جیب خرچ کے ذریعے تربیت

عندلیب

محفلین
جیب خرچ کے ذریعے تربیت
صائمہ راحت

ہم اتنی محنت بچوں کے لیے کرتے ہیں ان کے تمام ضروریات پوری کرتے ہیں ، لیکن بچے پھر بھی پاکٹ منی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آپ اس مطالبہ کو ان کی مالیاتی ہینڈلنگ اور منی مینجمنٹ ٹریننگ کے لیے استعمال کریں۔ انہیں عادت ڈالیں کہ پیسہ صرف ضرورت کی چیز پر لگائیں اور جو خرچ کریں اس کو نوٹ کرتے جائیں ان کو یہ احساس دلائیں کہ جو رقم ان کو دی گئی تھی پہلے اس کا حساب دیں پھر مزید رقم ملے گی۔
پچھلے وقتوں میں جب کسی بچے کا دودھ کا دانت ٹوٹ جاتا تھا تو دادی ، دادا کہتے تھے کہ اس دانت کو تکیے کہ نیچے رکھ دو ، رات میں پریاں آکر دانت لے جائیں گی اور اس کی جگہ پیسے رکھ دیں گی۔ پھر اب ان پیسوں کو اپنی مرضی سے خرچ کیجئے گا اور یوں بچپن ہی سے بچوں کو پیسے خرچ کرنے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔

سان فرانسسکو کے ایک ڈائریکٹر کی 6 سالہ بیٹی کے دانت ٹوٹے تو اس نے اس کے تکیے کے نیچے 2 ڈالر کی رقم رکھ دی اور اس کے بعد اس سے پوچھا کہ آپ ان پیسوں کو کیسے کرچ کریں گی۔۔۔؟ اس نے اپنی بیٹی کو پیسے خرچ کرنے کے مختلف طریقے بتائے اور پوچھا کیا تم یہ چاہوگی کہ اس میں سے کچھ پیسے بچا کر جمع کرلو یا کچھ پیسے دوستوں، گھر والوں کی دعوت پہ خرچ کردو ۔۔ یا پھر کچھ پیسے گھر کے Charity bucket میں جمع کرادو۔

اس طریقے سے بچوں میں پیسے manage کرنے کی صلاحیت پروان چڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ ہر بچے کو پتہ ہوتا ہے کہ جب اس کو پیسے ملیں گے تو اس کے پاس مختلف راست اور ذرائع ہوں گے جہاں پیسے خرچ کئے جا سکیں۔ ( مثلاً دوستوں پر خرچ کرنا ، اپنی من پسند اشیاء خریدنا ، پیسے جمع کرنا یا دوسروں کی مدد کرنا وغیرہ)
بچوں کو پیسے دینے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان میں اس بات کا احساس پیدا کیا جائے کہ اب وہ ایک ذمہ دارفرد ہیں اور ان کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اپنی پاکٹ منی اپنی مرضی سے خرچ کر سکیں۔ اس طریقے سے ان کی خود اعتمادی اور احساس ذمہ داری میں اضافہ ہوگا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوبصورت مضمون ہے اور یہ بالکل صحیح بات ہے اور میری آزموہ ہے۔ پیسوں پیسوں میں اپنے بچوں پر حساب کتاب کی کئی ایک باتیں واضح کیں ہیں، کسی سے اگر پوچھا کہ 35 اور 65 کتنے ہوتے ہیں تو سوچنے لگ گیا اور اگر کہا کہ تمھارے پاس 35 روپے ہوں میں 65 روپے اور دوں تو تمھارے پاس کتنے ہوئے اس نے جھٹ بتا دیا، اسی طرح بقیہ بچنے والے پیسوں کا لالچ دے کر سودا سلف کا حساب لگوانا، اور پیسوں کے لالچ میں پہاڑے یاد کروانا اور ایسی ہی دیگر کئی ایک باتیں۔

لیکن اس کا بوجھ میری جیب پر ضرور پڑا ۛ:)
 
لیکن اس کا بوجھ میری جیب پر ضرور پڑا ۛ:)

ٹیوٹر رکھ کر ریاضی سکھانے کی فیس سے تو کم ہی رہا ہوگا؟ :)

ویسے ہمیں ہمارے ماموں نے ایسی ریاضی کی بہت مشق کرائی تھی۔ وہ بات کچھ یوں شروع کرتے تھے کہ آپ کو پینتیس روپے بارہ آنے دیے گئے اور آپ کو بازار سے سودا لانا ہے۔ پھر وہ سامان کی فہرست بتاتے ہر ایک کا نرخ اور مقدار جو کہ عموماً دو کیلو تین سو گرام یا ساڑھے تیرہ گرام وغیرہ جیسا کچھ ہوتا تھا۔ اخیر میں ہمیں بچی ہوئی رقم کا حساب دینا ہوتا تھا اور یہ بھی بتانا ہوتا تھا کہ اس میں سے اگر ہمیں چائے، پکوڑے اور ٹافی کی رقم دی جائے تو کتنا کچھ بچے گا۔ اور اس فرضی حساب کتاب میں کبھی کبھار ہمیں حکیم صاحب کی دوکان پر جا کر کچھ رقم ادھار بھی لینی پڑ جاتی تھی اگر ماموں یہ کہہ دیں کہ بازار میں جاکر پتا چلا کہ سبزیوں اور گڑ کا نرخ گراں ہے۔ عموماً ہم یہ حساب کتاب زبانی کرتے تھے لیکن بعد میں کمپلیکسٹی بڑھ جائے تو قلم اور کاغذ بھی استعمال کرنا پڑتا تھا۔ لیکن جواب شاذ و نادر ہی غلط ہوتے تھے۔ اور اس مشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے بہت ہی کم عمری میں گاؤں کے پاس کے قصبے سے ہفتہ وار بازار کا سودا سلف بغیر کسی کی مدد کے لانا شروع کر دیا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
درست فرمایا آپ نے برادرم۔ ویسے شاید اس حساب کتاب کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ جس حد تک ممکن ہو ذہن میں کیا جائے، میری کوشش بھی یہی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا ایک نقصان بھی اٹھانا پڑا، لالچی دکاندار بعض دفعہ بچے کو کم پیسے بھی دے دیتے ہیں یا کچھ چیزوں کی قیمت زیادہ لگا لیتے ہیں، واپس بھیجنے یا جانے پر مانتے بھی نہیں، شروع شروع میں ایسے کئی چرکے سہے۔ :)
 
Top