بچوں کو شاعری سکھانے کا سلسلہ

مزمل بھائی، آپ کی وضاحتوں سے الحمدللہ بہت فائدہ ہوتا ہے، میں خود اس فن میں طفل مکتب ہوں اور اسے سیکھنے کا خواہش مند ہوں، اپنے شاعر دوست کی بھی اسی لیے حوصلہ افزائی بھی کی، وہ خود بھی تحقیقی کام کرنے کا بہت جذبہ رکھتے ہیں، لیکن ابھی کیوں کہ بہت ساری چیزیں انھیں بھی واضح نہیں اس لیے رہنمائی چاہتے ہیں۔

میں یہی عاجزانہ عرض کرنا چاہونگا:
پہلی بات جو بڑے استاد جی محترم الف عین نے کہی۔ اصطلاحات بے جا ہیں۔
یا تو قافیہ درست ہوتا ہے۔ یا درست نہیں ہوتا۔ قافیہ کے حسن کا دار و مدار زیادہ حروف کی مطابقت پر نہیں ہوتا۔
ایک اور کھلے راز کی بات بتاؤں کہ قافیہ کی صرف ایک ہی قسم ہے جس میں ایک سے زیادہ۔ یعنی دو حروف ایک جیسے آتے ہیں۔ مثال اسکی: دید، عید، پلید یا سود، ہنود، یہود وغیرہ۔ اسے ”قافیۂ مترادف“ کہتے ہیں باقی حروف اصلی میں دوسرا کوئی قافیہ نہیں جس میں ایک زیادہ حروف کی مطابقت ہو۔ تو ثابت ہوا کہ اچھا، بہتر، بہترین قافیہ کوئی چیز نہیں۔
 

انتہا

محفلین
میں یہی عاجزانہ عرض کرنا چاہونگا:
پہلی بات جو بڑے استاد جی محترم الف عین نے کہی۔ اصطلاحات بے جا ہیں۔
یا تو قافیہ درست ہوتا ہے۔ یا درست نہیں ہوتا۔ قافیہ کے حسن کا دار و مدار زیادہ حروف کی مطابقت پر نہیں ہوتا۔
ایک اور کھلے راز کی بات بتاؤں کہ قافیہ کی صرف ایک ہی قسم ہے جس میں ایک سے زیادہ۔ یعنی دو حروف ایک جیسے آتے ہیں۔ مثال اسکی: دید، عید، پلید یا سود، ہنود، یہود وغیرہ۔ اسے ”قافیۂ مترادف“ کہتے ہیں باقی حروف اصلی میں دوسرا کوئی قافیہ نہیں جس میں ایک زیادہ حروف کی مطابقت ہو۔ تو ثابت ہوا کہ اچھا، بہتر، بہترین قافیہ کوئی چیز نہیں۔
اچھا تو جو اس سبق میں مثالیں پیش کی گئی ہیں ان کی کیا حیثیت ہے، اور کیا ان کی رعایت سے شعری حسن کا کوئی تعلق ہے جیسا کہ اس میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟
 
جو سلسلہ انتہا صاحب یا صاحبہ نے شروع کیا تھا یہ اسی سلسلے کی چوتھی قسط ہے جو اصلاح کے لیے حاضرِ خدمت ہے۔
ابتدائی تین قسطیں ماہنامہ ذوق و شوق میں شائع ہوچکی ہیں۔
شمشاد بھائی، اگر ہو سکے تو اس کی ابتدائی تین قسطیں جو انتہا نے شروع کی تھیں، یہیں پوسٹ کر دیں تو بہت اچھا ہو گا۔
دھاگے کا نام تھا ”بچوں کو شاعری سکھانے کا سلسلہ“

