تخلیقِ فن - ایک نامیاتی نظریہ

امان زرگر

محفلین
میرا نظریۂ تخلیق سچّا شاعر، حسرتؔ موہانی کی طرح ہر اچھے استاد سے فیض اٹھاتا ہے۔ اساتذہ کے کلام سے بہتر اور اچھا استاد کون ہو سکتا ہے چنانچہ میں نے میرؔ سے یہ سبق حاصل کیا کہ سچّا شعر وہ جو پڑھنے یا سننے والے کے دل میں اتر جائے۔ غالبؔ نے مجھے پہلو داری اور لفظ کو گنجینۂ معنی بنانے کا گر سکھایا اور حالیؔ نے اصلیت اور سادگی کا رمز بتایا۔ طنز کے مناسب استعمال اور سامنے کے مضامین کو تخلیقی عمل سے گزار کر بات کو نئی اور لہجے کو منفرد بنانے کا فن میں نے شاد عارفی سے حاصل کیا ہے اور میری شاعری، جیسی کچھ بھی وہ ہے، انھیں چار ستونوں پر ایستادہ ہے۔ دھوکا کھاتے ہیں وہ فن کار، جو نقاد کے جاری کردہ شاعری کے اسباق پر اپنے فن کی بنیاد رکھتے ہیں۔ تنقید اکثر شاعر کو اصلاح پسندی، ترقی پسندی اور جدیدیت جیسے خانوں میں بانٹتی ہے۔ اس طرح بھلے ہی غیر تخلیقی نقاد کو لکھنے میں سہولت ہوتی ہو اور اس کی حیثیت مستحکم ہوتی ہو لیکن فن اور فن کار اکائی بننے کے بجائے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ میں نے اپنی شاعری کو خانوں میں تقسیم ہونے سے بچانے کی بھرسک کوشش کی ہے۔ کئی نقاد عظمت بانٹتے ہیں مظفرؔ سر بسر انکار ہو جا میرا عقیدہ ہے کہ نقاد کی عطا کردہ عظمت پستہ قامت ہوتی ہے، خاص طور پر اپنے ہم عصروں کی تنقید کبھی انصاف نہیں کر سکی۔ شاعر کی تخلیق اگر خود پر زمانے کی گرد جمنے نہ دے اور عہد بعہد اپنی پرتیں اتارتی رہے تو یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ میں نے رباعیات، پابند اور آزاد نظمیں اور غزلیں کہی ہیں لیکن وافر سرمایہ غزلوں کا ہے جن کی تعداد پندرہ سو سے زیادہ ہے۔ زیادہ یا کم کہنا میرے خیال میں شاعر کے منصب کا تعین نہیں کر سکتا ہاں سچی اور اچھی شاعری کی تعداد زیادہ ہو تو فن کار کا قد اسی نسبت سے بلند ہوتا جاتا ہے۔ مفہوم در بطنِ شاعر، کی پرانی پھبتی آج بھی اتنی ہی صحیح ہے جتنی قدیم زمانے میں تھی۔ شعر کو پہلو دار بنانے کے لیے میں ابہام کو ایک وسیلے کے طور پر استعمال کرتا ہوں کہ اس طرح اس میں ایک مختلف ادوار تک زندہ رہنے کی قوت پیدا ہوتی ہے لیکن اہمال شعر کو اسقاطِ حمل کے مترادف بنا دیتا ہے۔ میں تخلیقِ شعر کے دوران صرف اپنے تئیں پُر خلوص ہوتا ہوں۔ چوں کہ سماج کا فرد ہوں اس لیے میرا یہ خلوص اگر اظہار پانے میں کامیاب ہو جائے تو معاشرے کے لیے مُضر ہو ہی نہیں سکتا۔ پھول اپنے وجود کے اظہار کے لیے کھلتا ہے لیکن خوشبو کو صرف اپنے دامن میں سمیٹ کر نہیں رکھ سکتا۔ زیادہ میک اپ کی ضرورت بدصورتوں کو ہوتی ہے۔ میں شعر کو غیر ضروری آراستگی اور تصنّع سے حتی الامکان پاک رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ گہرا اور پیچیدہ خیال اگر شعر میں سہلِ ممتنع کی صورت اختیار کر سکے تو میرے تئیں یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ تجربات کی بات الگ ہے اور اس کا حق مبتدیوں کو ہرگز نہیں پہنچتا لیکن فنّی پابندیوں میں رہ کر شعر میں نئی نئی باتیں کہنا اور نئے اسلوب میں کہنا میرے نزدیک فن کی معراج ہے۔از مظفر حنفی
 

