تبصرے - نظم اللہ میاں تھلے آ از سائیں اختر حسین

ویکھ شیعے تے وہابی لَڑ پئے
سنّی ڈانگاں لے کے چڑھ پئے
اِک دوجے نوں قتل کریندے
آکھن ساڈا اِک خدا
اللہ میاں تھلّے آ

بہت خوب، شکریہ جناب
گرچہ آدھی سے زیادہ میری سمجھ میں نہیں آئی. لیکن بہت اچھی نظم ہے.
اس کو پڑھ کے پنجابی سیکھنے کا شوق چڑھ گیا ہے. پنجابی دان حضرات کوئی سبیل کیجیے.
 

آفت

محفلین
بہت مشکل پنجابی ہے یہ تو
اسے اردو میں ترجمہ کر دیں تا کہ میرے جیسے لوگوں کی سمجھ میں آ جائے
 

تیشہ

محفلین
گروپ ہتھوڑے مار کے چوٹاں
سِریاں پھیہندے وانگ اخروٹاں
فیر وی درجناں ہون رپوٹاں
ناکے توڑ کے ہون ہوا
اللہ میاں تھَلّے آ

دیس دے ویہڑے ہو گئے سَوڑے
جابر پھِر دے ہو ہو چَوڑے
پنڈت ملّاں بولن کَوڑے
توں کیوں ہو گئیوں بے پرواہ
اللہ میاں تھَلّے آ

دو دو ہتھیں مایا ہُونجی
کھا گئے پاک کتاب دی پونجی
تاج کمپنی ہوئی نہ لُونجی
تینوں وی لا گئے نی دا
اللہ میاں تھَلّے آ

ہَر وَستی وِچ بمب دھماکے
اُڈیا گوشت تے مر گئے کاکے
دَس دَس مَن دے لگ گئی دھاکے
بمباں دتّا ماس اڑا
اللہ میاں تھَلّے آ

ویکھ کیہ پُتراں ظلم کمایا
ماں ملت نوں آپ ہرایا
کھا گئے نیں جنت دا سایہ
چِٹے جھاٹے پائی سوا
اللہ میاں تھَلّے آ

اَرباں ہتَھ کرن مزدوری
چَند کھاندے نیں گھیو دی چُوری
رزق حلال نہ پیندی پُوری
اوکھے ہو گئے لینے ساہ
اللہ میاں تھَلّے آ

ڈاکو، چوراں وچ یکجہتی
رَل کے چوری کرن ڈکیتی
رقماں دسن گھر دے بھیتی
جان محافظ اَکھ چُرا
اللہ میاں تھَلّے آ

ہو گئے سبھ ناکام ہٹاچی
وعظاں کر کر تھک گئے باچی
بند نہ ہویا لہو کراچی
امناں دے جھنڈے لہرا
اللہ میاں تھَلّے آ

کیہ پڑھدا میں سبز کتاباں
فرقہ بندی وچ نصاباں
اَقلیتاں نیں وچ عذاباں
ملّاں، فادر دین ہوا
اللہ میاں تھَلّے آ

جو کوئی گل لوکائی دی کردا
فاقے دکھ ہٹائی دی کردا
جابر نال ڈٹائی دی کردا
اوہنوں دینے دار چڑھا
اللہ میاں تھَلّے آ

کتھوں آون ایہہ دہشت گردے
کیہڑا مالک کِس دے بردے
مارن لوکاں آپ نے مَر دے
ناکے توڑ کے ہون ہوا
اللہ میاں تھَلّے آ

نشے جوانی نشیوں ہَر گئے
مانواں زندہ پُتّر مر گئے
بھیناں دے گھر سنجے کر گئے
جیباں دے وچ پُڑیاں پا
اللہ میاں تھَلّے آ

ماڑے گھر دی عزت لُٹی
پرچہ درج نہ ہو گئی چھُٹی
اُتوں پلس نے لائی جھُٹی
“حبس بے جا“ بن گیا لا
اللہ میاں تھَلّے آ

