بول تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
السلام علیکم
یاد تو آپ سب کو بھی ہو گا کہ دو ماہ پہلے شہد کی مکھیوں نے جو ہم سے نفرت کا اظہار کیا اور کئی دنوں کے لئے ہسپتال پہنچا دیا۔ دعائیں اور دوائیں واپس محفل میں لے آئیں۔
بارہا پوچھا گیا ہم سے کہ مکھیوں کے چھتے میں کیوں گھسیں؟
یہ ایک الگ کہانی ہے جس کو لکھتے ہوئے ڈنک لگنے کی تکلیف تازہ ہو جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی ان دنوں میں (صحتیابی کی طرف لوٹتے) ہمیں گھر والوں اور باقی اپنوں کی طرف سے جو جلی کٹی نصیحتیں اور کمنٹس ملے، وہ دل جلانے والے تھے۔ لکھنے میں وہ سب یاد آ جاتا ہے۔ اس کے بعد تحائف بھی ویسے ہی ملے۔ یعنی کہ ہمارے آس پاس اب مکھیاں ہی مکھیاں ہیں۔
الف عین استادِ محترم نے کہا تھا کہ گُل ذرا ہمیں بھی اس مکھی کی شکل دکھانا جس نے تمہیں کاٹنے کی جرات کی۔ تو بس اپنی یاداشت کا سہارا لے کر اس کی شکل بنائی تو ہے مگر۔۔۔
مگر یہ کہ ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اس کے پر نہیں بنائے۔ ایسا نہیں کہ دل نہیں چاہا بنانے کو، مگر تھوڑی سختی کر کے اسے سمجھانا تو چاہئیے نا کہ کسی معصوم کو ڈنک نہیں مارتے۔ تکلیف ہوتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایسا کرو کہ اب رائے لے لو سب سے کہ اس کے پر اسے لوٹائے جائیں یا یونہی پر کٹی معذوری کے ساتھ ظالم دنیا کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا جائے ۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ارے بھئی آپ گل ہو، ہوسکتا ہے وہ بچاری بس رس لینے آئی ہو:D
بیچاری نہیں تھی، بیچاریاں تھیں۔ ان گنت۔ ہمیں تو لگا تھا کہ جیسے سوکھے پتے ایک دم سے اڑے ہوں براؤن براؤن سے۔ معلوم تو تب پڑا جب :cry:
محمد عبدالرؤوف بھیا تو کہتے ہیں کہ ہم سے زہر ری فل کروانے آئی تھیں۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ایسا کرو کہ اب رائے لے لو سب سے کہ اس کے پر اسے لوٹائے جائیں یا یونہی پر کٹی معذوری کے ساتھ ظالم دنیا کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا جائے ۔
جب تک اسے معلوم نہ پڑے گا کہ
ظالماں دے ظلم دی اخیر ہوندی ٹھاہ
تب تک باقیوں کی رائے بھی لیتے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔
عاطف بھیا ۔۔ کیا ایک بار پھر سے ہمیں دہشت گرد، بات بات پہ تلوار اٹھانے والی تو نہ سمجھا جائے گا۔ ویسے یہاں تلوار کا تو کوئی کام ہی نہیں،
 

علی وقار

محفلین
السلام علیکم
یاد تو آپ سب کو بھی ہو گا کہ دو ماہ پہلے شہد کی مکھیوں نے جو ہم سے نفرت کا اظہار کیا اور کئی دنوں کے لئے ہسپتال پہنچا دیا۔ دعائیں اور دوائیں واپس محفل میں لے آئیں۔
بارہا پوچھا گیا ہم سے کہ مکھیوں کے چھتے میں کیوں گھسیں؟
یہ ایک الگ کہانی ہے جس کو لکھتے ہوئے ڈنک لگنے کی تکلیف تازہ ہو جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی ان دنوں میں (صحتیابی کی طرف لوٹتے) ہمیں گھر والوں اور باقی اپنوں کی طرف سے جو جلی کٹی نصیحتیں اور کمنٹس ملے، وہ دل جلانے والے تھے۔ لکھنے میں وہ سب یاد آ جاتا ہے۔ اس کے بعد تحائف بھی ویسے ہی ملے۔ یعنی کہ ہمارے آس پاس اب مکھیاں ہی مکھیاں ہیں۔
الف عین استادِ محترم نے کہا تھا کہ گُل ذرا ہمیں بھی اس مکھی کی شکل دکھانا جس نے تمہیں کاٹنے کی جرات کی۔ تو بس اپنی یاداشت کا سہارا لے کر اس کی شکل بنائی تو ہے مگر۔۔۔
مگر یہ کہ ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اس کے پر نہیں بنائے۔ ایسا نہیں کہ دل نہیں چاہا بنانے کو، مگر تھوڑی سختی کر کے اسے سمجھانا تو چاہئیے نا کہ کسی معصوم کو ڈنک نہیں مارتے۔ تکلیف ہوتی ہے۔
ایک لطیفہ یاد آ گیا،
ٹریفک کانسٹیبل (خاتون سے):”محترمہ! جس کار نے آپ کو ٹکر ماری تھی آپ نے اس کا نمبر تو دیکھا ہو گا؟“۔ خاتون (سوچتے ہوئے):”نہیں، میں نے اس کا نمبر تو نہیں دیکھا البتہ اُس کار میں ایک اسمارٹ سی عورت بیٹھی تھی جس نے پنک کلرکا سوٹ پہنا ہوا تھا جس کا کپڑا پانچ سو روپے میٹر والا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ایک رِنگ تھی جس میں نقلی ہیرا لگا ہوا تھا اور بالوں میں ایک کلپ تھا جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا“۔
 

