بچوں کو شاعری سکھانے کا سلسلہ

انتہا

محفلین
ہمارے ایک دوست جو کہ کراچی میں بچوں کے ایک ادبی رسالے سے تعلق رکھتے ہیں، ماشاءاللہ شاعر بھی ہیں، انھوں نے اس رسالے میں بچوں کو شاعری سکھانے اور اس دل چسپی پیدا کرنے کے لیے ایک مفید سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدائی تین اقساط نمبروار پیش خدمت ہیں۔ ماہرین سے توجہ کی درخواست ہے کہ اگر ان میں کہیں کسی قسم کا سقم ہو یا بہتری کی گنجائش ہو تو اپنی مفید آرا سے ضرور نوازیں۔
الف عین
محمد وارث
مزمل شیخ بسمل
فاتح
مغزل
خلیل الرحمن
 

انتہا

محفلین
شوقِ شاعری1
محترم قارئین!آج ہم آپ کو ایک خوشی کی بات بتاتے ہیں، مگر پہلے یہ بتائیے کہ کیا آپ نے کبھی کوئی شعر یا نظم بنائی ہے؟ اگر نہیں تو ہم آپ کو سکھاتے ہیں۔
یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگاکہ حروف سے مل کر لفظ بنتا ہے اور لفظوں سے مل کر جملہ اور جملوں سے مل کر مضمون یا کہانی بنتی ہے۔
بالکل اسی طرح نظم بنتی ہے شعروں سے مل کر اور شعر بنتا ہے مصرعوں اور قافیے سے مل کر اور مصرع بنتا ہے ارکان سے مل کر اور قافیہ بنتا ہے دماغ سے۔
معلوم ہوا کہ اگر آپ کوقافیہ اور ارکان بنانا آگیا تو مصرع اور شعر بنانا بھی آجائے گا اور جب شعر بنانا آجائے گا تو کچھ اشعار بناکر آپ ایک نظم بھی بنالیں گے، پھر آپ کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کے ’’نئے شہ سوار‘‘ میں شائع ہوگی تو آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو ’’ذوق و شوق‘‘ میں وہ نظم اور اس کے ساتھ آپ کا نام دیکھ کر کتنی خوشی ہوگی۔
ہے نا خوشی کی بات!
تو آئیے، اب ہم شعر مصرع، ارکان اور قافیہ بنانا سیکھتے ہیں…سب سے پہلے ہم آپ کو قافیے سے متعلق کچھ فائدے کی باتیں بتاتے ہیں:
شعر کے آخر میں جو باوزن الفاظ آتے ہیں انھیں ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں، جیسے:
خوشیوں کو کرلو عام کہ ہے عید کا یہ دن!​
سب کو کرو سلام کہ ہے عید کا یہ دن!​
اس شعر میں ’’عام‘‘ اور ’’سلام‘‘ قافیہ ہیں، ان دونوں لفظوں میں غور کریں، دونوں میں ’’م‘‘ ہے، اس کو ’’حرفِ روی‘‘ کہتے ہیں۔
آپ کے ذہن میں سوال پیدا ہورہا ہوگا کہ ’’عام‘‘ اور ’’سلام‘‘ قافیہ ہیں تو ان دونوں کے بعد ’’کہ ہے عید کا یہ دن‘‘ بھی تو آرہا ہے، یہ کیا ہے؟ تو یہ بھی جان لیجیے کہ ایسے الفاظ جو نظم میں ہر قافیے کے بعد بار بار آرہے ہوں،انھیں ’’ردیف‘‘ کہتے ہیں۔
امید ہے اب تک آپ نے تین چیزیں سمجھ لی ہوں گی:1قافیہ 2حرفِ روی 3ردیف۔
اب انھی تین چیزوں کو ایک اور مثال سے سمجھ لیجیے:
ہر اک ہے مجھ سے تنگ تو میرا ہے کیا قصور!​
مجھ کو نہیں ہے ڈھنگ تو میرا ہے کیا قصور!​
اس شعر میں ’’تنگ‘‘ اور ’’ڈھنگ‘‘ قافیہ ہیں۔ ان دونوں لفظوں میں ’’گ‘‘ حرفِ روی ہے اور ’’تو میرا ہے کیا قصور‘‘ ردیف ہے۔
اس ماہ کا کام:اسی شمارے کی نظم(جنت کی خوشبوئیں) میں غور کریں اور اس کے تمام قافیے، ان قافیوں میں آنے والا حرفِ روی اورردیف، سب ایک کاغذ پر صاف صاف لکھ کر ہمیں ارسال کیجیے، ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے شمارے میں درست جواب بھیجنے والوں کے نام شائع کیے جائیں گے۔
اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ قافیہ خود بنانا سیکھیں گے۔ جب تک کے لیے اللہ حافظ۔
 

