بہ ایران خوش آمدید ( پہلا حصہ)

حسان خان

لائبریرین
پہلے دانشور تو بنا لیں ہم سب نا یورپ بھی بربادی کے بعد ایسے بنا ہے بھائی جان

بھائی جان، پیش رفت کے لیے ہر بار تباہی تو لازم نہیں ہونی چاہیے۔ اور پھر جنگ سے قبل کا یورپ قوم پرستی کے نشے میں جانوروں کی طرح پاگل ہوا جا رہا تھا، فرانسیسی جرمن سے نفرت کرتا تھا، اور جرمن انگریزوں سے۔ یہاں خدا کا شکر ہے کہ قوم پرستی کا مرض عوام میں جاگزین نہیں ہے۔ نہ تو ہم دیگر ممالک سے نفرت کرتے ہیں (عمومی رویے کی بات کر رہا ہوں)، نہ ہی وہاں کے لوگوں میں پاکستان سے نفرت کا مادہ عوامی سطح پر ہے۔ اگر آذربائجان اور ترکی کی بات کی جائے تو وہ تو پاکستانیوں کی دل سے عزت کرتے ہیں، کیونکہ پاکستان کے اُن سے بڑے اچھے تجارتی اور دفاعی تعلقات رہے ہیں۔

اس لیے میرا نہیں خیال کہ باہم مزید قریب آنے کے لیے ہمیں یورپی طرز کی کسی بڑی تباہی کی ضرورت ہے۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
آپ سے جب بھی بات کی مجھے یہ چیزیں سیکھنے کو ملی ۔ ایک سوال تو ہمارے ریاست جو کہ عثمانیوں کی تھی وہ کیوں ایسی نا بن سکی ؟ سرائیکی بیلٹ کے بارے میں کی اخیال ہے

سرائیکی بیلٹ کی بہاولپور ریاست بھی فارسی زبان چھائی رہی ہے بھائی، اور سرائیکی ادب میں فارسی کا گہرا اثر موجود ہے۔ ذرا غلام فرید صاحب اور دیگر سرائیکی شعراء کی شاعری پر نظر ڈالیے۔ پاکستان میں کسی خطے کو فارسی کے اثر نے نہیں 'بخشا' ہے۔ :)

اس بارے میں مجھے اور کچھ تو نہیں معلوم، لیکن میں نے یہاں پڑھا تھا کہ بہاولپور کی ریاست دہلی کے بجائے تاریخی لحاظ سے ہمیشہ کابل اور افغانستان کے قریب رہی ہے۔
 

عسکری

معطل
سرائیکی بیلٹ کی بہاولپور ریاست بھی فارسی زبان چھائی رہی ہے بھائی، اور سرائیکی ادب میں فارسی کا گہرا اثر موجود ہے۔ ذرا غلام فرید صاحب اور دیگر سرائیکی شعراء کی شاعری پر نظر ڈالیے۔ پاکستان میں کسی خطے کو فارسی کے اثر نے نہیں 'بخشا' ہے۔ :)
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/اے-حسن-حقیقی-نورِ-ازل.62074/

اس بارے میں مجھے اور کچھ تو نہیں معلوم، لیکن میں نے یہاں پڑھا تھا کہ بہاولپور کی ریاست دہلی کے بجائے تاریخی لحاظ سے ہمیشہ کابل اور افغانستان کے قریب رہی ہے۔
پھر عوام مین ترکی عثمانیت اور حتی کہ رقص اور تعمیر مین ترکش جھلک کیوں
 

حسان خان

لائبریرین
پھر عوام مین ترکی عثمانیت اور حتی کہ رقص اور تعمیر مین ترکش جھلک کیوں

کونسی عوام میں؟ سرائیکی عوام میں؟ تو بھائی جان اس خطے پر راج کرنے والے اکثر خاندانوں کی ادبی زبان تو فارسی تھی، مگر وہ خود تو نسلاً ترک ہی تھے۔ لہذا پاکستانی لوگوں کے رقص اور تعمیر میں ترکوں کی جھلک بھی کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ اُن ترک آنے والوں نے بھی ہمارے کلچر میں کافی کچھ اضافہ کیا ہے۔

آپ کے سرائیکی بیلٹ میں چولستان کا چول (بمعنی صحرا) ترکی زبان کا لفظ ہے۔ :)
 

