(خبر) صدام کو پھانسی دے دی گئی

کیا صدام کی پھانسی عید والے دن مناسب تھی یا غلط؟


  • Total voters
    119

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

میں نے اس تھریڈ میں سے چند پیغامات کو ڈیلیٹ‌ کر دیا ہے اور میری درخواست ہے کہ اس گفتگو کو بلاضرورت فرقہ وارانہ رنگ دینے سے گریز کیا جائے۔ ان مباحث کا کوئی نتیجہ نہیں برآمد ہوتا، محض فضا مکدر ہوتی ہے۔

والسلام
 
اسلام وعلیکم،
سسٹر مہوش علی کا عجیب الغریب فلسفہ قسمت سے پڑھنے کو مل گیا۔ میں جواب عرض کرنے جا ہی رہا تھا۔ مگر منتظم اعلٰی نے اُن پیغامات کو ختم کردیا ہے۔ جس پر واقعی اب کوئی بحث کرنے کا فائدہ نہیں۔
اے رضا ہر کام کا اِک وقت ہے
دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا​
 

مہوش علی

لائبریرین
نبیل نے کہا:
السلام علیکم،

میں نے اس تھریڈ میں سے چند پیغامات کو ڈیلیٹ‌ کر دیا ہے اور میری درخواست ہے کہ اس گفتگو کو بلاضرورت فرقہ وارانہ رنگ دینے سے گریز کیا جائے۔ ان مباحث کا کوئی نتیجہ برآمد ہوتا، محض فضا مکدر ہوتی ہے۔

والسلام

ميري طرف سے معذرت، نہ چاہتے ہوئے بھي چيزيں کچھ رنگ اختيار کر ليتي ہيں
والسلام
 

بدتمیز

محفلین
سلام
میں جب بات کرتا ہوں تو دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ بھی رکھتا ہوں۔ لہذا آپ کو اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں بلکہ مجھے آپ سے بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔
میں کچھ ہی عرصے سے آپکی پوسٹس محفل پر پڑھ رہا ہوں۔ مجھے ایک چیز سے اختلاف ہے۔ وہ ہر وقت عذاب یا سزا کے ڈراوے۔
میں اللہ کو جلال سے زیادہ مہربان شخصیت کے طور پر جانتا ہوں۔ اور اللہ کو ہر بات پر سزا دینے والا قرار دینے پر متفق نہیں۔ اللہ کے غصے سے زیادہ اس کی رحمت پر یقین رکھتا ہوں۔
میں اگر کسی کو فائدہ نہیں دے سکتا تو نقصان بھی نہیں دینا چاہتا۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح اس کے لئے 70 سے زیادہ بار دعا کر سکتا ہوں۔
صدام کو میں ہیرو نہیں مانتا نہ اس کی موت کو شہادت جب تک زندہ تھا ہم اس کو برا بھلا کہہ سکتا تھا اب نہیں کیوں اب اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے اب اس کی موت پر نہ خوشی ہے نہ دکھ
علما کی طرف سے خاموشی یا اس کی موت پر خوشی نہ منانا میرے نزدیک عقلمندی ہی ہے جو ان سے غلطی سے ہو رہی ہے۔ نہیں تو میرے خیال سے فسادات ہونگے۔ کیونکہ جن پر ظلم ہوا وہ خوشی منائیں گے اور دوسرا فرقہ اس پر شہادت کی کالیں دے رہا ہو گا۔
میں واضح کر دوں کہ نہ میں شیعہ ہوں نہ سنی میں صرف ایک مسلمان ہوں۔ لیکن باقی مسلمان شیعہ یا سنی ہیں ان کے درمیان فسادات ہونے لازمی ہیں جو کہ عراق میں نہ ہونگے بلکہ سب جگہ ہونگے۔
صدام جیسا بھی تھا اب ہسٹری ہے۔ اگر آپ سمجھیں کہ صدام کے حامی اب معصوم لوگوں کا خون بہا رہے ہیں تو میں اس بارے میں لکھ چکا ہوں کہ پاک و ہند کی تقسیم کی طرز پر مذہب/عقیدہ کی بنیاد پر عراق تقسیم ہو گیا ہے جو کہ شیعہ سنی اور کرد زون پر قائم ہے۔ اور اگر آپ دوسرے زون میں ہیں تو مرنا لازمی بات ہے۔ جو جنگ غاصبوں کے خلاف تھی وہ مسلمان اپنے اندر لے آئے ہیں۔
دیکھیں کچھ لوگ باطل پر ہو کر بھی خود کو حق پر سمجھتے ہیں لیکن ان کا انجام اچھا ہوتا ہے؟ یہ ایک صدام نہیں جس نے عراق کا یہ حال کیا ہے ہماری ساری قوم ایسی ہے۔
میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوج اور دوسرے بارے میں لکھنے سے گریز کروں گا ایک میں اس قابل نہیں دوسرے میرے خیالات اس بارے میں شیعہ اور سنی دونوں کے لئے ناقابل قبول ہونگے۔ تیسرے محفل کی تعریف جو مجھے سمجھ آئی ہے وہ اردو کی ہے اسلام کی نہیں لہذا ہو سکتا ہے کہ میری بات کے نتیجے میں کوئی صاحب OFFEND ہو جائیں اور نتیجے میں بین لگ جائے۔
میرے لئے صدام ختم ہے۔ جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔ اب یہ اسکا اور اللہ کا معاملہ ہے اس کو وہاں سزا ملے مجھے کوئی اعتراض نہیں اس کو وہاں جزا ملے مجھے کوئی خوشی نہیں کیونکہ اب وہ جہاں ہے اس سے زیادہ منصف کوئی نہیں
دانشوروں کو صدام کی پھانسی پر نہیں اس کے طریقہ کار پر اعتراض ہے۔ کم از کم مجھے تو ایسا ہی لگا۔ یہ اچھی چال ہے آپ خوش ہوں تو دوسرا فرقہ OFFEND ہو اور اگر شہید کہیں تو بھی دوسرا فرقہ offend ہو اور دونوں صورتوں میں آپ جب غاصبوں پر حملہ کریں تو دہشت گرد کہلائیں۔
 