مہنگائی نے دتّا جھُونا
چَٹنی ہو گئی دال سلُونا
چلدا کوئی جادو ٹُونا
مَن سلوے نُوں فیر ورہا
اللہ میاں تھَلّے آ

لا قانون دی بالا دستی
بالا دَستاں لئی اے سستی
بِن پیسے دے مِٹ جائے ہستی
ماڑے نُوں نہ مِلن گواہ
اللہ میاں تھَلّے آ

بُش بَنیا فرعون خُدایا
خلق دی نَپّی دھون خدایا
کھائے انسانی لَون خدایا
آ کے ساڈی دھون چھڈا
اللہ میاں تھَلّے آ

(جاری ہے)

اچھی اے ، تسی ُ آپ لکھی اے ؟
 

ساجد

محفلین
ویکھ شیعے تے وہابی لَڑ پئے
سنّی ڈانگاں لے کے چڑھ پئے
اِک دوجے نوں قتل کریندے
آکھن ساڈا اِک خدا
اللہ میاں تھلّے آ

بہت خوب، شکریہ جناب
گرچہ آدھی سے زیادہ میری سمجھ میں نہیں آئی. لیکن بہت اچھی نظم ہے.
اس کو پڑھ کے پنجابی سیکھنے کا شوق چڑھ گیا ہے. پنجابی دان حضرات کوئی سبیل کیجیے.
فاتح بھائی سے رابطہ کیجئیے۔ ماشاءاللہ ، ہر فن مولا ہیں۔
 

شاکر

محفلین
اللہ میاں کے ساتھ اس انداز اور لہجہ میں تخاطب ، چاہے وہ کسی بھی طرز پر، کسی بھی مطلب کو ذہن میں‌رکھ کر کیا گیا ہو، مجازی معانی مراد ہوں‌یا حقیقی، داد تحسین کی بجائے مذمّت کا حقدار ہے۔
 

ساجد

محفلین
اللہ میاں کے ساتھ اس انداز اور لہجہ میں تخاطب ، چاہے وہ کسی بھی طرز پر، کسی بھی مطلب کو ذہن میں‌رکھ کر کیا گیا ہو، مجازی معانی مراد ہوں‌یا حقیقی، داد تحسین کی بجائے مذمّت کا حقدار ہے۔
بھائی جان ، اللہ کے ساتھ "میاں" لکھنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
علامہ اقبال کے "شکوہ" کے بارے میں بھی ایسا ہی کچھ اُس وقت کہا گیا تھا۔ آگے بڑھئیے اور جمود توڑئیے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں جو شرک کی طرف لے جاتی ہو۔
 

شاکر

محفلین
بھائی جان ، اللہ کے ساتھ "میاں" لکھنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
علامہ اقبال کے "شکوہ" کے بارے میں بھی ایسا ہی کچھ اُس وقت کہا گیا تھا۔ آگے بڑھئیے اور جمود توڑئیے کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں جو شرک کی طرف لے جاتی ہو۔

اصل میں‌اب سنجیدگی سے اس موضوع پر کوئی بات تفصیل سے لکھ ڈالی تو پوسٹ‌حذف ہونے کا خطرہ رہے گا بلکہ قفل کی بھی توقع ہے۔ میرا مقصد ہر گز کوئی مذہبی بحث‌نہیں۔ بلکہ صرف اتنا ہے کہ جو خطاب کا طریقہ اللہ کے ساتھ روا رکھا گیا ہے اس نظم میں۔ وہ میں‌اپنے والد یا والدہ کے ساتھ بھی اختیار نہیں‌کر سکتا کہ ادب مانع ہوتا ہے۔ تو اللہ کے ساتھ یہ طنزیہ انداز تو یقیناٰ بہتر نہیں۔ نیز میں‌خود بھی جمود کا نظریاتی یا عملی حامی نہیں، لیکن سوئے ادب کو جدت گرداننا بھی درست معلوم نہیں‌ہوتا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اصل میں‌اب سنجیدگی سے اس موضوع پر کوئی بات تفصیل سے لکھ ڈالی تو پوسٹ‌حذف ہونے کا خطرہ رہے گا بلکہ قفل کی بھی توقع ہے۔ میرا مقصد ہر گز کوئی مذہبی بحث‌نہیں۔ بلکہ صرف اتنا ہے کہ جو خطاب کا طریقہ اللہ کے ساتھ روا رکھا گیا ہے اس نظم میں۔ وہ میں‌اپنے والد یا والدہ کے ساتھ بھی اختیار نہیں‌کر سکتا کہ ادب مانع ہوتا ہے۔ تو اللہ کے ساتھ یہ طنزیہ انداز تو یقیناٰ بہتر نہیں۔ نیز میں‌خود بھی جمود کا نظریاتی یا عملی حامی نہیں، لیکن سوئے ادب کو جدت گرداننا بھی درست معلوم نہیں‌ہوتا۔

