باباجی
محفلین
عین اسی لمحے کوئی بہت زور سے ہنس رہا تھا، شاید وہ فرشتہ جِسے معلوم تھا کہ ایک دِن میں اپنے چہرے پر لعنت برسنے کی دُعائیں گڑگڑا گڑگڑا کر مانگوں گی۔
کہیں اندر کچھ دہل کر رہ گیا
عین اسی لمحے کوئی بہت زور سے ہنس رہا تھا، شاید وہ فرشتہ جِسے معلوم تھا کہ ایک دِن میں اپنے چہرے پر لعنت برسنے کی دُعائیں گڑگڑا گڑگڑا کر مانگوں گی۔
ہم جب بھی کوئی دعوہ کر رہے ہوں یا منصوبہ بنا رہے ہوں ۔۔۔۔۔۔ یا خود پہ فخر کر رہے ہوں۔۔۔۔۔
کہیں اندر کچھ دہل کر رہ گیا
اُسے محبت کا مطلب معلوم نہیں تھا کہ محبت تو محبوب کو اُونچی مسند پر بِٹھا کر خود داس بننے کا نام ہے، محبت میں کسی کو مفتوح بنایا نہیں جاتا بلکہ اپنا آپ ہار دِیا جاتا ہے۔۔۔۔۔
بہت مہربانی جناببہت خوب۔ جاری رکھیں۔
سراپا سپاس گزار ہوں بھیابہت خوب
یہ بھی حقیقت ہے وہ کیا کہتے ہیں عقل نہ ہوئے تے موجاں ہی موجاں عقل ہوئے تے سوچاں ہی سوچاںدنیا کے عذابوں میں آگہی سب سے بڑا عذاب ہے- آگہی ایک ایسا سانپ ہے جو اپنے مالک کے گَلے میں مثلِ طوق ہے جو دوسروں کی نظر میں اسے بارعب بناتا ہے
بجا فرمایا بجّو!!واہہہہ مریم بہت خوب لکھا ہے سچ کہوں تو حقیقت اور خوب کی کشمکش میں ڈوبی ہوئی تحریر واقعی ہی لاجواب ہوتی ہے
یہ بھی حقیقت ہے وہ کیا کہتے ہیں عقل نہ ہوئے تے موجاں ہی موجاں عقل ہوئے تے سوچاں ہی سوچاں
میرے خیال میں وہ دنیا کا بہادر انسان ہے جو آگہی کے عذابوں کو برداشت کر کے جی رہا ہے
امید ہے کہ چار اقساط ہوںمکمل تحریر کتنی اقساط پہ مشتمل ہے؟
بہت سی دعاؤں بھری دادہمیشہ دو انتہاؤں پہ اور دل و دماغ کی کیفیات متضاد سمتوں میں محوِ پرواز رہیں۔ دماغ جس وقت برہنہ مناظر کی عکس بندی میں مصروف ہوتا، دِل اس وقت سجدے میں پڑا ہوتا۔ اگر کبھی دِل مچل اُٹھتا تو پلکوں کی چلمن گِر جاتی اور دِل کے رنگ میں بھنگ ڈالے دیتی
آگے بڑھنے کے لیے مجھے طرزِ تحریر پر تنقید کی ضرورت ہے۔۔۔۔آپ نے کہا کہ آپ کسی نظم یا غزل سے متاثر ہو کر لکھ رہی ہیں تو آپ کے پاس بنیادی خیال اور کردار تو پہلے سے ہی موجود تھے اس کے باوجود پہلا حصہ بہت منتشر تھا ۔
دوسری قسط بہتر ہے اور مربوط بھی
اچھی کاوش ہے ۔
بہت مہربانی انکل!بہت گہرے مطالعے سے ابھرتا مشاہدہ
لفظوں کی بنت کہیں فسانہ لگے کہیں حقیقت
بہت مہارت سے کہانی کو ترتیب دیا ہے ۔
شاید ہی کوئی بچ پایا ہو ان کیفیات سے ۔
کیا ان کیفیات کو " سائیکی " کہا جا سکے گا ۔ ؟
بہت سی دعاؤں بھری داد
منتظر مزید
بہت دعائیں
آگے بڑھنے کے لیے مجھے طرزِ تحریر پر تنقید کی ضرورت ہے۔۔۔۔
مجھے خوشی محسوس ہو گی اگر آپ صرف تبصرے کی بجائے اُن نکتوں پر بات بھی کِیا کریں ، جہاں آپکو کمی محسوس ہوئی۔
اور مُجھے کہانی پہلے سے معلوم ہے۔۔ مگر جیسے ہی لکھنے کے لئے قلم اُٹھایا۔۔۔۔ ایک غزل یونہی نظروں سے گُزری جو کم از کم میرے فہم کے مطابق کہانی سے مطابقت رکھتی تھی۔۔۔۔۔ اسلئے اچانک ہی اس طرز سے اسے لے کے چلنا شروع کِیا۔۔۔۔ درحقیقت کہانی اس غزل پہ بیس نہیں کرتی۔۔۔!
کوئی ان کی مدد کردے کہ موبائل کے ذریعے کیسے پرانی قسط کا ربط ڈالا جائے نئی قسط میں