صدام حسین - قربانی کا شیر

قربانی کا شیر

دسمبر ۳۰ ، ۲۰۰۶، کو ڈک چینی نے صدر فورڈ کی وفات کے موقعہ پر کہا کہ ۔ فورڈغالباً اکیلا تھا یہ سمجھنے میں معافی کے بغیر تعلقات کی بحالی نہیں ہوتی۔

دسمبر ۳۰ ، ۲۰۰۶،عید الاضحیٰ کے پہلے روز، ایک جلاد نے پوچھا۔ کیا تمیہں ڈر لگ رہا ہے؟
صدام حسین التکریتی نے جواب دیا۔ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ میں تمام عمر ایک مجاھد اور سیاسی تصور پرست رہا ہوں اور ہر لمحہ موت کے لیے تیا ر رہا ہوں۔ امریکن اور فارسی مردہ باد، عرب قوم اور فلسطین زندہ باد۔

بادشاہ مر گیا پر بادشاہ زندہ باد۔ بادشاہ مرتے نہیں ہوتے اور ان کو مارنے کی کوشش کرنا عبث ہے۔شاہ کشی کی بجائے جلاوطنی اور قید ان کے لیے زیادہ ذلت کا باعث ہوتی ہے۔ مگر یہاں ایک فرد کی توہین تو مقصد تھا ہی نہیں۔ مقصد تو عرب دنیا کو آختہ کرنا اور امت مسلمہ کی مردانگی پر ایک اور کمزور وار۔ مگر ایک بار پھر ناکامیوں کے بادشاہ،شاہ جورج بش ثانی، کو ایک اور اندوہناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

مجھے کبھی بھی صدام حسین ذاتی طور پر پسند نہیں تھا، اور مجھے ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ وہ کذاب اور جابر ہے، اور مجھے یہی یقین تھا۔ مجھ سے کہا گیا کہ وہ ایک برا آدمی ہے۔ میں نے وسیع تباہی کے ہتھیاروں والے الزام کا مطالعہ کیا، ، پھر دجیل والے معاملے کی عدالتی کارروائی دیکھی اور حلابجہ میں ہونے والے واقعات کا ثبوت بھی دیکھا۔اور بہت امید تھی بہت کچھ اور سامنے آئے گا جو میر ی نفرت کا جواز بنےگا۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اب تک کی تمام معلومات کے مطابق عقل کو اب کوئی چارہ نہیں کہ مجبور کرے کہ میں ایک عظیم عرب کی مدح میں رقم طراز ہوں۔ جس کا نام صدام حسین التکریتی العراقی، جو بغداد کا شیر ، فخر عرب اور بلاد رافدین کا سپوت تھا۔

آج جس سے بھی بات ہوئی، مسلمان یا عیسائی، مذہبی یا لادین، سب ایک گھٹا ہؤا غصہ لیے پھر رہے تھے کہ عید الاضحیٰ کا وقت کیسے مناسب تھا، باقی مقدموں کا کیا بنے گا، اور یہ کہ کتنے گھٹیا انداز میں پھانسی کی کارروائی ہوئی۔

باقی انگریزی میں یہاں پڑھیے:
http://www.wakeupfromyourslumber.com/node/341
 

جیسبادی

محفلین
یہ ذولفقھار علی بھٹو کی پھانسی سے ملتا جلتا کیس ہے۔ دنیا بھر کے لیڈروں نے (بشمول امریکہ) بھٹو کی پھانسی پر اعتراض کیا تھا۔ اعتراض کرنے والوں کو اس بات سے غرض نہ تھی کہ نواب کے قتل میں بھٹو کا ہاتھ تھا یا نہیں۔

صدر صدام حسین کی پھانسی کا تعلق بھی کسی انصاف سے نہیں۔ قابض فوج جب تک صدر کو قتل نہ کر دیتی، کٹھ پتلی جکومت کو مستحکم کرنا ممکن نہ تھا۔ امریکی فوج یہ خون اپنے سر نہ لینا چاہتی تھی، اس لیے کٹھ پتلی انتظامیہ کے سر تھوپ دیا گیا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم، میں تو اکبر چوہدری صاحب کو دیکھ کر یہاں چلا آیا۔ آج آپ نے ماشاءاللہ ہمیں عزت بخش ہی دی۔ :) امید کرتا ہوں کہ آپ یہاں آتے رہیں گے۔
 
