تعلیم اب اردو میں۔۔۔۔دیر آید درست آید

عثمان

محفلین
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جب تک پاکستان میں ہر صوبے میں کافی ساری زبانیں بولی جاتی رہیں گی، تب تک یہ ناممکن ہے کہ پورے ملک کا نظام تعلیم ایک زبان میں بنایا جا سکے۔ دوسرا یہ بات بھی اہم ہے کہ ہر صوبے میں اکثریت کے علاوہ اقلیت بھی پائی جاتی ہے، جو اپنی مادری زبان میں تعلیم پر زور دے گی۔ بہتر یہی رہے گا کہ مادری زبان کا ایک مضمون ہو جو لازمی ہو، تعلیم کے لئے ایک ہی زبان رائج ہو
تو گویا تعلیم مادری زبان میں ضروری نہیں۔ :)
تو پھر انگریزی بیچاری پر نزلہ کیوں۔ :)
 

دوست

محفلین
اصل درد صرف اردو کا ہے۔ جب اردو کے مقابلے میں مقامی اور علاقائی زبانوں کی بات کی جائے تو علاقائی زبانوں کی تعداد یاد آ جاتی ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
علاقائی زبانوں میں تعلیم کا ایک ہی لازمی مضمون کافی ہے۔۔۔ باقی تعلیم قومی زبان اردو میں ہی دی جائے تو بہتر ، کیونکہ اس زبان کو ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے اور ہماری قومی زبان اردو کی خوبی یہ ہے کہ یہ باقی تقریبا سب ہی زبانوں کے الفاظ اپنے اندر رکھتی ہے۔۔۔ باقی زبانیں اس سے اثر قبول کرتی ہیں اور اس کی ماتحت ہیں، سو اردو کو سمجھنا کوئی مشکل بات بھی نہیں۔۔۔ وہ اسکول جہاں ذریعہ تعلیم ہی انگریزی ہے، وہاں کے اساتذہ بھی انگریزی سے تھک جائیں تو اردو ہی بولتے ہیں۔۔۔ علاقائی زبان بولیں تو لینے کے دینے پڑجاتے ہیں کیونکہ علاقائی زبان کوئی ایک نہیں ہے۔۔۔
مثلا پنجاب میں پنجابی بھی ہے، سرائیکی بھی اور ہندکو بھی بولی جاتی ہے۔۔۔ اگر استاد صرف پنجابی یا سرائیکی میں بات کرے گا تو سمجھنے والوں کی تعداد کم ہوگی ، اردو میں کرے گا تو زیادہ لوگ سمجھیں گے ۔۔۔ کوئی مشکل نہیں ہوگی۔۔۔
 

دوست

محفلین
مزے کی بات ہے کہ ہمارے اساتذہ ہمارے ساتھ پنجابی ہی بولتے تھے۔ اب جیسے جیسے پنجابی سماج "مہذب" ہو رہا ہے اور اردو کی جانب منتقل ہو رہا ہے تو نئے استاد اب اردو بولتے ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
مزے کی بات ہے کہ ہمارے اساتذہ ہمارے ساتھ پنجابی ہی بولتے تھے۔ اب جیسے جیسے پنجابی سماج "مہذب" ہو رہا ہے اور اردو کی جانب منتقل ہو رہا ہے تو نئے استاد اب اردو بولتے ہیں۔
اس کا تعلق کچھ اس بات سے بھی ہے کہ طلبہ کی تعداد کی اکثریت کون سی زبان بولتی ہے اور کس زبان کو برداشت کرتی ہے؟ اصل مسئلہ تو ابلاغ کا ہے۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
تو گویا تعلیم مادری زبان میں ضروری نہیں۔ :)
تو پھر انگریزی بیچاری پر نزلہ کیوں۔ :)
مادری زبان میں تعلیم اس لئے ضروری نہیں کہ ہمارے پاکستان میں کتنی زبانیں ہیں جو مادری کا درجہ رکھتی ہیں۔ کیا تمام تر تعلیمی نصاب ان زبانوں تک منتقل کیا جا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اردو ہونی چاہیئے۔ میرا یہ پوائنٹ اردو بمقابلہ انگریزی ذریعہ تعلیم نہیں بلکہ اردو بمقابلہ مادری زبانیں ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
بات صرف یہ ہو رہی ہے کہ بچوں کو مادری زبان کی املا و تحریر سے روشناس کروانے کے لئے باقی تین صوبوں میں اگر مادری زبان (پشتو، سندھی، بلوچی) پڑھائی جا رہی ہے، تو اپنی زبان سےواقفیت کے مقصد سے پنجاب میں بھی (صرف ابتدائی جماعتوں میں) اس مثبت اقدام یعنی پنجابی کو ایک زبان کے طور پر پڑھانے کا آغاز کر دیا جائے تو اس میں حرج بھی کیا ہے،کیونکہ پنجاب کے بچوں کا بھی یہ حق بنتا ہے ۔ کہ وہ بڑے ہو کر اپنی مادری زبان کے ادب کو پڑھنے (اور لکھنے) کے قابل ہو سکیں۔میں میرے ناقص خیال کے مطابق نہ تو اس سے دیگر زبانوں یا مضامین کی پڑھائی پر کوئی اثر پڑے گا اور نہ یہ کہا جا رہا ہے کہ دیگر مضامین کو بھی پنجابی میں پڑھایا جا ئے، انہیں بھلے اردوؕ یا انگریزی میں یا جیسے بھی پڑھانا جاری رکھا جائے ، وہ ہمارا موضوع گفتگو نہیں یا باعث نزاع نہیں۔

