جماعت اسلامی کا فرضِ کفایہ

یوسف-2

محفلین
(نوٹ: روشنی صرف قرآن اور حدیث میں ملے گی یا پھر ان دونوں کی روشنی سے حاصل ہونے والی حکمت میں ملے گی، باقی سب فکری انتشار ہے، ابہام ہے یا اوہام)

ایک حدیث پاک میں گذشتہ امتوں میں سے ایک امت کے ایک فاسق و فاجر شخص کا واقعہ بیان ہوا ہے، یہ واقعہ دراصل توبہ کی اہمیت اور اللہ کی رحمانیت کو واضح کرتا ہے۔

اس واقعے کا مفہوم یہ ہے، ایک فاسق و فاجر نے ننانوے بے گناہ قتل کر رکھے تھے۔ ایک روز ضمیر نے ملامت پر اس نے توبہ کا ارادہ کیا، لیکن دل میں ڈر بھی تھا کہ اتنے ڈھیر سارے گناہ معاف نہیں ہوں گے۔ اسی الجھن میں ایک خدا رسیدہ بزرگ کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا میری بخشش اور مغفرت کا کوئی امکان ہے؟ میں ننانوے قتل کر چکا ہوں۔ اس بزرگ نے انکار کر دیا اور اسے لعن طعن کی۔ فاسق نے اشتعال میں آ کر اسے بھی قتل کر دیا، یوں سو قتل پورے ہو گئے۔ بعد میں پشیمانی ہوئی تو پھر اپنے اُسی سوال کے جواب کے لیے نکلا ’’کیا میری مغفرت ممکن ہے؟‘‘ کسی نے اسے ایک بزرگ کا پتہ بتایا جو دور دراز رہتے تھے۔ سو بے گناہوں کا قاتل انہیں تلاش کرتا ہوا پہنچا۔ اس بزرگ نے اسے مایوس نہیں کیا، اسے بتایا کہ اللہ کی رحمت بے حد وسیع ہے۔ نجات کی صورت یہ ہے کہ توبہ کر کے اپنی بستی سے نکل جا، کہیں اور ٹھکانہ بنا۔ اس شخص نے توبہ کی اور اپنی بستی سے نکل کر کہیں اور جانے کے لیے چلا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ راستے میں موت آ گئی۔ اب اس کی روح کو ٹھکانہ دینے کے لیے عذاب اور ثواب کے فرشتوں میں بحث ہونے لگی۔ عذاب کے فرشتوں کا دعویٰ تھا کہ سو قتل کرنے والا جہنّمی ہے، اسے ہم لے کر جائیں گے۔ ثواب کے فرشتوں کا استدلال تھا کہ یہ تائب ہو گیا تھا، اسے جہنّم میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے پرانی بستی سے لے کر میت تک کے فاصلے، اور میت سے لے کر اس کی نئی منزل تک کے فاصلے کی پیمائش کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم و خبیر ہے۔ ان فاصلوں کی پیمائش سے پتہ چلا کہ میت دونوں بستیوں کے عین وسط میں ہے، البتہ میت کے پاؤں نجات کی بستی سے قریب اور پرانی بستی سے دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ملاحظہ کریں، اُس نے اِس معمولی سے فرق کی بنیاد پر اس قاتل کو بخش دیا اور ثواب کے فرشتے جیت گئے (حدیث کا حوالہ علما سے معلوم کر کے اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے)۔
(نوٹ: اس حدیث سے ابھرنے والے حسنِ ظن کو ہمیں منور حسن صاحب کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے یاد رکھنا چاہیے)

