اگر کہیں ہوتا یہ غیر اللہ کی طرف سے تو ضرور پاتے یہ اس میں -- اختلافاَ كثيراً

برادر من محمود احمد غزنوی، سلام علیکم

آپ نے جو وضاحت کی ہے وہ بالکل درست ہے کہ قرآن میں کوئی حکم کینسل نہیں ہوا۔ لیکن شاید الفاظ (ناسخ و منسوخ) کا انتخاب اتبا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے کسی بھی حکم کو منسوخ شدہ سمجھنا اس حکم سے انکار ہے۔ جو [ayah]2:99[/ayah] کے مطابق اللہ تعالی کی نافرمانی ہے۔ آپ سکون سے درج ذیل معلومات کو دیکھئے۔ میں نے اللہ کے فرمان ، قرآن حکیم کو ایک ترتیب سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔


رسول اکرم کی زندگی سے جس مثال کو میں نے ایک حکم کی تکمیل کے ضمن میں فراہم کیا تھا وہ کسی حکم کے منسوخ ہونے کی مثال نہیں‌ہے۔ بلکہ حکم کے تکمیل کی مثال ہے۔ مسلمانوں کے لئے قرآن حکیم کے فراہم کردہ احکامات میں کوئی حکم منسوخ‌نہیں ہوا۔ ایک کام کرنے کا حکم دینا اور کام مکمل ہونے پر یہ بتا دینا کہ اب یہ کام مکمل ہوگیا ہے مزید اس پر کچھ کرنے کی ضرورت نہیں کسی طور بھی ایک حکم کی تنسیخ‌ یا اس کا منسوخ ہونا تصور نہیں‌کیا جاتا۔


یہی وجہ ہے کہ ساسخ و تنسیخ کی کتب میں یہ دو آیات جن کی میں‌نے مثال دی نہیں ملتی ہیں۔

ناسخ و تنسیخ کا فلسفہ خصوصی طور پر اس لئے ایجاد کیا کہ یہ بتایا جاسکے کہ اللہ تعالی کے فرمان، قرآن کی آیات کے احکامات ایک دوسرے کی تنسیخ‌کرتے ہیں۔ اس تنسیخ کے عمل میں جس میں آیات و روایات دونوں‌شامل ہیں۔ اس کا واحد مقصد اللہ تعالی کو نعوذ باللہ ایک انسان جیسی عقل والا ثابت کرنا ہے کہ یا تو اللہ تعالی سے (نعوذ باللہ ) غلطی ہوتی رہی (معاذ اللہ) یا پھر اللہ تعالی ایک آیت نازل کرکے بھول گیا اور پھر ایک مختلف قسم کا حکم نازل کردیا (نعوذ باللہ)

اس کی مثال آپ کو دین سے اور دنیا سے دیتا ہوں:

دین سے:
اللہ تعالی نے رسول اللہ کو حکم دیا کہ اللہ تعالی کا پیغام، قرآن مجید دنیا کے ہر بندے تک پہنچادیجئے۔
آیت کے ریفرنس کے لئے یہاںکلک کیجئے: [ayah]5:67[/ayah]
اے رسُول! پہنچا دو جو کچھ نازل کیا گیا ہے تم پر تمہارے رب کی طرف سے اور اگر نہ کیا تم نے (ایسا) تو نہ ادا کیا تم نے حق اس کی پیغمبری کا اور اللہ بچالے گا تم کو لوگوں (کے شر) سے بے شک اللہ نہیں دکھاتا کامیابی کی راہ کافروں کو

اس حکم کے بعد رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام ہر شخص کو پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ---

مکل آیت کا لنک : [ayah]5:3[/ayah]
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔


دین کی تکمیل کے حکم کے بعد کیا دین کو انسانوں کو پہنچانے کا سلسلہ ختم ہوگیا؟ یقیناً نہیں۔ گویا کسی عمل کی تکمیل کا حکم قطعاً اس حکم کی منسوخی کی دلیل نہیں ہے۔ اس کے لئے ناسخ و منسوخ کے الفاظ استعمال کرنا، (‌کینسل اور کینسل کرنے والا حکم) یقینی طور پر ایک ناگوار فلسفہ ہے۔


دنیا سے مثال:
زید تیل کے کنویں کھدواتا ہے۔ بکر کے پاس رگ ہے وہ کنویں کھودتا ہے۔ زید بکر کو حکم دیتا ہے کہ اس معاہدے کے مطابق اور اس رقم کے عوض‌تم اس جگہ 6000 فٹ تک یا تیل نکل آنے تک کنواں کھودو، بکر 5600 فیٹ پر تیل پالیتا ہے۔ زید کہتا ہے کہ تم اب رک جاؤ،

