جملہ حقوق کی خلاف ورزی اور کتابی صنعت کا مسلسل استیصال 2012

معظم جاوید

محفلین
ذرا غور کیجئے!
کیا آپ پاکستانی ہیں! کیا آپ مسلمان ہیں!
بہترین انسان وہ ہے، جو انسانوں کو نفع پہنچائے! (حدیث نبویؐ)

گذشتہ چند سالوں سے ملکی حالات تیزی کے ساتھ تنزلی کی طرف گامزن ہیں۔معاشی طور پر سفید پوش طبقہ بری طرح پس گیا ہے اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ملک کی دوسری صنعتوں کی طرح کتابی صنعت بھی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 1980ء تک عموماً کتابوں کی تعدادِاشاعت دوہزار کاپی (2000) سے زیادہ رہتی تھی۔ جو اگلے دس سالوں میں کم ہوکر ایک ہزار (1000) رہ گئی اور اب یہ صورتحال ہے کہ کتاب کا پہلا ایڈیشن صرف پانچ سو تعداد میں شائع کیا جا رہا ہے۔ چند اشاعتی ادارے اپنی نئی کتب محض تین سو (300) کی تعداد میں شائع کرنے پر مجبور ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی ایک اشاعتی ادارے کے ساتھ کتنے لوگ منسلک ہوتے ہیں۔یقینانہیں!
پہلے مرحلے میں تو ادیب، شاعر، مؤلف یا مرتب کار ہوتا ہے، جو اپنی دن رات کی محنت کے بعد کتاب کا مسودہ بناتا ہے۔
دوسرے مرحلہ پر کمپوزنگ کا سلسلہ ہوتا ہے۔ جہاں اس کتاب کی کتابت یا تحریر عمل میں لائی جاتی ہے۔یہاں کم از کم تین افراد کام کرتے ہیں۔
تیسرامرحلہ سرورق کی ڈیزائننگ کا ہوتا ہے جہاں ایک یا دو ڈیزائنرز مل کر کتاب کا سرورق بناتے ہیں۔
چوتھا مرحلہ کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کا ہوتا ہے جس کیلئے کم ازکم دو پروف ریڈرز مسلسل کام کرتے ہیں۔
پانچواں مرحلہ کتابت شدہ مواد کی پیسٹنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں پیسٹر مسلسل محنت کے بعد خام کاپیاں تیار کرتا ہے جو پریس جانے کی تیار ہوتی ہیں۔
چھٹا مرحلہ کتابی کاغذ اور سرورق کاغذ کے انتخاب کا ہوتا ہے، جس کیلئے پبلشر کاغذ مارکیٹ میں جاتا ہے اور اکثر کئی چکر لگانے کے بعد اسے مطلوبہ کاغذ ملتا ہے۔
ساتواں مرحلہ خام کاپیوں کی پلیٹ میکنگ کا ہوتا ہے۔ لوہے کی چادر کی بنی پلیٹوں پر خام کاپیوں کا عکس کندہ کیا جاتا ہے اس کام میں کم ازکم پانچ افراد کام کرتے ہیں۔
آٹھواں مرحلہ پرنٹنگ پریس میں چھپائی کا ہوتا ہے۔ جس میں کم ازکم پانچ سے دس افراد کام کرتے ہیں۔
نواں مرحلہ سرورق کی چھپائی کا ہوتا ہے جو الگ پرنٹنگ پریس میں کیا جاتا ہے یہاں تین سے پانچ افراد کام کرتے ہیں۔
دسواں مرحلہ لمینیشن کا ہوتا ہے جس میں مشین کے ذریعےسرورق پر پلاسٹک کا چمکدار شیٹ چڑھایا جاتا ہے۔
گیارہواں مرحلہ چھپے ہوئے کاغذ کی جلدبندی اور کتابی تشکیل کا ہوتا ہے جو دفتری خانہ میں کیا جاتا ہے۔ یہاں کام کرنے والے افراد کی تعداد کم ازکم بیس ہوتی ہے۔
بارہواں مرحلہ مکمل تیار شدہ کتاب کی تقسیم کا ہوتا ہے جس کے لئے پبلشر تمام پاکستان میں موجود کتب فروشوں کو مخصوص کمیشن پر کتب پہنچاتا ہے۔ اس میں آمدورفت و پیکنگ وغیرہ کا خرچ بذمہ پبلشر ہوتا ہے۔ اس عمل میں محکمہ ڈاک، گڈز کمپنیاں اور ایجنٹ حضرات شامل ہوتے ہیں۔
ان تمام مراحل میں غریب مزدور طبقہ بھی شامل ہے جو کتب کی اشاعت کے دوران خام میٹریل کو ہتھ ریڑھی، چھکڑوں اور پیدل سر پر اُٹھا کر اپنا محنتانہ وصول کرتے ہیں۔
ایک کتاب کی مکمل تیاری کے دوران کم ازکم بیس سے تیس دن کا مسلسل وقت صرف ہوتا ہے۔
سادہ الفاظ میں یہ سمجھ لیجئے کہ کسی ایک کتاب کی اشاعت میں کم ازکم ڈیڑھ سے دوسو افراد مل جل کر کام کرتے ہیں، اور اپنے اپنے حصے کا رزقِ حلال حاصل کرتے ہیں۔یعنی پورے پاکستان میں قریباً سترہ سے بیس لاکھ افراد کتابی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ان میں وہ مزدور طبقہ شامل نہیں ہے جو بوجھ ڈھونے کا کام کرتا ہے۔ جوں جوں کتابوں کی اشاعت کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے توں توں ان لوگوں کی آمدن سکڑتی جارہی ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں تقریباً چالیس فی صد لوگ مایوس ہوکر کسی دوسری محنت مزدوری میں مشغول ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی دن بہ دن بڑھ رہی ہے مگر کتابی صنعت زوال کا شکار ہو رہی ہے۔
اس کی ایک وجہ آپ لوگ بھی ہیں!!!
جی ہاں! آپ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بازار سے سو پچاس روپے کی ایک کتاب خرید کر لاتے ہیں اور اپنے سکینر کی مدد سے اسے سکین کرکے پی ڈی ایف بناتے ہیں، اپنی نمودونمائش اور فنکاری کا رعب جھاڑنے کیلئے اسے انٹرنیٹ پر شیئر کرتے ہیں اور آپ جیسے ہزاروں لوگ بازار سے انہیں خریدنے کے بجائے دھڑا دھڑ مفت ڈاؤن لوڈ کرتے رہتے ہیں۔
ذرا سوچئے۔۔۔ ۔۔!!!
کیا یہ کتابیں ان کی اپ لوڈرز کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں؟
کیا یہ اپ لوڈرز، سرعام چوری اور سینہ زوری کے مرتکب نہیں ہوتے؟
کیا یہ اپ لوڈرز، ایک کتاب اپ لوڈ کرکے ڈیڑھ سے دوسو افراد کی مزدوری پر ڈاکہ نہیں مارتے؟
کیا دوسروں کی دن رات کی محنت کو یوں اُڑانا دین اسلام کے تحت جائز ہے؟
کیا اشاعت ِعلم ودین کے نام پر خود محنت کرنے کے بجائے دوسروں کا نقصان کرنا جائز ہے؟
کیا نبی کریمﷺ نے یہ نہیں فرمایا: بہترین مسلمان (مومن) وہ شخص ہے جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
اگر آپ خود کو قابلیت و اہلیت میں یکتا سمجھتے ہیں اور انٹرنیٹ کی دُنیا میں واقعی کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں تو مثبت راہیں اختیار کیجئے۔ علم کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تعلیم و قابلیت کو استعمال کیجئے، اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کریں (جو باعث ثواب ہو گا) دوسرے کی روزی روٹی پر لات مار کر آپ یقیناً گناہ عظیم کما رہے ہیں۔ یاد رکھئے! مسلمان پیدا ہونا کوئی کمال نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کے بس میں نہیں ہے، خدا باری تعالیٰ جسے چاہتا ہے مسلمان کے گھر میں پیدا کر دیتا ہے۔ اصل امتحان تو ایک عمدہ مسلمان بن کر دکھانا ہے، یہی اصل کمال ہے۔ اس کمال کا حقیقی نمونہ نبی کریمﷺ نے خود پیش کیا ہے جس کے آج بھی اہل مغرب معترف ہیں۔ غیر مسلم دُنیا میں سو عظیم شخصیات میں نبی کریمﷺ کو پہلا نمبر کیوں دیا گیا ہے، ذرا غور کیجئے۔ اولیاء کرامؒ کی سیرت اور ملفوظات پر غور کیجئے کہ انہوں نے نہ صرف خود کر دکھایا بلکہ سیرت نبویؐ پر چلنے کی کڑی تاکید و تلقین بھی کی۔
اب بس کیجئے! جو ہو چکا سو چکا۔۔۔ ۔ خود سے وعدہ کیجئے کہ اب ایسا نہیں کیا جائے گا۔
یاد رکھئے! جنوری 2013ء سے سائبرورلڈ کے بین الاقوامی جملہ حقوق قوانین کے تحت پورے پاکستان میں جملہ حقوق کی کاررائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ایسی تمام ویب سائٹس اور بلاگز کو ختم کر دیا جائے گا جہاں کسی بھی پاکستانی پبلشر کی شائع کردہ کتاب پائی جا ئے گی۔ صرف ایسی کتب کو باقی رہنے دیا جائے گا جن کی ڈیجیٹل اشاعت کی اجازت خود پبلشر یا مصنف نے دی ہو گی۔ پبلشرز فورم میں اس ضمن میں بھی فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ کتب کی ڈیجیٹل ترسیل کا کام باقاعدہ سائبر ایجنٹس کو سونپ دیا جائے تاکہ جو لوگ کتب کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے متمنی ہیں وہ باقاعدہ ویب سٹور یعنی ایمزن یا مقررہ سائٹس سے ہی پی ڈی ایف خرید سکتے ہیں۔
اس ضمن میں مزید اپ ڈیٹس سے میں آپ کو آگاہ کرتا رہوں گا۔ شکریہ
معظم جاویدؔ بخاری​
 

