تاریخ بدل دی

ابھی کل کی بات ہے کہ استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی بھائی ایک مشاعرے میں موجود تھے۔ آپ کی باری آئی اور آپ نے غزل پیش کرنی شروع کی۔ آسی بھائی کے اپنے الفاظ میں:​

’’ہوا یوں کہ میں پڑھ رہا تھا جس لمحے تاریخ تبدیل ہوئی (رات بارہ بجے کا لمحہ گزرا)۔ رئیس عباس (ایک نوجوان شاعر) نے از راہِ تفنن مجھے کہا : ’سر، آپ کی شاعری نے تاریخ بدل دی‘۔‘‘​
 

یوسف-2

محفلین
یہ ”نسخہ کیمیا“ تو بہت خوب ہے، خلیل بھائی! اب ہم بھی اپنے جملہ مضامین رات پونے بارہ بجے لکھنا شروع کریں گے تاکہ ہم بھی فخریہ کہہ سکیں کہ:اجی حضت! ہمارے مضامین نے تو تاریخ بدل دی ہے :p
بشرطیکہ اس طرح تاریخ بدلنے کی ”کاپی رائٹ“ برادرم محمد یعقوب آسی کے نام ”محفوظ“ نہ ہو۔:)
 

یوسف-2

محفلین
اب تو ”جائے اُستاد خالی نیست“ کا دور ہے۔:) ساری ”استادی اسامیاں“ حکمرانوں نے اپنے اپنے جیالوں کے نام مختص جو کردی ہیں :p
ویسے اُستاد سے ”اجازت“ طلب تو کی ہے، بہ انداز دِگر :)
 
بجا ارشاد، فی زمانہ اُستاد کو اجازت کا طالب ہونا چاہئے۔
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق​
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے​
۔۔۔۔۔۔۔۔ طوطیٔ ہند سیداکبرحسین اکبر الہ آبادی​
۔۔
 
یہ تو جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب کی محبت ہے، کہ اتنی چھوٹی سی بات کو اتنی زیادہ اہمیت دے ڈالی۔

اس فقیر کی بے نوائی تو خیر تاریخ کو کیا بدلے گی، ایک فقیر البتہ ایسا ہو گزرا ہے جو اپنی فقیری میں امیری کر گیا اور جس کی نوائے شوق نے تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیا۔ آسماں ’’اس کی‘‘ لحد پر شبنم افشانی کرے۔


رہا فرمانا جناب یوسف-2 کا بارے ’’کاپی رائٹ‘‘ کے! اس انٹرنٹ کھٹ زمانے میں بھی اگر ایسا کوئی تصور ہے تو پھر یہ جملہ ایک نوجوان رئیس عباس کا ہے۔
 
Top