حفیظ احمد کے مجموعہ کلام ”محبت کی بازیافت“ سے ایک اور اقتباس

تو بھی دکھلاتا رہا خاموشیوں کے شعبدے
میں بھی مچھلی کی طرح پلٹا ہوں پتھر چاٹ کے

زندگی بھر نارسائی کے جہنم میں جلے
ہم سے قائم ہیں روایاتِ کُہن کے سلسلے

جب نہ تھا کچھ بھی تو دل کے آئینہ خانے میں ہم
دیدہءبینا اگر رکھتے بھی تو کیا دیکھتے

ہو ہی نہ جائے کہیں بیگانگی کا راز فاش
ہم کسی صورت بھی اپنے دل کو بہلاتے رہے

روح کی شبنم فنا کے راستے میں گم ہوئی
جسم کے آتش فشاں جب آگ برسانے لگے

کتنی آوازیں غبارِ راہ بن کر اُڑ گئیں
کتنے چہرے پتھروں سے نقش بن کر جڑ گئے
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہ
بہت خوب شراکت

روح کی شبنم فنا کے راستے میں گم ہوئی
جسم کے آتش فشاں جب آگ برسانے لگے

کتنی آوازیں غبارِ راہ بن کر اُڑ گئیں
کتنے چہرے پتھروں سے نقش بن کر جڑ گئے
 

سید زبیر

محفلین
جب نہ تھا کچھ بھی تو دل کے آئینہ خانے میں ہم
دیدہءبینا اگر رکھتے بھی تو کیا دیکھتے

نہائت خوبصورت انتخاب ہے
 
السلام علیکم عبید صاحب!
میرے پاس یہ کتاب ان پیج فارمیٹ میں تو نہیں ہے تاہم مجھے جو کچھ یہاں شائع کرنا ہوتا ہے وہ میں ان پیج میں ٹائپ کر کے یونی کوڈ کنورٹر کی مدد سے یہاں شائع کر دیتا ہوں۔ تاہم آپ مجھے اگر اپنا پتہ ارسال کر دیں تو یہ کتاب مجھے آپ کی خدمت میں پیش کر کے بہت خوشی ہو گی۔ شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
میرا کوائف کا صفحہ دیکھ لیں، اس میں کئی لوگوں کو ای میل آئ ڈی دے چکا ہوں۔ یہ بھی بتائیں کہ کیا شاعر سے اس کی اجازت حاصل ہے؟ یا ان کو اعتراض ممکن ہے!
 
Top