صدام حسین کی پھانسی پر خوش ہونے والوں سے تعجب ہے۔ صدام جو بھی تھا جیسا بھی تھا ایک مسلمان تھا۔ دشمنوں نے اسے مارا ہے۔ پھانسی منصفانہ تب ہوتی جب عراقی عوام اسے پھانسی دیتی۔ بقول سب کے عوام پر مظالم ڈھائے گئے تھے۔ یہ پھانسی فرقہ وارانہ بنا پر دی گئی اور انتقاما دی گئی ہے۔
مخالفین کو صدام کے مظالم یاد آ رہے ہیں لیکن وہ مظالم جو اسکے مخالفین ڈھا رہے ہیں انہیں بھولا جا رہا ہے۔
صدام نے یقینا بڑے گناہ کئے اسی لئے خدا نے اسے دنیوی سزا بھی دے دی۔ لیکن یاد رہے انسان کے خاتمہ کا کسی کو بھی نہیں معلوم کیا معلوم وہ توبہ کرگیا اور خدا نے اسکی توبہ قبول کرلی ہو۔ نیز ساری دنیا نے سنا صدام کلمہء شہادت پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوا۔ ایک دفعہ پڑھ کر دوسری دفعہ پڑھ ہی رہا تھا

اشہد ٲن لا الہ الا اللہ
واشہد ان ۔۔۔
پر رسی کھینچ دی گئی

احادیث کی رو کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوگا وہ جنتی ہے

اب صدام کی نیت پر شک کرنے کا ہمیں کوئی حق نہیں ۔
نیز وہ چلا گیا اسی لئے ہمیں اپنی زبانیں گندی کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

کسی مردہ آدمی کی غیبت کرکے اسکا گوشت مت کھائیے۔
خدا نے اسے بخش دیا تو اس کی قسمت نہ بخشا تو اسکی تقدیر

اخیر میں یہی کہوں گا
مجھے میری تنگ نظری اور رجعت پسندی اور دقیانوسیت مبارک ہو۔
والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
بدتميز صاحب، آپ نے تحرير فرمايا ہے:
میں کچھ ہی عرصے سے آپکی پوسٹس محفل پر پڑھ رہا ہوں۔ مجھے ایک چیز سے اختلاف ہے۔ وہ ہر وقت عذاب یا سزا کے ڈراوے۔

ميں نے تو کبھي کسي کو عذاب يا سزا کے ڈراوے اپنے الفاظ ميں نہيں ديے؟ بلکہ ميں نے تو قران کے کچھ الفاظ پيش کيے تھے، تو کيا آپ کے ليے يہ ممکن ہو گا ان الفاظ کا رخ مجھ سے کسي طرح پھير سکيں؟

ويسے اگر آپ اس نتيجے پر صدق دل سے پہنچيں ہيں، تو اختلافِ رائے کے باوجود ميں يہ کہوں گي کہ شايد يہي اللہ کي طرف سے آپکے ليے صحيح راستہ ہو
بہرحال، ميں اپنے صدق دل کے ساتھ اُس نتيجے پر پہنچ رہي ہوں جو آپ سے اختلاف رکھتا ہے

\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\\

راسخ، آپ نے تحرير فرمايا ہے:

صدام نے یقینا بڑے گناہ کئے اسی لئے خدا نے اسے دنیوی سزا بھی دے دی۔ لیکن یاد رہے انسان کے خاتمہ کا کسی کو بھی نہیں معلوم کیا معلوم وہ توبہ کرگیا اور خدا نے اسکی توبہ قبول کرلی ہو۔ نیز ساری دنیا نے سنا صدام کلمہء شہادت پڑھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوا۔ ایک دفعہ پڑھ کر دوسری دفعہ پڑھ ہی رہا تھا

اشہد ٲن لا الہ الا اللہ
واشہد ان ۔۔۔
پر رسی کھینچ دی گئی

احادیث کی رو کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوگا وہ جنتی ہے



راسخ،
ہو سکتا ہے کہ احاديث کي تاويل ميں اختلاف ہو، اور يہ حديث صرف حقوق اللہ کي بات کر رہي ہو

ديکھيں، ميرے ليے يہ ممکن نہيں کہ ميں مان سکوں کيونکہ ميري نظر ميں اللہ اس بات سے بالاتر ہے کہ وہ ظالمين کو بغير انصاف کيے بخش دے،

يعني کيا واقعي يہ ممکن ہے کہ کوئي شخص دن ميں دوسرے لوگوں کے پيٹ ميں چھرے گھونپتا پھر، اور شام کو کلمہ پڑھتے ہوئے پھانسي چڑھ جائے تو وہ جنتي ہو گيا (اور صدام نے تو کبھي اپنے جرائم پر توبہ و ندامت بھي نہ کي بلکہ صرف کلمہ ہي پڑھا)

اور شايد ميرے اللہ نے ميرے ليے ان آيات کو کافي قرار دے ديا ہے ، کہ جن کے بعد ميرے ليے ممکن نہيں رہا کہ کوئي اور راہ چن سکوں:



وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا {93}

[النساء:93] اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اس کی جزا جہنم ہے۔ جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور وہ اس پر (تا قيامت) لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

اگر آپ حضرات مجھ سے اس آيت کي تاويل ميں اختلاف رکھتے ہيں، تو ہم اس بات کو يہيں ختم کر کے يہ معاملہ اللہ کے سپرد کر ديتے ہيں
 