امان زرگر

محفلین
اقبال کا نظریہ فن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے نفس افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتی و ہ ہنر کیا
نظریہ فن کے بارے میں اقبال اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اوّل یہ کہ آرٹ کی غرض محض حسن کا احساس پیدا کرناہے اور دوم یہ کہ آرٹ سے انسانی زندگی کوفائدہ پہنچنا چاہیے۔ اقبال کا ذاتی خیال ہے کہ ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لئے فائدہ مند ہے وہ اچھا اور جائز ہے۔ اور جو زندگی کے خلاف ہو وہ ناجائز ہے۔ اور جو انسانوں کی ہمت کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہو قابل ِ نفرت ہے۔ اور اس کی ترویج حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔آرٹ کے مضر اثرات کے متعلق فرمایا ہے کہ بعض قسم کا آرٹ قوموں کو ہمیشہ کے لئے مردہ بنا دیتا ہے۔ چنانچہ ہندو قوم کی تباہی میں ان کے فن ِ موسیقی کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔

گویا اقبال فن کو زندگی کا معاون سمجھتے ہیں اور اس کو افادیت کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اقبال ایسے فن کے شدید مخالف ہیں جس سے قوم پر مردنی چھا جائے اور جو اس کے قوائے عمل کو مضمحل کردے۔ اس لحاظ سے اقبال کے نظریہ فن میں افادیت اور مقصدیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اقبال افادیت کے اس حد تک قائل ہیں کہ ان کے خیال میں مردنی پیدا کرنے والے فن کی حکومت کی طرف سے جبراً روک تھام ہونی چاہیے۔
فن اور زندگی[ترمیم]

اقبال کے نزدیک فن کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی کی نشوونما میں معاونت کرے جس فن میں نہ زندگی کی کار فرمائی نظر آئے اور نہ فن کار کی خودی وہ اقبال کے نزدیک بیکار ہے۔
اقبال سارے فنون لطیفہ کو زندگی اور خودی کے تابع قرار دیتا ہے ۔ زندگی سے اقبال کی مراد قوم کی اجتماعی زندگی ہے اقبال نے اپنی ایک نظم میں قوم کو ایک جسم قرار دیتے ہوئے افرا د کو اس کے مختلف اعضاءسے تشبیہ دی ہے۔ ان اعضاءمیں شاعر کی حیثیت قوم کے دیدہ بینا کی ہے۔ مثلاً
قوم گویا جسم ہے افراد ہے اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
محفل نظم حکومت چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نو ہے دیدہ بینائے قوم
اقبال کہتے ہیں جب تک شاعری میں سوز دروں کی کارفرمائی نہیں ہوگی، قوم سوز آرزو اور سوزِ حیات سے بیگانہ رہے گی۔ اگر قوم لذت آرزو سے محروم رہے گی تو اس کی شیرازہ بندی ممکن نہیں ہوگی مثلاً،
شمع محفل ہوکے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بےگانے رہے
رشتہ الفت میں جب ان کو پروسکتاتھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
فن اور صداقت[ترمیم]


اقبال کے خیال میں آرٹ کی بنیاد سوز و گداز ، صداقت اور انقلاب انگیز قوت پر ہونی چاہیے۔ لیکن اگر حیات ِ اجتماعی کسی خاص زمانے میں کسی خاص انحطاطی اثر کا شکار ہو تو آرٹ کو اس سے متاثر نہ ہو نا چاہیے۔ اقبال کہتے ہیں کہ صداقت نقل اور تقلید سے حاصل نہیں ہو سکتی ۔ شاعر کا کام ہے کہ کائنات اور حیات کے بحر زخار سے خود نئے موتی چنے اور زندگی کے سمندر سے صداقت کا جام پئے۔مثلاً
شاعر دلنواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فےض سے مزرع زندگی ہری
شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں
کرتی ہے اسکی قوم جب اپنا شعار آذری
کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری
ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش
فن اور آزادی[ترمیم]


اقبال کہتے ہیں کہ فن کے حقیقی فروغ کے لئے آزادی بے حد ضروری ہے کیوں کہ عمرانی اور معاشی آزادی کے بغیر فن کی صحیح نشوونما ہو ہی نہیں سکتی۔ جمال کی قدر جس کو اقبال نے اپنے نظریہ فن میں حرکت سے وابستہ کر دیا ہے صرف آزادی ہی کے عالم میں پیدا ہو سکتی ہے ۔ کیوں کہ اقبال کے نزدیک جمال ، جلال کی ابتدائی کیفیت ہے۔ غلامی میں ذوق حسن باقی نہیں رہتا ۔ بصیرت جو حسن و جمال کے مشاہدے کے لئے اس قدر ضروری ہے فنا ہو جاتی ہے۔ اور دوسروں کی اقدارِ حسن کی اندھی تقلید باقی رہتی ہے اور اس اندھی تقلید سے جو آرٹ پیدا ہوتاہے وہ بھی جھوٹا اور بے اصل ہی ہوتا ہے۔ مثلاً
غلامی کے ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بند ے ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو
صیاد ہیں مردان ِ ہنر مند کہ نخچیر
فن اور خودی[ترمیم]


