مصطفیٰ زیدی بزم میں باعثِ تاخیر ہوا کرتے تھے ۔ مصطفیٰ زیدی

فاتح

لائبریرین
بزم میں باعثِ تاخیر ہوا کرتے تھے
ہم کبھی تیرے عناں گیر ہوا کرتے تھے​
ہائے اب بھول گیا رنگِ حنا بھی تیرا
خط کبھی خون سے تحریر ہوا کرتے تھے​

کوئی تو بھید ہے اس طور کی خاموشی میں
ورنہ ہم حاصلِ تقریر ہوا کرتے تھے​

ہجر کا لطف بھی باقی نہیں، اے موسِمِ عقل!
اُن دنوں نالۂ شب گیر ہوا کرتے تھے​

اُن دنوں دشت نوردی میں مزا آتا تھا
پاؤں میں حلقۂ زنجیر ہوا کرتے تھے​

خواب میں تجھ سے ملاقات رہا کرتی تھی
خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کرتے تھے​

تیرے الطاف و عنایت کی نہ تھی حد ورنہ
ہم تو تقصیر ہی تقصیر ہوا کرتے تھے​

شاعر: مصطفیٰ زیدی​
مجموعۂ کلام: گریبان​
 

فاتح

لائبریرین
مصطفیٰ زیدی کا مجموعۂ کلام "گریبان" 1964 میں طبع ہوا، جس میں یہ غزل درج بالا شکل میں موجود تھی۔ بعد ازاں 1967 میں آپ کا مجموعۂ کلام قبائے ساز شائع ہوا اور اس میں مذکورہ غزل چند تبدیلیوں کے ساتھ چھپی۔ جو درج ذیل ہے:

بزم میں باعثِ تاخیر ہوا کرتے تھے
ہم کبھی تیرے عناں گیر ہوا کرتے تھے

اے کہ اب بھول گیا رنگِ حنا بھی تیرا
خط کبھی خون سے تحریر ہوا کرتے تھے

سایۂ زلف میں ہر رات کو سو تاج محل​
میرے انفاس میں تعمیر ہوا کرتے تھے​
ہجر کا لطف بھی باقی نہیں، اے موسِمِ عقل!
اُن دنوں نالۂ شب گیر ہوا کرتے تھے

اُن دنوں دشت نوردی میں مزا آتا تھا
پاؤں میں حلقۂ زنجیر ہوا کرتے تھے

خواب میں تجھ سے ملاقات رہا کرتی تھی
خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کرتے تھے

وہ کہ احسان ہی احسان نظر آتا تھا​
ہم کہ تقصیر ہی تقصیر ہوا کرتے تھے

شاعر: مصطفیٰ زیدی
مجموعۂ کلام: قبائے ساز​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وہ کہ احسان ہی احسان نظر آتا تھا​
ہم کہ تقصیر ہی تقصیر ہوا کرتے تھے​
اس کا آخری شعر مجھے اوپر والی غزل سے زیادہ اچھا لگا،​
فاتح بھائی آپ کا شکریہ، آپ نے دونوں کتابوں کا حوالہ دیا اور معلومات میں اضافہ کیا۔​
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے دونوں ورژن ہی خوب ہیں ۔

لیکن دوسرا شعر پہلے والا ہی زیادہ اچھا لگ رہا ہے ۔ شاید بے ساختگی کی وجہ سے۔
 
بزم میں باعثِ تاخیر ہوا کرتے تھے
ہم کبھی تیرے عناں گیر ہوا کرتے تھے

اے کہ اب بھول گیا رنگِ حنا بھی تیرا
خط کبھی خون سے تحریر ہوا کرتے تھے

سایۂ زلف میں ہر رات کو سو تاج محل
میرے انفاس میں تعمیر ہوا کرتے تھے

ہجر کا لطف بھی باقی نہیں، اے موسِمِ عقل!
اُن دنوں نالۂ شب گیر ہوا کرتے تھے

اُن دنوں دشت نوردی میں مزا آتا تھا
پاؤں میں حلقۂ زنجیر ہوا کرتے تھے

خواب میں تجھ سے ملاقات رہا کرتی تھی
خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کرتے تھے

وہ کہ احسان ہی احسان نظر آتا تھا
ہم کہ تقصیر ہی تقصیر ہوا کرتے تھے
 
Top