بے شک حکیم اللہ محسود ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں ملوث تھا، اس نے توبہ کی تھی یا نہیں، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، البتہ حکیم اللہ علمائے کرام کی اپیل پر امن مذاکرات پر آمادہ ہو کر اپنی سمت بدل چکا تھا اور یہ ظاہر کر دیا تھا کہ وہ امن چاہتا ہے۔ ہم انسان ہیں، بندوں کی نیت نہیں جان سکتے، صرف عمل کو دیکھ سکتے ہیں اور عمل کی بنیاد پر اپنے لیے نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ دوسری بات مذکورہ بالا حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کے نزدیک، پوری زندگی سے بڑھ کر انجام بخیر کی زیادہ اہمیت ہے۔ سیرت نبوی میں ایسے صحابہ کرام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد نہ ایک وقت کی نماز ادا کی، نہ روزہ رکھا، صرف جہاد میں شریک ہوئے، شہادت پائی اور جنت کے مستحق ہوئے۔ یہ ہے انجام بخیر کی ایک مثال۔ اللہ ہمیں بھی اپنی عبادتوں پر زعم اور گھمنڈ سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ فرمائے، آمین۔

حکیم اللہ جس لمحے امن مذاکرات پر آمادہ ہوا وہ اس کی تبدیلی کا نقطۂ آغاز تھا (اور وہ شاید پورے ملک کے لیے بھی مثبت تبدیلی کا آغاز بنتا)۔ پہلے وہ پاکستان کے لیے بوجھ، خسارہ اور فساد تھا، اپنی اس تبدیلی کے بعد وہ پاکستان کے لیے اثاثہ، نفع اور امن کی علامت بننے جا رہا تھا۔ ممکن ہے، مذاکرات کامیاب ہو جاتے۔ بیشتر عوام اور حکومتی حلقے بھی چونکہ امن کے خواہاں تھے اس لیے کامیابی کا امکان زیادہ تھا، لیکن یہاں معاملات میں ایک تیسرا فریق دخل دیتا ہے، حکیم اللہ کو ختم کر کے مذاکرات اور امن کا امکان ہی ختم کر دیتا ہے۔ یہ فریق امریکہ ہے، وہ پاکستان میں امن نہیں مسلسل شورش، بدامنی اور دہشت گردی چاہتا ہے۔ بارہا یہ ثابت ہو چکا ہے۔

ملکی سلامتی کے کچھ اور پہلو:
امریکہ اور طالبان گروپوں میں کچھ مماثلتیں ہیں اور کچھ فرق ہیں۔ ان مماثلتوں اور فرق کی بنیاد پر ہمیں نتائج اخذ کرنے چاہئیں۔

امریکہ کئی سال سے Do more کہہ رہا ہے اور حکومت عمل کر رہی ہے، اس کا کوئی فائدہ پاکستان اور عوام کو نہیں پہنچا، فائدہ صرف ہمارے دشمنوں اور امریکہ کو ہوا۔ پاکستان کو صرف بدامنی اور عدم استحکام ملا۔ ممکن ہے طالبان بھی مذاکرات میں Do for us کہتے اور حکومت مان لیتی۔ امریکہ کے مطالبات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ہم ایٹمی پروگرام کی چابیاں اس کے حوالے کر کے خود کو اس کے مکمل رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیتے۔ گمان غالب یہ ہے کہ طالبان کے مطالبات اپنے قیدیوں کو چُھڑانے اور کچھ علاقوں کا کنٹرول لینے تک محدود ہوں گے۔ مطالبات اس سے کم بھی ہو سکتے ہیں اور زیادہ بھی، لیکن مطالبات تو سامنے آنے ہی نہیں پائے تھے کہ امریکہ نے وار کر دیا۔
خلاصہ یہ کہ امریکہ کو راضی نہیں کیا جا سکتا، پاکستانی طالبان کو کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اس پورے خطے میں اگلی کئی صدیوں تک کے منصوبے اور عزائم رکھتا ہے، جبکہ طالبان کے عزائم سطحی، عارضی اور علاقائی ہیں۔ پاکستانی طالبان کی بیرونی ڈوریوں کو بھی حکمت عملی کے ساتھ کاٹنا ممکن ہے۔

دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ پاکستان عسکری میدان میں الگ الگ امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ طالبان کو ختم کر سکتا ہے، البتہ سیاسی انداز میں ان دونوں سے نمٹا جا سکتا ہے جس کے لیے پہلے طالبان سے مذاکرات ضروری ہوں گے، لیکن امریکہ سے ڈرون حملے رکوانے اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے امریکی ایجنٹوں کو نکیل ڈالنے کا مشکل کام ہی حکومت کے لیے اصل چیلنج ہے۔ طالبان کو آمادہ کرنا ممکن ہے، امریکہ کو ہرگز نہیں۔