(صرف شاعری کا شوق رکھنے والے قارئین متوجہ ہوں)​
شوقِ شاعری4
محمد اسامہ سَرسَرؔی
محترم قارئین! سب سے پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا پچھلی تینوں قسطوں میں دیا گیا کام آپ نے کرلیا ہے یا نہیں؟ اگر کرلیا ہے تو ’’اَلْحَمْدُ للّٰہ!‘‘ کہیں اور اگر آپ نے پچھلا کام نہیں کیا تو اس شمارے کو بند کردیں، پہلے پچھلا کام کریں، پھر یہ شمارہ کھولیں۔
پچھلی قسط میں ہم نے ’’قافیے‘‘ کے چار درجات پڑھے تھے، اب اس قسط میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ مقفّٰی (قافیے والے) جملے بنانا سیکھیں گے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب مقفّٰی جملے بنالیں گے تو ان جملوں سے مل کر پوری نظم بن جائیں گی اور اس طرح آپ شاعر بن جائیں گے تو براہِ مہربانی زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں… ان جملوں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
اب آپ مندرجہ ذیل جملوں کو غور سے دیکھیں:
’’اللہ کی عبادت کریں… نبی کی اطاعت کریں… قرآن کریم کی تلاوت کریں… ماں باپ کی خدمت کریں… بڑوں کی عزت کریں… چھوٹوں پر شفقت کریں… نیکیوں کی کثرت کریں… گناہوں سے نفرت کریں… یوں حاصل جنت کریں۔‘‘
یہ سب جملے مقفّٰی ہیں… ’’ت‘‘ حرف روی او ر’’کریں‘‘ ردیف ہے۔
مقفّٰی جملے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے ایک موضوع متعین کریں، پھر اس موضوع سے متعلق باوزن الفاظ سوچ سوچ کر لکھ لیں… مثال کے طور پر آپ کو اپنے اسکول سے متعلق مضمون بنانا ہے اور مضمون بھی ایسا جو پورا کا پورا مقفّٰی ہو تو پہلے آپ اسکول کے بارے میں جو جو باتیں آپ کے ذہن میں ہیں ان سے متعلق باوزن الفاظ جمع کریں جیسے: اسکول، اسٹول، قبول، معمول، دھول، طول، پھول، مشغول وغیرہ۔
اب ان الفاظ کو مدِّ نظر رکھ کر اسکول سے متعلق جملے بناتے جائیں:
’’میں جب گیا اسکول … راستے میں تھی دھول… راستے کا کافی تھا طول… مگر اسکول سے باہر تھے پھول… کلاس روم میں تھیں کرسیاں، ٹیبل اور اسٹول… اسکول جانا ہے میرا روز کا معمول… گھر آکر بھی میں اسکول میں رہتا ہوں مشغول… اللہ تعالیٰ میرے اس عمل کو کرلے قبول۔‘‘
اسی طرح مثال کے طور پر اگر آپ کسی شرارتی بچے کے بارے میں مقفّٰی جملے بنانا چاہتے ہیں تو پہلے اس شرارتی بچے سے متعلق باوزن الفاظ سوچ کرکسی صفحے میں نوٹ کرلیں…مثلاً:
نوجواں، مستیاں، روآں روآں، عیاں، انگڑائیاں، ناتواں، وہاں، بے دھیاں، تھیلیاں، کہاں، پشیماں، ساماں، طوفاں۔ اب جملے بنائیں:
ایک پیاراسا نوجواں… کرتا ہے بہت مستیاں… شرارت سے بھرا ہے اس کا روآں روآں…ایک دن اس نے دیکھا جا رہا ہے ایک مردِ ناتواں… اور اس کے ہاتھ میں ہے کچھ ساماں… شرارت نے فوراً لی انگڑائیاں… اس نے اس سے کہا: ’’وہ دیکھو وہاں‘‘… جیسے ہی وہ شخص ہوا بے دھیاں… اس نے چھین لی اس کی سب تھیلیاں… چھینتے ہی اسے بدبو کا محسوس ہوا طوفاں… اُن میں کوڑاکرکٹ اور گندگی تھی عیاں… جنھیں وہ پھینکنے جارہا تھا نہ جانے کہاں…نوجواں اپنی اس حرکت سے ہوابہت پشیماں۔
اس ماہ کا کام: اپنی زندگی کے اچھے سے تین دل چسپ قصوں کو مقفّٰی جملوں کی صور ت میں لکھیں۔ طریقہ یہی ہے کہ پہلے قصہ سوچیں، پھر اس کے متعلق باوزن الفاظ سوچ سوچ کر کسی صفحے پر نوٹ کرلیں… پھر مقفّٰی جملے بناتے جائیں… ممکن ہے بہت سے باوزن الفاظ شروع میں ذہن میں نہ آئیں، بل کہ جملے بنانے کے دوران میں آجائیں… اور اگر مشق بہت زیادہ کرلی تو باوزن الفاظ پہلے سوچنے کی بھی ضرورت نہ رہے گی۔
ان شاء اﷲ تعالیٰ سب سے اچھا قصہ لکھار ی کے نام کے ساتھ شائع کیا جائے گا۔(جاری ہے)
جب تک کے لیے اللہ حافظ۔
 
Top