برائے تنقید تبصرہ و اصلاح

مانی عباسی

محفلین

خوشبو کا یہ عالم ہے ترے دیس سے آ کر
چپ چاپ ہے بیٹھی ہوئی چہرے کو چھپا کر

کر دیں نہ کہیں خاک ترے دل کو جلا کر
معیوب فقیروں کو نہ اے یار کہا کر

تشریف وہ لائے میری تربت پے تو بولے
ہوں خوش بہت تجھکو میں مٹی میں ملا کر

آنکھوں کو رلانے کا رواج اب بھی ہے قائم
یادوں سے کسی کی تو بھی دل دیکھ لگا کر

پھر ساغر و مینا کی تمنا نہ کریں گے
اک جام پلائے کوئی گر آنکھ ملا کر

انصافِ محبت کا تقاضا ہے یہ مانی
کرتا ہے وفا تجھ سے جو توُ اس سے وفا کر

مانی
 
آخری تدوین:

خوشبو کا یہ عالم ہے ترے دیس سے آ کر
چپ چاپ ہے بیٹھی ہوئی چہرے کو چھپا کر

کر دیں نہ کہیں خاک ترے دل کو جلا کر
معیوب فقیروں کو نہ اے یار کہا کر

تشریف وہ لائے میری تربت پے تو بولے
ہوں خوش بہت تجھکو میں مٹی میں ملا کر

آنکھوں کو رلانے کا رواج اب بھی ہے قائم
یادوں سے کسی کی تو بھی دل دیکھ لگا کر

پھر ساغر و مینا کی تمنا نہ کریں گے
اک جام پلائے کوئی گر آنکھ ملا کر

انصافِ محبت کا تقاضا ہے یہ مانی
کرتا ہے وفا تجھ سے جو توُ اس سے وفا کر

مانی

خوشبو کا یہ عالم ہے ترے دیس سے آ کر
چپ چاپ ہے بیٹھی ہوئی چہرے کو چھپا کر

کر دیں نہ کہیں خاک ترے دل کو جلا کر
معیوب فقیروں کو نہ اے یار کہا کر

تشریف وہ لائے میری تربت پے تو بولے
ہوں خوش بہت تجھکو میں مٹی میں ملا کر

آنکھوں کو رلانے کا رواج اب بھی ہے قائم
یادوں سے کسی کی تو بھی دل دیکھ لگا کر

پھر ساغر و مینا کی تمنا نہ کریں گے
اک جام پلائے کوئی گر آنکھ ملا کر

انصافِ محبت کا تقاضا ہے یہ مانی
کرتا ہے وفا تجھ سے جو توُ اس سے وفا کر

مانی
beautifull
 

عمر سیف

محفلین

خوشبو کا یہ عالم ہے ترے دیس سے آ کر
چپ چاپ ہے بیٹھی ہوئی چہرے کو چھپا کر

کر دیں نہ کہیں خاک ترے دل کو جلا کر
معیوب فقیروں کو نہ اے یار کہا کر

تشریف وہ لائے میری تربت پے تو بولے
ہوں خوش بہت تجھکو میں مٹی میں ملا کر

آنکھوں کو رلانے کا رواج اب بھی ہے قائم
یادوں سے کسی کی تو بھی دل دیکھ لگا کر

پھر ساغر و مینا کی تمنا نہ کریں گے
اک جام پلائے کوئی گر آنکھ ملا کر

انصافِ محبت کا تقاضا ہے یہ مانی
کرتا ہے وفا تجھ سے جو توُ اس سے وفا کر

مانی
اچھا ہے
باقی تبصرے استاد لوگ کریں گے
الف عین چاچو
محمد یعقوب آسی سر
 
آخری تدوین:
جناب عمر سیف صاحب کی خواہش کا احترام لازم ہے۔ ملی جلی اور عمومی سی بات کروں گا۔ جناب مانی عباسی کے لئے اشارے ہی کافی ہوں گے۔