انتہا

محفلین
شوقِ شاعری2
پچھلی قسط میں ہم نے قافیہ، ردیف اور حرفِ روی کو مثالوں سے سمجھا تھا، اس دفعہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم قافیہ خود بنانا سیکھیں گے۔​
یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہے کہ شعر کے آخر میں جو ہم آواز الفاظ آتے ہیں انھیں ’’قافیہ‘‘ کہتے ہیں۔ اب اسے مثالوں سے سمجھیں:
مثال نمبر۱: کامل، عامل، شامل، عادل، ساحل، باطل، قاتل، جاہل، کاہل، حاصل، قابل، نازل۔
مثال نمبر۲: رحمان،ارمان، مہمان، نعمان، احسان، انسان، سنسان،گھمسان، سلطان، شیطان۔
مثال نمبر۳: آم، بام، تام، جام، خام، دام، شام، عام، کام، گام، لام، نام۔
مثال نمبر۴: اور، بور، چور، دور، زور، شور، غور، مور۔
مثال نمبر۵: اٹک، بھٹک، پھٹک، چٹک، کھٹک، لٹک، کسک، چسک، سسک، بلک، پلک، جھلک، چھلک، ڈھلک، فلک، چمک، دھمک، نمک، کمک۔
اب ہم آپ کو قافیے سے متعلق کچھ اہم باتیں بتاتے ہیں:
٭قافیہ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی جمع ’’قوافی‘‘، ’’قافیوں‘‘ اور ’’قافیے‘‘ ہے۔
٭قافیوں میں کم از کم آخری حرف کا بالکل ایک جیسا ہونا ضروری ہے، دیکھیے مثال نمبر۱ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ل‘‘ آرہا ہے۔اسی طرح مثال نمبر۲ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ن‘‘۔ مثال نمبر ۳ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’م‘‘۔ مثال نمبر۴ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ر‘‘ اور مثال نمبر۵ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ک‘‘ آرہا ہے، اسی کو حرفِ روی کہتے ہیں۔
٭قافیوں میں آخری حرف سے پہلے والے حرف کی حرکت کا ایک ہونا بھی ضروری ہے، دیکھیے مثال نمبر۱ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ل‘‘ سے پہلے والے حرف کے نیچے زیر ہے۔
٭اگر پہلے قافیے میں آخری حرف سے پہلے ’’و‘‘، ’’ی‘‘ یا ’’ا‘‘ ہو اور ساکن ہو تو ہر قافیے میں آخری حرف سے پہلے اس ’’و‘‘، ’’ی‘‘ یا ’’ا‘‘ کا ہونا ضروری ہے۔ دیکھیے مثال نمبر۲ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ن‘‘ ہے اور ’’ن‘‘ سے پہلے ’’ا‘‘ ہے، اسی طرح مثال نمبر۳ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’م‘‘ اور اس سے پہلے ’’ا‘‘ ہے، اسی طرح مثال نمبر۴ میں ہر لفظ کے آخر میں ’’ر‘‘ سے پہلے ’’و‘‘ ہے۔
٭قافیوں کے آخر میں کم از کم ایک حرف کا بار بار آنا تو ضروری ہے، مگر ایک سے زیادہ جتنے حروف بار بار آئیں گے تو قافیوں میں اتنا ہی حسن پیدا ہوگا، دیکھیے مثال نمبر۱ میں عامل اور کامل، ان دونوں میں آخر میں ’’ل‘‘ ہے اور دونوں میں ’’ل‘‘ سے پہلے ’’ام‘‘ بھی ہے۔ اسی طرح مثال نمبر۲ میں رحمان، ارمان، مہمان، نعمان۔ ان چاروں کے آخر میں ’’م‘‘، ’’ا‘‘ اور ’’ن‘‘ تینوں آرہے ہیں۔
اس ماہ کا کام: ’’اطاعت‘‘، ’’کریم‘‘، ’’عابد‘‘، ’’ولی‘‘ ، ’’انوار‘‘ ، ’’معصوم‘‘ ، ’’اقوال‘‘ ، ’’آباد‘‘ ان میں سے ہر ایک کے وزن پر کم از کم دس دس الفاظ ایک کاغذ پر صاف صاف لکھ کر ہمیں ارسال کیجیے، ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے کسی شمارے میں درست جواب بھیجنے والوں کے نام شائع کیے جائیں گے۔
اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ اچھے سے اچھے قافیہ بنانا سیکھیں گے۔ جب تک کے لیے اللہ حافظ۔
 