میرا ایک چھوٹا سا مشورہ ہے کہ اپنا مطالعہ وسیع کریں۔ انشااللہ بہت افاقہ ہوگا۔ :)
 

شاہ حسین

محفلین
اے خدا شکوہ ارباب وفا بھی سنُ لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سنُ لے ۔

نظم شکوہ کے مطلع کی دوسرے مصرے میں علامہ فرماتے ہیں خو گر (عادی) حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سنُ ۔ حالانکہ عادت کا ہونا نفس کے زیر اثر نعوذ باللہ ذات خدا ان چیزوں سے پاک ہے ۔
اور اس مقابلے کا ایک جملہ بھی اس نظم میں شامل نہیں ۔

پہلے چار مصروں میں شاعر نے خرابی زمانہ کی شکایت کی اور پھر اللہ پاک سے مدد طلب کی در اصل اللہ میاں تھلے آ ، آپ کو کھٹک رہا ہے شاید میرے خیال سے پنجابی ادب سے ناواقفیت اس کا سبب ہو ۔
 

شاکر

محفلین
مجھے بچپن ہی سے مطالعہ کا شوق رہا ہے الحمدللہ۔ اب بھی اس عدیم الفرصتی کے زمانہ میں‌رات چند صفحات کسی نہ کسی کتاب کے نہ پڑھ لوں تو نیند نہیں آتی۔ میں نے "تلاش" بھی آپ کےکہنے پر مطالعہ کیلئے کھولی ہے۔ دوسرے ہی صفحہ پر ممتاز مفتی صاحب نے مرنے سے پہلے ڈھول اور شہنایوں والوں کی درخواست کی ہے۔ میرے علم میں‌واقعی اضافہ ہوا ہے اس وصیت پر۔
دراصل بحث کا فائدہ اس لئے نہیں کہ ادب کا معیار اب وکھرا ہو گیا ہے۔ دینی بات قرآن و حدیث‌سے ثابت کی جائے تو ملا ازم کی پھبتی لگتے بھی دیر نہیں‌لگتی۔ اور عقل کی بنیاد پر کی جائے تو ہر شخص کا معیار عقل الگ۔ اس لئے بھائی عرض ہے کہ ایسے ادیبانہ اشعار اپنے والد صاحب کیلئے بھی کچھ عرض فرمائیں۔ پھر چھتر نہ پڑیں بزرگوار سے تو کہئے گا۔ :)
اللہ کے ساتھ ہمارا معاملہ یاری دوستی کا نہیں ہے۔ خالق و مخلوق کا ہے۔ وہ رحمٰن و رحیم ہے لیکن قہار و جبار بھی ہے۔ اس کے ساتھ انداز گفتگو میں‌کچھ تو حسن کلام چاہئے نا!
 