اقبال کے فن کا نظریہ ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے۔ ان کے نزدیک آرٹ اظہار خودی کا ایک وسیلہ ہے ۔ وہ فن جس میں خودی باقی نہیں رہتی ۔ اقبال کے خیال میں عضر چیز ہے۔ خودی دراصل اقبال کے نظام فکر کا مرکزی نقطہ ہے ۔ اس لئے انھوں نے تمام فنون لطیفہ کو خودی کے تابع قرار دیا ہے ۔ اس کے علاوہ فن اجتماعی زندگی کی نشوونما بھی کرتا ہے۔

خودی کا باقاعدہ تصور پیش کرنے سے پہلے اقبال نے شاعر کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونے اور خودی کے ذریعے راز حیات معلوم کرنے کے ذرائع ڈھونڈنے کی تعلیم دی تھی۔ یہ شاعر یا فنکار کے لئے داخلیت یا وطن پرستی کا درس اپنی خودی کو دریافت کرنا اور اسے جگانا ، احتساب کائنات کے لئے شمع روشن کرنا ہے۔ مثلاً،
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقان ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ کس کی جستجو اوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو ، رہرو بھی تو ، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایا ں بھی ہے
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر
وائے صورت گری و شاعری و نائے و سرور
فن اور عشق[ترمیم]


اقبال کے فلسفے میں عشق کو بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔ اقبال کے نزدیک فن کا محرک جذبہ عشق ہے۔ ان کے خیال میں کوئی فن خلوص ، سوز و گداز اور خون جگر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ فنکا ر کی ایک بڑی خصوصیت اس کا خلوص ہے جو عقلی بھی ہو سکتا ہے اور جذباتی بھی۔ اقبال کے ہاں جذباتی رنگ زیادہ غالب ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ وہ تمام معجز ہائے ہنر فانی ہیں جن کی تہہ میں خلوص و جذبہ موجود نہ اوروہ تمام فن پارے ابدی اہمیت کے حامل جن کی نمود خونِ جگر ، خلوص اور سوز دل کی مرہون ِ منت ہو مثلاً
رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
برگ گل رنگیں ز مضمون من است
مصرع من ، قطرہ خونِ من است
فن اور جلا ل و جمال[ترمیم]


اقبال ہر فن پارے میں دلبری کے ساتھ ساتھ قاہر ی کی صفت بھی دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ وہ فن میں جلا ل و جمال کے امتزاج کے قائل ہیں۔ کیونکہ وہ قوت اور جلال ہی میں زندگی کی نمو کا راز پوشیدہ دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خالص قوت جس میں جمال کی آمیزش نہ ہو تباہی و بربادی لیکر آتی ہے۔ اور خالص جما ل جو قوت سے محروم ہو ان کے خیال میں پست درجے کے فن کی تخلیق کرتا ہے۔
اقبا ل کے خیال میں اگر کسی فن پارے میں دلبری و قاہری کا امتزاج نہ ہو تو فن پارہ نا مکمل ہے۔ اور اگر اس میں جلال اور جمال کی صفات جلوہ گر ہوں تو وہ ابدیت سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ دلبری سے قاہری کو جادوگری اور دلبری با قاہری کو پیغمبری قرار دیتے ہیںمثلاً۔
دلبری بے قاہری جادو گریست
دلبری با قاہری پیغمبر یست
مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سر بہ سجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک نہ ہو جلال تو حسن و جما ل بے تاثیر
مرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک
فن صبح کا پیغامبر[ترمیم]


اقبال کے نزدیک فن کا مقصد معاشرتی ترقی ہے۔ وہ فن کے متعلق اپنے نقطہ نظر اور معاشرے سے اس کے تعلق کو شاعری کے ذریعے مثالوں سے واضح کرتے ہیں ان کے نزدیک شاعری دیدہ بینا ئے قوم ہے۔ فن کا صحیح مقصد زندگی ، انسان اور اس کی معاشرت کو تقویت دینا ہے۔ ایک فنکار کو صبح کا پیغامبر ہونا چاہیے اور اگر وہ افسردہ اور یاس انگیز نغموں کے سوا کچھ نہ الاپ سکے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ خاموش رہے مثلاً
افسرد ہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے نفس افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
معاشرے میں جذبات پیدا کرنا[ترمیم]


اقبال کا کہنا ہے کہ شاعر سینہ ملت میں دل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسے اپنی پیغمبرانہ قوتوں سے ملت خوابیدہ کو بیدار کردینا چاہیے۔ اور انہیں بلند سے بلند تر منازل تک لے جانا چاہیے ۔ اقبال مزید کہتے ہیں کہ وہ شاعری یا وہ شعر جو معاشرے میں جذبات کا ایک طوفان پیدا نہ کردے کسی کام کا نہیں مثلاًً
جس سے دل درےا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نہاں وہ صدف کیا وہ گہر کیا؟
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتی وہ ہنر کیا؟
اقبال کہتے ہیں کہ فن زندگی کے حصول کا ایک گراں قدر ذریعہ ہے اور اگر اس میں یہ خصوصیت ہوتو وہ پیغمبر ی سے صرف ایک درجہ کمتر ہے۔ فن کا ر کو لازم ہے کہ وہ کم حوصلہ لوگوں میں مردانگی اور جرات کی روح پھونک دے مثلاً
نوا پیرا ہو ایک بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
حیات ابدی کے حصول کی لگن[ترمیم]


