فارقلیط رحمانی
لائبریرین
تین مُسافِر
ٹرین اپنی منزل کی طرف دوڑی چلی جا رہی تھی۔اِسٹیشن سے روانہ ہونے کے بعد کچھ دیر تک تو مسافر سامان کو ٹھکانے لگانے اور محفوظ نشستوں پر قابض ہونے میں لگے رہے، جب سب کچھ ٹھیک ہو گیاتولوگوں نے سکون کی سانس لی ۔کچھ سستانے لگے، کچھ کھڑکیوں سے باہر دیکھنے لگے، کسی نے اخبارنکالاتوکچھ لوگ آپس کی گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ نہایت ہی نستعلیق طبیعت کے ایک نوجوان کے سامنے والی سیٹ پر دو خوبصورت لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ ایک کسی معزز خاندان کی شریف اور باعزت بیٹی نظر آرہی تھی تو دوسری کسی امیر گھرانے کی نٹ کھٹ بٹیا۔
’’جناب! آپ کی تعریف؟‘‘ نٹ کھٹ لڑکی کے اچانک سوال سے نوجوان چونک پڑا۔
’’آپ کا سوال مجھ سے ہے؟‘‘ انجان بنتے ہوئے نوجوان نے وضاحت چاہی۔
’’جی جناب آپ سے۔‘‘لڑکی نے وضاحت کی۔
’’مجھے علم کہتے ہیں۔ اور آپ؟ ‘‘ اپنا نام بتاتے ہوئے نوجوان نے لڑکیوں کا تعارُف چاہا۔
’’بندی کو عزّت کہتے ہیں۔‘‘ معزز خاندان کی شریف خاتون نے نہایت اَخلاق سے جواب دِیا۔
نٹ کھٹ لڑکی فوراً بول پڑی اورما بدولت کو دولت ۔
عزّت ، خاموش تھی ، وہ شاید گفتگو کو طول دینا نہیں چاہتی تھی لیکن نٹ کھٹ دَولت بھلا کہاں چُپ رہنے والی تھی، نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی ، ’’اپنے بارے میں کچھ اور بتائیے نا!‘‘
نوجوان نے سنبھالا لیا، لباس اور وضع قطع دُرُست کرتے ہوئے اپنا مزید تعارُف کچھ اِس طرح پیش کیا۔
’’ جی ! بندے کو علم کہتے ہیں، میں ایک ایسا خزانہ ہوں، جسے نہ چور چُرا سکتا ہے ، نہ آگ جلا سکتی ہے اور نہ کوئی آندھی، طوفان اور سیلاب بہا کر لے جا سکتا ہے۔مجھے جتنا خرچ کیا جائے میں اُتنا ہی بڑھتا ہوں۔ مجھ سے دُنیامیں جہاں ایک طرف جہالت کے اندھیرے دوٗر ہوتے ہیں تو دوٗسری طرف اِنسان کی چشمِ بصیرت رَوشن ہوتی ہے۔بقولِ شاعر:
عِلم کا مقصوٗد ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصوٗد ہے عفتِ قلب و نگاہ
مجھے حاصل کرنے والا عالم کہلاتا ہے۔ جس کی فضیلت میں قرآنِ پاک میں اللہ رَبُّ العزت اِرشاد فرماتا ہے،
’’ اَے پیغمبر ! کہہ دیجیے کہ کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
اِس کا جواب یہ ہے کہ جیسے ایک زندہ شخص اور مُردہ، ایک سُننے والا اور بہرہ، ایک دیکھنے والا اور اَندھاکبھی برابر نہیں ہو سکتے،بالکل ایسے ہی ایک عالم اور جاہل ہر گز برابر نہیں ہو سکتے ۔بلکہ اللہ جلّ شانہٗ کے یہاں ایک عالم کے مقام و مرتبے کا ذِکر اِن الفاظ میں ہوا ہے:
’’تُم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بُلند کرتا ہے۔‘‘
اِتنا کہہ کر علم نے قدرے توقف کیا۔
’’ اپنے بارے میں کچھ اَور بتائیے نا!‘‘ عزت بے ساختہ بول پڑی۔نوجوان کی باتوں میں شاید اُس کی دلچسپی بڑھ رہی تھی۔
’’میری خداداد خصوصیات کی بِنا پر ہی حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے اپنے ایک شعر میں یہ فرمایا کہ:
’’ہم اپنے بارے میں اللہ جبار و قہا رکی اس تقسیم پر راضی ہو گئے کہ ہمارے لیے’ عِلم‘ اور جاہلوں کے لیے ’مال‘ ہے۔ اِس لیے کہ مال و دولت تو عنقریب فنا کے گھاٹ اُتر جانے والے ہیں۔ جب کہ عِلم لا زوال دولت ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی۔‘‘
آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے :’’ عِلم بہر حال مال سے بہتر ہے ، اِس لیے کہ علم تیرا پاسبان ہے اور مال کی تجھے نگہداشت کرنی پڑتی ہے۔‘‘
