم علی آغا​
 
Top