اقبال فرماتے ہیں کہ فن کا کام یہ ہے کہ وہ ایسی شاعری تخلیق کرے کہ جس شاعر ی سے تمام بنی نوع انسان حیات ابدی کی طرف راغب ہو جائے اور ابدی زندگی کے حصول کے لئے کوشش شروع کر دے۔ اقبال فرماتے ہیں وہ شعر جو حیات ابدی کا پیغام لئے ہوئے ہو نغمہ جبریل کی طرح مشیت ایزدی کی تلقین کرتا ہے اور شعر کہنے والے کی آواز حشر کا سامان ہوتی ہے۔ مثلاً
وہ شعر کہ پیغام حیاتِ ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ اسرفیل
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ یک نفس یا دو نفسِ مثلِ شرر کیا
فطرت کی خامیوں کو دور کرنا[ترمیم]


فن کے بارے میں بعض فطرت پرستوں کا نظریہ یہ ہے کہ حقیقی فن یہ ہے کہ فطرت جس طرح نظر آتی ہے فنکار اسے بالکل اسی طرح پیش کرے ۔ گویا فن کا راپنی ظاہر کی آنکھ سے جو کچھ دیکھتا ہے اگر اس کی ہو بہو تصویر کھینچ دے تو یہ بڑا فن ہے ورنہ نہیں۔
اقبال نے نقالی کے اس نظریے کی بھی شدید مخالفت کی ۔اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ فطرت کی نقالی کوئی کمال نہیں اصل کمال تو یہ ہے کہ جو فطرت نہیں کرسکتی اسے انسان کرے۔ انسان فطرت کے مقابلے میں بہتر ، بلند اور باشعور ہے وہ فطرت کا غلام نہیں فطرت اس کی غلام ہے ۔ فن کار کا کام یہ ہے وہ فطرت کی خامیوں کو دور کرکے اسے حسین بنا کر پیش کرے مثلاً
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام ِ رنگ بو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شائد
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
بقول ایم ایم شریف
” اقبال کے نزدیک اس فن کا کوئی مطلب نہیں جس کا تعلق زندگی ، انسان اور معاشرت سے نہ ہو فن کا اوّلین مطلوب خود زندگی ہے ۔ فن کے لئے لازم ہے کہ وہ ذہن انسانی میں ایک ابد ی زندگی کے حصول کی لگن پیدا کردے۔“
 
بہت عمدہ تحریر راحیل بھائی.
ویسے یہ شاعر حضرات سچ میں غمزدہ غمزدہ رہتے ہیں. راتوں کو جاگ کر شعر لکھتے ہیں. اور یہاں تک سنا ہے کہ موسم بہار میں تو کچھ شاعر پاگل ہوجاتے ہیں.
دراصل غم اور مشکلاتِ زندگی انسان کی قوتِ مشاہدہ بڑھا دیتے ہیں. تو اکثر شعراء کی زندگی آپ کو کسی نہ کسی زاویے سے مشکلات میں یا غموں میں گھری نظر آئے گی. مگر ہر غمزدہ یا مشکلات کا شکار انسان شاعر نہیں ہوتا. :)
اسی طرح صرف شاعری کے اصول و ضوابط سیکھ لینے سے بھی انسان اچھا شاعر نہیں بن جاتا. اچھا شاعر بننے کے لیے اچھا مشاہدہ ہونا ضروری ہے.
صرف شاعر ہی نہیں، اگر کسی بھی فنکار کو اپنے فن سے عشق ہو تو تخلیقی عمل کے دوران دن اور رات ایک ہو جاتے ہیں. مثال کے طور پر میرا اپنا تجربہ ہے کہ ایک مسئلہ کا حل رات کروٹیں بدلتے سمجھ آیا تو اسی وقت کمپیوٹر آن کر کے اس کو اپلائی کیا. :)
ویسے شاعری دن میں بھی ہو جاتی ہے. :)
دلچسپ بات یہ ہے آپ کی آخری بات کی تائید میں میرے دادا مرحوم نے کہا ہے
کیا کیا ہوا بہار میں بتلائیے مجھے
موقف مرا جنوں کا رہا ہے بہار میں
:)
 

فرقان احمد

محفلین
زجاج کو حریف سنگ بننے کے مرحلہ ہائے شوق طے کرنے کی کیفیا ت کا ایسا ۔ ایکسپلسٹ :) ۔بیان پڑھ کر ان کیفیات کااعادہ ہوا جو آزاد کی نیرنگ خیال کا لطف لیتے ہوئے وارد ہوا کرتی تھیں ۔
یہ جملہ تین چار بار پڑھنے کے بعد سمجھ آیا۔
ہمیں تین چار بار پڑھنے کے بعد بھی سمجھ نہیں آیا علامہ صاحب! :)
 