’’چہرے کو چھپانا‘‘ خلافِ محاورہ نہیں کیا؟ جناب محمد وارث ۔ ’’چہرہ چھپانا‘‘ مانوس ہے۔
کسی بات کو، عمل کو، مظہر کو ’’معیوب سمجھا جاتا ہے‘‘ یا ’’معیوب قرار دیا جاتا ہے‘‘، کسی شخص کو نہیں۔ ’’معیوب کہنا‘‘ بھی مجھے تو محاورہ کے خلاف لگتا ہے، ’’برا کہنا‘‘ البتہ معروف ہے۔ ’’معیوب کہنا‘‘ کے ایک اور معنی البتہ نکلتے ہیں: ’’معیوب بات کرنا‘‘ جیسے سچ کہنا، جھوٹ کہنا وغیرہ۔
پہ، نہ، کہ ۔۔۔ ان لفظوں کے ہجوں کا آج کل بالکل خیال نہیں رکھا جاتا، اور گراں گزرتا ہے۔ میں دوستوں سے اکثر یہ درخواست بھی کیا کرتا ہوں کہ الفاظ کو بلاضرورت نہ جوڑا کریں۔ کمپیوٹر کے اس زمانے میں ہر لفظ کی انفرادی املاء کی اہمیت ہمارے وقتوں سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔
آنکھوں کو رلانا؟ رلانا اپنی جگہ بہت کافی ہے۔ ہر وقت رلانا، بہت زیادہ رلانا؛ اگر ایسی کوئی بات بنا لی جائے تو بہت ہو گا۔ اور کسی کی یادوں سے دل لگانا؟ کسی سے دل لگانا یا کسی کی یادوں کو دل میں بسانا معروف ہیں۔
تقاضا تو محبت کا ہو گا، انصافِ محبت کا کیوں کر ہو گا یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔اور پھر محبت اور وفا تو اپنی جگہ خلوص کے متقاضی ہیں ان میں اگر کوئی وفا کرے تو وفا کر جیسی شرط کا کوئی جواز تو نہیں بنتا۔

باقی، بھائی شاعر پر منحصر ہے وہ کیا کہنا چاہتا ہے اور کس طور کہنا چاہتا ہے۔

برائے توجہ:
جناب الف عین ، جناب محمد خلیل الرحمٰن ، جناب محمد اسامہ سَرسَری ، جناب سید ناصر شہزاد ، جناب سید زبیر ، جناب مزمل شیخ بسمل اور دیگر اہلِ نظر
 
آخری تدوین:
شعر میں دیگر جملہ امور کی اہمیت بجا! زبان، محاورے اور روزمرے کی صحت اول ملحوظ رکھنی ہوتی ہے۔ صنائع بدائع، نظائر، علامات، استعارہ اور تلمیح؛ ان سب کا دار و مدار زبان پر ہے۔ اور ایک اہم تر بات یہ ہے کہ شعر جلد یاد ہو جاتا ہے بہ نسبت نثر کے اور کل میرا، آپ کا، اور ہمارے دوستوں کا شعر حوالے کے طور پر بھی پیش ہو سکتا ہے (ایسا بعید نہیں) سو ہمیں زبان اور املاء دونوں کی صحت کو اہمیت دینی ہو گی۔

جناب مانی عباسی ، جناب محمد اسامہ سَرسَری ، جناب محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر اہلِ فکر و نظر
 
جناب عمر سیف ، جناب مزمل شیخ بسمل اور جناب سید ذیشان
میں نے اس فن پارے کی بحر متعین کی ہے: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن (آخری فعولن کے مقابل مفاعیل آ سکتا ہے)۔

مندرجہ ذیل مصرعوں میں گنجائش ہے:
ہوں خوش بہت تجھکو میں مٹی میں ملا کر
یادوں سے کسی کی تو بھی دل دیکھ لگا کر
اس میں الفاظ کی نشست و برخاست ثقالت پیدا کر رہی ہے۔ ممکنہ طور پر وزن میں ہے۔
بقیہ ٹھیک ہیں یا فوری طور پر کسی فروگزاشت کا احساس نہیں ہو رہا۔
 
تاثر کے حوالے سے ۔۔۔ اس غزل کے شعروں میں وہ ’’چھیڑ دینے والی‘‘ بات نہیں ہے۔ قاری تک مفاہیم پورے پہنچ رہے ہیں محسوسات نہیں پہنچ رہے، حالانکہ سارے اشعار رومان کے حوالے سے ہیں، یہاں ترسیلِ احساس کی اہمیت زیادہ ہونی چاہئے۔

گستاخی معاف جناب مانی عباسی صاحب۔ جناب الف عین میری نسبت کہیں بہترنظر رکھتے ہیں، ان کی رائے ضرور لیجئے گا۔
 

مانی عباسی

محفلین
جناب عمر سیف صاحب کی خواہش کا احترام لازم ہے۔ ملی جلی اور عمومی سی بات کروں گا۔ جناب مانی عباسی کے لئے اشارے ہی کافی ہوں گے۔

