تنہا

عمر سیف

محفلین
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہے
تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
 

شمشاد

لائبریرین
بے دماغی حیلہ جوئے ترکِ تنہائی نہیں
ورنہ کیا موجِ نفس زنجیرِ رسوائی نہیں
(غالب)
 

شمشاد

لائبریرین
غضب کا خوف ہے تنہائیوں میں
اب اپنے آپ سے ڈرنے لگی ہُوں
(نوشی گیلانی)
 

پاکستانی

محفلین
تنہا کبھي وہ ملے تو
اس کو سنا
ؤں باتيں دل کي
اس کو
بتاؤں حال اپنا
اس سے کہوں کہ اس کے بنا
دن کيسے گزرتا ہے
رات کيسے ڈھلتي ہے
سورج کے نکلتے وقت
جان کيسي سلگتي ہے
دھڑکن کيسے مچلتي ہے
بے چيني کے عالم ميں
کيا کروں بالم ميں
دل کو کيسے بہلائوں
بيتابيوں کے موسم ميں

تنہا کبھي وہ ملے تو
محبت کے درد بتائوں اسے
پيار کے کچھ تقاضے ہيں
پيار کا روگ لگائوں اسے
چاہت کے رنگوں ميں رنگوں اسے
عشق کا روپ ديکھائوں اسے
تنہا تنہا رہنے والا
جھل مھل جھل جھل اس کا روپ
سب ہي کے ساتھ وہ رہتا ہے
پر چپ چاپ سا کچھ لگتا ہے
سب ميرے بھي اپنے ہيں
مگر وہ سب سے اپنا لگتا ہے

تنہا کبھي وہ ملے تو

اس سے کہو کہ اس کے بناء
ميں رہ نہيں سکتي
جدائي کا دکھ يوں
ميں سہہ نہيں سکتي
ليکن
اب اگر وہ

تنہا کبھي وہ ملے تو

ميں جانتي ہو
تنہائي کے يہ لمحے
يونہي سرک جائيں گے
ميں کچھ نہ کہہ پائوں گي
لفظ حلق ميں اٹک جائيں گے
کچھ دير وہ رکے گا
ميري طرف بھي ديکھے گا
ميري ہاتھوں کي کپکپاہٹ
ميري جھکي پلکوں کي جنبش
ميرے بند ہونٹوں کي لرزش
کو ديکھ کر وہ
يقينا مسکرائےگا
ميں کچھ نہ بھي کہوں تو
وہ خود ہي سمجھ جائے گا
يہ ديوانگي عشق کي
کس سے بھلا چھپ سکي ہے
 

شمشاد

لائبریرین
منیر بھائی بہت اچھا لکھا ہے۔ مزہ آ گیا پڑھ کے۔

شاعر کا نام بھی اگر بتا دیں تو کیا ہی بات ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اک زمانہ تھا تصور کی بلاخیزی میں ساتھ
آنکھ کیا کھولی، بھری دنیا میں تنہا ہوگئے
(سرور عالم راز سرور)
 

پاکستانی

محفلین
جب كبھي تُم تنہا ہو
تو ياد كرنا
اُس لمحے كو جب تُم
مرے قريب تھے
جب بھي تمہیں كسي كي ياد ستائے
تو ياد كرنا اُس بد نصيب كو بھي
جس نے تمہيں ہي نہيں تمہاري
روح كو بھي چاہا تھا
جس نے تمہے اپنا دل
سونپ ديا تھا
جب كبھي تمہے غم ملے
تو ياد ركھنا اُس كو
جيسے تُم نے درد ديئے تھے
جس كو تُم نے اپنا بنا كر چھوڑ
ديا تھا
وہ آج بھي تُم سے پيار كرتا ہے
وہ آج بھي تُم كو چاہتا ہے
اُس كے دل ميں آج بھي تُم ہو
اُس كي روح ميں آج بھي تُم ہو
جب كبھي تُم تنہا ہو
 

شمشاد

لائبریرین
خدا معلوم کیوں، جس دل میں تم ہو
وہ تنہا رہ کے بھی تنہا نہیں ہے

سرور عالم راز سرور
 

شمشاد

لائبریرین
تیرے قصے میری باتیں اشکوں کی پیہم برساتیں
ہجر کی تنہا کالی راتیں، یہ میرا انجام ہوا

سرور عالم راز سرور
 

پاکستانی

محفلین
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے

واعظ کمال ترک سے ملتی ھے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ھے تو عقبی بھی چھوڑ دے

سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ھے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

شوخی سی ھے سوال مکرر میں اے کلیم
شرط رضا یہ ھے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے
 

پاکستانی

محفلین
۔۔مگر افسوس۔۔
وفا کر کے بھی میں بے وفا نکلا
زندگی کے اس سفر پر میں تنہا نکلا
کچھ دور تک تو سایہ میرا
اور پھر وہ بھی بے وفا نکلا
زندگی کی اس راہ میں
کوئی بھی تو نہ تھا ہم سفر میرا
مانتا تھا جس کو زندگی
وہ ہی بے وفا نکلا
کس سے کروں شکوہ اور کیسے کروں
بس اس ویراں آنکھ سے ایک قطرہ نکلا
پیار کہوں یا کہوں خود فریبی اپنی
جس نے چاہا مجھ ا’سی کو الودا کہ نکلا
شاہ تو توکرتا تھا بڑا مان اپنے وعدوں پہ
مگر افسوس تو بھی ان جیسا نکلا
 
Top