ترجمہ کرتے وقت ہماری ترجیحات یا پالیسی

قیصرانی

لائبریرین
میں نے دیکھ لیا تھا، لیکن پیغام اس لیے نہ لکھا کہ نعمان کو آنا پڑتا۔ ابھی چونکہ آپ دونوں‌موجود ہیں، اس لیے ترمیم شدہ ایڈیشن کو ہی فائنل سمجھیں۔ باقی دیگر باتیں وقت کے ساتھ ساتھ طے ہوتی رہیں گی
 

قیصرانی

لائبریرین
نعمان نے کہا:
قیصرانی بھائی آپ نے تو میری ذرا سی بات دل پہ لگالی۔ اب چھوڑیں بھی۔
ایسی بھی کوئی بات نہیں‌ جناب۔ میں ڈائل اپ کی وجہ سے خاموش ہوا ہوں کہ واقعی اگر آپ کو ڈائل اپ سے آنا پڑے تو کافی مشکل ہو جاتی ہوگی ناں‌ :(
 

دوست

محفلین
ڈائل اپ سے۔
نعمان شاید ڈی ایس ایل کا سوچ رہے تھے اب۔
لگتا ہے ابھی ہوا نہیں یہ کام۔
قیصرانی بھائی سند دینے کا شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
میری طرف سے مہرِ تصدیق۔ اگر ضرورت ہے تو۔ اگرچہ ابھی مہر مل نہیں رہی ہے، بتوسط کی بورڈ سہی۔ (مذاق)
 

زیک

مسافر
دوست نے کہا:
اگر ہال آف مررز کا ترجمہ ایوان آئینہ کردیا گیا ہے تواس میں اردو کا کیا قصور ہال کو ایوان اور مرر کو آئینہ ہی تو کہتے ہیں اردو میں۔

یہ شاید آپ میری ایک پوسٹ کا ذکر کر رہے ہیں مگر کچھ غلطی ہو گئی ہے آپ سے۔ ایوان عکس hall of mirrors کا ترجمہ ہوتا تو شاید صحیح تھا مگر یہ سینما کا ترجمہ کیا تھا اردو وکی‌پیڈیا والوں نے۔ ہمیں ایسے ترجموں سے بچنا چاہیئے۔

آپ کی پہلی پوسٹ تو ایک rant ہے مگر آگے گائیڈلائن آپ نے ٹھیک دی ہیں۔

میرے خیال سے یہ نکات اہم ہیں:

1۔ ترجمے میں سلیس اور عام‌فہم اردو پر زور دینا چاہیئے۔
2۔ ضروری نہیں کہ ہر لفظ کا زبردستی ترجمہ ہی کیا جائے۔ اگر نظرثانی کمیٹی کی صوابدید میں کوئی دوسری زبان کا لفظ اردو میں اتنا عام ہو گیا ہو کہ اسے اردو ہی کا سمجھا جائے۔
3۔ دوسری طرف ہمیں زبردستی دوسری زبانوں (انگریزی، عربی، فارسی) کے الفاظ اپنے ترجمے میں نہیں استعمال کرنا چاہیئیں۔
 

زیک

مسافر
-----BEGIN PGP SIGNED MESSAGE-----
Hash: SHA1

میں ترجمے کی یہ گائیڈلائن منظور کرتا ہوں۔
-----BEGIN PGP SIGNATURE-----
Version: GnuPG v1.4.4 (MingW32)

iEYEARECAAYFAkUKAeEACgkQllkgMb0DQ9msLwCdGnZj7toM7vCEebnkRn9FIKFS
OXQAoIuUQmQNfuP2IsgQg3Tf1RcVXsS4
=ac08
-----END PGP SIGNATURE-----
 