تلمیذ

لائبریرین
تو یہ انٹر نیٹ پر جو ای بکس کی بھر مار ہے اور دنیا بھر سے ہم جیسےعوام ان سے بلا معاوضہ استفادہ حاصل کررہے ہیں ان کا کیا ہوگا؟
بے حدمعلوماتی دھاگہ شروع کیا گیا ہے اور اس پر کتاب و ادب سے دلچسپی رکھنے والےتمام احباب خصوصاً راشد اشرف ، اعجاز عبید، محمد وارث، شاکر القادری، نبیل، قیصرانی، دوست، نیرنگ خیال،شمشاد، عبدالرزاق، فرخ منظور صاحبان سے سیر حاصل تبصرہ کرنے گذارش ہے۔ (ٹیگ کرنے کا طریقہ معلوم نہیں اس لئے جو جو نام یاد آیا لکھنے کی کوشش کی ہے، یہ ذوق رکھنےخواتین بھی براہ کرم خود خود کو شامل سمجھیں)
 

قیصرانی

لائبریرین
ذرا غور کیجئے!
کیا آپ پاکستانی ہیں! کیا آپ مسلمان ہیں!
بہترین انسان وہ ہے، جو انسانوں کو نفع پہنچائے! (حدیث نبویؐ)
گذشتہ چند سالوں سے ملکی حالات تیزی کے ساتھ تنزلی کی طرف گامزن ہیں۔معاشی طور پر سفید پوش طبقہ بری طرح پس گیا ہے اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ملک کی دوسری صنعتوں کی طرح کتابی صنعت بھی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 1980ء تک عموماً کتابوں کی تعدادِاشاعت دوہزار کاپی (2000) سے زیادہ رہتی تھی۔ جو اگلے دس سالوں میں کم ہوکر ایک ہزار (1000) رہ گئی اور اب یہ صورتحال ہے کہ کتاب کا پہلا ایڈیشن صرف پانچ سو تعداد میں شائع کیا جا رہا ہے۔ چند اشاعتی ادارے اپنی نئی کتب محض تین سو (300) کی تعداد میں شائع کرنے پر مجبور ہیں۔​
آخر ایسا کیوں ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی ایک اشاعتی ادارے کے ساتھ کتنے لوگ منسلک ہوتے ہیں۔یقینانہیں!​
پہلے مرحلے میں تو ادیب، شاعر، مؤلف یا مرتب کار ہوتا ہے، جو اپنی دن رات کی محنت کے بعد کتاب کا مسودہ بناتا ہے۔​
دوسرے مرحلہ پر کمپوزنگ کا سلسلہ ہوتا ہے۔ جہاں اس کتاب کی کتابت یا تحریر عمل میں لائی جاتی ہے۔یہاں کم از کم تین افراد کام کرتے ہیں۔​
تیسرامرحلہ سرورق کی ڈیزائننگ کا ہوتا ہے جہاں ایک یا دو ڈیزائنرز مل کر کتاب کا سرورق بناتے ہیں۔​
چوتھا مرحلہ کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کا ہوتا ہے جس کیلئے کم ازکم دو پروف ریڈرز مسلسل کام کرتے ہیں۔​
پانچواں مرحلہ کتابت شدہ مواد کی پیسٹنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں پیسٹر مسلسل محنت کے بعد خام کاپیاں تیار کرتا ہے جو پریس جانے کی تیار ہوتی ہیں۔​
چھٹا مرحلہ کتابی کاغذ اور سرورق کاغذ کے انتخاب کا ہوتا ہے، جس کیلئے پبلشر کاغذ مارکیٹ میں جاتا ہے اور اکثر کئی چکر لگانے کے بعد اسے مطلوبہ کاغذ ملتا ہے۔​
ساتواں مرحلہ خام کاپیوں کی پلیٹ میکنگ کا ہوتا ہے۔ لوہے کی چادر کی بنی پلیٹوں پر خام کاپیوں کا عکس کندہ کیا جاتا ہے اس کام میں کم ازکم پانچ افراد کام کرتے ہیں۔​
آٹھواں مرحلہ پرنٹنگ پریس میں چھپائی کا ہوتا ہے۔ جس میں کم ازکم پانچ سے دس افراد کام کرتے ہیں۔​
نواں مرحلہ سرورق کی چھپائی کا ہوتا ہے جو الگ پرنٹنگ پریس میں کیا جاتا ہے یہاں تین سے پانچ افراد کام کرتے ہیں۔​
دسواں مرحلہ لمینیشن کا ہوتا ہے جس میں مشین کے ذریعےسرورق پر پلاسٹک کا چمکدار شیٹ چڑھایا جاتا ہے۔​
گیارہواں مرحلہ چھپے ہوئے کاغذ کی جلدبندی اور کتابی تشکیل کا ہوتا ہے جو دفتری خانہ میں کیا جاتا ہے۔ یہاں کام کرنے والے افراد کی تعداد کم ازکم بیس ہوتی ہے۔​
بارہواں مرحلہ مکمل تیار شدہ کتاب کی تقسیم کا ہوتا ہے جس کے لئے پبلشر تمام پاکستان میں موجود کتب فروشوں کو مخصوص کمیشن پر کتب پہنچاتا ہے۔ اس میں آمدورفت و پیکنگ وغیرہ کا خرچ بذمہ پبلشر ہوتا ہے۔ اس عمل میں محکمہ ڈاک، گڈز کمپنیاں اور ایجنٹ حضرات شامل ہوتے ہیں۔​
ان تمام مراحل میں غریب مزدور طبقہ بھی شامل ہے جو کتب کی اشاعت کے دوران خام میٹریل کو ہتھ ریڑھی، چھکڑوں اور پیدل سر پر اُٹھا کر اپنا محنتانہ وصول کرتے ہیں۔​
ایک کتاب کی مکمل تیاری کے دوران کم ازکم بیس سے تیس دن کا مسلسل وقت صرف ہوتا ہے۔
سادہ الفاظ میں یہ سمجھ لیجئے کہ کسی ایک کتاب کی اشاعت میں کم ازکم ڈیڑھ سے دوسو افراد مل جل کر کام کرتے ہیں، اور اپنے اپنے حصے کا رزقِ حلال حاصل کرتے ہیں۔یعنی پورے پاکستان میں قریباً سترہ سے بیس لاکھ افراد کتابی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ان میں وہ مزدور طبقہ شامل نہیں ہے جو بوجھ ڈھونے کا کام کرتا ہے۔ جوں جوں کتابوں کی اشاعت کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے توں توں ان لوگوں کی آمدن سکڑتی جارہی ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں تقریباً چالیس فی صد لوگ مایوس ہوکر کسی دوسری محنت مزدوری میں مشغول ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی دن بہ دن بڑھ رہی ہے مگر کتابی صنعت زوال کا شکار ہو رہی ہے۔​