انتہا

محفلین
شوقِ شاعری3
محترم قارئین! سب سے پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ کیا پچھلی دونوں قسطوں میں دیا گیا کام آپ نے کرلیا ہے یا نہیں؟ اگر کرلیا ہے تو ’’اَلْحَمْدُ ِﷲ!‘‘ کہیں۔
اور اگر آپ نے پچھلا کام نہیں کیا تو اس شمارے کو بند کردیں، پہلے پچھلا کام کریں، پھر یہ شمارہ کھولیں۔
پچھلی قسط میں ہم نے ’’قافیہ‘‘ خود بنانا سیکھا۔ قافیے سے متعلق بہت سی اہم اہم باتیں بھی سامنے آئیں، اب ہم ان شاء اللہ قافیے سے متعلق مزید دل چسپ باتیں سیکھیں گے۔
قافیوں کے آخر میں جتنے حروف ایک جیسے ہوں گے، قوافی اتنے ہی عمدہ ہوں گے، اس لحاظ سے قوافی کے ہم عقلی طور پر چار درجات بناسکتے ہیں:
1درست قافیے2 اچھے قافیے3 بہتر قافیے4 بہترین قافیے۔
1درست قافیے:وہ قافیے جن میں صرف آخری حروف ایک جیسے ہوں، باقی سب الگ الگ ہوں، جیسے: جمالی اور سفیدی۔ یہ دونوں لفظ باوزن تو ہیں، مگر ان میں عمدگی نہیں ہے۔
2اچھے قافیے:وہ قافیے جن کے آخر میں ایک سے زیادہ حروف ایک جیسے ہوں، جیسے: جمالی اور چنبیلی، ان دونوں کے آخر میں ’’ی‘‘ بھی ہے اور ’’ل‘‘ بھی، لہٰذا یہ قافیے پہلی قسم کی نسبت اچھے ہیں۔
3بہتر قافیے:وہ قافیے جن میں زیادہ تر حروف ایک جیسے ہوں، جیسے جمالی اور کمالی، ان دونوں میں صرف ’’ج‘‘ اور ’’ک‘‘ کا فرق ہے۔ دونوں میں ’’مالی‘‘ آرہا ہے، لہٰذا یہ قافیے دوسری قسم سے زیادہ اچھے اور بہتر ہیں۔
4بہترین قافیے:وہ قافیے جن میں سارے حروف ایک جیسے ہوں، جیسے جمالی(جمال سے) اور جما لی(جمانا سے)، ان دونوں میں سارے حروف ایک جیسے ہیں، لہٰذا یہ سب سے اچھے اور عمدہ قافیے ہیں۔
بالآخر ہم نے بھی محفل جمالی ہے
یہ محفل کتنی پیاری اور جمالی ہے
ایک اور مثال ملاحظہ کریں: ’’بتانا‘‘ اس لفظ کے بھی ہم چار طرح کے قافیے بناسکتے ہیں:
1درست قافیے: سہارا، تماشا، تقاضا، گوارا، نکھارا، نکالا، جھماکا، پکایا۔
2اچھے قافیے: کمانا، رلانا، دکھانا، سجانا، لگانا، بہانا، پکانا، جمانا۔
3بہتر قافیے: جتانا، ستانا۔
4بہترین قافیہ: بتانا(امرِ تاکیدی)
اس ماہ کا کام:
لفظِ ’’بہانہ‘‘ سے پہلی قسم(درست قافیے) کی آٹھ مثالیں، دوسری قسم(اچھے قافیے) کی پانچ مثالیں، تیسری قسم(بہتر قافیے) کی تین مثالیں اور چوتھی قسم(بہترین قافیے) کی ایک مثال بناکر ایک کاغذ پر صاف صاف لکھ کر ہمیں ارسال کیجیے۔(واضح رہے کہ ’’ہ‘‘ اور ’’ا‘‘ ایک ہی حرفِ روی شمار ہوتے ہیں۔)
اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ قافیے والے جملے بنانا سیکھیں گے۔ جب تک کے لیے اللہ حافظ۔
 