دوست

محفلین
زکریا نے کہا:
-----BEGIN PGP SIGNED MESSAGE-----
Hash: SHA1

میں ترجمے کی یہ گائیڈلائن منظور کرتا ہوں۔
-----BEGIN PGP SIGNATURE-----
Version: GnuPG v1.4.4 (MingW32)

iEYEARECAAYFAkUKAeEACgkQllkgMb0DQ9msLwCdGnZj7toM7vCEebnkRn9FIKFS
OXQAoIuUQmQNfuP2IsgQg3Tf1RcVXsS4
=ac08
-----END PGP SIGNATURE-----
:shock: :shock: :shock:
یہ کیا چیز ہے بھائی جی۔۔۔
کچھ وضاحت ورنہ میں تو شہید ہونے والا ہوگیا ہوں اتنی ساری انگریزی دیکھ کر۔ مجھے لینکس کی کِی یاد آرہی ہے اسے دیکھ کر جو سورسز لسٹ فائل میں ریپازٹری داخل کرنے کے بعد درآمد کرانا پڑتی ہے تاکہ پیکج مینجر اس سے متعلق پیکج اتارنے کا اہل ہوجائے۔
 

دوست

محفلین
جی ٹھیک میرا دوسرے والا اندازہ درست تھا کچھ اسی قسم کی کِی لینکس والے بھی استعمال کرتے ہیں۔
 