امریکہ کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے طالبان کو ’نادان دوست‘ کہا جا سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ’نادان دشمن‘۔ انہیں دانا دوست بنانا ممکن ہو گا۔ امریکہ ’دوست نما دانا دشمن‘ ہے اور رہے گا۔
پاکستان کے قبائلی علاقے ہمارا ’بازوئے شمشیر زن‘ ہیں، یہ ہماری اولین دفاعی لائن ہیں۔ ہمارے یہ قبائل امریکہ کی طویل مدتی سازشوں کی کامیابی میں اہم رکاوٹ ہیں، اور اسی لیے امریکہ اس رکاوٹ کو دور کرنا چاہتا ہے۔ وہ ان قبائل کو ناراض، بدظن اور مشتعل کر کے پاکستان کے خلاف متحرک کرنا چاہتا ہے، خدانخواستہ ایسا ہوا تو پاکستان اپنے حلیفوں سے محروم ہو جائے گا اور امریکہ، افغانستان اور بھارت کا ترنوالہ بن جائے گا۔ امریکہ کی طویل مدتی سازشیں کیا ہیں: پاکستان پر براہ راست حملہ اور کھلی جنگ، یا بالواسطہ بھارت اور افغانستان کے ذریعے حملہ بھی اس کا ایک منصوبہ ہو سکتا ہے، اور بے پناہ معدنی وسائل سمیت ایٹمی پروگرام پر قبضہ بھی۔ ورنہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے شورش، دہشت گردی اور دھماکے تو وہ کر ہی رہا ہے۔ اپنے ناپاک منصوبوں کی مکمل کامیابی کے لیے اُسے پہلے پاکستان کو نہتّا کرنا ہے اور نہتّا کرنے میں اس کو سب سے بڑی رکاوٹ یہی درپیش ہے کہ شمالی وزیرستان میں اب تک امن ہے، امریکہ پاکستان سے Do more کے ذریعے یہاں بھی شورش کرانے پر تُلا ہوا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان امریکی دباؤ تسلیم نہ کرنے کی کتنی سکت رکھتا ہے (برطانیہ نے یہاں سے جاتے جاتے مسئلہ کشمیر پیدا کیا، دیکھیے امریکہ جاتے جاتے کیا پیدا کرنا چاہتا ہے)۔

جماعت اسلامی اور طالبان (پاکستانی ہوں یا افغانی) کی بنیاد، سوچ، طرز عمل اور منزل میں بہت فرق ہے، لیکن کچھ مشترکہ امور پائے جاتے ہیں جن میں امریکہ کی جنگ سے نجات اور امن کا قیام اولین نکتہ ہے۔ امریکہ کے عزائم اس کے عین الٹ ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کی ضرورتیں متضاد ہیں چنانچہ ان کا راستہ ایک نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کی سازشیں بہت گہری ہیں، ہاتھ بہت لمبے اور وسائل بے پناہ ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی چال سب سے بڑھ کر ہوتی ہے اور وہ تمام کارخانۂ قدرت کا تنہا مالک ہے۔ بس یہی وہ سہارا ہے جو مسلمانوں کو مایوسی سے بچا سکتا ہے، لیکن اس سہارے کو تھامنے اور تھامے رکھنے کی ضرورت ان لوگوں کو سب سے زیادہ ہے جو سطحی نہیں بلکہ امت کی سطح پر سوچتے ہیں۔ ہم اللہ سے جتنے قریب ہوں گے مایوسی اور بددلی سے اتنے ہی دور ہوں گے، ان شاء اللہ۔