’’بہت خوب! آپ تو بڑے کام کی چیز نکلے ۔بڑی فضیلت ہے آپ کی! ہر کسی کو چاہیے کہ وہ آپ کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، تو جنابِ عِلم ! کیا آپ اپنے نام کے معنیٰ پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔‘‘
’’ جی! عِلم کے لفظی معنیٰ ہیں جاننا، اور عِلم والوں کے نزدیک ، کسی چیز کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر اُسے بخوبی جان لینا عِلم ہے۔‘‘
’’سب کچھ مجھ ہی سے دریافت کریں گی یا اپنے بارے میں بھی کچھ بتائیں گی۔‘‘
’’ کیوں نہیں؟‘‘امیر گھرانے کی نٹ کھٹ بٹیاپھٹ سے بول پڑی۔
’’جیسا کہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں ما بدولت کو دَولت کہتے ہیں۔ایرانیوں میں زَر کہلاتی ہوں تو عربوں میں ثَروَت اور بھارت کے لوگ مجھے دھن کے نام سے جانتے ہیں،میں وہ طاقت ہوں جس سے دُنیا کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے، میں جس کے پاس ہوتی ہوں وہ اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھتا ہے ، اس لیے کچھ لوگ مجھے خوش قسمتی اور اِقبال کے طور پر بھی جانتے ہیں، چونکہ دُنیا کی ساری حکومتیں میرے بل بوتے پر ہی چلتی ہیں لہٰذا دولت والوں میں حکومت و سلطنت کے نام سے بھی معروف ہوں۔ میرے بارے میں ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ اِنسانی جنگوں کی تین بڑی وجوہات میں میرا شُمار ہوتا ہے۔‘‘
’’ اورآپ اپنے بارے میں کچھ نہیں بتائیں گی۔‘‘دَولت نے جیسے ہی سانس لینا چاہا، نوجوان علم نے محترمہ عزت کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’جی ! کیوں نہیں؟‘‘ عزت نے سنبھلتے ہوئے کہا۔
’’میں اللہ کی ایک ایسی نعمت ہوں جس کسی کے حصہ میں آجاتی ہوں ، دُنیا میں اُس کی قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے۔ لوگ اُس کا اِحترام کرتے ہیں، اُسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، محفلوں میں بلند مقام پر بٹھاتے ہیں، جلوس میں سروں پر اُٹھاتے ہیں۔‘‘
محترمہ عزت اپنے بارے میں کچھ اور کہتیں اس سے قبل وہ اسٹیشن آگیا جہاں تینوں کو اُترنا تھا، اُترنا کیا تھا تینوں کو جُدا ہوناتھا۔ اِسٹیشن پر اُترنے کے بعد تینوں نے اپنا اپنا سامان سنبھالا اور ایک دوسرے کو الوداع کہنے لگے۔
’’جناب عِلم آپ کے ساتھ سفر اچھا رہا، ہم بچھڑ تو رہے ہیں یہ تو بتا دیجیے کہ اب آپ سے کہاں ملاقات ہوگی؟‘‘دولت نے سوال کیا۔
’’مجھے تو آپ علم والوں میں، اسکولوں، کالجوں، مدارس اور جامعات کی لائبریریز میں کہیں بھی پا سکتی ہیں میں ہر جگہ آپ کو مل جاؤں گا۔‘‘
’’ اورمیں آپ کواُمراء ،اہلِ دول اور حکومتوں کے توشہ خانوں میں مِل جاؤں گی۔‘‘دولت نے اِتراتے ہوئے کہا۔
’’اور محترمہ آپ؟‘‘نوجوان علم نے عزّت سے سوال کیا۔
’’میں آپ کو اپنا پتا نہیں بتا سکتی ۔‘‘عزت نے اپنی افسردگی چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’کیوں؟‘‘نوجوان نے سوال کیا۔
’’ حمد اور حکم کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی میر ا سچا مالک و مستحق ہے ۔
میں وہ نعمت ہوں اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ اِنسانی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے اس نعمت سے محروم کردِیا، اُسے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا۔یعنی میں جس گھر سے ایک بار رُخصت ہوتی ہوں وہاں دوبارہ کبھی لوٹ کر نہیں آتی۔
اس گفتگو کے بعد تینوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے ہوئے اپنی اپنی راہ لی۔