اس کی ایک وجہ آپ لوگ بھی ہیں!!!
جی ہاں! آپ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بازار سے سو پچاس روپے کی ایک کتاب خرید کر لاتے ہیں اور اپنے سکینر کی مدد سے اسے سکین کرکے پی ڈی ایف بناتے ہیں، اپنی نمودونمائش اور فنکاری کا رعب جھاڑنے کیلئے اسے انٹرنیٹ پر شیئر کرتے ہیں اور آپ جیسے ہزاروں لوگ بازار سے انہیں خریدنے کے بجائے دھڑا دھڑ مفت ڈاؤن لوڈ کرتے رہتے ہیں۔​
ذرا سوچئے۔۔۔ ۔۔!!!​
کیا یہ کتابیں ان کی اپ لوڈرز کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں؟​
کیا یہ اپ لوڈرز، سرعام چوری اور سینہ زوری کے مرتکب نہیں ہوتے؟​
کیا یہ اپ لوڈرز، ایک کتاب اپ لوڈ کرکے ڈیڑھ سے دوسو افراد کی مزدوری پر ڈاکہ نہیں مارتے؟​
کیا دوسروں کی دن رات کی محنت کو یوں اُڑانا دین اسلام کے تحت جائز ہے؟​
کیا اشاعت ِعلم ودین کے نام پر خود محنت کرنے کے بجائے دوسروں کا نقصان کرنا جائز ہے؟​
کیا نبی کریمﷺ نے یہ نہیں فرمایا: بہترین مسلمان (مومن) وہ شخص ہے جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
اگر آپ خود کو قابلیت و اہلیت میں یکتا سمجھتے ہیں اور انٹرنیٹ کی دُنیا میں واقعی کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں تو مثبت راہیں اختیار کیجئے۔ علم کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تعلیم و قابلیت کو استعمال کیجئے، اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کریں (جو باعث ثواب ہو گا) دوسرے کی روزی روٹی پر لات مار کر آپ یقیناً گناہ عظیم کما رہے ہیں۔ یاد رکھئے! مسلمان پیدا ہونا کوئی کمال نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کے بس میں نہیں ہے، خدا باری تعالیٰ جسے چاہتا ہے مسلمان کے گھر میں پیدا کر دیتا ہے۔ اصل امتحان تو ایک عمدہ مسلمان بن کر دکھانا ہے، یہی اصل کمال ہے۔ اس کمال کا حقیقی نمونہ نبی کریمﷺ نے خود پیش کیا ہے جس کے آج بھی اہل مغرب معترف ہیں۔ غیر مسلم دُنیا میں سو عظیم شخصیات میں نبی کریمﷺ کو پہلا نمبر کیوں دیا گیا ہے، ذرا غور کیجئے۔ اولیاء کرامؒ کی سیرت اور ملفوظات پر غور کیجئے کہ انہوں نے نہ صرف خود کر دکھایا بلکہ سیرت نبویؐ پر چلنے کی کڑی تاکید و تلقین بھی کی۔​
اب بس کیجئے! جو ہو چکا سو چکا۔۔۔ ۔ خود سے وعدہ کیجئے کہ اب ایسا نہیں کیا جائے گا۔​
یاد رکھئے! جنوری 2013ء سے سائبرورلڈ کے بین الاقوامی جملہ حقوق قوانین کے تحت پورے پاکستان میں جملہ حقوق کی کاررائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ایسی تمام ویب سائٹس اور بلاگز کو ختم کر دیا جائے گا جہاں کسی بھی پاکستانی پبلشر کی شائع کردہ کتاب پائی جا ئے گی۔ صرف ایسی کتب کو باقی رہنے دیا جائے گا جن کی ڈیجیٹل اشاعت کی اجازت خود پبلشر یا مصنف نے دی ہو گی۔ پبلشرز فورم میں اس ضمن میں بھی فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ کتب کی ڈیجیٹل ترسیل کا کام باقاعدہ سائبر ایجنٹس کو سونپ دیا جائے تاکہ جو لوگ کتب کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے متمنی ہیں وہ باقاعدہ ویب سٹور یعنی ایمزن یا مقررہ سائٹس سے ہی پی ڈی ایف خرید سکتے ہیں۔​
اس ضمن میں مزید اپ ڈیٹس سے میں آپ کو آگاہ کرتا رہوں گا۔ شکریہ​
معظم جاویدؔ بخاری​
محترم مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے لیکن مجھے پبلشرز کی اس پالیسی سے سخت نفرت ہے کہ وہ تمام تر جملہ حقوق اپنے نام ضبط کر لیتے ہیں۔ کیا وہ بندہ جس کی محنت کی وجہ سے ڈیڑھ دو سو لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور پبلشرز کو پیسے، کس قانون کے تحت وہ جملہ حقوق اپنے نام محفوظ نہیں کر سکتا؟ منافع کا کتنا حصہ لکھاری کو ملتا ہے اور کتنا حصہ پبلشر کی جیب میں جاتا ہے؟ میں ایسے کئی مصنفین کو جانتا ہوں جو علی اعلان کہتے ہیں کہ وہ اس رواج سے ناخوش ہیں لیکن اس کے بغیر پبلشر کتب چھاپنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اس کی وضاحت کیجئے گا
 

