ایک پابند نظم بغرضِ اصلاح

احسن مرزا

محفلین
عشق
عشق بیباک نگاہوں کو ردائیں بخشے​
عشق خشبو سا بکھرنے کی ادائیں بخشے​
عشق جذبات کی دولت کو وفائیں بخشے​
عشق صحرا کی تپش میں بھی گھٹائیں بخشے​
عشق بیباک نگاہوں میں نہاں ہوتا ہے​
عشق لپٹا بھی ہو پردوں میں عیاں ہوتا ہے​
عشق شاہوں کو گدائی پہ لگا سکتا ہے​
عشق خوابیدہ نگاہوں کو جگا سکتا ہے​
عشق قسمت کے سفینے کو ڈبا سکتا ہے​
عشق تسخیر جہاں پل میں کرا سکتا ہے​
عشق طاقت کا نشہ چور بھی کرسکتا ہے​
عشق منزل کا نشاں دور بھی کرسکتا ہے​
عشق خاکِ درِ جانانہ بنا کر رکھ دے​
عشق اطفال سا مستانہ بنا کر رکھ دے​
عشق انجام سے بیگانہ بنا کر رکھ دے​
عشق عاقل کو بھی دیوانہ بنا کر رکھ دے​
عشق ہر درد کی شدت کو گھٹا دیتا ہے​
عشق بس اپنی پرستش پہ لگا دیتا ہے​
عشق شہباز کی پرواز اڑائے اکثر​
عشق ظلمت میں نئی شمع جلائے اکثر​
عشق میدان میں بےتیغ لڑائے اکثر​
عشق بگڑی ہوئی تقدیر بنائے اکثر​
عشق آتش کو بھی گلزار بنا سکتا ہے​
عشق عاشق کو سرِ دار بھی لا سکتا ہے​
احسن مرزا
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
داد میری طرف سے بھی قبول کیجئے۔ بہت اچھی نظم ہے۔۔۔ اختلاف ہے تو پرستش والے مصرع سے ہے اور جہاں تک غلبی کا سوال ہے تو جناب من مجھے جو غلطی نظر آئی وہ ڈبا سکتا ہے کی ہے۔۔۔ شاید اسے ڈبو سکتا ہے ہونا چاہئے۔۔۔ اگر میں غلط ہوں تو میری اصلاح کی جائے۔۔۔ شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
عشق بیباک نگاہوں کو ردائیں بخشے
عشق خوشبو سا بکھرنے کی ادائیں بخشے
عشق جذبات کی دولت کو وفائیں بخشے
عشق صحرا کی تپش میں بھی گھٹائیں بخشے
عشق بیباک نگاہوں میں نہاں ہوتا ہے
عشق لپٹا بھی ہو پردوں میں عیاں ہوتا ہے

// کچھ سوال اٹھتے ہیں۔ نگاہوں کی ردائیں کیسی ہوتی ہیں، جذبات کی دولت کو وفائیں کس طرح بخشی جا سکتی ہیں۔ آخری مصرع بہر حال بدلا جا سکتا ہے، اگر باقی تمہارے حساب سے درست بھی مان لئے جائیں تو
اور نہاں پردوں میں ہو بھی تو عیاں ہوتا ہے

عشق شاہوں کو گدائی پہ لگا سکتا ہے
عشق خوابیدہ نگاہوں کو جگا سکتا ہے
عشق قسمت کے سفینے کو ڈبا سکتا ہے
عشق تسخیر جہاں پل میں کرا سکتا ہے
عشق طاقت کا نشہ چور بھی کرسکتا ہے
عشق منزل کا نشاں دور بھی کرسکتا ہے
//پہلے دونوں مصرعوں میں لگا اور جگا قافیہ ایطا پیدا کرتا ہے۔ یہاں فاصلہ کر د، یعنی دوسرے کو چوتھا مصرع بنا دو۔’ڈبا‘ کا قافیہ بلکہ لفظ ہی غلط ہے۔ صحیح ’ڈبو‘ ہے۔ پھر ٹیپ کے مصرعوں میں دوبارہ ’سکتا ہے‘ کا استعمال بھی احسن نہیں۔ اس بند کی اصلاح نہیں کر رہا ہوں فی الحال

عشق خاکِ درِ جانانہ بنا کر رکھ دے
عشق اطفال سا مستانہ بنا کر رکھ دے
عشق انجام سے بیگانہ بنا کر رکھ دے
عشق عاقل کو بھی دیوانہ بنا کر رکھ دے
عشق ہر درد کی شدت کو گھٹا دیتا ہے
عشق بس اپنی پرستش پہ لگا دیتا ہے
//خاک در جانانہ کس کو بنا کر رکھ دے؟
باقی مصرع درست ہیں۔

عشق شہباز کی پرواز اڑائے اکثر
عشق ظلمت میں نئی شمع جلائے اکثر
عشق میدان میں بےتیغ لڑائے اکثر
عشق بگڑی ہوئی تقدیر بنائے اکثر
عشق آتش کو بھی گلزار بنا سکتا ہے
عشق عاشق کو سرِ دار بھی لا سکتا ہے
//پرواز اڑائے‘ سے مراد؟ اس کے علاوہ ’نئی‘ شمع کی ضرورت؟ باقی درست
 
Top