محمداحمد

لائبریرین
اے خدا شکوہ ارباب وفا بھی سنُ لے

خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سنُ لے ۔

نظم شکوہ کے مطلع کی دوسرے مصرے میں علامہ فرماتے ہیں خو گر (عادی) حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سنُ ۔ حالانکہ عادت کا ہونا نفس کے زیر اثر نعوذ باللہ ذات خدا ان چیزوں سے پاک ہے ۔

شاہ بھائی ذرا سا غور کیجے ۔
علامہ نے ’خوگرِ حمد‘ کی اصطلاح اپنے لئے استعمال کی ہے اللہ تعالٰی کے لئے نہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
مجھے بچپن ہی سے مطالعہ کا شوق رہا ہے الحمدللہ۔ اب بھی اس عدیم الفرصتی کے زمانہ میں‌رات چند صفحات کسی نہ کسی کتاب کے نہ پڑھ لوں تو نیند نہیں آتی۔ میں نے "تلاش" بھی آپ کےکہنے پر مطالعہ کیلئے کھولی ہے۔ دوسرے ہی صفحہ پر ممتاز مفتی صاحب نے مرنے سے پہلے ڈھول اور شہنایوں والوں کی درخواست کی ہے۔ میرے علم میں‌واقعی اضافہ ہوا ہے اس وصیت پر۔
دراصل بحث کا فائدہ اس لئے نہیں کہ ادب کا معیار اب وکھرا ہو گیا ہے۔ دینی بات قرآن و حدیث‌سے ثابت کی جائے تو ملا ازم کی پھبتی لگتے بھی دیر نہیں‌لگتی۔ اور عقل کی بنیاد پر کی جائے تو ہر شخص کا معیار عقل الگ۔ اس لئے بھائی عرض ہے کہ ایسے ادیبانہ اشعار اپنے والد صاحب کیلئے بھی کچھ عرض فرمائیں۔ پھر چھتر نہ پڑیں بزرگوار سے تو کہئے گا۔ :)
اللہ کے ساتھ ہمارا معاملہ یاری دوستی کا نہیں ہے۔ خالق و مخلوق کا ہے۔ وہ رحمٰن و رحیم ہے لیکن قہار و جبار بھی ہے۔ اس کے ساتھ انداز گفتگو میں‌کچھ تو حسن کلام چاہئے نا!

آپ یہ بتائیں کہ ہر دعا میں خدا کو "تُو" کہہ کر کیوں مخاطب کیا جاتا ہے؟ جبکہ رسول اکرم کو کبھی کسی نے "تُو" کہہ کر مخاطب نہیں کیا جبکہ خدا کا رتبہ نبی سے بہرحال بہت بلند ہے۔ اگر آپ کو اسی بات کی سمجھ آجائے تو اس نظم کے اندازِ تخاطب کی بھی سمجھ آجائے۔
 