اسی آیت کی تفسیر قرطبی میں پڑھ لیجئے
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ قاتلِ عمد کی توبہ نہیں۔ لیکن کسی دوسری مجلس میں آپ نے اپنا یہ قول کسی سائل کے پوچھنے پر دہرایا تو حضرات نے سوال کیا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ توبہ ہے آپ نے فرمایا کہ یہ شخص کسی کو قتل کرنے کی نیت سے پوچھ رہا ہے۔ جب پتہ کیا تو ایسا ہی تھا جیسا آپ نے فرمایا۔ آپ سے توبہ کا قول بھی نقل کیا جاتا ہے۔
عبد اللہ بن عمر ودیگر علماء سے بھی توبہ کا قول منقول ہے۔ قرطبی رحمہ اللہ دونوں قول نقل فرماکر کہتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے۔

اپنے وقت کی حفاظت کے خاطر میں لمبے چوڑے دلائل نہ دوں گا۔
اگر تشفی چاہتی ہیں تو اسلام میں قاتل عمد کی سزا کا مطالعہ کرلیں۔ نیز من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ کی بھی شرح دیکھ لیں۔
دل کی باتیں خدا جانے
ہم تو ظاہری اعمال وافعال پر حکم لگا سکتے ہیں۔
اسکا آخری عمل اچھا تھا۔ اسے کلمہ نصیب ہوا
اب اسکے بارے میں کیا بدگمانی کریں؟؟
نیز اسکا معاملہ خدا کے سپرد ہے وہ چاہے تو سزا دے وہ چاہے تو معاف کردے۔
زیادہ تر اہل تشیع اس سے نالاں تھے۔ ابھی بھی ہیں خوشیاں بھی انہوں نے ہی منائی اور انتقاما بھی انہوں نے ہی قتل کیا۔ اگر آپ اسکی پھانسی کی ویڈیو دیکھیں تو مقتدی الصدر زندہ باد نیز فرقہ وارانہ نعرے لگانوں کا کیا معنی؟؟
میں یہی دوبارہ کہوں گا کہ پھانسی مبنی بر انصاف ہوتی تو الگ بات تھی یہ انتقامی کاروائی کے سوا کچھ نہیں۔

آخر میں
اس موضوع کے بارے میں مزید کچھ نہ کہوں گا
چلنے والے چلے گئے۔ اب انکی ذاتوں پر حملہ ہم زندوں کو زیبا نہیں دیتا۔
خوش رہئے
 
اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (پ25۔الشوریٰ:25)
اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو! سب کے سب اِس اُمید پر کے تم فلاح پاؤ۔ (پ18، النور:31)
بیشک اللہ پسند کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو۔ (پ2۔البقرۃ:222)
وہ توبہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے فضل سے لازم کر لیا ہے وہ انہیں کی ہے جو نادانی سے برائی کر بیٹھیں پھر تھوڑی دیر میں توبہ کرلیں ایسوں پر اللہ اپنی رحمت سے رجوع کرتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ (پ4۔ النساء:17)

یہ صرف چند آیات جن کا ترجمہ ہے۔ مزید بھی آیات اور کثیر احادیث موجود ہیں جن سے ثابت ہے کہ اللہ عزوجل بہت زیادہ رحمان اور رحیم ہے اور وہ اپنی رحمت سے ہر گناہ بخشنے پر قادر ہے۔
میں صدام حسین کا کوئی حمایتی نہیں ہوں۔ اگر اُس نے اپنی زندگی میں بُرا کیا تو بھی اپنے لئے اور اچھا کیا توبھی اپنے لئے۔

میں بھی راسخ صاحب کی بات سے 100 ٪ متفق ہوں۔ کہ اگر اُس نے جو بھی کیا ہمیں بات اللہ عزوجل پر چھوڑ دینی چاہیے۔

سسٹر مہوش علی بار بار ایک آیت کوٹ کر رہی ہیں۔ جس سے ثابت یہ کرنا چاہتی ہیں کہ قتل کرنے والا کفار کی طرح ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
یہ بات کثیر احادیث کیخلاف ہے۔ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔ یعنی جس کا خاتمہ بالایمان ہوا ہوگا۔ وہ اپنے گناہوں کی سزا کے بعد ایک نہ ایک وقت جنت میں ضرور جائے گا۔
مجھے اِس آیت کی تفسیر دیکھنے کا فی الحال موقع نہیں ملا۔ مگر میں یہاں ایک اور حدیث کے بارے میں ذکر کرنا چاہوں گا۔ حدیث کے مطابق دیوث کبھی جنت میں نہیں جائے گا۔
علماء فرماتے ہیں۔ کہ اِس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل ترین مدت جہنم کی سزا بھگتے گا۔ کیونکہ جس کا خاتمہ بالایمان ہوا وہ ایک نہ ایک وقت اپنی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں ضرور جائے گا۔
آئیے دیکھیں کیا قاتل جنت میں جا سکتا ہے؟
سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل حدیث کا مفہوم ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص جس نے 99قتل کئے تھے ایک راہب کے پاس پہنچا اور کہا کہ میرے لئے کوئی توبہ کی گنجائش ہے میں نے 99قتل کئے ہیں۔ راہب نے اُسے مایوس کر دیا۔ اُس نے غصے میں اُس راہب کو بھی قتل کر دیا اور پھر توبہ کا ارادہ لئے لوگوں سے پوچھتا پھرا۔ کسی نے کہا کہ فُلاں بستی میں جاؤ وہاں ایک ولی اللہ رہتے ہیں۔ وہ بتا سکتے ہیں۔ وہ توبہ کے ارادے سے اُس بستی کی طرف بڑھا کہ راستے میں بیمار ہوا اور دم توڑ دیا۔ عذاب کے فرشتے آئے کہ یہ 100بندوں کا قاتل ہے ہم اِسے لے جائیں گے جبکہ جنت کے فرشتے آئے کہ نہیں یہ توبہ کے ارادے سے آرہا تھا اِس لئے ہم اِسے لے جائیں گے۔ اللہ عزوجل نے زمین کی پیمائش کا حکم فرمایا کہ جہاں سے یہ چلا تھا وہاں سے دم توڑنے والی جگہ تک اور وہاں سے بستی تک کا فاصلہ پیمائش کیا جائے اگر فاصلہ بستی سے زیادہ نزدیک ہوا تو یہ جنتی ہے ورنہ جہنمی۔ پھر اللہ عزوجل کی رحمت کو مزید جوش آیا اور زمین کو سمٹ جانے کا حکم دیا۔ یہاں تک کہ بستی کا فاصلہ صرف ایک بالشت نزدیک پایا گیا۔ اور جنت والے فرشتے اُس شخص کو لے گئے۔