ساجد

محفلین
ذرا غور کیجئے!
کیا آپ پاکستانی ہیں! کیا آپ مسلمان ہیں!
بہترین انسان وہ ہے، جو انسانوں کو نفع پہنچائے! (حدیث نبویؐ)
گذشتہ چند سالوں سے ملکی حالات تیزی کے ساتھ تنزلی کی طرف گامزن ہیں۔معاشی طور پر سفید پوش طبقہ بری طرح پس گیا ہے اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ملک کی دوسری صنعتوں کی طرح کتابی صنعت بھی تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 1980ء تک عموماً کتابوں کی تعدادِاشاعت دوہزار کاپی (2000) سے زیادہ رہتی تھی۔ جو اگلے دس سالوں میں کم ہوکر ایک ہزار (1000) رہ گئی اور اب یہ صورتحال ہے کہ کتاب کا پہلا ایڈیشن صرف پانچ سو تعداد میں شائع کیا جا رہا ہے۔ چند اشاعتی ادارے اپنی نئی کتب محض تین سو (300) کی تعداد میں شائع کرنے پر مجبور ہیں۔​
آخر ایسا کیوں ہے؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی ایک اشاعتی ادارے کے ساتھ کتنے لوگ منسلک ہوتے ہیں۔یقینانہیں!​
پہلے مرحلے میں تو ادیب، شاعر، مؤلف یا مرتب کار ہوتا ہے، جو اپنی دن رات کی محنت کے بعد کتاب کا مسودہ بناتا ہے۔​
دوسرے مرحلہ پر کمپوزنگ کا سلسلہ ہوتا ہے۔ جہاں اس کتاب کی کتابت یا تحریر عمل میں لائی جاتی ہے۔یہاں کم از کم تین افراد کام کرتے ہیں۔​
تیسرامرحلہ سرورق کی ڈیزائننگ کا ہوتا ہے جہاں ایک یا دو ڈیزائنرز مل کر کتاب کا سرورق بناتے ہیں۔​
چوتھا مرحلہ کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کا ہوتا ہے جس کیلئے کم ازکم دو پروف ریڈرز مسلسل کام کرتے ہیں۔​
پانچواں مرحلہ کتابت شدہ مواد کی پیسٹنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں پیسٹر مسلسل محنت کے بعد خام کاپیاں تیار کرتا ہے جو پریس جانے کی تیار ہوتی ہیں۔​
چھٹا مرحلہ کتابی کاغذ اور سرورق کاغذ کے انتخاب کا ہوتا ہے، جس کیلئے پبلشر کاغذ مارکیٹ میں جاتا ہے اور اکثر کئی چکر لگانے کے بعد اسے مطلوبہ کاغذ ملتا ہے۔​
ساتواں مرحلہ خام کاپیوں کی پلیٹ میکنگ کا ہوتا ہے۔ لوہے کی چادر کی بنی پلیٹوں پر خام کاپیوں کا عکس کندہ کیا جاتا ہے اس کام میں کم ازکم پانچ افراد کام کرتے ہیں۔​
آٹھواں مرحلہ پرنٹنگ پریس میں چھپائی کا ہوتا ہے۔ جس میں کم ازکم پانچ سے دس افراد کام کرتے ہیں۔​
نواں مرحلہ سرورق کی چھپائی کا ہوتا ہے جو الگ پرنٹنگ پریس میں کیا جاتا ہے یہاں تین سے پانچ افراد کام کرتے ہیں۔​
دسواں مرحلہ لمینیشن کا ہوتا ہے جس میں مشین کے ذریعےسرورق پر پلاسٹک کا چمکدار شیٹ چڑھایا جاتا ہے۔​
گیارہواں مرحلہ چھپے ہوئے کاغذ کی جلدبندی اور کتابی تشکیل کا ہوتا ہے جو دفتری خانہ میں کیا جاتا ہے۔ یہاں کام کرنے والے افراد کی تعداد کم ازکم بیس ہوتی ہے۔​
بارہواں مرحلہ مکمل تیار شدہ کتاب کی تقسیم کا ہوتا ہے جس کے لئے پبلشر تمام پاکستان میں موجود کتب فروشوں کو مخصوص کمیشن پر کتب پہنچاتا ہے۔ اس میں آمدورفت و پیکنگ وغیرہ کا خرچ بذمہ پبلشر ہوتا ہے۔ اس عمل میں محکمہ ڈاک، گڈز کمپنیاں اور ایجنٹ حضرات شامل ہوتے ہیں۔​
ان تمام مراحل میں غریب مزدور طبقہ بھی شامل ہے جو کتب کی اشاعت کے دوران خام میٹریل کو ہتھ ریڑھی، چھکڑوں اور پیدل سر پر اُٹھا کر اپنا محنتانہ وصول کرتے ہیں۔​
ایک کتاب کی مکمل تیاری کے دوران کم ازکم بیس سے تیس دن کا مسلسل وقت صرف ہوتا ہے۔
سادہ الفاظ میں یہ سمجھ لیجئے کہ کسی ایک کتاب کی اشاعت میں کم ازکم ڈیڑھ سے دوسو افراد مل جل کر کام کرتے ہیں، اور اپنے اپنے حصے کا رزقِ حلال حاصل کرتے ہیں۔یعنی پورے پاکستان میں قریباً سترہ سے بیس لاکھ افراد کتابی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ان میں وہ مزدور طبقہ شامل نہیں ہے جو بوجھ ڈھونے کا کام کرتا ہے۔ جوں جوں کتابوں کی اشاعت کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے توں توں ان لوگوں کی آمدن سکڑتی جارہی ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں تقریباً چالیس فی صد لوگ مایوس ہوکر کسی دوسری محنت مزدوری میں مشغول ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی دن بہ دن بڑھ رہی ہے مگر کتابی صنعت زوال کا شکار ہو رہی ہے۔​