ٹرین اپنی منزل کی طرف دوڑی چلی جا رہی تھی۔اِسٹیشن سے روانہ ہونے کے بعد کچھ دیر تک تو مسافر سامان کو ٹھکانے لگانے اور محفوظ نشستوں پر قابض ہونے میں لگے رہے، جب سب کچھ ٹھیک ہو گیاتولوگوں نے سکون کی سانس لی ۔کچھ سستانے لگے، کچھ کھڑکیوں سے باہر دیکھنے لگے، کسی نے اخبارنکالاتوکچھ لوگ آپس کی گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ نہایت ہی نستعلیق طبیعت کے ایک نوجوان کے سامنے والی سیٹ پر دو خوبصورت لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ ایک کسی معزز خاندان کی شریف اور باعزت بیٹی نظر آرہی تھی تو دوسری کسی امیر گھرانے کی نٹ کھٹ بٹیا۔
’’جناب! آپ کی تعریف؟‘‘ نٹ کھٹ لڑکی کے اچانک سوال سے نوجوان چونک پڑا۔
’’آپ کا سوال مجھ سے ہے؟‘‘ انجان بنتے ہوئے نوجوان نے وضاحت چاہی۔
’’جی جناب آپ سے۔‘‘لڑکی نے وضاحت کی۔
’’مجھے علم کہتے ہیں۔ اور آپ؟ ‘‘ اپنا نام بتاتے ہوئے نوجوان نے لڑکیوں کا تعارُف چاہا۔
’’بندی کو عزّت کہتے ہیں۔‘‘ معزز خاندان کی شریف خاتون نے نہایت اَخلاق سے جواب دِیا۔
نٹ کھٹ لڑکی فوراً بول پڑی اورما بدولت کو دولت ۔
عزّت ، خاموش تھی ، وہ شاید گفتگو کو طول دینا نہیں چاہتی تھی لیکن نٹ کھٹ دَولت بھلا کہاں چُپ رہنے والی تھی، نوجوان سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی ، ’’اپنے بارے میں کچھ اور بتائیے نا!‘‘
نوجوان نے سنبھالا لیا، لباس اور وضع قطع دُرُست کرتے ہوئے اپنا مزید تعارُف کچھ اِس طرح پیش کیا۔
’’ جی ! بندے کو علم کہتے ہیں، میں ایک ایسا خزانہ ہوں، جسے نہ چور چُرا سکتا ہے ، نہ آگ جلا سکتی ہے اور نہ کوئی آندھی، طوفان اور سیلاب بہا کر لے جا سکتا ہے۔مجھے جتنا خرچ کیا جائے میں اُتنا ہی بڑھتا ہوں۔ مجھ سے دُنیامیں جہاں ایک طرف جہالت کے اندھیرے دوٗر ہوتے ہیں تو دوٗسری طرف اِنسان کی چشمِ بصیرت رَوشن ہوتی ہے۔بقولِ شاعر:
عِلم کا مقصوٗد ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصوٗد ہے عفتِ قلب و نگاہ
مجھے حاصل کرنے والا عالم کہلاتا ہے۔ جس کی فضیلت میں قرآنِ پاک میں اللہ رَبُّ العزت اِرشاد فرماتا ہے،
’’ اَے پیغمبر ! کہہ دیجیے کہ کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
اِس کا جواب یہ ہے کہ جیسے ایک زندہ شخص اور مُردہ، ایک سُننے والا اور بہرہ، ایک دیکھنے والا اور اَندھاکبھی برابر نہیں ہو سکتے،بالکل ایسے ہی ایک عالم اور جاہل ہر گز برابر نہیں ہو سکتے ۔بلکہ اللہ جلّ شانہٗ کے یہاں ایک عالم کے مقام و مرتبے کا ذِکر اِن الفاظ میں ہوا ہے:
’’تُم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بُلند کرتا ہے۔‘‘
اِتنا کہہ کر علم نے قدرے توقف کیا۔
’’ اپنے بارے میں کچھ اَور بتائیے نا!‘‘ عزت بے ساختہ بول پڑی۔نوجوان کی باتوں میں شاید اُس کی دلچسپی بڑھ رہی تھی۔
’’میری خداداد خصوصیات کی بِنا پر ہی حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے اپنے ایک شعر میں یہ فرمایا کہ:
’’ہم اپنے بارے میں اللہ جبار و قہا رکی اس تقسیم پر راضی ہو گئے کہ ہمارے لیے’ عِلم‘ اور جاہلوں کے لیے ’مال‘ ہے۔ اِس لیے کہ مال و دولت تو عنقریب فنا کے گھاٹ اُتر جانے والے ہیں۔ جب کہ عِلم لا زوال دولت ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی۔‘‘
آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے :’’ عِلم بہر حال مال سے بہتر ہے ، اِس لیے کہ علم تیرا پاسبان ہے اور مال کی تجھے نگہداشت کرنی پڑتی ہے۔‘‘