محمد وارث

لائبریرین
حضرت ”بہار“ ابھی ختم نہیں ہوا ہے!:D
ذرا وضاحت فرمادیجیے۔
اللہ لوک ایک پنجابی ٹرم ہے خان صاحب، بس مجھے کچھ ایسا ہی لگتا ہے،سچے فن کاروں میں کوئی نہ کوئی اچھی خاصیت ایسی ضرور ہوتی ہے کہ وہ الگ سے ہوتے ہیں، وہ کسی بھی فیلڈ کے ہوں۔ صاف پہچانے جاتے ہیں :)
 

سین خے

محفلین
مضمون پڑھ تھوڑی دیر کے لیے خود کو بہت غمزدہ کیا لیکن افسوس ایک شعر بھی نہیں بن پایا.
ویسے یہ شاعر حضرات سچ میں غمزدہ غمزدہ رہتے ہیں. راتوں کو جاگ کر شعر لکھتے ہیں. اور یہاں تک سنا ہے کہ موسم بہار میں تو کچھ شاعر پاگل ہوجاتے ہیں.

سچییییییی!!!!!! ابھی موسمِ بہار رخصت تو نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔ اے کاش! ہمیں بھی کوئی خوشخبری نصیب ہو! :daydreaming:
 

اے خان

محفلین
اسی طرح صرف شاعری کے اصول و ضوابط سیکھ لینے سے بھی انسان اچھا شاعر نہیں بن جاتا. اچھا شاعر بننے کے لیے اچھا مشاہدہ ہونا ضروری ہے.
تابش بھائی شاعر پہلے شاعری کے اصول و ضوابط سیکھتا ہے یا شعر کہہ کر آہستہ آہستہ اصول و ضوابط سیکھتا ہے.
 
مضمون پڑھ کے ان عاشقوں سے ہمدردی ہو رہی ہے جو محبوبہ کی یاد آنے پر کاغذ قلم تو تھام لیں، لیکن ان کو عروض اور بحور نہ آتے ہوں۔ :)
فن صرف یہی تو نہیں، لاریب بی بی۔ شاعری کو تو ہم نے محض ایک مثال کے طور پر پیش کیا ہے کہ اس کے ماحول سے ہم آشنا ہیں۔ ورنہ سچے عاشق کا تو خاص خاص حالات میں ہر کام ہی عشق میں ایک فن کا درجہ رکھتا ہے۔ :):):)
بہت خوب!
جی اسی ضمن میں قبلہ واصف صاحب کا ایک پُر لطف جملہ یاد آیا، فرمایا۔۔۔۔" شاعر صرف جاگتا ہے، باقی کام رات خود کرتی ہے"
کیا کہنے!
زجاج کو حریف سنگ بننے کے مرحلہ ہائے شوق طے کرنے کی کیفیا ت کا ایسا ۔ ایکسپلسٹ :) ۔بیان پڑھ کر ان کیفیات کااعادہ ہوا جو آزاد کی نیرنگ خیال کا لطف لیتے ہوئے وارد ہوا کرتی تھیں ۔
:in-love::in-love::in-love:
پس ثابت ہوا کہ صرف غمزدہ غمزدہ رہنے، راتوں کو جاگنے اور موسمِ بہار میں پاگل ہو جانے سے کوئی شاعر نہیں بن جاتا :)
:eek::eek::eek:
حضور، اس دفاع میں بھی کم ذلت نہیں محسوس ہو رہی۔ رحم فرمائیے! :laughing::laughing::laughing:
اقبال کا نظریہ فن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے نفس افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتی و ہ ہنر کیا
نظریہ فن کے بارے میں اقبال اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اوّل یہ کہ آرٹ کی غرض محض حسن کا احساس پیدا کرناہے اور دوم یہ کہ آرٹ سے انسانی زندگی کوفائدہ پہنچنا چاہیے۔ اقبال کا ذاتی خیال ہے کہ ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لئے فائدہ مند ہے وہ اچھا اور جائز ہے۔ اور جو زندگی کے خلاف ہو وہ ناجائز ہے۔ اور جو انسانوں کی ہمت کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہو قابل ِ نفرت ہے۔ اور اس کی ترویج حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔آرٹ کے مضر اثرات کے متعلق فرمایا ہے کہ بعض قسم کا آرٹ قوموں کو ہمیشہ کے لئے مردہ بنا دیتا ہے۔ چنانچہ ہندو قوم کی تباہی میں ان کے فن ِ موسیقی کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔

گویا اقبال فن کو زندگی کا معاون سمجھتے ہیں اور اس کو افادیت کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ اقبال ایسے فن کے شدید مخالف ہیں جس سے قوم پر مردنی چھا جائے اور جو اس کے قوائے عمل کو مضمحل کردے۔ اس لحاظ سے اقبال کے نظریہ فن میں افادیت اور مقصدیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اقبال افادیت کے اس حد تک قائل ہیں کہ ان کے خیال میں مردنی پیدا کرنے والے فن کی حکومت کی طرف سے جبراً روک تھام ہونی چاہیے۔
فن اور زندگی[ترمیم]

اقبال کے نزدیک فن کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی کی نشوونما میں معاونت کرے جس فن میں نہ زندگی کی کار فرمائی نظر آئے اور نہ فن کار کی خودی وہ اقبال کے نزدیک بیکار ہے۔
اقبال سارے فنون لطیفہ کو زندگی اور خودی کے تابع قرار دیتا ہے ۔ زندگی سے اقبال کی مراد قوم کی اجتماعی زندگی ہے اقبال نے اپنی ایک نظم میں قوم کو ایک جسم قرار دیتے ہوئے افرا د کو اس کے مختلف اعضاءسے تشبیہ دی ہے۔ ان اعضاءمیں شاعر کی حیثیت قوم کے دیدہ بینا کی ہے۔ مثلاً
قوم گویا جسم ہے افراد ہے اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
محفل نظم حکومت چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نو ہے دیدہ بینائے قوم
اقبال کہتے ہیں جب تک شاعری میں سوز دروں کی کارفرمائی نہیں ہوگی، قوم سوز آرزو اور سوزِ حیات سے بیگانہ رہے گی۔ اگر قوم لذت آرزو سے محروم رہے گی تو اس کی شیرازہ بندی ممکن نہیں ہوگی مثلاً،
شمع محفل ہوکے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بےگانے رہے
رشتہ الفت میں جب ان کو پروسکتاتھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
فن اور صداقت[ترمیم]


اقبال کے خیال میں آرٹ کی بنیاد سوز و گداز ، صداقت اور انقلاب انگیز قوت پر ہونی چاہیے۔ لیکن اگر حیات ِ اجتماعی کسی خاص زمانے میں کسی خاص انحطاطی اثر کا شکار ہو تو آرٹ کو اس سے متاثر نہ ہو نا چاہیے۔ اقبال کہتے ہیں کہ صداقت نقل اور تقلید سے حاصل نہیں ہو سکتی ۔ شاعر کا کام ہے کہ کائنات اور حیات کے بحر زخار سے خود نئے موتی چنے اور زندگی کے سمندر سے صداقت کا جام پئے۔مثلاً
شاعر دلنواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فےض سے مزرع زندگی ہری
شان خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں
کرتی ہے اسکی قوم جب اپنا شعار آذری
کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری
ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش
فن اور آزادی[ترمیم]


اقبال کہتے ہیں کہ فن کے حقیقی فروغ کے لئے آزادی بے حد ضروری ہے کیوں کہ عمرانی اور معاشی آزادی کے بغیر فن کی صحیح نشوونما ہو ہی نہیں سکتی۔ جمال کی قدر جس کو اقبال نے اپنے نظریہ فن میں حرکت سے وابستہ کر دیا ہے صرف آزادی ہی کے عالم میں پیدا ہو سکتی ہے ۔ کیوں کہ اقبال کے نزدیک جمال ، جلال کی ابتدائی کیفیت ہے۔ غلامی میں ذوق حسن باقی نہیں رہتا ۔ بصیرت جو حسن و جمال کے مشاہدے کے لئے اس قدر ضروری ہے فنا ہو جاتی ہے۔ اور دوسروں کی اقدارِ حسن کی اندھی تقلید باقی رہتی ہے اور اس اندھی تقلید سے جو آرٹ پیدا ہوتاہے وہ بھی جھوٹا اور بے اصل ہی ہوتا ہے۔ مثلاً
غلامی کے ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بند ے ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو
صیاد ہیں مردان ِ ہنر مند کہ نخچیر
فن اور خودی[ترمیم]


اقبال کے فن کا نظریہ ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے۔ ان کے نزدیک آرٹ اظہار خودی کا ایک وسیلہ ہے ۔ وہ فن جس میں خودی باقی نہیں رہتی ۔ اقبال کے خیال میں عضر چیز ہے۔ خودی دراصل اقبال کے نظام فکر کا مرکزی نقطہ ہے ۔ اس لئے انھوں نے تمام فنون لطیفہ کو خودی کے تابع قرار دیا ہے ۔ اس کے علاوہ فن اجتماعی زندگی کی نشوونما بھی کرتا ہے۔

خودی کا باقاعدہ تصور پیش کرنے سے پہلے اقبال نے شاعر کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونے اور خودی کے ذریعے راز حیات معلوم کرنے کے ذرائع ڈھونڈنے کی تعلیم دی تھی۔ یہ شاعر یا فنکار کے لئے داخلیت یا وطن پرستی کا درس اپنی خودی کو دریافت کرنا اور اسے جگانا ، احتساب کائنات کے لئے شمع روشن کرنا ہے۔ مثلاً،
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقان ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ کس کی جستجو اوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو ، رہرو بھی تو ، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثال بحر بے پایا ں بھی ہے
گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر
وائے صورت گری و شاعری و نائے و سرور
فن اور عشق[ترمیم]