محمد یعقوب آسی
دوست
فلک شیر - جناب ، اعلی درجے کے پبلک اسکول کے ایک مدرس کے طور پر آپ کے گراں قدر تآثرات اور آرا کاانتظار ہے۔
نیرنگ خیال
فرحت کیانی
زبیر مرزا
 
چند ایک گزارشات میں بھی کر لوں:
اوپر ایک دوست نے لکھا کہ پہلے استاد پنجابی بولتا تھا، وہ ’’مہذب‘‘ ہوا تو اردو بولنے لگا۔ یہ اتنی سادہ بات نہیں ہے، صاحب! جب بات ایک گاؤں قصبے یا شہر کی سطح سے اٹھ جائے، تو وہاں اپنی مقامی زبان اور لہجہ عزیز ہونے کے باوجود اردو آ جاتی ہے۔ خاص طور پر وہاں جہاں میں یہ سمجھوں کہ میرا پنجابی کا لہجہ میرے مخاطب کے لئے مشکل پیدا کر سکتا ہے، میں اردو بولنے کو ترجیح دیتا ہوں اور اپنے ان دوستوں کے درمیان جن کے بارے میں مجھے یقین ہوتا ہے کہ ایسی کوئی مشکل نہیں ہو گی، مجھے پنجابی بولنے میں مزا بھی آتا ہے اور سہولت بھی رہتی ہے۔ یہ دراصل اردو کا رچاؤ ہے جو پاکستانیوں کی اکثریت کی مادری زبان نہ ہوتے ہوئے بھی ایسی مقبول ہے۔ اس میں کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار کیوں ہوا جائے!
 
پنجابی، سندھی، بلوچ، پٹھان، کشمیری، سب جہاں ملے جلے ہوتے ہیں یا اکثر ملتے جلتے ہیں، یا علاقائی زبان اور لہجے کا امتیاز باقی نہیں رہتا، وہاں بہترین اور عین فطری انداز ہے کہ بات چیت اردو میں چلے اور اردو میں چلتی ہے۔ اردو کے ساتھ ہمارا تہذیبی رشتہ ہے جس کا انکار کسی طور ممکن نہیں۔
رہی انگریزی کی بات، تو جناب! لاکھ بین الاقوامی سہی، یہ بہر حال بدیسی زبان ہے اور تہذیبی حوالہ اس کا وہ ہو ہی نہیں سکتا جو اردو کا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انگریزی کو رد کیا جائے۔ اس کی اپنی اہمیت ہے تاہم اپنی مادری اور تہذیبی زبانوں پر اس کو ترجیح دینا بہر حال زیادتی ہو گی۔
 
ابتدائی تعلیم کے حوالے سے یہ بات عالمی سطح پر تسلیم کی جاتی ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان میں بہترین سیکھتا ہے۔ پشتو، سندھی، بلوچی میں بنیادی تعلیم دینے کی بات بھی اوپر ایک سے زیادہ دوستوں نے کر دی، اور یہ سوال بھی بالکل بجا ہے کہ پنجابی میں کیوں نہیں!!؟ یہاں بہت سارے حقائق ایسے ہیں جو شرمندگی کا باعث ہیں۔ ایک تو پنجابی کی جبری تقسیم کی بات ہے کہ جی لاہوری اور ہے، سرائیکی اور ہے، ماجھی اور ہے، شاہ پوری اور ہے، پوٹھوہاری اور ہے، ہٹھاڑی اور ہے، اُتاڑی اور ہے، فلانی اور ہے، ۔۔۔۔ اگر یہ سب اور اور ہیں تو پنجابی رہی کہاں۔ وسیع المشربی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ان سب کو پنجابی کے ’’لہجے‘‘ تسلیم کریں اور ہر قسم کے سیاسی اور گروہی مفادات سے بالا تر ہو کر پبجابی زبان کی وسعت کو مانیں۔
 
آخری تدوین:

تلمیذ

لائبریرین
۔۔وسیع المشربی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ان سب کو پنجابی کے ’’لہجے‘‘ تسلیم کریں اور ہر قسم کے سیاسی اور گروہی مفادات سے بالا تر ہو کر پبجابی زبان کی وسعت کو مانیں۔