پس تحریر: یہ تحریر مجھے میرے ایک جماعتی دوست نے ای میل کی ہے۔ اس تحریر سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
صاحبو! بڑا تماشا ہوا جب برادرم،عزیزم، اینکرم اور صحافیم جناب سلیم صافی نے ایک لمبی چپ سادھے ہوئے ساڑھے اٹھارہ کروڑ ’’کنفیوزڈ پاکستانیوں‘‘ کواچانک اُن کے ’’کنفیوژن‘‘ سے کھینچ نکالنے کے لیے کھینچا تانی شروع کردی۔ہم پر خفا نہ ہوں۔پاکستانیوں کو ’’کنفیوزڈ‘‘ قرار دینے کا فیصلہ ہمارا نہیں،جناب سلیم صافی کا تھا۔کنفیوز کیوں نہ ہوں؟ چینلی دانشوروں نے عام پاکستانی کے دماغ کو دہی بنا کے رکھ دیا ہے۔ یقیناہوں گے ’’کنفیوزڈ‘‘۔ورنہ یہ عزیز بھلا کاہے کو انھیں ’’کنفیوژن‘‘سے نکالنے کی ایسی تابڑ توڑکوشش کرتا؟ اور دیکھیے صاحب کیسی کامیاب کوشش کی کہ ہم جیسے تمام کالم نگاروں کے وارے نیارے ہوگئے۔ جو دانشوربڑے ’عقلیت پسند‘ بنے پھرتے تھے، اُن پر بھی صافی صاحب نے سحرکیا، اعجاز کیا۔۔۔ یا۔۔۔ جانے کیا کیاکہ وہ بھی’جذباتیت پسند‘ ہوگئے۔حتیٰ کہ ہمارے ایک بہت بڑے ادیب، ڈرامہ نگار، کالم نگار، سیاح اور سفر نامہ نگار نے توشدتِ جذبات سے مغلوب ہوکر اپنی ذاتِ شریف پرہی ایک عددلعنت بھی ارسال فرمادی۔
سچ پوچھیے توہم سمیت سب ہی کالم نگار صافی صاحب کے شکر گزار ہیں۔صافی صاحب بہت بہت شکریہ۔ ہم اُن کے چینل کے بھی شکر گزار ہیں، جس نے اُن کے پروگرام کوبار بار، بلکہ اتنی بار نشر کیا کہ لوگوں کو ’منہ زبانی‘ یاد ہوگیا۔یہ پروگرام ساڑھے اٹھارہ کروڑ عوام سے کچھ زیادہ ہی تعداد نے دیکھاہوگا۔ کیوں کہ کُل آبادی میں سے بعض ’کنفیوزوں‘ نے یہ پروگرام کئی بار دیکھا۔ مگر نہیں دیکھا تو کسی ’کنفیوزڈ کالم نگار‘ نے نہیں دیکھا۔ دیکھا ہوتا تو یہ بھی دیکھتا کہ صافی صاحب نے اِن شکر خوروں کو شکر فراہم کرنے کے لیے کتنی محنت اور کیسی گھیرا گھاری کی۔ ورنہ ’’ہدف‘‘ یعنی سید منور حسن نے تو بڑی کنی کترائی، بہت پہلو بچایا،ہزار دامن کھینچا اور ’’شہید کون ہے؟‘‘ کے سوال پر صافی صاحب سے یہ بھی صاف کہا:
’’اس موضوع سے اگر آپ کو اتنی دلچسپی ہے، جتنی ظاہر ہو رہی ہے تواِس موضوع پر کچھ مطالعہ کرنا چاہیے، کچھ علما کے ساتھ بیٹھنا چاہیے، کچھ تبادلۂ خیال کرنا چاہیے۔ اِس چھوٹی سی نشست کے اندر جس میں دو، دو چار کی طرح بات ہو رہی ہے، اس میں تو شاید آپ کو تشفی بخش جواب نہ مل سکے‘‘۔
پَر صافی صاحب نے بھی اُنھیں دام میں لانے کے لیے کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔ ’’مسکا‘‘ لگایا، تعریفوں کا جال بچھایااورپیار سے سمجھایا:
’’نہیں ۔۔۔ منور صاحب! دیکھیں، آپ ایک مذہبی ۔۔۔ ایک مستند مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں،آپ خود بھی ایک عالم، فاضل انسان سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کی اپنی Following ہے۔اس معاملے میں لوگ آپ کی بات کو حجت مانتے ہیں۔۔۔تو پاکستانی بہت زیادہ کنفیوز ہیں‘‘۔(دیکھ لی آپ نے حجت؟۔۔۔ بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت ۔۔۔ نہیں کام آتی دلیل اور حجت!)
مگرمنور صاحب کو پاکستانیوں کے ’بہت زیادہ کنفیوز‘ ہونے پر بھی ترس نہ آیا۔وہ یہی کہتے رہے کہ:’’میں نے نہ فتویٰ دیا ہے نہ میں مفتی ہوں‘‘۔اِس پر بھی سلیم صافی صاحب نہ مانے تو اُنھوں نے گویا ہتھیار ڈالنے کی بھی کوشش کی:’’اگر آپ نہیں ماننا چاہتے تو میں آپ کو کنونس کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا ہوں ۔۔۔‘‘
بے شک منور صاحب کوشش نہیں کر رہے تھے۔ مگرصافی صاحب تواپنی سی پوری کوشش کیے چلے جارہے تھے۔ اور بالآخروہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو ہی گئے۔ اپنے ’کنفیوزڈدانشوروں اور کالم نگاروں‘کے لیے تو نہیں (کیوں کہ انھیں جو کچھ لکھنا تھا وہ بے دیکھے، بے سنے،بے سوچے اور بے سمجھے لکھ ہی چکے ہیں) البتہ قارئین کے سوچنے اور (تمام دانشوروں کی ذہنی اور اخلاقی حالت کو) سمجھنے کے لیے ہم مکالمات کا متعلقہ حصہ اُنھی الفاظ میں پیش کرتے ہیں، جن الفاظ میں نشر ہوا۔ گفتگو کی زبان کو ہم نے تحریر کی زبان بنانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ جو سنا وہ لکھ دیا۔تولیجیے اب مکالمات سنیے۔(اختصار کے لیے ہم نے ہر جگہ ’صافی و سید‘ لکھاہے، اگرآپ کو اختصار ناگوارگزرے تو دونوں جگہ پورا پورا نام پڑھ لیجیے):
صافی: ’’آخری جی ۔۔۔ مستقبل کے حوالے سے ۔۔۔یہ جو پاکستانی فوجی ۔۔۔ جو تحریکِ طالبان کے ساتھ لڑتے ہوئے مر رہے ہیں، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آخری سوال ہے میرا‘‘۔
سید: ’’شرعی حیثیت ۔۔۔ یہ تو کوئی مفتی ۔۔۔ شرعی حیثیت تو یا تو آپ بتائیں گے، کیوں کہ صحافی بتایا کرتے ہیں یا پھر کوئی مفتی بتا ئے گا۔اور آپ تھوڑے بہت مفتی بھی مجھے نظر آرہے ہیں آج تو ۔ یہ روپ آپ کا میں نے پہلی دفعہ دیکھا کہ ماشاء اﷲ آپ اچھے خاصے مفتی ہیں، چھوٹے نہیں بڑے مفتی ہیں، بلکہ‘‘۔
صافی: ’’نہیں، نہیں منور صاحب! آپ حکیم اﷲ کے بارے میں ۔۔۔ میرا اُن کے ساتھ ذاتی تعلق بھی تھا، آپ جانتے ہیں۔۔۔ لیکن میں نے آج تک کوئی رائے نہیں دی۔ کیوں کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ میں ایک عامی ہوں۔۔۔ عام مسلمان ہوں۔۔۔ کیوں کہ کسی بھی مفتی سے پہلے آپ نے ان کی شہادت کی رائے دے دی تو اس لیے ہم آپ سے سوال کی جسارت کر رہے ہیں‘‘۔
