برائے تنقید تبصرہ و اصلاح

میری اپنی ایک غزل ہے، کچھ شعر پیش کرتا ہوں:

پنجۂ زَغ تیز تر، اس شہر کی آب و ہوا سے
جھڑ گئے چڑیوں کے پر، اس شہر کی آب و ہوا سے

توڑ پھینکے پھول بندھن خود پرستی کی ہوا نے
ٹوٹتے جاتے ہیں گھر، اس شہر کی آب و ہوا سے

خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جاؤں گر، اس شہر کی آب و ہوا سے​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
بہت آداب
بہٹ خوب اشعار ہیں استادِ محترم۔ بہت داد قبول فرمائیے
 
خوشبو کا یہ عالم ہے ترے دیس سے آ کر
چپ چاپ ہے بیٹھی ہوئی گردن کو جھکا کر

کر دیں نہ کہیں راکھ ترے دل کو جلا کر
تنقید فقیروں پہ نہ اے یار کیا کر۔۔۔ ۔۔

تشریف وہ لائے مری تربت پہ تو بولے
اب کے ہیں بہت خوش تمہیں مٹی میں ملا کر

آنکھوں کو رلانے کا رواج اب بھی ہے قائم
دیکھو تو سہی دل کبھی یادوں سے لگا کر

پھر ساغر و مینا کی تمنا نہ کریں گے
اک جام پلائے کوئی گر آنکھ ملا کر
کیا بات ہے جناب۔ بہت داد قبول فرمائیے۔
 
استاد ِمحترم محمد یعقوب آسی صاحب کچھ رد و بدل کیا ہے اس غزل میں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اب ذرا ایک نظر دیکھ لیں تو عنایت ہو گی ۔۔۔ ۔

خوشبو کا یہ عالم ہے ترے دیس سے آ کر
چپ چاپ ہے بیٹھی ہوئی گردن کو جھکا کر

کر دیں نہ کہیں راکھ ترے دل کو جلا کر
تنقید فقیروں پہ نہ اے یار کیا کر۔۔۔ ۔۔

تشریف وہ لائے مری تربت پہ تو بولے
اب کے ہیں بہت خوش تمہیں مٹی میں ملا کر

آنکھوں کو رلانے کا رواج اب بھی ہے قائم
دیکھو تو سہی دل کبھی یادوں سے لگا کر

پھر ساغر و مینا کی تمنا نہ کریں گے
اک جام پلائے کوئی گر آنکھ ملا کر

اک جام پلا دے جو کوئی آنکھ ملا کر
خاصی بہتری آئی ہے جناب! بہت اچھے۔ اس کو پھر بھی دیکھتے رہئے گا۔ ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی نظم غزل مضمون کہانی کے ساتھ کچھ وقت گزارئیے، یعنی اس کو بار بار تنقیدی نظر سے دیکھئے۔ آپ کو ہر بار کچھ نہ کچھ سوجھے گا کہ اگر یوں ہو تو کیسا ہو! ایسے خیالوں کو اہمیت دیا کیجئے اور اپنی کاوش میں ترمیم کرتے رہا کیجئے۔ میرے دوست ڈاکٹر رؤف امیر کے الفاظ میں ’’پالش کرتے رہئے‘‘۔

جناب الف عین کو زحمت دیجئے کہ اس کو ایک بار دیکھ کر کوئی مناسب ہدایت فرمائیں۔
 

مانی عباسی

محفلین
اک جام پلا دے جو کوئی آنکھ ملا کر
خاصی بہتری آئی ہے جناب! بہت اچھے۔ اس کو پھر بھی دیکھتے رہئے گا۔ ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی نظم غزل مضمون کہانی کے ساتھ کچھ وقت گزارئیے، یعنی اس کو بار بار تنقیدی نظر سے دیکھئے۔ آپ کو ہر بار کچھ نہ کچھ سوجھے گا کہ اگر یوں ہو تو کیسا ہو! ایسے خیالوں کو اہمیت دیا کیجئے اور اپنی کاوش میں ترمیم کرتے رہا کیجئے۔ میرے دوست ڈاکٹر رؤف امیر کے الفاظ میں ’’پالش کرتے رہئے‘‘۔

جناب الف عین کو زحمت دیجئے کہ اس کو ایک بار دیکھ کر کوئی مناسب ہدایت فرمائیں۔
بہتری تو سر آپکی وجہ سے ہی آئی ہے ۔۔۔۔شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ "وقت" گزرتا ہوں اس کے ساتھ اب میں آپکے مشورے کے مطابق.۔۔۔۔۔۔ استاد الف عین صاحب نے آپکے مشوروں کو کافی کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بہتری تو سر آپکی وجہ سے ہی آئی ہے ۔۔۔ ۔شکریہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ کچھ "وقت" گزرتا ہوں اس کے ساتھ اب میں آپکے مشورے کے مطابق.۔۔۔ ۔۔۔ استاد الف عین صاحب نے آپکے مشوروں کو کافی کہا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