بچوں کو پڑھنے دیجئے، محترمی یا محترمہ @انتہا۔ انہیں ردیف قافیے اوزان میں ابھی نہ ڈالئے۔

ابھی ان کی توجہ زبان کی درستی پر مرکوز کرائیے۔ جملہ کی ترتیب، اور اجزاء کے علاوہ خاص طور محاورے، ضرب الامثال تذکیر و تانیث اور واحد جمع کا درست استعمال، جمع اور اسمِ جمع کا فرق وغیرہ اہم تر ہیں۔
 
ایک بہت اہم مسئلہ ہے: زبان میں بدیسی الفاظ کا غیر ضروری استعمال۔

’’پاپا، میری بُکیں لا دیں نا‘‘ : ’’ابو (اباجان، بابا) میری کتابیں لا دیں نا‘‘
’’شوز پہن لو بیٹا اور سوکس بھی‘‘ : ’’جوتے پہن لو بیٹا اور جرابیں بھی‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت آداب
 
’’شاعری سکھانا‘‘ اور چیز ہے ’’شعر کی فنیات اور بنیادی تصورات سے شناسائی‘‘ اور چیز ہے۔ بنیادی تصورات میں ان کو بتائیے کہ ردیف یہ ہے، قافیہ یہ ہے، لف و نشر یہ ہے، وغیرہ۔ اور شعر کو درست پڑھنا بھی سکھائیے! بچے کو اوزان اور بحور کے چکر میں ڈالے بغیر لفظوں کے ’’اتار چڑھاؤ‘‘ وغیرہ کے حوالے سے بات کی جا سکتی ہے۔

بچوں میں اچھے شعر کا ذوق اجاگر کیجئے، بجائے انہیں شاعری کی تربیت دینے کے۔ اس کو ہم ’’شعر فہمی‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔
ایک بہت اہم بات کہ جب تک بچے کو اچھی نثر کا ادراک نہیں ہوتا اچھے شعر کا ادراک نہیں ہو سکتا۔
 

انتہا

محفلین
بچوں کو پڑھنے دیجئے، محترمی یا محترمہ @انتہا۔ انہیں ردیف قافیے اوزان میں ابھی نہ ڈالئے۔

ابھی ان کی توجہ زبان کی درستی پر مرکوز کرائیے۔ جملہ کی ترتیب، اور اجزاء کے علاوہ خاص طور محاورے، ضرب الامثال تذکیر و تانیث اور واحد جمع کا درست استعمال، جمع اور اسمِ جمع کا فرق وغیرہ اہم تر ہیں۔
بالکل جناب، آپ نے صحیح فرمایا،
لیکن ادبی رسالے کے تقاضے کے اعتبار سے کہ ان کے قارئین میں مختلف استعدادوحوصلے کے لوگ ہوتے ہیں، اس قسم کے مطالبات آتے رہتے ہیں اور قارئین کی دل چسپی کے پیش نظر ہی ایسے سلسلوں کا اجراء کیا جاتا ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ ان اوزان وردیف کو پڑھنے اور سمجھنے سے ہر کوئی شاعر نہیں بن جائے گا، لیکن شعری ادبی شوق اور انھیں سمجھنے کا حوصلہ ان شاءاللہ ضرور پیدا ہو گا۔
 