سید: ’’ہاں ۔۔۔ نہیں، سوال تو ضرور کریں، لیکن جواب کو بھی کافی و شافی سمجھیں۔جب جواب ہی پر بحث کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ بھی کافی مفتی ہیں۔اپنے اندر ایک مفتی کو آپ نے سمو رکھا ہے یا چھپا رکھا ہے، جو بھی کہو۔آج تو وہ سامنے آگیا ہے‘‘۔
صافی: ’’نہیں نہیں۔۔۔ میں ایک بڑا گنہگار انسان ہوں منور صاحب! ۔۔۔بس مجھے صرف ۔۔۔آپ کے جواب کو میں کافی سمجھوں گا ۔۔۔کہ جو فوجی پاکستانی ان کے ساتھ لڑتے ہوئے مر رہے ہیں ہم ان کو شہیدسمجھیں یا نہیں؟ آپ جو بھی جواب دینا چاہیں‘‘۔
سید: ’’نہیں ۔۔۔ دیکھیے نا یہ تو پرابلم ہے۔اور میں ذرا اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر بات کرتا ہوں کہ جب اس علاقے کے اندر لڑنے والا امریکی جب مرتا ہے تو شہید نہیں ہوتا ہم سب کے نزدیک۔تو اس اعتبار سے جو اس امریکی فوج کا ساتھ دیتا ہے اور امریکی فوج کے مقاصد کو پورا کرتاہے اور امریکا کے ڈکٹیشن پر اور ’ڈو مور‘ پر عمل کرتا ہے میرے نزدیک تو سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ہے کہ امریکی مرے تو وہ اپنی ذلت کی موت مرے گااور اس کا ساتھ دینے والا اور اس کو سپورٹ کرنے والا، انٹیلی جنٹ سپورٹ کرنے والا، ہر طرح کی ہم نوائی کرنے والا، وہ کیسے شہید ہو سکتا ہے؟میرے ذہن میں یہ سوال خود موجود ہے۔کوئی مفتی صاحب ملیں ۔۔۔ آج تو آپ مل گئے ہیں تو آپ ہی سے سوال کر لیتا ہوں کہ ۔۔۔ وہ کیسے شہید ہوگا؟ ۔۔۔اگر امریکی شہید نہیں ہے۔۔۔ تو اس کا ساتھ دینے والا بھی شہید نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ ایک ہی مقاصد ایک ہی اہداف کے لیے دونوں کام کر رہے ہیں‘‘۔(مکالمات ختم ہوئے)۔
قارئینِ کرام! ہم نہ صرف سلیم صافی صاحب کے شکر گزار ہیں جنھوں نے’’کنفیوزڈ پاکستانیوں‘‘ کا کنفیوژن دور کرنے کے لیے، اچھی خاصی ’ضد وجہد‘کے بعد، منور صاحب سے ایک سوالیہ قسم کا جوابنہایت کامیابی سے حاصل کرلیا۔بلکہ امریکی فوج کا ساتھ دینے والوں، امریکی فوج کے مقاصد پورا کرنے والوں، امریکا کے ڈکٹیشن اور ’ڈو مور‘ پر عمل کرنے والوں کے بھی شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے ہم ’’کنفیوزڈ پاکستانیوں‘‘ کایہ کنفیوژن بھی کتنی خوبی اور خوش اسلوبی سے دور کر دیا۔ مگرکنفیوژن دور ہوتے ہی وہ دھما چوکڑی مچی کہ الحفیظ و الامان!
**
ابو نثر کا کالم مطبوعہ نئی بات 15 نومبر 2013
 