نعمان

محفلین
تراجم کے لئیے رہنما اصول اب اردو وکی پر دستیاب ہے۔ لیکن چونکہ ہم موجودہ ڈاکومنٹ بطور اصول استعمال کررہے ہیں اس لئیے اسے بطور دستاویزت سب ورژن ریپوزیٹوری پر بھی ہونا چاہئیے۔ اور اس کا ایک عدد ایچ ٹی ایم ایل ورژن انٹرانس پر کہیں دستیاب ہو تو اچھا ہے۔ جیسے ہی مجھے سب ورژن پر کام کرنا آجائے گا ویسے ہی اردو ورڈ بینک میں شامل کردونگا۔ اردو ویب کے تمام کارکنان، رضاکاران، منتظم، اور مہمانوں سے گذارش ہے کہ وہ اس دستاویز کو بطور رہنما اصول استعمال کریں اور اس کی تشہیر اور عملدرآمد میں مدد کریں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
نہایت دقت نظری کے ساتھ رہنما اصول مرتب کیے گئے ہیں اور تقریبا تمام اہم پہلوٶں کو ان میں سمولیا گیا ہے جس کے لیے میں آپ سب کو حرف تحسین پیش کرتا ہوں
ایک آدھ بات جو میرے ذہن میں ہے وہ یہ کہ
جب ہم اردو کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد بر صغیر پاک و ہند میں بولی جانے والی وہ زبان ہوتی ہے جس کا خمیر عربی، فارسی،ہندی اور پنجابی زبانوں کے علاوہ دیگر مقامی اور علاقائی زبانوں سے اٹھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اردو میں ان تمام زبانوں کے کثیر تعداد میں الفاظ بعینہ ﴿ ہو بہو﴾ یا تاریدی صورت میں ﴿ معمولی ردو بدل﴾ کے ساتھ شامل ہیں اور اب وہ اردو کا حصہ ہیں ۔ ان مختلف زبانوں کے الفاظ کی تذکیر و تانیث اور واحد جمع بنانے کے قواعد بھی اردو میں وہی ہیں جو ان زبانوں میں موجود ہیں مثلاً معیاری اردو میں لفظ کی جمع الفاظ اور شعر کی جمع اشعار عربی قاعدے کے مطابق ہی ہوگی جبکہ غیر معیاری اردو میں اس قاعدے کو اہمیت نہیں دی جاتی اور لفظ کی جمع ﴿الفاظوں﴾ جیسے لفظ سے بھی بنالی جاتی ہے یہی معاملہ ترکیب سازی میں بھی ہے معیاری اردو میں جب بھی کوئی ترکیب یعنی دو لفظی مجموعہ بنایا جاتا ہے تو اس میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ ترکیب میں دونوں الفاظ ایک ہی زبان سے تعلق رکھتے ہوں اور پھر یہ ترکیب بھی اسی زبان کے قاعدے کے مطابق تشکیل پاتی ہے جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں مثلاً ﴿فیروزاللغات﴾ ﴿نوراللغات﴾ ان تراکیب میں عربی الفاظ ہیں اور انہیں عربی قاعدے کے مطابق حروف ﴿الف اور لام﴾ سے ایک دوسرے کے ساتھ متصل کیا گیا ہے جبکہ ﴿فیل مست﴾ ﴿ابر بہار﴾ تراکیب میں فارسی الفاظ کو فارسی قاعدے کے تحت ﴿زیر ۔۔ اضافتی﴾ کے ساتھ متصل کر کے تر کیب بنائی گئی ہے ۔
آمدم بر سر مطلب
اس تمام بحث کا مقصد صرف احباب کو یہ باور کرانا ہے کہ اردو زبان کی صورت گری ۔۔۔۔۔ عربی اور فارسی کے بغیر ممکن ہی نہیں اس لیے تراجم میں بھی بلا جھجھک ان زبانوں کی وسعت سے استفادہ کرنا ہوگا نہ کہ انہیں اچھوت کا درجہ دیکر شجر ممنوعہ بنا دینا ۔
اس لیے عربی اور فارسی کے وہ تمام الفاظ جو اردو میں مستعمل ہیں وہ تو اردو ہی کے الفظ تصور کیے جائیں اور جہاں جہاں ضرورتاً فارسی اور عربی کے قدرےنئے اور غریب﴿بمعنی اجنبی﴾ الفاظ کواس لیے استعمال کیا جائے کہ ایسے الفاظ کے استعمال سے ترجمہ میں اختصار اور جامعیت پیدا ہوتی ہو تو ضرور ایسا کرنا چاہیے ۘ برادرم شاکر عزیز کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ہمیں ایسے الفاظ سے آہستہ آہستہ انسیت پیدا ہو جائے گی ۔
یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اردو محفل کے تراجم دوسرے تراجم کے ساتھ حتی الامکان مطابقت اور موافقت رکھتے ہوں تاکہ ابتدائی مرحلہ میں استعمال کنندگان کا ذہن ترجمہ کو پڑھ کر فوری طور پر اس لفظ تک پہنچ سکے جس کا ترجمہ کیا گیا ہو مختلف سافٹ ویرز میں مختلف تراجم کا استعمال صارف کو ذہنی انتشار کا شکار کر سکتا ہے ۔ اگلے مراحل میں جب استعمال کنندگان کو عادت ہو جائے گی اور وہ تراجم سے مانوس ہو جائیں گے تو پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ انگریزی زبان کے وہ تمام الفاظ جو اردو میں بکثرت استعمال ہونے کی وجہ سے اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں انہیں خواہ مخواہ ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں مثلاً پولیس ، سکول، کلرک وغیرہ
اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ پہلی ترجیح کے طور پر لفظی تراجم﴿جنہیں شاکر عزیز نے معنوی تراجم کا نام دیا ہے﴾ ہی کیے جائیں اور دوسری ترجیح معنوی تراجم ﴿جنہیں برادرم شاکر عزیز نے تمثیلی تراجم کہا ہے﴾ کو دی جائے لیکن جہاں اختصار، فصاحت اور لفظی جمالیات کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو وہاں معنوی تراجم﴿تمثیلی﴾ کو ہی ترجیح دی جائے ۔
جن جن الفاظ کے تراجم دوسرے اداروں کی جانب سے کیے جا چکے ہیں ان تراجم کا اردو محفل کے تراجم کے ساتھ موازنہ لازمی ہونا چاہیے اور جہاں بہتر صورت نظر آئے بغیر کسی تعصب کے اسے قبول کر لینا اردو کے ساتھ ہمارے اخلاص کا ثبوت ہوگا ۔
ہمارے ہاں مقتدرہ کی جانب سے دفتری اردو اور دیگر تراجم اصلاحات کا کام ایک عرصہ سے جاری ہے اور اس سلسلہ میں مختلف دفاتر میں دفتری اردو کی لغات فراہم کی جا چکی ہیں گو کہہمارے سرکاروی اداروں کی جانب سے اردو کے ساتھ عدم التفات کے رویہ کی وجہ سے یہ تراجم مقبول نہیں ہوئے تا ہم نچلے طبقہ کا عملہ کسی نہ کسی حد تک ان تراجم سے مانوس ضرور ہوا ہے اس لیے ایسے تراجم سے سراسر اغماض برتنا درست نہ ہوگا۔ بے شک انہیں معیاری ترجمہ تسلیم نہ کیا جائے لیکن ان سے استفادہ ضرور ہونا چاہیے تاکہ جب دفاتر سے متعلق عملہ اردو محفل کے تراجم کو استعمال کرے تو اسے ایک مرتبہ پھر ان تراجم سے انسیت پیدا کرنے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار نہ ہو۔
ایک بات اور ۔۔۔ وہ یہ کہ جب بھی کسی لفظ یا اصطلاح کا ترجمہ کیا جائے تو یہ ضرور دیکھا جائے کہ مجوزہ ترجمہ کسی دوسری اردو اصطلاح کے طور پر پہلے سے مستعمل تو نہیں یا صارف کا ذہن فوری طور پر کسی دوسری سمت تو نہیں لے جائے گا مثلاً ﴿لاگ ان﴾ کے لیے مجوزہ ترجمہ ﴿دخول﴾ کی بجائے "داخلہ" ہو تو زیادہ مناسب ہوگا ۔ البتہ ﴿لاگ آف﴾ کے لیے مجوزہ ترجمہ خروج ہی بہتر ہے
اسی طرح سکن کے لیے کھال ، کینچلی اور خول کے ساتھ اگر ملبوس یا لباس کے الفاظ کو بھی زیر غور لایا جائے تو نہتر صورت کا انتخاب کیا جا سکتا ہے
 