اس کی ایک وجہ آپ لوگ بھی ہیں!!!
جی ہاں! آپ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بازار سے سو پچاس روپے کی ایک کتاب خرید کر لاتے ہیں اور اپنے سکینر کی مدد سے اسے سکین کرکے پی ڈی ایف بناتے ہیں، اپنی نمودونمائش اور فنکاری کا رعب جھاڑنے کیلئے اسے انٹرنیٹ پر شیئر کرتے ہیں اور آپ جیسے ہزاروں لوگ بازار سے انہیں خریدنے کے بجائے دھڑا دھڑ مفت ڈاؤن لوڈ کرتے رہتے ہیں۔​
ذرا سوچئے۔۔۔ ۔۔!!!​
کیا یہ کتابیں ان کی اپ لوڈرز کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں؟​
کیا یہ اپ لوڈرز، سرعام چوری اور سینہ زوری کے مرتکب نہیں ہوتے؟​
کیا یہ اپ لوڈرز، ایک کتاب اپ لوڈ کرکے ڈیڑھ سے دوسو افراد کی مزدوری پر ڈاکہ نہیں مارتے؟​
کیا دوسروں کی دن رات کی محنت کو یوں اُڑانا دین اسلام کے تحت جائز ہے؟​
کیا اشاعت ِعلم ودین کے نام پر خود محنت کرنے کے بجائے دوسروں کا نقصان کرنا جائز ہے؟​
کیا نبی کریمﷺ نے یہ نہیں فرمایا: بہترین مسلمان (مومن) وہ شخص ہے جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
اگر آپ خود کو قابلیت و اہلیت میں یکتا سمجھتے ہیں اور انٹرنیٹ کی دُنیا میں واقعی کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں تو مثبت راہیں اختیار کیجئے۔ علم کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تعلیم و قابلیت کو استعمال کیجئے، اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کریں (جو باعث ثواب ہو گا) دوسرے کی روزی روٹی پر لات مار کر آپ یقیناً گناہ عظیم کما رہے ہیں۔ یاد رکھئے! مسلمان پیدا ہونا کوئی کمال نہیں ہے کیونکہ یہ آپ کے بس میں نہیں ہے، خدا باری تعالیٰ جسے چاہتا ہے مسلمان کے گھر میں پیدا کر دیتا ہے۔ اصل امتحان تو ایک عمدہ مسلمان بن کر دکھانا ہے، یہی اصل کمال ہے۔ اس کمال کا حقیقی نمونہ نبی کریمﷺ نے خود پیش کیا ہے جس کے آج بھی اہل مغرب معترف ہیں۔ غیر مسلم دُنیا میں سو عظیم شخصیات میں نبی کریمﷺ کو پہلا نمبر کیوں دیا گیا ہے، ذرا غور کیجئے۔ اولیاء کرامؒ کی سیرت اور ملفوظات پر غور کیجئے کہ انہوں نے نہ صرف خود کر دکھایا بلکہ سیرت نبویؐ پر چلنے کی کڑی تاکید و تلقین بھی کی۔​
اب بس کیجئے! جو ہو چکا سو چکا۔۔۔ ۔ خود سے وعدہ کیجئے کہ اب ایسا نہیں کیا جائے گا۔​
یاد رکھئے! جنوری 2013ء سے سائبرورلڈ کے بین الاقوامی جملہ حقوق قوانین کے تحت پورے پاکستان میں جملہ حقوق کی کاررائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ایسی تمام ویب سائٹس اور بلاگز کو ختم کر دیا جائے گا جہاں کسی بھی پاکستانی پبلشر کی شائع کردہ کتاب پائی جا ئے گی۔ صرف ایسی کتب کو باقی رہنے دیا جائے گا جن کی ڈیجیٹل اشاعت کی اجازت خود پبلشر یا مصنف نے دی ہو گی۔ پبلشرز فورم میں اس ضمن میں بھی فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ کتب کی ڈیجیٹل ترسیل کا کام باقاعدہ سائبر ایجنٹس کو سونپ دیا جائے تاکہ جو لوگ کتب کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے متمنی ہیں وہ باقاعدہ ویب سٹور یعنی ایمزن یا مقررہ سائٹس سے ہی پی ڈی ایف خرید سکتے ہیں۔​
اس ضمن میں مزید اپ ڈیٹس سے میں آپ کو آگاہ کرتا رہوں گا۔ شکریہ​
معظم جاویدؔ بخاری​
معظم جاوید صاحب ممکن ہو سکے تو ذاتی پیغام میں مجھ سے رابطہ کریں۔
 