عسکری

معطل
کونسی عوام میں؟ سرائیکی عوام میں؟ تو بھائی جان اس خطے پر راج کرنے والوں کی ادبی زبان تو فارسی تھی، مگر وہ خود تو نسلاً ترک ہی تھے۔ لہذا رقص اور تعمیر میں ترکوں کی جھلک بھی کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ اُن ترک نے بھی ہمارے کلچر میں کافی کچھ اضافہ کیا ہے۔

آپ کے سرائیکی بیلٹ میں چولستان کا چول (بمعنی صحرا) ترکی زبان کا لفظ ہے۔ :)
جی جناب اور ایک بات یہ ترک کاریگروں نے آ کر جو کام کیے تھے اس علاقے میں اس سے بھی شاید یہ علاقے ان کے اثر میں ہوئے ۔
 

ساجد

محفلین
بہت خوشی ہو رہی ہے تعمیری بات چیت کو دیکھ کر۔ کاش ہم ہر موضوع پر اسی طرح آرام سے بات کرنے کی عادت اپنا لیں۔
 

عسکری

معطل
جوان ، یہاں تو ٹائپو نہیں نا ؟ یعنی کہ "ہمسائیوں" تو نہیں لکھا چاہ رہے تھے۔:)
دیکھیں بھائی جان پھر اگر میں نے پردیسی بھائی کو تبصرے کی دعوت دی تو بات ایران کی گلیوں سے پیریس کے نائٹ کلب اور شاہی محلے تک جا سکتی ہے جو خود ایک تاریخی جگہ ہے :grin:
 

پردیسی

محفلین
دیکھیں بھائی جان پھر اگر میں نے پردیسی بھائی کو تبصرے کی دعوت دی تو بات ایران کی گلیوں سے پیریس کے نائٹ کلب اور شاہی محلے تک جا سکتی ہے جو خود ایک تاریخی جگہ ہے :grin:
آہ ہا ۔۔۔ کیا بات کر دی عسکری بھرا جی آپ نے ۔۔۔ کیا دور تھا شاہ ایران کا ۔۔۔ دو سو روپے کا لگژری کمبل آ جاتا تھا۔۔۔۔وہ کمبل آج تک میرے پاس موجود ہے۔۔۔۔اور اس سے جڑی یادیں ۔۔۔بس نہ پوچھیں
اس سے زیادہ اس محفل میں بتانے کی تاب نہیں ہے پا جی ۔۔۔
باقی رہی بات نائٹ کلب اور شراب خانوں کی تو وہ کسی وقت اپنے بلاگ پر لکھوں گا
 

عسکری

معطل
آہ ہا ۔۔۔ کیا بات کر دی عسکری بھرا جی آپ نے ۔۔۔ کیا دور تھا شاہ ایران کا ۔۔۔ دو سو روپے کا لگژری کمبل آ جاتا تھا۔۔۔ ۔وہ کمبل آج تک میرے پاس موجود ہے۔۔۔ ۔اور اس سے جڑی یادیں ۔۔۔ بس نہ پوچھیں
اس سے زیادہ اس محفل میں بتانے کی تاب نہیں ہے پا جی ۔۔۔
باقی رہی بات نائٹ کلب اور شراب خانوں کی تو وہ کسی وقت اپنے بلاگ پر لکھوں گا
آپ سنسر شدہ سنا دیں یادیں:grin:
 
bp1.jpg
پالنگان گاؤںعراقی سرحد کے قریب پہاڑی علاقہ۔یہ گاؤں حکو مت کی فراخدلانہ مدد سے مستفیض ہونے والی دیہی بستیوں کی ایک مثال ہے۔گاؤں کے زیادہ تر رہائشی قریب میں واقع مچھلی فارم پر کام کرتے ہیں یا پھر باسج کے تنخواہ دار اراکین ہیں۔ بسیج تنظیم 1979 کے اسلامی انقلاب کے رہنماآیت اللہ خمینی کے اصولوں کی پاسداری کرتی ہے جن میں مغربی اثرات کو ایرانی معاشرے سے دور رکھنا اور مرد و خواتین کے مجلسی اختلاط کو روکنا ہے۔
لائٹنگ غضب کی ہے ۔اور کیمرے میں صرف اسی کا کمال ہوتا ہے۔
 
Top