دوست

محفلین
مجھے اہل اردو اور سقہ اہل اردو کا یہ کہنا کہ عربی الفاظ کو عربی اور فارسی الفاظ کو فارسی کے قواعد کے مطابق ہی تبدیل کیا جائے اب ناقابل عمل سا لگتا۔ سیدھی سی بات ہے میں کوئی فارسی دان نہیں نا عربی جانتا ہوں، یہی حال نعمان کا ہے، قیصرانی ، محب بھائی، نبیل ، زکریا بھائی کوئی بھی یہاں اتنا ماہر زبان نہیں۔ ہاں اساتذہ یعنی اعجاز اختر صاحب، تلمیذ صاحب اور شاکر القادری صاحب ہیں۔ لیکن اب ہر وقت تو ہمارے سر پر سوار نہیں رہتے اکثر تراجم ہم خود ہی کرکے ورڈ بینک میں‌ ڈال دیتے ہیں۔ سو میرا خیال ہے اس اعتراض کو اب ختم ہوجانا چاہیے کہ فارسی اور عربی کو الگ الگ رکھیں۔ اب یہ اردو ہے اور اردو میں دونوں طرح کے قواعد شامل ہیں۔ پانی کے تالاب میں رنگ ڈال کر کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اتنے حصے میں ہی رہے۔ اس لیے اردو کی وسعت اور مزید یہ کہ موجودہ چلینجوں کے پیش نظر اب اس بحث کی بجائے آگے بڑھ کر کچھ مزید دیکھنا ہوگا۔ ان الفاظ کو اردو میں آئے 200 سال سے اوپر ہوگئے اب تو انگریزی الفاظ کو اردو کا حصہ بنے 100 سال ہونے کو ہیں۔
سرسید سے لے کر آج تک الفاظ مستعمل ہیں چاہے انگریزی کے لیکن اردو میں میں ہم اگر سیٹ کی جمع لکھتے ہیں تو سیٹوں ہی کرتے ہیں نا کہ بمطابق انگریزی قواعد سیٹس لکھتے ہیں۔
الفاظ کو الفاظوں کرنا غلط ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن میری مراد یہاں عربی اور فارسی الفاظ کو یا کسی بھی دوسری زبان کے لفظ جو اردو میں مستعمل ہے ملا کر اصطلاحات بندی سے ہے۔
مقتدرہ سے ہمیں کوئی دشمنی نہیں اور جہاں ترجمہ بہتر لگتا ہے ہم اس کو ترجیح دیتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
میرا اردو کا علم زیادہ نہیں اس لئے اردو کے بارے میں شاکر القادری صاحب کی بات پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ مگر جہاں تک دو لفظی تراکیب کی بات ہے عام طریقہ یہی ہے کہ انہیں اردو کے الفاظ سمجھ کر ہی کام کیا جائے نہ کہ فارسی یا عربی کے۔ انگریزی میں آپ کو یہ بات کافی نظر آتی ہے کہ کچھ الفاظ فرنچ (یا لاطینی) سے ہیں تو کچھ کسی جرمن زبان سے اور کچھ یونانی بھی۔ اب تو ان الفاظ کو جو انگریزی کا حصہ بن چکے ہیں ملا کر نئی نئی تراکیب اور الفاظ انگریزی میں جنم لے چکے ہیں۔ لفظ یا ترکیب کا ایک حصہ لاطینی ہے تو دوسرا جرمن یا یونانی۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
دوست نے کہا:
مجھے اہل اردو اور سقہ اہل اردو کا یہ کہنا کہ عربی الفاظ کو عربی اور فارسی الفاظ کو فارسی کے قواعد کے مطابق ہی تبدیل کیا جائے اب ناقابل عمل سا لگتا۔
بالکل ایسی بات نہیں کہ یہ سب کچھ ناقابل عمل ہے ۔۔۔ بالکل قابل عمل ہے اور ہم لوگ اسی پر عمل کرتے ہیں ہم لوگ سے مراد ہر وہ شخص ہے جو واجبی سی بھی اردو جانتا ہے ۔ آپ نے شاید محسوس نہیں کیا کہ ہم دانستگی یا نا دانستگی میں عربی فارسی الفاظ کی تراکیب بناتے ہیں انکی تذکیر و تانیث کرتے ہیں یا واحد جمع بناتے ہیں تو در اصل انہی قواعد کے تحت بنا دیتے ہیں چاہے ہم عربی اور فارسی کے قواعد کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں اور ایسا در اصل اسی انسیت کی وجہ سے ہوتا ہے جو ہمیں ان الفاظ کو اردو زبان میں صدیوں سے برتتے ہوئے پیدا ہو گئی ہے ۔ میں نے تو محص یہ باتیں تمہیدی طور پر لکھی تھیں میرا مقصد ہر گر یہ نہ تھا کہ اس مقصد کے لیے عربی فارسی کے عالم درکار ہیں اور وہی یہ کام کر سکتے ہیں میرا مقصد تو صرف یہ تھا کہ اگر ترجمہ میں اختصار،فصاحت ، بلاغت اور جمالیاتی ضرورت کے پیش نظر تراجم یک لفظی یا دولفظی تراکیب کی صورت میں کیے جائیں تو بہتر ہو گا ۔ اور ترکیب میں دونوں حروف کا ایک ہی زبان سے تعلق رکھنا اس لیے ضروری : مثال کے طور پر میں نے ایک اداہ جو کہ قرآن حکیم کی تعلیم کے لیے قائم کیا گیا تھا اس کے سائن بورڈ پر نظر ڈالی تو جلی حروف میں لکھا ہوا نظر آیا
"اداہ ریڈالقرآن"
اب آپ خود دیکھیے کہ انگریزی کے لفظ ریڈ کے سائھ الف لام کے ذریعہ قرآن کو ملا کر کتنی مضحکہ خیز ترکیب وضع کی گئی ہے کیا آپ کو ہنسی نہیں آئی
:lol:
دوست نے کہا:
لیکن اردو میں میں ہم اگر سیٹ کی جمع لکھتے ہیں تو سیٹوں ہی کرتے ہیں نا کہ بمطابق انگریزی قواعد سیٹس لکھتے ہیں۔
اس سلسلہ میں میں نے انگریزی کے ان الفاظ کے متعلق ہر گز نہیں کہا کہ اردو میں کام کرتے ہوئے بھی ان کے لیے انگریزی قواعد کو برتا جائے بلکہ میں نے تو یہ کہا کہ ان کو اردو کے الفاظ ہی تسلیم کر کے انہیں اسی طرح استعمال کیا جائے مثلاٍ کلرک سکول وغیرہ
 