دوست

محفلین
پاکستان میں ناشرین کی جانب سے جملہ حقوق زبردستی اپنے نام محفوظ کروا لینا، اور مصنفین کو جائز حق سے محروم رکھنا جیسے افعال پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن یہ پی ڈی ایف والا ڈوگی خانہ واقعی لائقِ توجہ ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
پاکستان میں ناشرین کی جانب سے جملہ حقوق زبردستی اپنے نام محفوظ کروا لینا، اور مصنفین کو جائز حق سے محروم رکھنا جیسے افعال پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن یہ پی ڈی ایف والا ڈوگی خانہ واقعی لائقِ توجہ ہے۔
ڈوگی خانے کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ایک بندہ دوسرے کے حق پر ڈاکہ مار رہا ہے۔ تیسرا بندہ پہلے کے ڈاکے پر ڈاکہ مارتا ہے۔ بات ختم :) چور بھلا کس منہ سے اپنی چوری تسلیم کرے گا؟ میں ذاتی طور پر اس بات کے حق میں ہوں کہ کتب کی پبلشنگ اور اس کی ملکیت مصنف کے پاس ہونی چاہیئے نہ کہ پبلشر کے پاس
 

زبیر مرزا

محفلین
یاد رکھئے! جنوری 2013ء سے سائبرورلڈ کے بین الاقوامی جملہ حقوق قوانین کے تحت پورے پاکستان میں جملہ حقوق کی کاررائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ایسی تمام ویب سائٹس اور بلاگز کو ختم کر دیا جائے گا جہاں کسی بھی پاکستانی پبلشر کی شائع کردہ کتاب پائی جا ئے گی۔ صرف ایسی کتب کو باقی رہنے دیا جائے گا جن کی ڈیجیٹل اشاعت کی اجازت خود پبلشر یا مصنف نے دی ہو گی۔ پبلشرز فورم میں اس ضمن میں بھی فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ کتب کی ڈیجیٹل ترسیل کا کام باقاعدہ سائبر ایجنٹس کو سونپ دیا جائے تاکہ جو لوگ کتب کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے متمنی ہیں وہ باقاعدہ ویب سٹور یعنی ایمزن یا مقررہ سائٹس سے ہی پی ڈی ایف خرید سکتے ہیں۔​
اس ضمن میں مزید اپ ڈیٹس سے میں آپ کو آگاہ کرتا رہوں گا۔ شکریہ​
معظم جاویدؔ بخاری​

اچھا اقدام ہے - مصنفین کو ان کے حق سے محروم کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی کتابوں کی صنعت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے
کتابوں کی دوکانیں کتابوں سے خالی ہوکر گفٹ شاپس میں تبدیل ہورہی ہیں اور نیٹ پرمال مفت کے ڈھیرلگے ہیں -
ہمیں کتاب اورمصنف کی قدرتبھی ہوگی جب کتاب خرید کرپڑھیں گے-
 

فاتح

لائبریرین
قطع نظر اس کے کہ پبلشرز کیا کر رہے ہیں اور کیا نہیں۔۔۔ کم از کم اردو محفل اور اردو لائبریری کی حد تک تو اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ سکین کی جانےو الی اور ٹائپ کی جانے والی کتابیں کاپی رائٹ سے آزاد ہوں یا مصنف سے براہ راست ان کے حقوق حاصل کیے گئے ہوں۔
 

فاتح

لائبریرین
ویسے آپ ہمارے پبلشرز کے چھاپے ہوئے میر و غالب کے دواوین اٹھا کر دیکھ لیجیے۔۔۔ ان پر بھی لکھا ہوتا ہے "جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں"۔۔۔ اب یہ بتائیں کہ میر و غالب کا کلام ان پبلشرز کے باپ کی جاگیر ہے؟
 

دوست

محفلین
ایک اور عرض کرتا چلوں لائبریریاں بھی ویران ہو رہی ہیں۔ لوگ دو روپے یومیہ بھرنے کو بھی تیار نہیں کتاب کرائے پر پڑھنے کے لیے۔ جی مفت مل جاتی ہے نیٹ سے، تو ہمارا لائبریرین خاصا اکتایا لگ رہا تھا کل پرسوں جب یہ ذکر چھڑا تو۔
 

نایاب

لائبریرین
اک اچھے پیغام کی حامل بہترین تحریر ۔
مصنف ناشر و پبلشر کے چکر میں الجھے بنا کتاب خرید کر پڑھنا ہی بہتر عمل ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بات تو ٹھیک ہے اور کتاب پڑھنے کا مزہ بھی "کتاب" پڑھ کر ہی آتا ہے۔

تاہم انٹرنیٹ پر موجود (کاپی رائٹس سے آزاد) کتابیں نوجوان نسل کو علم و ادب کی دنیا سے روشناس کروانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، اور یہ تعارف اُنہیں کتابوں کی خریداری تک بھی لے جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر اردو کتابیں نہیں ہوں گی تو یہی لوگ دیگر زبانوں کی کتابوں کی طرف راغب ہوجائیں گے کہ انٹرنیٹ پر علم و ادب کا بے تحاشہ مواد موجود ہے۔

نئی نسل کی کتابوں سے بے رغبتی کی وجہ انٹرنیٹ تو ہو سکتا ہے لیکن انٹرنیٹ پر موجود کتابیں ہرگز نہیں۔ آج کل لوگ بہت مصروف رہتے ہیں اور جو تھوڑا بہت وقت اُنہیں ملتا ہے وہ ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ میں لگ جاتا ہے۔ اگر انٹرنیٹ پر ادبی ذوق کے فروغ کی کوششیں بھی نہ ہوں تو کچھ دنوں بعد جو کتابیں اب چھپ رہی ہیں وہ بھی نہ چھپیں۔ رہی بات حقوقِ اشاعت کی تو ای بکس بنانے والے لوگوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ کسی کا حق نہ مارا جائے۔

آج کل یوں بھی شعراء اور ادباء کو کتابوں کی اشاعت سے کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا، زیادہ تر کتابیں ناشر اپنے کھاتے میں رکھ لیتا ہے اور کچھ کتابیں مصنف کو مل جاتی ہیں، جن پر وہ دستخط کرکے اپنے حلقہ احباب میں تحفتاً بانٹ دیتے ہیں، یہ سب کرنے کےلئے بھی اکثر مصنف کو اپنی جیپ سے ہی پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