یہ حدیث بہت مشہور ہے ۔۔اُمید ہے سسٹر مہوش نے سنی ہوئی ہوگی۔ اگر پھر بھی حوالہ درکار ہوتو وہ بھی میں پوسٹ کر دوں گا۔
اِس کے علاوہ ایسے قاتلوں کے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن سے ثابت ہے کہ اللہ عزوجل نے اُن کو اپنی رحمت سے بخش دیا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ صدام حسین بخشا گیا ہے۔ بلکہ عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ اگر اُس کو مسلمان مانتے ہو تو پھر اُس کے گناہوں کو نہ دیکھو۔بلکہ اللہ عزوجل پر یہ معاملہ چھوڑ دو۔

اورحقیقت یہ ہے کہ میں کیوں کسی اور پر اُنگلی اُٹھاؤں جبکہ 4 انگلیاں خود میری طرف ہے۔ میں کیوں اپنی آنکھ کے شہتیر کو چھوڑ کر دوسرے کی آنکھ کے تنکے پر تنقید کروں۔

یااللہ عزوجل اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم سب کے گناہوں کو معاف فرما۔ آمین بجاہ النبئی الامین صلی اللہ علیہ وسلم۔
 

مہوش علی

لائبریرین
راسخ:

اسی آیت کی تفسیر قرطبی میں پڑھ لیجئے
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ قاتلِ عمد کی توبہ نہیں۔ لیکن کسی دوسری مجلس میں آپ نے اپنا یہ قول کسی سائل کے پوچھنے پر دہرایا تو حضرات نے سوال کیا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ توبہ ہے آپ نے فرمایا کہ یہ شخص کسی کو قتل کرنے کی نیت سے پوچھ رہا ہے۔ جب پتہ کیا تو ایسا ہی تھا جیسا آپ نے فرمایا۔ آپ سے توبہ کا قول بھی نقل کیا جاتا ہے۔


ميرے سامنے اس وقت تفسير طبري موجود ہے اور اس ميں 25 کے قريب روايات ابن عباس اور آپکے شاگردوں سے مروي ہيں اور ان ميں کھل کر ابن عباس بيان کر رہے ہيں کہ قتل عمد کي سزا "ابدي جہنم اور عذاب و لعنتِ الہي" ہے، اور ابن عباس کھل کر کہہ رہے ہيں کہ يہ آيت کبھي منسوخ نہيں ہوئي
ان کھلي روايات کے مقابلے پھر بھي ايک مبہم، اور غير واضح شوشہ چھوڑ دينا کہ شايد ابن عباس نے توبہ کا قول بھي نقل کيا ہے وغيرہ وغيرہ يہ ہرگز انصاف نہيں، کيونکہ ابن عباس جس توبہ کي بات کر رہے ہيں وہ اس چيز سے بالکل مختلف ہے جو صدام حسين نے کي ہے (ميں اسکا ذکر آخر ميں تفصيل سے کروں گي)


ابن عباس کو بھي ايک طرف رہنے ديں، خود قران کي بلاغت و فصاحت اس بات کے منافي ہے کہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف عمل کرے، قران ہمارے ليے چيزيں آسان کر کے بيان کرنے کے ليے آيا ہے
اور يہاں قران واضح ہے کہ مومن کا قتل کرنے والا کافر نہيں ہو جائے گا، بلکہ مسلمان ہي رہےگا، اور اللہ پر ايمان ہي لائے رکھے گا، مگر اسکے باوجود بھي اللہ اُسے ابدي جہنم و عذاب کا وعدہ کر رہا ہے، چنانچہ يہ کہنا کہ کسي نے مرتے وقت کلمہ پڑھ ليا تھا، يہ سوال بالکل عبث ہے کيونکہ اللہ نے عذاب کا وعدہ يہاں کافر ہو جانے پر نہيں بلکہ مومن کے قتل عمد پر کيا ہے