بڑے اساتذہ آجائیں اس سے پہلے میں تو اپنی بات کہہ کر پتلی گلی پکڑ لیتا ہوں :p

پہلے تو بہت ساری داد اور مبارک باد کہ اتنا اچھا سلسلہ شروع کیا جس کا فقدان پایا جاتا ہے

دوسرے یہ کہ قافیہ سے اس کی شروعات کی گئی ہے تو ایک بات واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ علم قافیہ یا تو عروض اور دیگر علوم سے بہت زیادہ مشکل اور دقیق ہے یا پھر بہت زیادہ آسان.
اس کے لئے اگر الفاظ کی بناوٹ کو پہلے سکھایا جائے تو یہ علم انتہائی آسان ہوگا ورنہ انتہائی مشکل.

اب دیکھیں
تحریر میں جن قوافی کو اچھا قافیہ قرار دیا گیا ہے یعنی ایک سے زیادہ حروف کی مطابقت. اس میں وہ قوافی بھی درست ہوے جن میں ایطائے جلی ہو. مثلاً دھڑکنا اور الجھنا.
مگر ہر ایک جانتا ہے کہ یہ درست نہیں.

سفیدی اور جمالی کو درست قافیہ کی ضمن میں رکھا گیا ہے. مگر حقیقت تو یہ ہے کے یہ قافیہ سرے سے درست ہے ہی نہیں اس میں ایطائے خفی کا عیب پایا جاتا ہے.
لفظ "سفیدی" سفید سے ہے. اور لفظ جمالی جمال سے.
جمالی میں حرف روی لام اور سفیدی میں حرف روی دال ہے. "ی" ان دونوں میں حرف زائد ہے جسے اصطلاح میں حرف وصل کہتے ہیں.
یہ قافیہ درست نہیں
 

انتہا

محفلین
’’شاعری سکھانا‘‘ اور چیز ہے ’’شعر کی فنیات اور بنیادی تصورات سے شناسائی‘‘ اور چیز ہے۔ بنیادی تصورات میں ان کو بتائیے کہ ردیف یہ ہے، قافیہ یہ ہے، لف و نشر یہ ہے، وغیرہ۔ اور شعر کو درست پڑھنا بھی سکھائیے! بچے کو اوزان اور بحور کے چکر میں ڈالے بغیر لفظوں کے ’’اتار چڑھاؤ‘‘ وغیرہ کے حوالے سے بات کی جا سکتی ہے۔

بچوں میں اچھے شعر کا ذوق اجاگر کیجئے، بجائے انہیں شاعری کی تربیت دینے کے۔ اس کو ہم ’’شعر فہمی‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔
ایک بہت اہم بات کہ جب تک بچے کو اچھی نثر کا ادراک نہیں ہوتا اچھے شعر کا ادراک نہیں ہو سکتا۔
یعقوب بھائیۙ! اتنی زیادہ توجہ عنایت فرمانے کا شکریہ،
یہ سلسلہ تو اب گزشتہ دو ماہ شروع ہو چکا ہے اور قارئین کی طرف سے پذیرائی بھی ہے، جن باتوں کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے وہ تمام بہت اہم ہیں اور ان پر مفید مضامین وقتا فوقتا شائع کیے جاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے،
اگر اس اعتبار سے مزید کوئی مفید رائے ہو سکتی ہو تو ضرور ارشاد فرمائیے گا۔
جزاک اللہ خیرا
 

انتہا

محفلین
مزمل شیخ بسمل بھائی، آپ کی مبارک باد اور پذیرائی کا بہت شکریہ۔ آپ کی توجہ سے بڑا فائدہ ہوا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
ذرا اس بات کی وضاحت فرما دیجیے کہ الفاظ کی بناوٹ سے آپ کا کس طرف اشارہ ہے؟
 
مزمل شیخ بسمل بھائی، آپ کی مبارک باد اور پذیرائی کا بہت شکریہ۔ آپ کی توجہ سے بڑا فائدہ ہوا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
ذرا اس بات کی وضاحت فرما دیجیے کہ الفاظ کی بناوٹ سے آپ کا کس طرف اشارہ ہے؟