’’چہرے کو چھپانا‘‘ خلافِ محاورہ نہیں کیا؟ جناب محمد وارث ۔ ’’چہرہ چھپانا‘‘ مانوس ہے۔
کسی بات کو، عمل کو، مظہر کو ’’معیوب سمجھا جاتا ہے‘‘ یا ’’معیوب قرار دیا جاتا ہے‘‘، کسی شخص کو نہیں۔ ’’معیوب کہنا‘‘ بھی مجھے تو محاورہ کے خلاف لگتا ہے، ’’برا کہنا‘‘ البتہ معروف ہے۔ ’’معیوب کہنا‘‘ کے ایک اور معنی البتہ نکلتے ہیں: ’’معیوب بات کرنا‘‘ جیسے سچ کہنا، جھوٹ کہنا وغیرہ۔
پہ، نہ، کہ ۔۔۔ ان لفظوں کے ہجوں کا آج کل بالکل خیال نہیں رکھا جاتا، اور گراں گزرتا ہے۔ میں دوستوں سے اکثر یہ درخواست بھی کیا کرتا ہوں کہ الفاظ کو بلاضرورت نہ جوڑا کریں۔ کمپیوٹر کے اس زمانے میں ہر لفظ کی انفرادی املاء کی اہمیت ہمارے وقتوں سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔
آنکھوں کو رلانا؟ رلانا اپنی جگہ بہت کافی ہے۔ ہر وقت رلانا، بہت زیادہ رلانا؛ اگر ایسی کوئی بات بنا لی جائے تو بہت ہو گا۔ اور کسی کی یادوں سے دل لگانا؟ کسی سے دل لگانا یا کسی کی یادوں کو دل میں بسانا معروف ہیں۔
تقاضا تو محبت کا ہو گا، انصافِ محبت کا کیوں کر ہو گا یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔اور پھر محبت اور وفا تو اپنی جگہ خلوص کے متقاضی ہیں ان میں اگر کوئی وفا کرے تو وفا کر جیسی شرط کا کوئی جواز تو نہیں بنتا۔

باقی، بھائی شاعر پر منحصر ہے وہ کیا کہنا چاہتا ہے اور کس طور کہنا چاہتا ہے۔
جناب آسی صاحب آپکی اتنی مدلّل اور مفصل تنقید پر مشکور ہوں آپکا.۔۔۔۔۔۔۔اصلاح بھی کر دن اگر ان عیبوں کی تو اور بھی ممنون ہونگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اشارے سمجھ گیا ہوں ویسے کچھ کچھ.۔۔۔۔۔۔:)
 

مانی عباسی

محفلین
تاثر کے حوالے سے ۔۔۔ اس غزل کے شعروں میں وہ ’’چھیڑ دینے والی‘‘ بات نہیں ہے۔ قاری تک مفاہیم پورے پہنچ رہے ہیں محسوسات نہیں پہنچ رہے، حالانکہ سارے اشعار رومان کے حوالے سے ہیں، یہاں ترسیلِ احساس کی اہمیت زیادہ ہونی چاہئے۔

گستاخی معاف جناب مانی عباسی صاحب۔ جناب الف عین میری نسبت کہیں بہترنظر رکھتے ہیں، ان کی رائے ضرور لیجئے گا۔

گستاخی کہاں جناب آپ استاد ہیں جو مرضی کہیں.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپ کی سری تجاویز کو سامنے رکھ کر کچھ رد و بدل کر کے دوبارہ آپ کو زحمت دوں گا.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جناب عمر سیف ، جناب مزمل شیخ بسمل اور جناب سید ذیشان
میں نے اس فن پارے کی بحر متعین کی ہے: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن (آخری فعولن کے مقابل مفاعیل آ سکتا ہے)۔

مندرجہ ذیل مصرعوں میں گنجائش ہے:


ہوں خوش بہت تجھکو میں مٹی میں ملا کر
یادوں سے کسی کی تو بھی دل دیکھ لگا کر

اس میں الفاظ کی نشست و برخاست ثقالت پیدا کر رہی ہے۔ ممکنہ طور پر وزن میں ہے۔
بقیہ ٹھیک ہیں یا فوری طور پر کسی فروگزاشت کا احساس نہیں ہو رہا۔

