جب تک آلو رہے گا تب تک لالو رہے گا

انشآاللہ جب درآمدی تیل کی بجائے بجلی ہمارے صرف مقامی ذرائع سے بننا شروع ہو جائے گی (کوئلہ، نیوکلئیر، پانی وغیرہ) تو ہر چیز سستی ہوجائے گی۔
رب کریم مدد فرمائے۔
 

ساجد

محفلین
انشآاللہ جب درآمدی تیل کی بجائے بجلی ہمارے صرف مقامی ذرائع سے بننا شروع ہو جائے گی (کوئلہ، نیوکلئیر، پانی وغیرہ) تو ہر چیز سستی ہوجائے گی۔
رب کریم مدد فرمائے۔
میرا خیال ہے کہ ہم بحثیت قوم اور ذمہ داران کسی بھی کام کے کرنے میں خلوص اور لگن سے عاری ہیں ، ورنہ پاکستان میں مختلف ذرائع سے توانائی پیدا کرنے کے اتنے ذرائع موجود ہیں کہ دنیا کے کم ہی خطوں کو نصیب ہیں ۔ اب ٹیکنالوجی نے نہروں پر چند فٹ کی آبشار سے بجلی بنانا بھی ممکن کر دیا ہے ۔ دنیا کے بہترین نہری نظام کے موجود ہوتے اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئیے ۔
 

x boy

محفلین
پھر پاکستانی مہنگائی کا رونا کیوں روتے ہیں جب اتنے سستے آلو سے کام چل سکتا ہے ویسے بھی امریکن کی مرغوب غذا آلو ہے
میش پٹاٹو وتھ چکن گریوی۔
 

x boy

محفلین
نوائے وقت
بدھ ‘ 14 صفر المظفر 1435ھ ‘18 دسمبر 2013ئ

وزیر اعلیٰ نے بھارت سے آتے ہی ضروری اشیاءکی فراہمی اور قیمتوں کی تفصیلات طلب کیں۔ اب خادم اعلیٰ ان تفصیلات کو سامنے رکھ کر صوبائی انتظامیہ سے ضرور پوچھیں کہ آخر ایسی کون سی وجوہات ہیں کہ بھارتی پنجاب جو ہمارے پنجاب سے بہت چھوٹا ہے اس قدر خوشحال کیوں ہے۔ وہاں سبزیاں، دالیں، پھل، آٹا، چاول، گھی، چینی جیسی اشیا جو ہمارے ہاں سونے کے بھاﺅ بک رہی ہیں سستے داموں کیوں دستیاب ہیں۔ کیا ہماری زمین اور ان کی زمین میں فرق ہے۔ کیا ہمارے کسان ان کے کسانوں سے کم تر صلاحیت رکھتے ہیں۔ بھارتی پنجاب صرف اپنے صوبے کی ہی نہیں بھارت کی دیگر ریاستوں کو بھی زرعی اجناس فراہم کرتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ سرسبز پنجاب میں رہنے کے باوجود اجناس کی مہنگائی سے بھوکا رہنے پر مجبور ہیں۔ جب ان سوالات کا جواب خادم اعلیٰ پا نہ سکیں تو انہیں احساس ہو گا....
سفر سے لوٹا ہوں جس سال بھی‘ میرے گھر میں
سوائے غربت آئندہ سال کوئی نہ تھا

خادم اعلیٰ صاحب اب بس بہت ہو چکا۔ کچھ عرصہ اپنی توجہ صرف عوام کو غربت سے نکالنے اور اپنے صوبے پنجاب کو خوشحال بنانے کے ساتھ سبزی، گوشت و دیگر اجناس کی ارزاں نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنانے پر مرکوز رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ پورا پاکستان سندھ سرحد اور بلوچستان بھی کہے گا کہ ”پہلے بدلا ہے پنجاب اب بدلو پاکستان“ صرف انتظامیہ کی رپورٹیں دیکھ کر مطمئن نہ ہوں کیونکہ یہ سب اچھا کی رپورٹیں صرف آپ کو ”فول“ بنانے کے لئے تیار کی جاتی ہیں۔ ذرا خود خاموشی سے جا کر بازاروں میں منڈی میں دکانوں پر نرخ چیک کریں۔ اگر ممکن نہیں تو حمزہ شریف کی ڈیوٹی لگائیں کہ آخر آج کل وہی مستقل قائم مقام ہیں۔ وہ جا کر قیمتیں دیکھیں اور یہ کہ لوگ کس طرح رو رہے ہیں اور حکومت کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سونامی خان بلدیاتی طوفان میں اپنے بلے سے آپکے آٹا اور سبزی خور شیر کی وہ دھنائی کر دے کہ اسے شہر سے نکل کر دوبارہ جنگل میں جانا پڑے۔
 

ساجد

محفلین
اور یہاں دہلی میں 18 روپئے کیلو ۔۔۔
جبکہ دیہات میں 10 ۔
لاہور میں بھی چند ہفتہ قبل 20 روپے میں کلو سیب ملتے تھے اور اس وقت آلو 100 روپے کلو تھے ۔ تبھی تو میں نے لکھا تھا کہ ہم نے 1 کلو آلو کی قیمت میں 5 کلو سیب خرید لئے :)
بہر حال بات وہی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں چونکہ سبزیاں اور پھل وافر پیدا ہوتے ہیں اس لئے ان کی باہمی تجارت نہیں کرنا چاہئیے ۔ اس طریقہ سے مہنگائی بڑھتی ہے اور دونوں ممالک کے غریب عوام مزید پستے ہیں۔
 
Top