الفاظ کی بناوٹ سے مراد ہے کہ کونسا لفظ کہاں ختم ہوتا ہے. کس قسم کے الفاظ میں کیا روی ہے اور کیا روی سے زائد ہے.
اوپر تحریر میں یہ بات قابل غور ہے کہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ شاید حرف روی صرف وہ حرف ہے جو قافیہ کے آخر میں آتا ہے. یہی غلط فہمی بہت عام ہے ہمارے شعراء میں. حالانکہ ایسا نہیں. اب اگر ایسا نہیں ہے تو حرف روی کیا ہے؟
یہ سوالیہ نشان الفاظ کی بناوٹ کو سیکھنے کے بعد مٹ جاتا ہے.
ابھی پڑسو فیس بک کی ایک برینڈڈ شاعرہ جو اپنے آپ کو خدائے سخن جانتی ہیں غزل میں چٹختا اور بھٹکتا قافیہ کر گئیں. ہم نے نشاندہی کر دی تو کہنے لگیں کہ یہ تو میں نے اس میں قافیہ کی پابندی ہٹا دی ہے. اب بہکتا, ٹھٹرتا وغیرہ سب قوافی جائز ہو گئے :D

خیر بات یہ تھے چند نشستوں میں الفاظ کی بناوٹ سمجھا دی جائے. یہ کوئی بڑ نہیں. بلکہ دو تین نشستوں کا کام ہے. اسی فن سے سارے عیوب سمجھ آ جاتے ہیں.
ق
 
مزمل شیخ بسمل صاحب کی بات کو تھوڑا سا آگے بڑھاؤں گا۔
علم قوافی فی الواقع ایک مشکل علم ہے۔ سکول اور ابتدائی کالج دور کے بچوں کو یہ سب کچھ بتانا بھی ہے تو ؟
۔۔۔۔۔۔ خاص طور پر قافیے کے حوالے سے جو مثالیں دی جائیں، ان کو ’’یقینی طور پر درست‘‘ ہونا چاہئے، اور ہو سکے تو مثالوں میں اشعار شامل کئے جائیں۔ شعری شعور میں بہتری لانے کے لئے شعر کا مطالعہ ضروری ہے۔ اسباق مرتب کرنے والے دوستوں کی ذمہ داری یہاں بہت کڑی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ کہ جو اسباق یہاں پوسٹ کئے گئے ہیں، وہ پہلے ہی رسالے میں شائع ہو چکے، اب ان پر اگر اعتراض بھی کوئی کرے تو اس سے فائدہ؟ یہ ہونا چاہئے تھا کہ جریدے کے مدیر صاحب پہلے ان مضامین یا اسباق کو کسی استاد بلکہ استادوں کو دکھا لیتے، یا اگر یہاں بھی پیش کئے جاتے تو شائع ہونے سے پہلے!!
اب تو مصنف جانیں اور ان کا کام۔ ویسے سٹائل تو اچھا ہے سمجھانے کا، لیکن خواہ مخواہ کی اصطلاحات کا بھی اضافہ کر دیا ہے، مثلإً قوافی۔ بہتر،درست، اچھے؟؟ یہ میرے خیال میں یا تو درست ہوتے ہیں، یا درست نہیں ہوتے۔ حرف روی کی اصطلاح بھی بتا دی جاتی تو بہتر تھا۔
اور مزید یہ اس کے مصنف کون ہیں؟ اگر سارے اسباق یہاں پوسٹ کئے جائیں تو ای بک بنائی جا سکتی ہے۔
 