بہت اچھا تبصرہ ہے۔ایک سوال ابھر رہا ہے ۔محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔
پہلا مصرع میرے خیال میں بہت اور تجھ کے درمیان اتنا لڑکھڑا رہا ہےکہ بحر کے وزن کی جائز حدود میں ہی نہیں آرہا۔ البتہ دوسرے میں ثقالت واقعی ہے۔
اس بحر میں آپ نے آخری حصہ فعولن کے متبادل کے طور پر مفاعیل کو جائز کہا ہے۔جو بحر کے آہنگ اور لچک سے بالکل درست لگ رہا ہے۔۔۔اسی طرح اگر یہاں فاعلن (اور فاعلات) استعمال کیا جائے تو کیا بحر اجازت دے گی ؟ ۔۔۔ میرے ذاتی خیال میں فاعلن اور فاعلات بھی بحر کی جائز حدود میں آئیں گے۔آپ کی رائے یہاں بہت قیمتی ہوگی۔
 
آخری تدوین:
بہت اچھا تبصرہ ہے۔ایک سوال ابھر رہا ہے ۔محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔
پہلا مصرع میرے خیال میں بہت اور تجھ کے درمیان اتنا لڑکھڑا رہا ہےکہ بحر کے وزن کی جائز حدود میں ہی نہیں آرہا۔ البتہ دوسرے میں ثقالت واقعی ہے۔
اس بحر میں آپ نے آخری حصہ فعولن کے متبادل کے طور پر مفاعیل کو جائز کہا ہے۔جو بحر کے آہنگ اور لچک سے بالکل درست لگ رہا ہے۔۔۔ اسی طرح اگر یہاں فاعلن (اور فاعلات) استعمال کیا جائے تو کیا بحر اجازت دے گی ؟ ۔۔۔ میرے ذاتی خیال میں فاعلن اور فاعلات بھی بحر کی جائز حدود میں آئیں گے۔آپ کی رائے یہاں بہت قیمتی ہوگی۔
بہت نوازش، جناب سید عاطف علی صاحب۔ آپ نے میرا حوصلہ بڑھایا۔
فاعلن اور فاعلاتن والی بحور کو دیکھ لیتے ہیں۔
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن (اس کا نام ہے: بحرِ رمل مثمن سالم)۔ اس میں آخری رکن فاعلات بھی ہو سکتا ہے، ایسے میں یہ سالم کی بجائے مقصور کہلائے گی اور سالم اور مقصور بلا اکراہ مقابل آ سکتے ہیں۔ ایک حرف اور کم کر دیجئے ’’فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (بحر رمل مثن محذوف ) اس کے مقابل مقصور آ سکتی ہے، سالم نہیں۔
اسی طرح فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن (بحرمتدارک مثمن سالم)۔ اس کے آخری رکن پر ایک حرف کا اضافہ اس کو فاعلات بنا دے گا۔ اس زحاف کو غالباً ترفیل کہتے ہیں؟ (جناب مزمل شیخ بسمل سے توثیق کرا لیجئے) تو یوں بحر متدارک مثمن مرفول ہوئی، یہ سالم کے مقابل آ سکتی ہے۔
و علٰی ہٰذا القیاس۔

دعاؤں کا طالب ہوں۔
 
جناب آسی صاحب آپکی اتنی مدلّل اور مفصل تنقید پر مشکور ہوں آپکا.۔۔۔ ۔۔۔ ۔اصلاح بھی کر دن اگر ان عیبوں کی تو اور بھی ممنون ہونگا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اشارے سمجھ گیا ہوں ویسے کچھ کچھ.۔۔۔ ۔۔۔ :)

کچھ بات ترجیح کی بھی ہوتی ہے جناب مانی عباسی صاحب ۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں آپ کو مصرع کہہ کر کہوں کہ یہ آپ کا ہوا، چاہے امکان غالب یہی ہو کہ میں اور آپ اپنی اپنی جگہ بعینہٍ وہی متن سوچ رہے ہوں۔ اپنی رائے پوری دیانت داری کے ساتھ پیش کر دی ہے۔
آپ نے بیچ کی بات کو بھی ’’پا لیا، پالیا، پالیا‘‘ (ارشمیدس) تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی!
 
