خواب تھا دیدہ ء بیدار تلک آ گیا تھا
دشت بڑھتا ہوا دیوار تلک آ گیا تھا
میں نے مجبوری میں تلوار اُٹھائی تھی میاں
ہاتھ بڑھتا ہوا دستار تلک آ گیا تھا
اب میں خاموش اگر رہتا تو عزت جاتی
میرا دشمن مِرے کردار تلک آ گیا تھا
دکھ عزاخانوں کی زینت تھے سو اندر ٹھہرے
درد موسم تھا سو بازار تلک آ گیا تھا...