شاکر

محفلین

آپ یہ بتائیں کہ ہر دعا میں خدا کو "تُو" کہہ کر کیوں مخاطب کیا جاتا ہے؟ جبکہ رسول اکرم کو کبھی کسی نے "تُو" کہہ کر مخاطب نہیں کیا جبکہ خدا کا رتبہ نبی سے بہرحال بہت بلند ہے۔ اگر آپ کو اسی بات کی سمجھ آجائے تو اس نظم کے اندازِ تخاطب کی بھی سمجھ آجائے۔
"تُو" وحدت کی علامت ہے۔ "تم" یا "آپ" واحد و جمع دونوں‌کیلئے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ یہ حد درجہ احتیاط کی وجہ سے کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کیلئے وہ صیغہ بھی استعمال نہ کیا جائے کہ جس سے ایک سے زائد خدا ہونے کا شبہ بھی لازم آئے۔ اگرچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال بھی کیا ہے۔ کہاں وہ حد درجہ احتیاط اور کہاں‌یہ اس درجہ بے احتیاطی۔۔!
اصل یہ ہے کہ آج وہ حزمِ احتیاط نہیں رہا ہے۔ یہی بات کوئی صاحب نثر میں‌فرما دیں تو یقیناً ہر شخص بے ادبی کو محسوس کرے گا۔ لیکن فن ، ادب ، لطافت کلام اور مجازی معانی کی آڑ میں سب چلتا ہے۔ بھائی، مقصد صرف یہ ہے کہ آخر اس انداز سے احتیاط کرنے میں‌اور ادب کو ملحوظ رکھنے میں‌کوئی حرج ہے؟ اصل اعتبار تو نیت ہی کا ہوتا ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ شاعر کی یا آپ کی نیت ہر گز وہ نہیں‌جو نظم کے اشعار سے سمجھی جا سکتی ہے، لیکن حسن نیت کی بنیاد پر حدود ادب سے تجاوز کو درست ماننا بھی غلط ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے بچپن ہی سے مطالعہ کا شوق رہا ہے الحمدللہ۔ اب بھی اس عدیم الفرصتی کے زمانہ میں‌رات چند صفحات کسی نہ کسی کتاب کے نہ پڑھ لوں تو نیند نہیں آتی۔ میں نے "تلاش" بھی آپ کےکہنے پر مطالعہ کیلئے کھولی ہے۔ دوسرے ہی صفحہ پر ممتاز مفتی صاحب نے مرنے سے پہلے ڈھول اور شہنایوں والوں کی درخواست کی ہے۔ میرے علم میں‌واقعی اضافہ ہوا ہے اس وصیت پر۔
دراصل بحث کا فائدہ اس لئے نہیں کہ ادب کا معیار اب وکھرا ہو گیا ہے۔ دینی بات قرآن و حدیث‌سے ثابت کی جائے تو ملا ازم کی پھبتی لگتے بھی دیر نہیں‌لگتی۔ اور عقل کی بنیاد پر کی جائے تو ہر شخص کا معیار عقل الگ۔ اس لئے بھائی عرض ہے کہ ایسے ادیبانہ اشعار اپنے والد صاحب کیلئے بھی کچھ عرض فرمائیں۔ پھر چھتر نہ پڑیں بزرگوار سے تو کہئے گا۔ :)
اللہ کے ساتھ ہمارا معاملہ یاری دوستی کا نہیں ہے۔ خالق و مخلوق کا ہے۔ وہ رحمٰن و رحیم ہے لیکن قہار و جبار بھی ہے۔ اس کے ساتھ انداز گفتگو میں‌کچھ تو حسن کلام چاہئے نا!

لکم دینکم ولی دین
 

فرخ منظور

لائبریرین
"تُو" وحدت کی علامت ہے۔ "تم" یا "آپ" واحد و جمع دونوں‌کیلئے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ یہ حد درجہ احتیاط کی وجہ سے کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کیلئے وہ صیغہ بھی استعمال نہ کیا جائے کہ جس سے ایک سے زائد خدا ہونے کا شبہ بھی لازم آئے۔ اگرچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے جمع کا صیغہ استعمال بھی کیا ہے۔ کہاں وہ حد درجہ احتیاط اور کہاں‌یہ اس درجہ بے احتیاطی۔۔!
اصل یہ ہے کہ آج وہ حزمِ احتیاط نہیں رہا ہے۔ یہی بات کوئی صاحب نثر میں‌فرما دیں تو یقیناً ہر شخص بے ادبی کو محسوس کرے گا۔ لیکن فن ، ادب ، لطافت کلام اور مجازی معانی کی آڑ میں سب چلتا ہے۔ بھائی، مقصد صرف یہ ہے کہ آخر اس انداز سے احتیاط کرنے میں‌اور ادب کو ملحوظ رکھنے میں‌کوئی حرج ہے؟ اصل اعتبار تو نیت ہی کا ہوتا ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ شاعر کی یا آپ کی نیت ہر گز وہ نہیں‌جو نظم کے اشعار سے سمجھی جا سکتی ہے، لیکن حسن نیت کی بنیاد پر حدود ادب سے تجاوز کو درست ماننا بھی غلط ہے۔

میں اسی لئے بہت عرصے سے یہ نظم پوسٹ نہیں کر رہا تھا کیونکہ آپ جیسے لوگ اسے ایک ہی رُخ سے دیکھیں گے اور وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ میں اب بھی یہی کہوں گا کہ مطالعے سے اپنا علمی افق مزید وسیع کیجیے۔ لیکن آپ شاید دینیات کو ہی علم گردانتے ہیں باقی کے علوم کو آپ علم نہیں سمجھتے۔ دینیات کے علاوہ بھی بہت سے علوم ہیں جن کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔

 
Top