بہت اچھا تبصرہ ہے۔ایک سوال ابھر رہا ہے ۔محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔
پہلا مصرع میرے خیال میں بہت اور تجھ کے درمیان اتنا لڑکھڑا رہا ہےکہ بحر کے وزن کی جائز حدود میں ہی نہیں آرہا۔ البتہ دوسرے میں ثقالت واقعی ہے۔
اس بحر میں آپ نے آخری حصہ فعولن کے متبادل کے طور پر مفاعیل کو جائز کہا ہے۔جو بحر کے آہنگ اور لچک سے بالکل درست لگ رہا ہے۔۔۔ اسی طرح اگر یہاں فاعلن (اور فاعلات) استعمال کیا جائے تو کیا بحر اجازت دے گی ؟ ۔۔۔ میرے ذاتی خیال میں فاعلن اور فاعلات بھی بحر کی جائز حدود میں آئیں گے۔آپ کی رائے یہاں بہت قیمتی ہوگی۔

فاعلن یا فاعلان یا فاعلاتُ اس بحر میں آ ضرور سکتے ہیں۔ لیکن ان کا اس خاص وزن (مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن) کے ساتھ خلط جائز نہیں۔

بہت نوازش، جناب سید عاطف علی صاحب۔ آپ نے میرا حوصلہ بڑھایا۔
فاعلن اور فاعلاتن والی بحور کو دیکھ لیتے ہیں۔
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن (اس کا نام ہے: بحرِ رمل مثمن سالم)۔ اس میں آخری رکن فاعلات بھی ہو سکتا ہے، ایسے میں یہ سالم کی بجائے مقصور کہلائے گی اور سالم اور مقصور بلا اکراہ مقابل آ سکتے ہیں۔ ایک حرف اور کم کر دیجئے ’’فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (بحر رمل مثن محذوف ) اس کے مقابل مقصور آ سکتی ہے، سالم نہیں۔
اسی طرح فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن (بحرمتدارک مثمن سالم)۔ اس کے آخری رکن پر ایک حرف کا اضافہ اس کو فاعلات بنا دے گا۔ اس زحاف کو غالباً ترفیل کہتے ہیں؟ (جناب مزمل شیخ بسمل سے توثیق کرا لیجئے) تو یوں بحر متدارک مثمن مرفول ہوئی، یہ سالم کے مقابل آ سکتی ہے۔
و علٰی ہٰذا القیاس۔

دعاؤں کا طالب ہوں۔

استاد محترم آپ بزرگ ہیں اور مجھ سے زیادہ تجربہ + علم رکھتے ہیں۔ انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ علمِ عروض میں سالم اور مقصور کا خلط کہیں بھی جائز نہیں ہے۔
البتہ سالم اور مسبغ، سالم اور مذال، اور سالم اور مرفل (غیر مروج) کا خلط جائز ہے۔ مجھے آج تک کوئی ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آئی جس میں سالم اور مقصور کا خلط روا رکھا گیا ہو۔ نہ کسی غزل میں، نہ کسی عروضی کی کوئی عبارت۔
مقصور اور محذوف کا خلط جائز اور عام ہے۔ ہم سب ہی استعمال کرتے ہیں۔ تو اس میں کوئی شک نہیں۔
آپ سے وضاحت کا طلبگار ہوں، شاید مجھ سے اس عروضی نکتے کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔

باقی آپ نے میری ناقص توثیق کے لئے مجھے ٹیگ فرمایا ہے تو یہاں اصطلاحی فرق ہے۔ فاعلن سے فاعلان بنانے کا عمل اذالہ کہلاتا ہے اور فاعلن سے فاعلاتن کرنے کا عمل ترفیل کہلاتا ہے۔ اور انہیں حسبِ ترتیب ”مذال“ اور ”مرفّل“ کہتے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت نوازش، جناب سید عاطف علی صاحب۔ آپ نے میرا حوصلہ بڑھایا۔
فاعلن اور فاعلاتن والی بحور کو دیکھ لیتے ہیں۔
(اس کا نام ہے: بحرِ رمل مثمن سالم)۔ اس میں آخری رکن فاعلات بھی ہو سکتا ہے، ایسے میں یہ سالم کی بجائے مقصور کہلائے گی اور سالم اور مقصور بلا اکراہ مقابل آ سکتے ہیں۔ ایک حرف اور کم کر دیجئے ’’فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن (بحر رمل مثن محذوف ) اس کے مقابل مقصور آ سکتی ہے، سالم نہیں۔
اسی طرح فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن (بحرمتدارک مثمن سالم)۔ اس کے آخری رکن پر ایک حرف کا اضافہ اس کو فاعلات بنا دے گا۔ اس زحاف کو غالباً ترفیل کہتے ہیں؟ (جناب مزمل شیخ بسمل سے توثیق کرا لیجئے) تو یوں بحر متدارک مثمن مرفول ہوئی، یہ سالم کے مقابل آ سکتی ہے۔
و علٰی ہٰذا القیاس۔
دعاؤں کا طالب ہوں۔
بہت شکریہ آسی صاحب۔۔۔ ایک اور زحمت کہ یہ ایک آدھ کوئی معروف (یاغیر معروف ) مثال ذہن میں ۔فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن ۔یعنی رمل مثمن سالم کی بہ شرطے کہ آسانی سے میسر ہو تو عنایت فرمائیے گا۔
 