رہی بات کتابی صنعت سے وابستہ افراد کے روزگار کی تو اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ کتابوں کی زیادہ سے زیادہ ترویج کی جائے اور کتاب پڑھنے کی روایت کو پھر سے زندہ کیا جائے، اس کام کے لئے بھی انٹرنیٹ اور دیگر میڈیا بہت کارامد رہے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے طور اطوار بدلتے ہی رہتے ہیں اور لوگ بھی اپنے اپنے زمانے کے اعتبار سے روزگار کے ذرائع اختیار کرتے ہیں، یہ ایک فطری بات ہے اگر واقعی کتابی صنعت میں جان نہیں رہی تو اُن کا کسی اور میدان میں جانا بھی ایک فطری عمل ہی ہے۔ تاہم کتابوں کی ترویج، اور خالص ادبی موضوعات کے علاوہ اردو زبان میں جدید علوم و فنون سے متعلق کتابیں لکھی جائیں تو کوئی بعید نہیں کے آپ کے تمام شکوے دور ہوجائیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
بات قدرے غیر متعلق ہے لیکن اردو کتب شائع کرنے والوں کو بھی نئے دور کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ لوگوں میں مطالعے کا شوق کم ہو رہا ہے یا نہیں، اس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ گزشتہ کچھ سالوں میں کتب کے مطالعہ کے لیے ای بک ریڈر اور ٹیبلٹ کے استعمال میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اثر پبلشنگ انڈسٹری پر نمایاں نظر آتا ہے۔ کچھ ہفتے پہلے ہی نیوزویک نے اپنا پرنٹ ایڈیشن ختم کرکے صرف ڈیجیٹل سبسکرپشن باقی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اردو کتابیں اور سائل چھاپنے والوں کو بھی نئے چینلز جیسے کہ ایپل یا گوگل کے ایپ سٹورز کا استعمال کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر صارفین انٹرنیٹ سے مفت پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کرتے رہیں گے۔
 

ساجد

محفلین
یہاں پاکستان میں بُک پبلشنگ کو بھی عام بزنس کی طرح چلایا جا رہا ہے جبکہ اس کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہ ٹیم ورک کے طور پر ہوتا ہے لیکن جب پبلشر اپنے مفاد کے لئے سولو فلائٹ کرتا ہے تو سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ وہ چونکہ انویسٹر ہوتا ہے اس لئے ہر حال میں مناپلی قائم رکھنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے لکھاری کی محنت کا عوضانہ اسے پورا نہیں ملتا اور اس کی صلاحیتوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے دوسری طرف زیادہ منافع کے لالچ میں پبلشرز کتاب کی قیمت اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ وہ عام قاری کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے۔
اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ مصنف جہاں کتاب لکھنے پر اتنی محنت کرتا ہے وہاں اس کی پرنٹنگ اور مشہوری کا انتظام اپنے طور پر کرنے کی ذمہ داری سنبھالے ۔ مارکیٹ جا کر خود پریس والوں سے مل کر اسے چھپوائے اور ذرائع ابلاغ پر اس کی مناسب تشہیر کرے۔ اب یہ کام اتنا مشکل نہیں رہا ۔ کمپیوٹر نے اس میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے ۔ سرورق سے لے کے صفحات کی ڈیزائننگ اور کمپوزنگ تک کے مرحلے ایک ہی بندہ یعنی ڈیزائنر مکمل کر دیتا ہے۔ یہی سب سے اہم اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور مصنف یہ سارا کام خود دیکھ سکتا ہے۔ اس کے بعد کے تمام مراحل آسان ہیں۔
میرے جاننے والے ایک مر حوم ہومیوپیتھک نے ایک کتاب لکھی ۔ خود ہی اس کی کمپیوٹر ڈرافٹنگ کر لی اور جب اپنا ڈرافٹ پبلشرز کے پاس لے گئے تو انہیں 500 کتب کے حقوق کا معاوضہ شرمناک حد تک کم مل رہا تھا جبکہ کتاب کی قیمت مقرر کرنے پر وہ پبلشرز ڈاکٹر صاحب کو مشورہ میں لانے پر تیار نہ تھے۔ اتفاق سے انہیں میرا خیال آ گیا ۔ میں نے ڈرافٹ کی کاپی ان سے لی اور ایک ڈیزائنر سے انہیں ملوا دیا ۔ ان کی کتاب کی ڈیزائننگ اور کتابت سے کے کر مکمل حالت میں چھپنے تک ان کا خرچہ حیرت انگیز طور پر کم ہو گیا اور ان کا حوصلہ بڑھا تو انہوں نے وہ کتاب 500 کی بجائے ایک ہزار کی تعداد میں چھپوا لی۔ اس کی مناسب تشہیر بھی انہوں نے اسی حوصلے کے تحت کر لی اور اس کی قیمت مارکیٹ میں چھپنے والی اتنی ہی ضخامت کی پبلشرز سے چھپی کتابوں سے 200 روپے کم تھی ۔ کم قیمت کے باوجود ڈاکٹر مرحوم کو اس کتاب سے پبلشرز کی آفر سے تین گنا زیادہ منافع ہو رہا تھا۔
بُک پبلشنگ ایک بزنس ضرور ہے لیکن اسے دوسروں کے احساس اور مشنری جذبے کے بغیر کیا جائے تو یہ لوگوں کو کتاب سے دور کر دیتا ہے اور پاکستان کے اکثر پبلشرز میں یہ احساس ہی مردہ ہو چکا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
مجھے ان صاحب کی بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ یہ کس طرح منہ اٹھائے ہمیں قرآن اور احادیث کے حوالے دے رہے ہیں۔ پوچھیں ان سے کہ پاکستان کے کتنے پبلشنگ ہاؤسز میں ان پیج، کورل ڈرا اور فوٹو شاپ جیسے پروگرام باقاعدہ خرید کر استعمال ہو رہے ہیں؟ کیا وہ کسی کی محنت نہیں؟ کیا وہاں چوری اور ڈاکہ دکھائی نہیں دیتا؟ وہاں ان کو اپنا مسلمان ہونا دکھائی نہیں دیتا؟ زور چلتا ہے تو دوسروں پر :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تو یہ انٹر نیٹ پر جو ای بکس کی بھر مار ہے اور دنیا بھر سے ہم جیسےعوام ان سے بلا معاوضہ استفادہ حاصل کررہے ہیں ان کا کیا ہوگا؟
بے حدمعلوماتی دھاگہ شروع کیا گیا ہے اور اس پر کتاب و ادب سے دلچسپی رکھنے والےتمام احباب خصوصاً راشد اشرف ، اعجاز عبید، محمد وارث، شاکر القادری، نبیل، قیصرانی، دوست، نیرنگ خیال،شمشاد، عبدالرزاق، فرخ منظور صاحبان سے سیر حاصل تبصرہ کرنے گذارش ہے۔ (ٹیگ کرنے کا طریقہ معلوم نہیں اس لئے جو جو نام یاد آیا لکھنے کی کوشش کی ہے، یہ ذوق رکھنےخواتین بھی براہ کرم خود خود کو شامل سمجھیں)