نعمان

محفلین
شاکر القادری، آپ کی رائے صائب اور دلیل میں دم ہے۔ اور اردو ویب کی لوکلائزیشن پالیسی یقینا ایسے انگریزی الفاظ کو جو اردو میں ڈھل چکے ہیں کو اردو ہی سمجھتی ہے۔ جیسا کہ ہم فائل کے لئے مسل کے بجائے فائل ہی کو ترجیح دیتے ہیں اور نوٹ کو نوٹ لکھنے پر بھی معترض نہیں۔ وغیرہ۔ ایسی کئی اور مثالیں ورڈ بینک پر موجود ہیں۔

آپ ایسا کریں کہ ورڈ بینک، ترجمہ مطلوب ہے اور انٹرانس پر ہونے والے تراجم پر نظر رکھیں۔ اور جہاں آپ محسوس کریں کہ کچھ بہتری کی گنجائش ہے تو فورا بہتر تراجم تجویز کریں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
نعمان نے کہا:
شاکر القادری،
آپ ایسا کریں کہ ورڈ بینک، ترجمہ مطلوب ہے اور انٹرانس پر ہونے والے تراجم پر نظر رکھیں۔ اور جہاں آپ محسوس کریں کہ کچھ بہتری کی گنجائش ہے تو فورا بہتر تراجم تجویز کریں۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب میں انٹرانس پر دالہ کے بعد تراجم کو دیکھتا ہوں تو جہاں جہاں﴿نو سجیشن اویل ایبل﴾ کوئی تجاویز موجود نہیں ۔۔۔ وہاں تو ایڈٹ کرنے پر میری تجویز قبول ہو جاتی ہے اور لکھی ہوئی سامنے آجاتی ہے لیکن جہاں پہلے سے کوئی مجوزہ ترجمہ موجود ہے وہاں کوشش بسیار کے باوجود میں اپنی تجاویزسبمٹ ﴿پیش﴾ نہیں کر سکا اس کی کیا وجہ ہے ایسی صورت میں تجاویز کیوں قبول نہیں کی جاتیں؟
 

نعمان

محفلین
غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ انٹرانس کسی ڈورے کے لئے تجویز کئے گئے تراجم کا تقابل کرتا ہے اور سب سے زیادہ تجویز کردہ ترجمہ قبول کرتا ہے۔ اگر آپ سبمٹ کے ساتھ ویلیڈیٹ کا چیک باکس بھی چیک کردیں تو آپ کا ترجمہ شامل ہوجائیگا۔ ایک اور طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ فائل اپنے کمپیوٹر پر ڈاؤنلوڈ کرلیں اور پھر اس میں اپنی تجاویز شامل کرکے اس فائل کو نظر ثانی کمیٹی کو ارسال کردیں۔ نظر ثانی کمیٹی کا ای میل ایڈریسtranslation [at] urduweb dot org ہے۔
 
Top