فاعلن یا فاعلان یا فاعلاتُ اس بحر میں آ ضرور سکتے ہیں۔ لیکن ان کا اس خاص وزن (مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن) کے ساتھ خلط جائز نہیں۔



استاد محترم آپ بزرگ ہیں اور مجھ سے زیادہ تجربہ + علم رکھتے ہیں۔ انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ علمِ عروض میں سالم اور مقصور کا خلط کہیں بھی جائز نہیں ہے۔
البتہ سالم اور مسبغ، سالم اور مذال، اور سالم اور مرفل (غیر مروج) کا خلط جائز ہے۔ مجھے آج تک کوئی ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آئی جس میں سالم اور مقصور کا خلط روا رکھا گیا ہو۔ نہ کسی غزل میں، نہ کسی عروضی کی کوئی عبارت۔
مقصور اور محذوف کا خلط جائز اور عام ہے۔ ہم سب ہی استعمال کرتے ہیں۔ تو اس میں کوئی شک نہیں۔
آپ سے وضاحت کا طلبگار ہوں، شاید مجھ سے اس عروضی نکتے کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔

باقی آپ نے میری ناقص توثیق کے لئے مجھے ٹیگ فرمایا ہے تو یہاں اصطلاحی فرق ہے۔ فاعلن سے فاعلان بنانے کا عمل اذالہ کہلاتا ہے اور فاعلن سے فاعلاتن کرنے کا عمل ترفیل کہلاتا ہے۔ اور انہیں حسبِ ترتیب ”مذال“ اور ”مرفّل“ کہتے ہیں۔

تسلیم جناب۔ بات ادھر ادھر ہو گئی۔ تصحیح کے لئے ممنون ہوں۔
میں تو علی الاعلان تسلیم کرتا ہوں کہ عروض کے معاملے میں آپ کی رائے میری نسبت کہیں بہتر اور مدلل ہوا کرتی ہے۔ اسی لئے تقریباً ہر کیس آپ کو ریفر کرتا ہوں۔
بقول شیخ سعدی: ’’بزرگی بہ علم است نہ بہ سال‘‘
 
بہت شکریہ آسی صاحب۔۔۔ ایک اور زحمت کہ یہ ایک آدھ کوئی معروف (یاغیر معروف ) مثال ذہن میں ۔فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن ۔یعنی رمل مثمن سالم کی بہ شرطے کہ آسانی سے میسر ہو تو عنایت فرمائیے گا۔

اس زمین میں بہت شاعری مل سکتی ہے۔ اساتذہ کے دور میں اس بحر کو شاید مقبولیت حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ میری اپنی ایک غزل ہے، کچھ شعر پیش کرتا ہوں:

پنجۂ زَغ تیز تر، اس شہر کی آب و ہوا سے
جھڑ گئے چڑیوں کے پر، اس شہر کی آب و ہوا سے

توڑ پھینکے پھول بندھن خود پرستی کی ہوا نے
ٹوٹتے جاتے ہیں گھر، اس شہر کی آب و ہوا سے

خونِ تازہ بن کے دوڑوں گا بہاروں کی رگوں میں
خاک بھی ہو جاؤں گر، اس شہر کی آب و ہوا سے​
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت آداب
 

مانی عباسی

محفلین
استاد ِمحترم محمد یعقوب آسی صاحب کچھ رد و بدل کیا ہے اس غزل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب ذرا ایک نظر دیکھ لیں تو عنایت ہو گی ۔۔۔۔

خوشبو کا یہ عالم ہے ترے دیس سے آ کر
چپ چاپ ہے بیٹھی ہوئی گردن کو جھکا کر

کر دیں نہ کہیں راکھ ترے دل کو جلا کر
تنقید فقیروں پہ نہ اے یار کیا کر۔۔۔۔۔

تشریف وہ لائے مری تربت پہ تو بولے
اب کے ہیں بہت خوش تمہیں مٹی میں ملا کر

آنکھوں کو رلانے کا رواج اب بھی ہے قائم
دیکھو تو سہی دل کبھی یادوں سے لگا کر

پھر ساغر و مینا کی تمنا نہ کریں گے
اک جام پلائے کوئی گر آنکھ ملا کر
 
Top