بالکل درست فرمایا، جناب نے۔ یہ تمام لہجے ہیںً۔ کہلاتی تو پنجابی ہی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ کیسے مان لیا جائے؟ حروف تہجی میں بھی فرق ہے اور مجھے آج تک کوئی ایسا بندہ نہیں ملا جو محض ایک زبان یا بقول آپ کے، لہجہ جاننے والے دوسری زبان یا لہجے کو اچھی طرح تو کیا تھوڑا بہت بھی سمجھ سکیں۔ اس بارے کچھ روشنی ڈالیئے
 
بالکل درست فرمایا، جناب نے۔ یہ تمام لہجے ہیںً۔ کہلاتی تو پنجابی ہی ہے۔

بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔
یہاں کچھ علاقائی لہجوں کو الگ زبان کہا جا رہا ہے اور سب کو پتہ ہے کہ اسی دعوے کو بنیاد بنا کر ایک لمبا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

جناب تلمیذ
 
سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ کیسے مان لیا جائے؟ حروف تہجی میں بھی فرق ہے اور مجھے آج تک کوئی ایسا بندہ نہیں ملا جو محض ایک زبان یا بقول آپ کے، لہجہ جاننے والے دوسری زبان یا لہجے کو اچھی طرح تو کیا تھوڑا بہت بھی سمجھ سکیں۔ اس بارے کچھ روشنی ڈالیئے
حروف تہجی میں کوئی ایسا فرق نہیں ہے، محترمی قیصرانی صاحب۔ صرف لہجے کا فرق ہے اور وہ ایک ہی گھر کے افراد میں بھی ہوتا ہے۔ تاہم ایک اڑنون کا حرف اگر پنجابی کی تختی میں جمع کر لیا جائے تو اس میں بھی کیا قباحت ہے۔ لام کو پنجابی میں اردو سے مختلف انداز میں بھی بولا جاتا ہے، اس کا بھی دوستانہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم مجھے کوئی مسئلہ ایسا پیش نہیں آیا کہ میں ملتان یا بہاول پور جا کر یا ہٹھاڑ، سرگودھا، میانوالی میں خود کو گونگا بہرا محسوس کرنے لگا ہوں۔ لفظیات میں تھوڑا بہت فرق ہوا کرتا ہے، اور یہی فرق ایک الگ لہجے کی شناخت ہے۔


خوش رہئے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حروف تہجی میں کوئی ایسا فرق نہیں ہے، محترمی قیصرانی صاحب۔ صرف لہجے کا فرق ہے اور وہ ایک ہی گھر کے افراد میں بھی ہوتا ہے۔ تاہم ایک اڑنون کا حرف اگر پنجابی کی تختی میں جمع کر لیا جائے تو اس میں بھی کیا قباحت ہے۔ کم از کم مجھے۔ کوئی مسئلہ ایسا پیش نہیں آیا کہ میں ملتان یا بہاول پور جا کر یا ہٹھاڑ، سرگودھا، میانوالی میں خود کو گونگا بہرا محسوس کرنے لگا ہوں۔ لفظیات میں تھوڑا بہت فرق ہوا کرتا ہے، اور یہی فرق ایک الگ لہجے کی شناخت ہے۔
خوش رہئے۔
محترم ایک سوال پوچھا تھا لیکن اتنی خفگی کی وجہ سمجھ نہیں آ سکی؟ آپ بھی خوش رہیئے
 
جناب تلمیذ کہتے ہیں:

بچوں کو مادری زبان کی املا و تحریر سے روشناس کروانے کے لئے باقی تین صوبوں میں اگر مادری زبان (پشتو، سندھی، بلوچی) پڑھائی جا رہی ہے، تو اپنی زبان سےواقفیت کے مقصد سے پنجاب میں بھی (صرف ابتدائی جماعتوں میں) اس مثبت اقدام یعنی پنجابی کو ایک زبان کے طور پر پڑھانے کا آغاز کر دیا جائے تو اس میں حرج بھی کیا ہے،کیونکہ پنجاب کے بچوں کا بھی یہ حق بنتا ہے ۔ کہ وہ بڑے ہو کر اپنی مادری زبان کے ادب کو پڑھنے (اور لکھنے) کے قابل ہو سکیں۔

بھارتی پنجاب میں ایسا ہے، وہاں پہلی کچی سے پڑھائی پنجابی میں شروع ہوتی ہے۔ رسم الخط البتہ ان کا گرمکھی ہے، کہ بھارت میں اکثر مقامی زبانیں دیوناگری میں لکھی پڑھی جاتی ہیں۔ مجھے ایک بار گرمکھی سیکھنے کا شوق چرایا تو میں نے لاہور میں رہنے والے ایک دوست سے ایک کچی کا قاعدہ منگوایا تھا (فوٹو کاپی ملی تھی)۔
 
Top