امیداورمحبت
محفلین
بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ کہ حسن عام ہو نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سا سفر لگے
کوئی بھی رت ہو اسکی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
نہ رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو
کوئی بھی رت ہو اسکی چھب، فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی، وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
نہ رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو
نہ ایسی خوش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی کہ آئینہ حیا کرے ۔ ۔ ۔
نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو
کبھی تو بات بھی خفی، کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشت زاعفراں، کبھی اداسیوں کا بن
سنا ہے ایک عمر ہے معاملات دل کی بھی
وصال جان فزا تو کیا ،فراق جانگسسل کی بھی
سوایک روز کیا ہوا ، وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں ،وہ میری بات سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو بدتر از ہوس کہے
شجر ہجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گل رہے
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں کی ایک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہو اسی کہ پریم میں رہوں
نہ یس کو مجھ پر مان تھا، نہ مجھ کو اس پہ زعم ہی
جب عہد ہی کوئی نہ ہو، تو کیا غم شکستی
سو اپنا اپنا راستہ خوشی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی ، میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد رات دن نہیں مگر کبھی کبھی
نہ یہ کہ حسن عام ہو نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سا سفر لگے
کوئی بھی رت ہو اسکی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
نہ رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو
کوئی بھی رت ہو اسکی چھب، فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی، وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدتوں جدا رہے ، نہ ساتھ صبح و شام رہے
نہ رشتہء وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذن عام ہو
نہ ایسی خوش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی کہ آئینہ حیا کرے ۔ ۔ ۔
نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو
کبھی تو بات بھی خفی، کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشت زاعفراں، کبھی اداسیوں کا بن
سنا ہے ایک عمر ہے معاملات دل کی بھی
وصال جان فزا تو کیا ،فراق جانگسسل کی بھی
سوایک روز کیا ہوا ، وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں ،وہ میری بات سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو بدتر از ہوس کہے
شجر ہجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گل رہے
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں کی ایک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہو اسی کہ پریم میں رہوں
نہ یس کو مجھ پر مان تھا، نہ مجھ کو اس پہ زعم ہی
جب عہد ہی کوئی نہ ہو، تو کیا غم شکستی
سو اپنا اپنا راستہ خوشی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی ، میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد رات دن نہیں مگر کبھی کبھی