اور صدام حسين نے تو پکڑے جانے تک کبھي اپنے جرائم پر شرمندگي اور ندامت ظاہر نہيں کي، بلکہ وہ تو اتنا بڑا کذاب تھا کہ مرتے دم تک اپنے جرائم کا انکار کرتا رہا کہ اُس نے ايک انسان کا بھي قتل نہيں کروايا
چنانچہ مرتے دم بھي وہ انسانوں کے قتل عام پر نادم نہ تھا اور نہ توبہ کر رہا تھا، تو اب بھي يہ کہنا کہ وہ ہيرو تھا، يہ اُن لوگوں کے ساتھ بہت ناانصافي ہے کہ جن کے پورے پورے خاندانوں کو صدام حسين نے فنا کر ديا



يہ عقيدہ عجيب ہو جائے گا کہ حقوق الناس ميں تو اللہ کہے کہ قرض معاف نہيں ہو گا، مگر قتل عام کو معاف کر دے؟ اللہ تعالي نے ہميں عقل کا بيش گراں تحفہ ہي اسي ليے ديا ہے کہ ہم غور و فکر کريں

تو پھر تو ہر قاتل دن ميں لوگوں کے پيٹ ميں چھرے گھونپتا پھرے گا اور شام کو کلمہ پڑھ کر پاک ہو جائے گا، تو کيا يہ اللہ کا انصاف ہوا؟


اور راسخ، آپ نے مزيد لکھا ہے کہ:
عبد اللہ بن عمر ودیگر علماء سے بھی توبہ کا قول منقول ہے۔ قرطبی رحمہ اللہ دونوں قول نقل فرماکر کہتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے۔
معذرت کے ساتھ کہ اس محفل پر ہم کسي مسلک کے حوالے وغيرہ سے گفتگو نہيں کرتے، اور آپ نے ميرا طرز عمل ديکھ ہي ليا ہوگا کہ ميں قران کي واضح آيات کے حوالے سے کسي اور کي آراء پر عمل کرنے کو شخصيت پرستش سے تعبير کرتي ہوں
چنانچہ اگر آپکے پاس جناب عبداللہ ابن عمر کے دلائل ہوں (جو انہوں نے رسول اللہ ص سے نقل کيے ہوں) تو براہ مہرباني وہ پيش فرمائيے، ورنہ يہ چيز عبث ہي ہو گي کہ اُس نے يہ کہا اور فلاں نے يہ کہا

اور عبداللہ ابن عمر کے مقابلے ميں آپ ابن عباس کے قول کو کيوں نہيں قبول کر ليتے جبکہ آپ کو شخصيات کے پيچھے جانا ہي ہے تو ابن عباس کا درجہ يقينا عبداللہ ابن عمر سے بلند ہے

بہرحال، يہ تو آپکو فيصلہ کرنا تھا، اور آپکے جواب سے ظاہر ہے کہ آپ فيصلہ کر چکے ہيں، تو خوش رہيئے کيونکہ ميں اختلاف رائے کے نام پر آپ کي رائے کا احترام کرتي ہوں، مگر چاہتي ہوں کہ اختلاف رائے کے نام پر آپ مجھے بھي اختلاف کا حق ديں، اور اپن لاکھوں عراقي شہريوں کو بھي جو صدام کے قتل پر آج اس ليے خوش ہيں کہ اُن کے پورے پورے خاندان کو صدام نے ايک جھٹکے سے قتل کر ديا



نوٹ:
بےشک اللہ سے توبہ کرنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہيں، مگر ان گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہوتا ہے
مگر جب انسان حقوق الناس پر ڈاکا ڈالتا ہے، تو پھر اللہ سے توبہ کرنے کے علاوہ يہ بھي لازمي ہو جاتا ہے کہ
1) انسان اپنے کيے پر دل سے نادم ہو
2) اگر اُس کي رسائي اُن لوگوں تک ہو جن پر اُس نے ظلم کيا ہے، تو لازم ہے کہ اُن سے بھي معافي مانگي جائے

يہ وہ توبہ ہے جسکا ذکر ابن عباس نے کيا ہے، مگر صدام حسين کے متعلق عرض کر چکي ہوں کہ وہ ايسا کذاب ہے کہ ابھي تک انکار کيے جا رہا ہے کہ اس نے کوئي قتل نہيں کروايا، نہ ہي وہ اپنے کرتوتوں پر دل سے نادم ہے، اور اگر ہزاروں انسانوں کو قتل کرنے کي توبہ اب بھي آپکي نظر ميں آخر ميں کلمہ پڑھ لينا ہے تو ميں آپ سے اختلاف ہي رکھوں گي

اور صدام حسين نے مرنے سے قبل مقتدي کو مضحکہ خيز الفاظ کہے اور اسي کے جواب ميں وہاں مقتدي کي آوازيں بلند ہوئيں،

اور جنگ ميں مسلمانوں کا وطيرہ رہا ہے کہ جب کوئي کسي کافر کو قتل کرتا تھا تو نعرہ تکبير بلند کرتا تھا، چنانچہ وہاں موجود لوگوں نے اگر قتلِ صدام کے موقع پر درود پڑھنا شروع کر ديا تو يہ انتقامي کاروائي کيسے ہو گئي؟
 

جیسبادی

محفلین
معلوم نہیں کہ ایک سیاسی معاملے کو آپ لوگوں نے مذہبی رنگ کیسے دے دیا۔ اس طرح تو cia کے تنخواہ دار ایجنٹ بھی چاہیی تو امہ کے جذبات کو بھڑکا نہیں سکتے۔