اقبال کے فلسفے میں عشق کو بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔ اقبال کے نزدیک فن کا محرک جذبہ عشق ہے۔ ان کے خیال میں کوئی فن خلوص ، سوز و گداز اور خون جگر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ فنکا ر کی ایک بڑی خصوصیت اس کا خلوص ہے جو عقلی بھی ہو سکتا ہے اور جذباتی بھی۔ اقبال کے ہاں جذباتی رنگ زیادہ غالب ہے۔ اقبال بتاتے ہیں کہ وہ تمام معجز ہائے ہنر فانی ہیں جن کی تہہ میں خلوص و جذبہ موجود نہ اوروہ تمام فن پارے ابدی اہمیت کے حامل جن کی نمود خونِ جگر ، خلوص اور سوز دل کی مرہون ِ منت ہو مثلاً
رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
برگ گل رنگیں ز مضمون من است
مصرع من ، قطرہ خونِ من است
فن اور جلا ل و جمال[ترمیم]


اقبال ہر فن پارے میں دلبری کے ساتھ ساتھ قاہر ی کی صفت بھی دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ وہ فن میں جلا ل و جمال کے امتزاج کے قائل ہیں۔ کیونکہ وہ قوت اور جلال ہی میں زندگی کی نمو کا راز پوشیدہ دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خالص قوت جس میں جمال کی آمیزش نہ ہو تباہی و بربادی لیکر آتی ہے۔ اور خالص جما ل جو قوت سے محروم ہو ان کے خیال میں پست درجے کے فن کی تخلیق کرتا ہے۔
اقبا ل کے خیال میں اگر کسی فن پارے میں دلبری و قاہری کا امتزاج نہ ہو تو فن پارہ نا مکمل ہے۔ اور اگر اس میں جلال اور جمال کی صفات جلوہ گر ہوں تو وہ ابدیت سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ دلبری سے قاہری کو جادوگری اور دلبری با قاہری کو پیغمبری قرار دیتے ہیںمثلاً۔
دلبری بے قاہری جادو گریست
دلبری با قاہری پیغمبر یست
مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سر بہ سجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک نہ ہو جلال تو حسن و جما ل بے تاثیر
مرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتشناک
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک
فن صبح کا پیغامبر[ترمیم]


اقبال کے نزدیک فن کا مقصد معاشرتی ترقی ہے۔ وہ فن کے متعلق اپنے نقطہ نظر اور معاشرے سے اس کے تعلق کو شاعری کے ذریعے مثالوں سے واضح کرتے ہیں ان کے نزدیک شاعری دیدہ بینا ئے قوم ہے۔ فن کا صحیح مقصد زندگی ، انسان اور اس کی معاشرت کو تقویت دینا ہے۔ ایک فنکار کو صبح کا پیغامبر ہونا چاہیے اور اگر وہ افسردہ اور یاس انگیز نغموں کے سوا کچھ نہ الاپ سکے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ خاموش رہے مثلاً
افسرد ہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے نفس افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
معاشرے میں جذبات پیدا کرنا[ترمیم]


اقبال کا کہنا ہے کہ شاعر سینہ ملت میں دل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسے اپنی پیغمبرانہ قوتوں سے ملت خوابیدہ کو بیدار کردینا چاہیے۔ اور انہیں بلند سے بلند تر منازل تک لے جانا چاہیے ۔ اقبال مزید کہتے ہیں کہ وہ شاعری یا وہ شعر جو معاشرے میں جذبات کا ایک طوفان پیدا نہ کردے کسی کام کا نہیں مثلاًً
جس سے دل درےا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نہاں وہ صدف کیا وہ گہر کیا؟
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتی وہ ہنر کیا؟
اقبال کہتے ہیں کہ فن زندگی کے حصول کا ایک گراں قدر ذریعہ ہے اور اگر اس میں یہ خصوصیت ہوتو وہ پیغمبر ی سے صرف ایک درجہ کمتر ہے۔ فن کا ر کو لازم ہے کہ وہ کم حوصلہ لوگوں میں مردانگی اور جرات کی روح پھونک دے مثلاً
نوا پیرا ہو ایک بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
حیات ابدی کے حصول کی لگن[ترمیم]


اقبال فرماتے ہیں کہ فن کا کام یہ ہے کہ وہ ایسی شاعری تخلیق کرے کہ جس شاعر ی سے تمام بنی نوع انسان حیات ابدی کی طرف راغب ہو جائے اور ابدی زندگی کے حصول کے لئے کوشش شروع کر دے۔ اقبال فرماتے ہیں وہ شعر جو حیات ابدی کا پیغام لئے ہوئے ہو نغمہ جبریل کی طرح مشیت ایزدی کی تلقین کرتا ہے اور شعر کہنے والے کی آواز حشر کا سامان ہوتی ہے۔ مثلاً
وہ شعر کہ پیغام حیاتِ ابدی ہے
یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ اسرفیل
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ یک نفس یا دو نفسِ مثلِ شرر کیا
فطرت کی خامیوں کو دور کرنا[ترمیم]


