برائے اصلاح و تنقید (غزل33)

امان زرگر

محفلین
دل درد کے انوار سے پرنور بہت ہے
افسردہ روی پر بھی جو مسرور بہت ہے

افسوس کہے وعدہ خلاف اس کو زمانہ
دنیا کے رواجوں سے جو مجبور بہت ہے

بڑھ جائے گا غم صبحِ منور کی جھلک سے
قسمت میں ہماری شبِ دیجور بہت ہے

اٹھلا کے چلے بادِ صبا صحنِ چمن میں
نسبت میں گلابوں کی وہ مغرور بہت ہے

آئینِ عنایات بھلا حسن نہ مانے
عشاق کو دیدار کا دستور بہت ہے

وہ پاس رہے اتنا کہیں دل کا مکیں سب
نظروں سے وہ اوجھل سا، لگے دور بہت ہے

اب عشق ترا وار چلے کیسے جہاں میں
دیوانہ سرِ دار وہ منصور بہت ہے
 
افسردہ روی پر بھی جو مسرور بہت ہے
جو یہاں بھرتی کا ہے.
دیدار کا دستور بہت ہے
یہ سمجھ نہیں آیا.
اب عشق ترا وار چلے کیسے جہاں میں
دیوانہ سرِ دار وہ منصور بہت ہے
یہ بھی سمجھ نہیں آیا.
 

امان زرگر

محفلین
دل درد کے انوار سے پرنور بہت ہے
افسردہ روی پر تبھی مسرور بہت ہے
آئینِ عنایات اگر حسن نہ مانے
عشاق کو پھر درد کا دستور بہت ہے
پہنچے نہ اب اس حد پہ کوئی عشق کا مارا
دیوانہ سرِ دار وہ منصور بہت ہے

سر الف عین
سر محمد ریحان قریشی
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو درست ہو گئے ہیں۔ مجھے اس شعر کا بیانیہ سمجھ میں نہیں آیا
وہ پاس رہے اتنا کہیں دل کا مکیں سب
نظروں سے وہ اوجھل سا، لگے دور بہت ہے
۔۔کہیں کی ’ی‘ کا چھوٹی ی کا ہے یا بڑی ے کا؟ محل تو ’ے‘ کا ہے۔ لیکن کوئی مجھ جیسا ناقص العقل چھوٹی ی سے کہیں پڑھے تو؟؟
 

امان زرگر

محفلین
باقی تو درست ہو گئے ہیں۔ مجھے اس شعر کا بیانیہ سمجھ میں نہیں آیا
وہ پاس رہے اتنا کہیں دل کا مکیں سب
نظروں سے وہ اوجھل سا، لگے دور بہت ہے
۔۔کہیں کی ’ی‘ کا چھوٹی ی کا ہے یا بڑی ے کا؟ محل تو ’ے‘ کا ہے۔ لیکن کوئی مجھ جیسا ناقص العقل چھوٹی ی سے کہیں پڑھے تو؟؟
جی سر آپ نے درست فرمایا، اس کا بیانیہ بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 

امان زرگر

محفلین
باقی تو درست ہو گئے ہیں۔ مجھے اس شعر کا بیانیہ سمجھ میں نہیں آیا
وہ پاس رہے اتنا کہیں دل کا مکیں سب
نظروں سے وہ اوجھل سا، لگے دور بہت ہے
۔۔کہیں کی ’ی‘ کا چھوٹی ی کا ہے یا بڑی ے کا؟ محل تو ’ے‘ کا ہے۔ لیکن کوئی مجھ جیسا ناقص العقل چھوٹی ی سے کہیں پڑھے تو؟؟
کہلائے مکیں دل کا رہے پاس وہ اتنا
نظروں سے وہ اوجھل سا لگے دور بہت ہے
پہنچے جنوں کی حد پہ کوئی عشق کا مارا
دیوانہ سرِ دار وہ منصور بہت ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کہلائے مکیں دل کا رہے پاس وہ اتنا
نظروں سے وہ اوجھل سا لگے دور بہت ہے
÷÷÷بات بنی نہیں
پہنچے جنوں کی حد پہ کوئی عشق کا مارا
دیوانہ سرِ دار وہ منصور بہت ہے
۔۔۔نہیں، پہلا مصرع تو وہی بہتر ہے
پہنچے نہ اب اس حد پہ کوئی عشق کا مارا
 

امان زرگر

محفلین
جو دل میں مرے پاس مکیں روز ازل سے
نظروں سے وہ اوجھل سا لگے دور بہت ہے
سر الف عین
اب پہنچے نہ اس حد پہ کوئی عشق کا مارا
دیوانہ سرِ دار وہ منصور بہت ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جو روز ازل سے ہی مرے دل میں مکیں ہے
جیسا صاف مصرع کہنے میں کیا حرج ہے؟
یا ’ہے‘ کا اختتام بدلنا ہو تو
جو روز ازل سے ہی مکیں ہے مرے دل میں
 

امان زرگر

محفلین
اساتذہ کی طرف سے اصلاح کے بعد مکمل غزل پیشِ خدمت ہے۔


دل درد کے انوار سے پرنور بہت ہے
افسردہ روی پر تبھی مسرور بہت ہے

افسوس کہے وعدہ خلاف اس کو زمانہ
دنیا کے رواجوں سے جو مجبور بہت ہے

بڑھ جائے گا غم صبحِ منور کی جھلک سے
قسمت میں ہماری شبِ دیجور بہت ہے

اٹھلا کے چلے بادِ صبا صحنِ چمن میں
نسبت میں گلابوں کی وہ مغرور بہت ہے

آئینِ عنایات اگر حسن نہ مانے
عشاق کو پھر درد کا دستور بہت ہے

جو روزِ ازل سے ہی مکیں ہے مرے دل میں
نظروں سے وہ اوجھل سا لگے دور بہت ہے

اب پہنچے نہ اس حد پہ کوئی عشق کا مارا
دیوانہ سرِ دار وہ منصور بہت ہے
 
آخری تدوین:
Top