سید عمران

محفلین
میں سوچ رہا تھا کہ گِل کب سے میٹھی ہونے لگی بچپن میں ایک آدھ بار کھائی ہو گی لیکن یاد نہیں کہ میٹھی ہو۔۔۔۔ 🙃😊
اس پر ہم کمنٹس کرنے ہی والے تھے. کہ یہ سوچ کر رک گئے پرائی اوکھلی میں اپنا ذاتی سر کیوں دیں...
اپنی اپنی اوکھلی اپنا اپنا سر!!!
 

وجی

لائبریرین
السلام علیکم
یاد تو آپ سب کو بھی ہو گا کہ دو ماہ پہلے شہد کی مکھیوں نے جو ہم سے نفرت کا اظہار کیا اور کئی دنوں کے لئے ہسپتال پہنچا دیا۔ دعائیں اور دوائیں واپس محفل میں لے آئیں۔
بارہا پوچھا گیا ہم سے کہ مکھیوں کے چھتے میں کیوں گھسیں؟
یہ ایک الگ کہانی ہے جس کو لکھتے ہوئے ڈنک لگنے کی تکلیف تازہ ہو جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی ان دنوں میں (صحتیابی کی طرف لوٹتے) ہمیں گھر والوں اور باقی اپنوں کی طرف سے جو جلی کٹی نصیحتیں اور کمنٹس ملے، وہ دل جلانے والے تھے۔ لکھنے میں وہ سب یاد آ جاتا ہے۔ اس کے بعد تحائف بھی ویسے ہی ملے۔ یعنی کہ ہمارے آس پاس اب مکھیاں ہی مکھیاں ہیں۔
الف عین استادِ محترم نے کہا تھا کہ گُل ذرا ہمیں بھی اس مکھی کی شکل دکھانا جس نے تمہیں کاٹنے کی جرات کی۔ تو بس اپنی یاداشت کا سہارا لے کر اس کی شکل بنائی تو ہے مگر۔۔۔
مگر یہ کہ ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اس کے پر نہیں بنائے۔ ایسا نہیں کہ دل نہیں چاہا بنانے کو، مگر تھوڑی سختی کر کے اسے سمجھانا تو چاہئیے نا کہ کسی معصوم کو ڈنک نہیں مارتے۔ تکلیف ہوتی ہے۔
ڈنگ بنانا بھول گئیں آپ یا پھر ڈر کی وجہ سے نہیں بنایا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ایک لطیفہ یاد آ گیا،
ٹریفک کانسٹیبل (خاتون سے):”محترمہ! جس کار نے آپ کو ٹکر ماری تھی آپ نے اس کا نمبر تو دیکھا ہو گا؟“۔ خاتون (سوچتے ہوئے):”نہیں، میں نے اس کا نمبر تو نہیں دیکھا البتہ اُس کار میں ایک اسمارٹ سی عورت بیٹھی تھی جس نے پنک کلرکا سوٹ پہنا ہوا تھا جس کا کپڑا پانچ سو روپے میٹر والا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں ایک رِنگ تھی جس میں نقلی ہیرا لگا ہوا تھا اور بالوں میں ایک کلپ تھا جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا“۔
ہم نے اس کے پر دیکھے تھے کہ کیسے ہیں۔ مگر جان بوجھ کر نہیں بنائے۔
 
Top