یوسف-2

محفلین
x19556_43188466.jpg.pagespeed.ic.XI2YCh2jgh.jpg
 

سید ذیشان

محفلین
سیدمنور حسن صاحب بے بہادری دکھائی ہے اور منافقت کاپردہ چاک کیا ہے۔
یہ کا سید ہی کرسکتا ہے

تُف ہے ایسے سید پر جس کو شہادت کے معنی تک معلوم نہ ہوں۔ سید الشہدا کی اولاد اب اس حال پر آ گئی ہے کہ یزیدیوں کو شہید کہتی پھر رہی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
استغفراللہ۔ یہ وقت آن پہنچا ہے کہ اپنے مذموم مقاصد اور بڑبولے رہنما کی غلط بات کو سچ ثابت کرنے کو احادیث کا سہارا لیا جا رہا ہے
برادرم یوسف-2 کیا سید صاحب خطاء سے پاک ہیں؟ کیا ان کی غلط بات پر احتجاج یا تنقید کرنا بہتر ہے یا اس طرح کے جوازات پیش کرنا؟ جماعت کے تابوت کی یہ آخری کیل بھی ٹھک گئی
 
تُف ہے ایسے سید پر جس کو شہادت کے معنی تک معلوم نہ ہوں۔ سید الشہدا کی اولاد اب اس حال پر آ گئی ہے کہ یزیدیوں کو شہید کہتی پھر رہی ہے۔

محترم پہلی بات یہ ہے کہ اپ مناسب زبان استعمال کریں خصوصا آل رسول (ص) کے بارے میں۔ یہ توہین کے زمرے میں ارہی ہے

دوسری بات یہ کہ سید منور حسن کا بیان وہ ہی ہے جو پیغام حسین ہے۔ یعنی ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا چاہے جان ہی چلی جائے۔ منافقت کا پیٹ چاک کرنا۔ اس دور کا ظالم امریکہ فوج ہے ( عوام نہیں ) اور اس کےحمایتی بھی ظالم ہیں ۔ کفر کا ساتھ دینے والا شہید ہوسکتا ہے؟ یعنی کوفی جھنوں نے حسین پر حملہ کیا ۔ کیا وہ شھید کہلائیں گے؟ کیا ابن زیاد کی فوج میں مرنے والے شہید کہلائیں گے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
محترم پہلی بات یہ ہے کہ اپ مناسب زبان استعمال کریں خصوصا آل رسول (ص) کے بارے میں۔ یہ توہین کے زمرے میں ارہی ہے

دوسری بات یہ کہ سید منور حسن کا بیان وہ ہی ہے جو پیغام حسین ہے۔ یعنی ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا چاہے جان ہی چلی جائے۔ منافقت کا پیٹ چاک کرنا۔ اس دور کا ظالم امریکہ فوج ہے ( عوام نہیں ) اور اس کےحمایتی بھی ظالم ہیں ۔ کفر کا ساتھ دینے والا شہید ہوسکتا ہے؟ یعنی کوفی جھنوں نے حسین پر حملہ کیا ۔ کیا وہ شھید کہلائیں گے؟ کیا ابن زیاد کی فوج میں مرنے والے شہید کہلائیں گے؟
جس دھاگے میں آپ اور برادرم یوسف-2 جمع ہو جائیں، اس پر بحث کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی
 

سید ذیشان

محفلین
محترم پہلی بات یہ ہے کہ اپ مناسب زبان استعمال کریں خصوصا آل رسول (ص) کے بارے میں۔ یہ توہین کے زمرے میں ارہی ہے

دوسری بات یہ کہ سید منور حسن کا بیان وہ ہی ہے جو پیغام حسین ہے۔ یعنی ظلم کے خلاف جدوجہد کرنا چاہے جان ہی چلی جائے۔ منافقت کا پیٹ چاک کرنا۔ اس دور کا ظالم امریکہ فوج ہے ( عوام نہیں ) اور اس کےحمایتی بھی ظالم ہیں ۔ کفر کا ساتھ دینے والا شہید ہوسکتا ہے؟ یعنی کوفی جھنوں نے حسین پر حملہ کیا ۔ کیا وہ شھید کہلائیں گے؟ کیا ابن زیاد کی فوج میں مرنے والے شہید کہلائیں گے؟

سیدھی سی بات ہے کہ جب تمھیں معطل کیا ہوا تھا تو وہ وقت سکون سے گذرتا تھا۔ اب میں تمھیں نظر انداز کر رہا ہوں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
شہید یا شہادت کا فیصلہ کرنا میرا کام نہیں ۔ یہ مفتیان دین کا کام ہے۔ میں تو انتا سمجھتا ہوں کہ اختلافات اور انتشار میں غرق امت کو امریکہ کی اسلام دشمن پالیسیوں نے ایک بہت بڑی الجھن میں ڈال دیا ہے اور خود سائیڈ میں بیٹھا بغلیں بجا رہا ہے ہمیں بیوقوف بنا کر۔ وہ زبان حال سے کہہ رہا ہوگا لگے رہو منے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شہید یا شہادت کا فیصلہ کرنا میرا کام نہیں ۔ یہ مفتیان دین کا کام ہے۔ میں تو انتا سمجھتا ہوں کہ اختلافات اور انتشار میں غرق امت کو امریکہ کی اسلام دشمن پالیسیوں نے ایک بہت بڑی الجھن میں ڈال دیا ہے اور خود سائیڈ میں بیٹھا بغلیں بجا رہا ہے ہمیں بیوقوف بنا کر۔ وہ زبان حال سے کہہ رہا ہوگا لگے رہو منے۔
مسئلہ یہی ہے محترم، ایک طرف منور حسن صاحب نے شہید اور مردود کا فیصلہ کر دیا دوسری طرف وہ خود فرما رہے ہیں کہ وہ مفتی نہیں کہ اس بارے فتوٰی دیں :)
 
