تمہیں موسم بلاتے ہیں

عمر سیف

محفلین
میرے اندر بہت دن سے
کہ جیسے جنگ جاری ہے
عجب بےاختیاری ہے
میں نہ چاہوں پھر بھی تمھاری سوچ رہتی ہے
ہر اِک موسم کی دستک سے تمھارا عکس بنتا ہے
کبھی بارش تمھارے شبنمی لہجے میں ڈھلتی ہے
کبھی سرما کی یہ راتیں!
تمھارے سرد ہاتھوں کا مہکتا لمس لگتی ہیں
کبھی پت جھڑ!
تمھارے پاؤں سے روندے ہوئے پتّوں کی آوازیں سُناتا ہے
کبھی موسم گُلابوں کا!
تمھاری مسکراہٹ کے سبھی منظر جگاتا ہے
مجھے بےحد ستاتا ہے
کبھی پلکیں تمھاری دھوپ اوڑھے جسم و جاں پہ شام کرتی ہیں
کبھی آنکھیں، مرے لکھے ہوئے مصرعوں کو اپنے نام کرتی ہیں
میں خوش ہوں یا اُداسی کے کسی موسم سے لپٹا ہوں
کوئی محفل ہو تنہائی میں یا محفل میں تنہا ہوں
یا پھر اپنی لگائی آگ میں بُجھ بُجھ کے جلتا ہوں
مجھے محسوس ہوتا ہے
مرے اندر بہت دن سے
عجب بےاختیاری ہے
اور اِس بےاختیاری میں
مرے جذبے، مرے الفاظ مجھ سے روٹھ جاتے ہیں
میں کچھ بھی کہہ نہیں سکتا، میں کچھ بھی لکھ نہیں سکتا
اُداسی اُوڑھ لیتا ہوں
اور اِن لمحوں کی مُٹھی میں!
تمھاری یاد کے جگنو کہیں جب جگمگاتے ہیں
یا بیتے وقت کے سائے!
مری بےخواب آنکھوں میں کئی دیپک جلاتے ہیں
مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ رُت بدلے تو پنچھی بھی گھروں کو لوٹ آتے ہیں
سنو جاناں، چلے آؤ
تمھیں موسم بُلاتے ہیں
 
Top