Rashid Ashrafid Ashraf
الف عین صاحب
محمد وارث بھائی
شاکرالقادری صاحب
نبیل بھائی
نیرنگ خیال بھائی
شمشاد بھائی
عبد الرزاق قادری بھائی
سب کو ٹیگ کر دیا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
میں نے ایک مرتبہ پہلے بھی کچھ مثالیں دی تھیں مثلاً عبید اللہ علیم مرحوم کی کتاب "چاند چہرہ ستارہ آنکھیں" کی طبع اول 1974 میں 1000 کی تعداد میں ہوئی تھی اور آج 38 سال گزرنے کے بعد بھی مارکیٹ میں اس کا جو ایڈیشن موجود ہے اس پر "طبع اول" اور "تعداد 1000" ہی لکھا ہوا ہے۔ چونکہ یہ کتاب خاصی بکنے والی کتاب ہے لہٰذا پبلشر ہر سال اسے چھاپتا ہے لیکن "طبع اول" ہی لکھتا ہے تا کہ نیا معاہدہ نہ کرنا پڑے اور رائلٹی نہ دینی پڑے۔۔۔ بارے اس باے ایمانی بھی کچھ بیان ہو کہ یہ کون سی حدیث اور آیت کے مطابق ہو رہا ہے؟
ایسی مزید کئی مثالیں مل جائیں گی۔ ایسے چور پبلشرز سے نمٹنے کا بطور قاری آسان ترین طریقہ یہی ہے کہ کتابیں سکین کر کے بلکہ ٹائپ کر یونیکوڈ میں مہیا کر دی جائیں۔ :)
 
اب بس کیجئے! جو ہو چکا سو چکا۔۔۔ ۔یاد رکھئے! جنوری 2013ء سے سائبرورلڈ کے بین الاقوامی جملہ حقوق قوانین کے تحت پورے پاکستان میں جملہ حقوق کی کاررائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ ایسی تمام ویب سائٹس اور بلاگز کو ختم کر دیا جائے گا جہاں کسی بھی پاکستانی پبلشر کی شائع کردہ کتاب پائی جا ئے گی۔ صرف ایسی کتب کو باقی رہنے دیا جائے گا جن کی ڈیجیٹل اشاعت کی اجازت خود پبلشر یا مصنف نے دی ہو گی۔ پبلشرز فورم میں اس ضمن میں بھی فیصلہ کیا جا رہا ہے کہ کتب کی ڈیجیٹل ترسیل کا کام باقاعدہ سائبر ایجنٹس کو سونپ دیا جائے تاکہ جو لوگ کتب کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے متمنی ہیں وہ باقاعدہ ویب سٹور یعنی ایمزن یا مقررہ سائٹس سے ہی پی ڈی ایف خرید سکتے ہیں۔​
اس ضمن میں مزید اپ ڈیٹس سے میں آپ کو آگاہ کرتا رہوں گا۔ شکریہ​
معظم جاویدؔ بخاری​
اچھا کیا جو آپ نے بتا دیا، میں جلدی جلدی ابن صفی کے بقیہ ناولز تو ڈاؤنلوڈ کروں;)
 

فاتح

لائبریرین
جہاں تک "جنوری 2013 سے سائبر ورلڈ کے بین الاقوامی جملہ حقوق قوانین پر کاروائی عمل میں لانے" کی بات ہے تو خدا ہی جانے کس کانٹیکسٹ میں آنجناب نے بلا حوالہ یہ جملہ لکھا ہے۔۔۔ کم از کم میرے علم میں نہیں کہ جنوری 2013 سے کوئی نیا قانون آ رہا ہے۔
  • کاپی رائٹ آرڈیننس پاکستان میں سن 1962 یعنی نصف صدی سے موجود ہے۔ سن 2000 میں اس آرڈیننس کی ایک امینڈمنٹ بھی آئی تھی۔ اس قانون کے تحت سزائیں اور جرمانے عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
  • علاوہ ازیں انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان آرڈیننس سن 2005 سے نافذ العمل ہے۔
اب ذرا ایک نظر اس جانب بھی کہ پائریسی سے کون کس حد تک فائدہ اٹھا رہا ہے۔۔۔
  • ناشرین: 41 فیصد
  • کتب فروش: 39 فیصد
  • قارئین: 18 فیصد
ثابت ہوا کہ سب سے بڑا چور پبلشر ہے اور دوسرے نمبر پر بڑا چور کتب فروش جب کہ قاری کا نمبر تیسرا ہے لیکن اس قاری غریب کو ڈرانے دھمکانے میں یہ بڑے چور یعنی پبلشر اور بک سیلر پیش پیش ہیں کہ چوری سے فائدہ اٹھانا صرف انھی کا حق ہے۔
آنجناب کے اس مضمون کے حوالے سے پبلشرز کی چوریوں پر ایک مضمون مجھ پر ادھار رہا جو ذیل کے نکات پر مشتمل ہو گا:
  • کاغذ کی چوری
  • غیر ملکی کتب کے غیر قانونی ایڈیشنز کی طباعت
  • پے در پے کتب کے ایک ہی ایڈیشن کو سالہا سال تک بے ایمانی اور چوری سے چھاپتے چلے جانا
  • مصنف کا استحصال
  • ناجائز منافع خوری
  • چوری کے سافٹ ویئر (ایم ایس ونڈوز، ایم ایس آفس، فوٹو شاپ، کورل ڈرا، کوارک ایکسپریس، وغیرہ) کا استعمال (اس نکتے کی جانب توجہ دلانے پر قیصرانی بھائی کا شکریہ)
  • وغیرہ وغیرہ
 
Top