انتہا

محفلین
مزمل شیخ بسمل صاحب کی بات کو تھوڑا سا آگے بڑھاؤں گا۔
علم قوافی فی الواقع ایک مشکل علم ہے۔ سکول اور ابتدائی کالج دور کے بچوں کو یہ سب کچھ بتانا بھی ہے تو ؟
۔۔۔ ۔۔۔ خاص طور پر قافیے کے حوالے سے جو مثالیں دی جائیں، ان کو ’’یقینی طور پر درست‘‘ ہونا چاہئے، اور ہو سکے تو مثالوں میں اشعار شامل کئے جائیں۔ شعری شعور میں بہتری لانے کے لئے شعر کا مطالعہ ضروری ہے۔ اسباق مرتب کرنے والے دوستوں کی ذمہ داری یہاں بہت کڑی ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ جو اسباق یہاں پوسٹ کئے گئے ہیں، وہ پہلے ہی رسالے میں شائع ہو چکے، اب ان پر اگر اعتراض بھی کوئی کرے تو اس سے فائدہ؟ یہ ہونا چاہئے تھا کہ جریدے کے مدیر صاحب پہلے ان مضامین یا اسباق کو کسی استاد بلکہ استادوں کو دکھا لیتے، یا اگر یہاں بھی پیش کئے جاتے تو شائع ہونے سے پہلے!!
اب تو مصنف جانیں اور ان کا کام۔ ویسے سٹائل تو اچھا ہے سمجھانے کا، لیکن خواہ مخواہ کی اصطلاحات کا بھی اضافہ کر دیا ہے، مثلإً قوافی۔ بہتر،درست، اچھے؟؟ یہ میرے خیال میں یا تو درست ہوتے ہیں، یا درست نہیں ہوتے۔ حرف روی کی اصطلاح بھی بتا دی جاتی تو بہتر تھا۔
اور مزید یہ اس کے مصنف کون ہیں؟ اگر سارے اسباق یہاں پوسٹ کئے جائیں تو ای بک بنائی جا سکتی ہے۔
ابھی ان تین میں سے دو اسباق شائع کیے گئے ہیں جب کہ تیسرے پر کام جاری ہے۔
یہاں پوسٹ کرنے کا مقصد ہی اساتذہ کی رہنمائی اور ان کی صلاح سے درست اور کھری چیزیں قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے۔ مصنف کا نام بتانے میں تو فی الحال کوئی حرج نہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ اسباق مکمل کرنے کے بعد وہ خود ہی اس کو شائع کرنا چاہتے ہوں، میں پرسوں ان سے پوچھ کر بتا دوں گا۔
تیسر ے سبق میں اساتذہ جو رہ نمائی فرما سکیں ضرور فرمائیں۔
 

انتہا

محفلین
الفاظ کی بناوٹ سے مراد ہے کہ کونسا لفظ کہاں ختم ہوتا ہے. کس قسم کے الفاظ میں کیا روی ہے اور کیا روی سے زائد ہے.
اوپر تحریر میں یہ بات قابل غور ہے کہ پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ شاید حرف روی صرف وہ حرف ہے جو قافیہ کے آخر میں آتا ہے. یہی غلط فہمی بہت عام ہے ہمارے شعراء میں. حالانکہ ایسا نہیں. اب اگر ایسا نہیں ہے تو حرف روی کیا ہے؟
یہ سوالیہ نشان الفاظ کی بناوٹ کو سیکھنے کے بعد مٹ جاتا ہے.
ابھی پڑسو فیس بک کی ایک برینڈڈ شاعرہ جو اپنے آپ کو خدائے سخن جانتی ہیں غزل میں چٹختا اور بھٹکتا قافیہ کر گئیں. ہم نے نشاندہی کر دی تو کہنے لگیں کہ یہ تو میں نے اس میں قافیہ کی پابندی ہٹا دی ہے. اب بہکتا, ٹھٹرتا وغیرہ سب قوافی جائز ہو گئے :D

خیر بات یہ تھے چند نشستوں میں الفاظ کی بناوٹ سمجھا دی جائے. یہ کوئی بڑ نہیں. بلکہ دو تین نشستوں کا کام ہے. اسی فن سے سارے عیوب سمجھ آ جاتے ہیں.
ق
مزمل بھائی، آپ کی وضاحتوں سے الحمدللہ بہت فائدہ ہوتا ہے، میں خود اس فن میں طفل مکتب ہوں اور اسے سیکھنے کا خواہش مند ہوں، اپنے شاعر دوست کی بھی اسی لیے حوصلہ افزائی بھی کی، وہ خود بھی تحقیقی کام کرنے کا بہت جذبہ رکھتے ہیں، لیکن ابھی کیوں کہ بہت ساری چیزیں انھیں بھی واضح نہیں اس لیے رہنمائی چاہتے ہیں۔
 
Top