’’بہت خوب! آپ تو بڑے کام کی چیز نکلے ۔بڑی فضیلت ہے آپ کی! ہر کسی کو چاہیے کہ وہ آپ کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، تو جنابِ عِلم ! کیا آپ اپنے نام کے معنیٰ پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔‘‘
’’ جی! عِلم کے لفظی معنیٰ ہیں جاننا، اور عِلم والوں کے نزدیک ، کسی چیز کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ کر اُسے بخوبی جان لینا عِلم ہے۔‘‘
’’سب کچھ مجھ ہی سے دریافت کریں گی یا اپنے بارے میں بھی کچھ بتائیں گی۔‘‘
’’ کیوں نہیں؟‘‘امیر گھرانے کی نٹ کھٹ بٹیاپھٹ سے بول پڑی۔
’’جیسا کہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں ما بدولت کو دَولت کہتے ہیں۔ایرانیوں میں زَر کہلاتی ہوں تو عربوں میں ثَروَت اور بھارت کے لوگ مجھے دھن کے نام سے جانتے ہیں،میں وہ طاقت ہوں جس سے دُنیا کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے، میں جس کے پاس ہوتی ہوں وہ اپنے آپ کو بڑا خوش قسمت سمجھتا ہے ، اس لیے کچھ لوگ مجھے خوش قسمتی اور اِقبال کے طور پر بھی جانتے ہیں، چونکہ دُنیا کی ساری حکومتیں میرے بل بوتے پر ہی چلتی ہیں لہٰذا دولت والوں میں حکومت و سلطنت کے نام سے بھی معروف ہوں۔ میرے بارے میں ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ اِنسانی جنگوں کی تین بڑی وجوہات میں میرا شُمار ہوتا ہے۔‘‘
’’ اورآپ اپنے بارے میں کچھ نہیں بتائیں گی۔‘‘دَولت نے جیسے ہی سانس لینا چاہا، نوجوان علم نے محترمہ عزت کی جانب اِشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’جی ! کیوں نہیں؟‘‘ عزت نے سنبھلتے ہوئے کہا۔
’’میں اللہ کی ایک ایسی نعمت ہوں جس کسی کے حصہ میں آجاتی ہوں ، دُنیا میں اُس کی قدر ومنزلت بڑھ جاتی ہے۔ لوگ اُس کا اِحترام کرتے ہیں، اُسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، محفلوں میں بلند مقام پر بٹھاتے ہیں، جلوس میں سروں پر اُٹھاتے ہیں۔‘‘
محترمہ عزت اپنے بارے میں کچھ اور کہتیں اس سے قبل وہ اسٹیشن آگیا جہاں تینوں کو اُترنا تھا، اُترنا کیا تھا تینوں کو جُدا ہوناتھا۔ اِسٹیشن پر اُترنے کے بعد تینوں نے اپنا اپنا سامان سنبھالا اور ایک دوسرے کو الوداع کہنے لگے۔
’’جناب عِلم آپ کے ساتھ سفر اچھا رہا، ہم بچھڑ تو رہے ہیں یہ تو بتا دیجیے کہ اب آپ سے کہاں ملاقات ہوگی؟‘‘دولت نے سوال کیا۔
’’مجھے تو آپ علم والوں میں، اسکولوں، کالجوں، مدارس اور جامعات کی لائبریریز میں کہیں بھی پا سکتی ہیں میں ہر جگہ آپ کو مل جاؤں گا۔‘‘
’’ اورمیں آپ کواُمراء ،اہلِ دول اور حکومتوں کے توشہ خانوں میں مِل جاؤں گی۔‘‘دولت نے اِتراتے ہوئے کہا۔
’’اور محترمہ آپ؟‘‘نوجوان علم نے عزّت سے سوال کیا۔
’’میں آپ کو اپنا پتا نہیں بتا سکتی ۔‘‘عزت نے اپنی افسردگی چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’کیوں؟‘‘نوجوان نے سوال کیا۔
’’ حمد اور حکم کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی میر ا سچا مالک و مستحق ہے ۔
میں وہ نعمت ہوں اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ اِنسانی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے اس نعمت سے محروم کردِیا، اُسے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا۔یعنی میں جس گھر سے ایک بار رُخصت ہوتی ہوں وہاں دوبارہ کبھی لوٹ کر نہیں آتی۔
اس گفتگو کے بعد تینوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے ہوئے اپنی اپنی راہ لی۔