میرا مطلب ہے کہ ان ترامیم کے بعد کی صورت پر جناب الف عین کی رائے لے لیجئے گا۔ اُن کا مزاج معلمانہ ہے، وہ کوئی نہ کوئی اچھی بات بتائیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
ترمیم شدہ پر میری رائے

خوشبو کا یہ عالم ہے ترے دیس سے آ کر
چپ چاپ ہے بیٹھی ہوئی گردن کو جھکا کر
÷÷گردن کو جھکا کر نہیں کہا جاتا، محض گردن جھکا کر محاورہ ہے، ’ہے بیٹھی ہوئی‘ بھی اچھا نہیں لگتا۔

کر دیں نہ کہیں راکھ ترے دل کو جلا کر
تنقید فقیروں پہ نہ اے یار کیا کر۔۔۔ ۔۔
÷÷شعر دو لخت محسوس ہوتا ہے

تشریف وہ لائے مری تربت پہ تو بولے
اب کے ہیں بہت خوش تمہیں مٹی میں ملا کر
÷÷انداز بیان میں چستی اور روانی نہیں ہے

آنکھوں کو رلانے کا رواج اب بھی ہے قائم
دیکھو تو سہی دل کبھی یادوں سے لگا کر
÷÷اگر دونوں مرعوں میں کچھ ربط ہے تو میں سمجھنے سے قاصر ہوں

پھر ساغر و مینا کی تمنا نہ کریں گے
اک جام پلائے کوئی گر آنکھ ملا کر
’گر آںکھ ملا کر‘ اچھا نہیں لگ رہا، اس مصرع کو یوں کر دیں تو بہتری آ سکتی ہے
اک جام پلا دے جو کوئی آنکھ ملا کر
 

مانی عباسی

محفلین
ترمیم شدہ پر میری رائے

خوشبو کا یہ عالم ہے ترے دیس سے آ کر
چپ چاپ ہے بیٹھی ہوئی گردن کو جھکا کر
÷÷گردن کو جھکا کر نہیں کہا جاتا، محض گردن جھکا کر محاورہ ہے، ’ہے بیٹھی ہوئی‘ بھی اچھا نہیں لگتا۔

کر دیں نہ کہیں راکھ ترے دل کو جلا کر
تنقید فقیروں پہ نہ اے یار کیا کر۔۔۔ ۔۔
÷÷شعر دو لخت محسوس ہوتا ہے

تشریف وہ لائے مری تربت پہ تو بولے
اب کے ہیں بہت خوش تمہیں مٹی میں ملا کر
÷÷انداز بیان میں چستی اور روانی نہیں ہے

آنکھوں کو رلانے کا رواج اب بھی ہے قائم
دیکھو تو سہی دل کبھی یادوں سے لگا کر
÷÷اگر دونوں مرعوں میں کچھ ربط ہے تو میں سمجھنے سے قاصر ہوں

پھر ساغر و مینا کی تمنا نہ کریں گے
اک جام پلائے کوئی گر آنکھ ملا کر
’گر آںکھ ملا کر‘ اچھا نہیں لگ رہا، اس مصرع کو یوں کر دیں تو بہتری آ سکتی ہے
اک جام پلا دے جو کوئی آنکھ ملا کر
'

لگتا ہے یہ غزل ہی ختم کر دوں ہے اب میں۔ اپنے ریکارڈ سے.۔۔۔۔۔۔۔۔بہت بری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
بہت اچھا تبصرہ ہے۔ایک سوال ابھر رہا ہے ۔محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔
پہلا مصرع میرے خیال میں بہت اور تجھ کے درمیان اتنا لڑکھڑا رہا ہےکہ بحر کے وزن کی جائز حدود میں ہی نہیں آرہا۔ البتہ دوسرے میں ثقالت واقعی ہے۔
اس بحر میں آپ نے آخری حصہ فعولن کے متبادل کے طور پر مفاعیل کو جائز کہا ہے۔جو بحر کے آہنگ اور لچک سے بالکل درست لگ رہا ہے۔۔۔ اسی طرح اگر یہاں فاعلن (اور فاعلات) استعمال کیا جائے تو کیا بحر اجازت دے گی ؟ ۔۔۔ میرے ذاتی خیال میں فاعلن اور فاعلات بھی بحر کی جائز حدود میں آئیں گے۔آپ کی رائے یہاں بہت قیمتی ہوگی۔

بہت شکریہ سید صاحب۔ فاعلن فاعلات یا فاعلان کے حوالے سے ایک مزاحیہ قطعہ یاد آیا اس کی بحر رمل مسدس مقصور و محذوف ہے
ایک دن بیوی نے شاعر سے کہا
کچھ نہیں کھانے کو گھر میں آج رات
وجد میں آ کر یہ فرمانے لگے
فاعلاتن فاعلاتن فاعلات​

۔۔۔۔
 
Top