اگر میرے الفاظ برے لگیں تو پیشگی معافی چاہتا ہوں۔
 

بدتمیز

محفلین
مہوش آپکو کافی لوگوں کا سامنا ہے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ ایک بندے کے پیچھے اتنے سارے پڑ جائیں لہذا آپ ان کو مطمئن کر لیں۔

دوست کبھی کوئی کام کی بحث ہو رہی ہو تو تم فٹ کہہ دیتے ہو اس کا فائدہ اور باقی جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آہم آہم ۔۔۔امید ہے برا نہیں مناؤ گے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دوست نے کہا:
اس ساری بحث کا فائدہ؟؟؟؟
:x

شاکر،
ميں نے بہت عرصے سے کسي بھي قسم کي بحثوں ميں حصہ لينا چھوڑ ديا تھا، مگر یہاں بحث کی اشد ضرورت اس لیے محسوس ہو رہی ہے کیونکہ دو امتِ مسلمہ دو ایسے فریقوں میں تقسیم ہو گئی ہے جو کہ ایک دوسرے کے پیغامات اور احساسات کو سمجھے بغیر ایک دوسرے کے دشمن شدید دشمن بن گئے ہیں۔۔۔ اور یہ فتنہ عراق اور دوسری جگہوں پر کسی وقت بھی پھٹ کر پھیل سکتا ہے اور خون خرابے کا باعث بنے گا۔



اب میں آپ پر ایک حقیقت اور کھولتی ہوں اور پھر دیکھتے ہیں کہ آپ کے کیا تاثرات پیدا ہوتے ہی:

پچھلی تحریروں میں آپکو اعتراض نظر آیا تھا کہ صدام کی موت کے وقت "مقتدی" کا نام کیوں لیا گیا۔ اور صرف اس ایک بات کو بنیاد بنا کر بہت سے لوگوں نے صدام کو ہیرو بنا دیا۔

اسکی ایک چھوٹی وجہ تو میں نے بیان کی تھی کہ یہ صدام حسین کی مرتے وقت وہ شرارت تھی جب اُس نے مقتدیٰ کا مضحکہ اڑایا تھا۔

لیکن اب میں آپ کو وہ وجہ بتاتی ہوں جس پڑھ کر یقینا آپ اُن لوگوں کے جذبات سمجھ سکیں گے جنہوں نے مقتدی کا نعرہ لگایا تھا


مقتدیٰ کیا ہے۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔ مگر آئیے ذرا اسکے والد اور خالہ، بلکہ تمام خاندان پر ایک نظر ڈالیں

والد: آیت اللہ باقر الصدر (مرتبہ وہی جو آج سیستانی صاحب کو حاصل ہے)
خالہ: بنت الہدیٰ (بہت بڑی عالمہ جو غیر معمولی طور پر کئی کتب کی مصنفہ تھیں)

یہ دونوں بھائی بہن گرفتار کر کے صدام کے پاس لائے گئے، جہاں باقر الصدر صاحب کے سامنے پہلے اُنکی بہن بنت الہدی کو مارا پیٹا گیا اور جب باقر الصدر صاحب نے بہن کو پیٹتا دیکھ کر صدام کو بددعائیں دینی شروع کیں تو صدام نے لوہے کی سلاخ (جس سے پہلے وہ بنت الہدی کو مار رہا تھا)ُ کو باقر الصدر صاحب کے سر پر مارنا شروع کر دیا

جب ان دونوں بھائی بہن کی لاشیں ملی تو بري طرح مسخ تھيں

اور یہ سلسلہ صرف ان دونوں بہن بھائیوں تک محدود نہ رہا، بلکہ خاندان کے باقی لوگوں کو (یعنی مقتدی کے چچاؤں کو) بھی صدام نے قتل کروا دیا۔۔۔۔۔ (اور لوگ کہتے ہیں کہ صدام کے دور میں امن امان تھا۔ کیا وجہ ہے کہ انہیں وہ ہزاروں قتل نظر نہیں آتے جہاں صدام نے پورے کے پورے خاندان ختم کر دیے)

اس لیے مرتے وقت صدام نے جو مضحکہ اڑایا تھا، اس کا پس منظر یہ ہے کہ صدام حسین اپنی عدالتی کاروائی کے دوران اکثر افسوساً کہتا رہا کہ اُس نے مقتدیٰ کو زندہ کیوں چھوڑ دیا، اور اسے بھی باقی خاندان والوں کی طرح قتل کیوں نہ کروا دیا۔


\\\\\\\\\\\\\\\\\

مجھے شروع میں حیرت ہوتی تھی کہ سیستانی صاحب کی موجودگی میں کیسے ممکن ہے کہ لوگ مقتدی کے اردگرد جمع ہیں۔
لیکن جب میں نے اس خاندان کی تاریخ پڑھی تو مجھے اسکی وجہ سمجھ آ گئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے خاندان والوں پر صدام نے ظلم و ستم کیے تھے۔ اور آج اگر یہ لوگ صدام سے نفرت کرتے ہیں تو کیا یہ بھی جرم ہے؟

اور کیا صدام نے واقعی توبہ کی تھی؟ اور کیا وہ واقعی اپنے کیے گئے قتل عام پر نادم تھا؟