سیدھی سی بات ہے کہ جب تمھیں معطل کیا ہوا تھا تو وہ وقت سکون سے گذرتا تھا۔ اب میں تمھیں نظر انداز کر رہا ہوں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

کیا خواب میں رہتا ہے ذیشان۔ کس نے معطل کیا ہوا تھا؟

یاد رہے کوفی جب بھی ظالم فو ج کے ساتھ کھڑے تھے۔ عذر جب بھی وہی تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کا خروج ریاست کے خلاف ہے۔
کوفی آج بھی ظالم امریکی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عذر آج بھی وہی ہے۔
ظالم کے خلاف جنگ ہی پیغام حسین ہے۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
مسئلہ یہی ہے محترم، ایک طرف منور حسن صاحب نے شہید اور مردود کا فیصلہ کر دیا دوسری طرف وہ خود فرما رہے ہیں کہ وہ مفتی نہیں کہ اس بارے فتوٰی دیں :)
میں سید منورحسن صاحب نے نہ متفق ہوں اور نہ ہی غیر متفق۔ لیکن میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ مکار دشمن ہماری نادانی سے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔
 
مسئلہ یہی ہے محترم، ایک طرف منور حسن صاحب نے شہید اور مردود کا فیصلہ کر دیا دوسری طرف وہ خود فرما رہے ہیں کہ وہ مفتی نہیں کہ اس بارے فتوٰی دیں :)


سیدمنورحسن نے جو بات کی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی فوج کی حمایت میں مارے جانے والا شہید کیسے ہے؟

یہ بلاشبہ درست سوال ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
سیدمنورحسن نے جو بات کی ہے وہ یہ ہے کہ امریکی فوج کی حمایت میں مارے جانے والا شہید کیسے ہے؟

یہ بلاشبہ درست سوال ہے
چند سوالات
پاکستان میں امریکی فوج کی مخالفت کرتے ہوئے طالبان پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟ اس پر کبھی منور حسن نے سوال کھڑا کیا کہ مردود اور شہید کا کیا فرق ہے؟
 
بھلے سے متفق نہ ہوں
مگر یہ بات درست ہے کہ پاکستانی فوج اب وزیرستان میں اپریشن کرنےکی پوزیشن میں نہیں اسکتی
 
چند سوالات
پاکستان میں امریکی فوج کی مخالفت کرتے ہوئے طالبان پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟ اس پر کبھی منور حسن نے سوال کھڑا کیا کہ مردود اور شہید کا کیا فرق ہے؟

معصوم شہریوں کو جو جنگ سے متعلق نہیں ہیں کو ہلاک کرنا درست نہیں۔ میرا نہیں خیال ہے کہ سید منور حسن نے کبھی اس مسئلے پر دوسری رائے کا اظہار کیا ہو۔ یہ بات متنازعہ ہی نہیں ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
چند سوالات
پاکستان میں امریکی فوج کی مخالفت کرتے ہوئے طالبان پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟ اس پر کبھی منور حسن نے سوال کھڑا کیا کہ مردود اور شہید کا کیا فرق ہے؟


پاکستانی شہریوں کو تو بلیک واٹر، سی آئی اے، موساد، را اور کے جی بی ہلاک کر رہی ہے۔ کوئی مسلمان تو ایسا نہیں کر سکتا۔

یہی منور حسن کچھ عرصہ پہلے اس بات سے انکاری تھا کہ حکیم اللہ محسود نام کا کوئی شخص دنیا میں موجود بھی ہے۔ اور اب وہ موجود بھی ہے اور شہید بھی ہے۔ ایسی منافقت کا بھلا کیا کیا جا سکتا ہے؟

 
Top