فن کے بارے میں بعض فطرت پرستوں کا نظریہ یہ ہے کہ حقیقی فن یہ ہے کہ فطرت جس طرح نظر آتی ہے فنکار اسے بالکل اسی طرح پیش کرے ۔ گویا فن کا راپنی ظاہر کی آنکھ سے جو کچھ دیکھتا ہے اگر اس کی ہو بہو تصویر کھینچ دے تو یہ بڑا فن ہے ورنہ نہیں۔
اقبال نے نقالی کے اس نظریے کی بھی شدید مخالفت کی ۔اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ فطرت کی نقالی کوئی کمال نہیں اصل کمال تو یہ ہے کہ جو فطرت نہیں کرسکتی اسے انسان کرے۔ انسان فطرت کے مقابلے میں بہتر ، بلند اور باشعور ہے وہ فطرت کا غلام نہیں فطرت اس کی غلام ہے ۔ فن کار کا کام یہ ہے وہ فطرت کی خامیوں کو دور کرکے اسے حسین بنا کر پیش کرے مثلاً
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام ِ رنگ بو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شائد
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
بقول ایم ایم شریف
” اقبال کے نزدیک اس فن کا کوئی مطلب نہیں جس کا تعلق زندگی ، انسان اور معاشرت سے نہ ہو فن کا اوّلین مطلوب خود زندگی ہے ۔ فن کے لئے لازم ہے کہ وہ ذہن انسانی میں ایک ابد ی زندگی کے حصول کی لگن پیدا کردے۔“
اتنی محنت کرتے تو اب تک پی ایچ ڈی ہوتے، امان اللہ بھائی۔
خیر، بہت شکریہ۔ اقبالیات کے پرچے کے لیے یہ مضمون نعمتِ غیرمترقبہ ثابت ہوا ہے! :):):)
بہت عمدہ تحریر راحیل بھائی.

دراصل غم اور مشکلاتِ زندگی انسان کی قوتِ مشاہدہ بڑھا دیتے ہیں. تو اکثر شعراء کی زندگی آپ کو کسی نہ کسی زاویے سے مشکلات میں یا غموں میں گھری نظر آئے گی. مگر ہر غمزدہ یا مشکلات کا شکار انسان شاعر نہیں ہوتا. :)
اسی طرح صرف شاعری کے اصول و ضوابط سیکھ لینے سے بھی انسان اچھا شاعر نہیں بن جاتا. اچھا شاعر بننے کے لیے اچھا مشاہدہ ہونا ضروری ہے.
صرف شاعر ہی نہیں، اگر کسی بھی فنکار کو اپنے فن سے عشق ہو تو تخلیقی عمل کے دوران دن اور رات ایک ہو جاتے ہیں. مثال کے طور پر میرا اپنا تجربہ ہے کہ ایک مسئلہ کا حل رات کروٹیں بدلتے سمجھ آیا تو اسی وقت کمپیوٹر آن کر کے اس کو اپلائی کیا. :)
ویسے شاعری دن میں بھی ہو جاتی ہے. :)
دلچسپ بات یہ ہے آپ کی آخری بات کی تائید میں میرے دادا مرحوم نے کہا ہے
کیا کیا ہوا بہار میں بتلائیے مجھے
موقف مرا جنوں کا رہا ہے بہار میں
:)
شکریہ، تابش بھائی۔
فن سے عشق والی بات خوب کہی آپ نے۔ اصل میں یہی فرق ہے عملِ تخلیق کے اکثر نظریات اور زیرِ بحث خیال میں۔ مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی کام سے ایک وجدانی اور روحانی قسم کے عشق کو بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس اس زاویۂِ نگاہ سے رجوع کیے بغیر چارہ نہیں۔
بزرگوار کے شعر کی داد اب ہم کیا دیں؟ :redheart::redheart::redheart:
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
:eek::eek::eek:
حضور، اس دفاع میں بھی کم ذلت نہیں محسوس ہو رہی۔ رحم فرمائیے! :laughing::laughing::laughing:
قبلہ آپ ناحق ہی ذلت محسوس کر گئے حالانکہ اس جملے کا خطاب آپ جیسے غضب کے شاعر کی طرف نہیں تھا بلکہ نو عمر نوجوان نوبہار ،خان صاحب کی طرف اور اُن کی موجودہ قلبی وارداتوں اورکیفیات اور لگن اور شعلہ جوالہ کے تناظر میں تھا۔ سیلیِ اُستاد و پدر یا بزرگ بظاہر ذلت آمیز لگتی ہے مگر مہمیز کا کام خوب کرتی ہے :p
 
Top