اخبارات میں لکھنے والے ہمارے دانشوروں کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس خاندان کا تھوڑا سا تعارف اپنے کالموں میں کروا دیتے۔ یقینا حقیقتِ حال پڑھ کر بہت سے لوگ سمجھ سکتے کہ کیا وجہ ہے کہ عراق کا یہ طبقہ صدام سے اتنی نفرت کرتا ہے۔
 

ڈاکٹر عباس

محفلین
مہوش کی بات اور استدلال میں کافی وزن ھے اب اگر کوئی اختلاف کرے تو اس کا حق ھے۔میں تو بحرحال ان سے متفق ھوں۔
 

دوست

محفلین
یار میرا نہیں خیال یہ کام کی بحث ہے۔
کئی احباب کا موقف یہ ہے کہ اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔
مہوش کہتی ہیں کہ وہ قاتل ہے اور حقوق العباد کا توڑنے والا ہے اس لیے جہنمی ہے۔
بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ صدام نے ظلم کیا۔ ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ وہ گنہگار تھا بہت ہی گنہگار تھا۔ بلکہ اس کے تو بیٹوں نے عشرت کدے بنا رکھے تھے جو بعد میں خود کتے کی موت مارے گئے۔
لیکن ہم اس کے مرنے کے بعد صرف محتاط ہیں کہ اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔
بس اتنی سی بات ہے وہ جانے اور اس کا رب جانے وہ بہترین منصف ہے مجھے مہوش علی کی بات سے ذرا برابر بھی اختلاف نہیں لیکن میرے لیے اس کا جینا بھی مرنے کے برابر تھا۔
رہی بات عام لوگوں کی تو میں اپنے ایک دوست(میرا کیبل نیٹ پرووائڈر) سے ڈیڑھ گھنٹا بحث کی لیکن اسے قائل نہ کرسکا کہ صدام نے غلط کیا بلکہ اس کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اب میں کیا کرتا؟؟
اینٹ اٹھا کر اس کے سر پر مار دیت؟؟ا بلکہ وہ مجھ پر خفا ہورہا تھا کہ اتنی سی بات اس کی سمجھ میں نہیں آرہی۔
عرض صرف یہ ہے کہ یہاں آپس میں الجھنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں یا تو ان کو سمجھایا جائے تو ایسا کہہ رہے ہیں۔ محفل پر تو جتنے بھی احباب میں نے دیکھے ہیں سب کا موقف یہی ہے کہ صدام غلط تھا باقی مرگیا تو اس کا معاملہ رب پر۔
بات ختم۔
یا آپ اس بحث سے کسی کی سوچ کا رخ پھیر سکتے ہیں؟؟؟
میں تو اپنے موقف پر پہلے بھی قائم تھا اور اب بھی ہوں ۔
صدام غلط تھا ہاں تھا۔
صدام نے ظلم کیے ہاں کیے۔
لیکن اب وہ مرگیا اس کا معاملہ رب پر ہے۔
اسے عید کے دن پھانسی دی گئی یہ غلط تھا اس طرح فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے لوگ تو ویسے ہی جذباتی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ صدام کی معزولی اور پھر گرفتاری کے بعد سے عراقی سنی اس کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے
اور یہ بھی حقیقیت ہے کہ سنی موجودہ حکومت کو کٹھ پتلی اور امریکی پٹھو گردانتے ہیں جس میں ان کی بھی کوئی نمائندگی نہیں۔ یہ لمبی بحث ہے کہ انھوں نے خود ہی انتخابات کا بائیکاٹ کیا یا ان کی اپنی غلطی تھی لیکن حق یہی ہے کہ اس وقت موجودہ حکومت کو سنی اچھا نہیں سمجھتے سو صدام کو پھانسی کو بھی (اس حکومت کے ہاتھوں اچھا نہیں گردانتے)۔
پہلے بھی کوئی دوست کہہ چکے ہیں کہ یہ سب کرکے امریکیوں نے صدام کو ہیرو بنا دیا اور یہ ٹھیک بھی ہے۔
اس سب کا جو نتیجہ نکلا وہ اتنا ہے کہ ہمارے لوگ جذباتی ہیں،
اگر اس بات کو اٹھانا ہے تو اخبارات میں اٹھایا جائے، عام لوگوں کے سامنے اٹھایا جائے اور الحمد اللہ میں نے ایسا کیا بھی ہے۔ تاکہ عام آدمی کا ذہن بنے باقی یہی دعا ہے کہ اللہ ہم پر رحمت کرے عراق کے جو حالات ہیں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔
محفل پر ایک دوسرے سے الجھنا میری نظر میں بےکار ہے۔
یہاں تو سب صاحب علم ہیں اور حالات جانتے ہیں۔اور میرے خیال میں اس نکتے پر سب متفق ہیں کہ صدام غلط تھا اور رہا۔
جو میری سمجھ میں آیا لکھا کچھ غلط ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
تمیز دار بھائی آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہوگا امید ہے۔
وسلام
 

قیصرانی

لائبریرین
محمدسجادعلی نے کہا:
سسٹر مہوش علی بار بار ایک آیت کوٹ کر رہی ہیں۔ جس سے ثابت یہ کرنا چاہتی ہیں کہ قتل کرنے والا کفار کی طرح ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
یہ بات کثیر احادیث کیخلاف ہے۔
براہ کرم قرآن کی آیات کو احادیث سے متصادم قرار نہ دیں
 
Top