کیا یہ رک جانا اصل حکم اور معاہدے کی تنسیخ‌ہے یا پھر یہ نیا حکم اس اصل حکم یا معاہدے کی تکمیل ہے۔

کسی عمل کا مکمل ہوجانا ، اس کے احکامات کی تنسیخ‌نہیں‌کرتا۔ لہذا قرآن کے احکامات کے لئے ناسخ و منسوخ کی اصطلاح ایجاد کرکے پھر روایات سے یہ ثابت کرکے کہ صاحب پوری ایک سورۃ‌ اللہ تعالی نے بھلادی تھی یا یہ حکم اب نافذ نہیں ہوگا کہ اس کی تنسیخ ہوچکی ہے ایک درست طرز عمل یا درست سوچ نہیں ہے۔


جس مثال کو اجاگر کرکےہ ناسخ و تنسیخ کے فلسفہ کو درست قرار دئے جانے کی کوشش کی ہے وہ ایک حکم رسول اکرم کے لئے تھا، دیگر مسلمیں کے لئے نہیں‌تھا۔ اس عمل کی تکمیل پر رسول اکرم کو رک جانے کا حکم دیا گیا۔ ناسخ و تنسیخ‌ (‌کینسل ہونے والا اور کینسل کرنے والے ) قسم کے احکامات قرآن میں موجود نہیں ہے۔

[ayah]2:2[/ayah] [arabic]ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ [/arabic]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے

جس کتاب میں شک موجود نہیں، اس خود اللہ تعالی کے احکامات کو منسوخ کرنے والے احکامات کہاں سے آسکتے ہیں؟

جس منسوخی اور بھلا دینے کا ذکر اللہ تعالی [arabic]2:106 [/arabic] میں‌کرتا ہے وہ ان آیات کے کی منسوخی اور بھلا دینے کے بارے میں ہے جن میں جعل سازی کی گئی۔ دیکھئے۔

[ayah]16:101 [/ayah][arabic]وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ[/arabic]
اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ حالانکہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازِل کرے؟ تو یہ کہتے ہیں کہ بس تم خود ہی گھڑلیتے ہو (یہ کلام)۔ دراصل اکثر لوگ ان میں سے (حقیقت سے) بے خبر ہیں۔


ہم کو باوجود ہزار کوشش کے ایک بھی آیت ایسی نہیں ملتی جو قرآن حکیم کے ایک حکم کی تردید یا منسوخی کرتی ہو۔
جبکہ اس آیت سے واضح‌ ہے کہ کفار رسول اکرم پر یہ الزام رکھتے تھے کہ -- سابقہ کتب میں موجود آیات میں درج معلومات کی منسوخی قرآن حکیم کی آیات سے ہوتی ہے۔ ورنہ پھر آپس میں مقابلہ (کمپیئر) کرنے کے لئے مواد کیا تھا؟؟

اب مزید دیکھئے اس معلومات کی مزید وضاحت کہ یہ تنسیخ سابقہ کتب کی آیات کے لئے ہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ان دو آیات کو پڑھنے کے بعد یقینی طور پر مطمئن ہوجائیں گے۔

[ayah]13:38[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ[/arabic]
اور بے شک بھیجے ہیں ہم نے بہت سے رسُول تم سے پہلے اور بنایا تھا ہم نے اُنہیں بیوی بچّوں (والا) اور نہیں ہے طاقت کسی رسُول کی کہ لا دکھائے کوئی نشانی (از خود) بغیر اللہ کے اِذن کے۔ ہر دور کے لیے ہے ایک کتاب۔


[ayah]13:39[/ayah] [arabic]يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ[/arabic]
اور مٹا دیتا ہے اللہ جو کچھ چاہتا ہے اور قائم رکھتا ہے (جو چاہتا ہے) اور اسی کے پاس ہے اصل کتاب ( ام الکتاب)۔

ان دو آیات سے ہم کو جو واضح نکات ملتے ہیں‌وہ یہ ہیں۔
1۔ کوئی رسول اپنی طرف سے آیت نہیں‌بنا کر پیش کرتا۔ یعنی کوئی نیا حکم کوئی نبی نہیں‌لاتا۔ تمام احکامات اللہ تعالی کی طرف سے ہیں۔
2۔ ام الکتاب، یعنی اصل کتاب اللہ تعالی کے پاس ہے، جس میں سے اللہ تعالی ہر دور میں اس دور کے لئے مناسب و ضروری احکامات فراہم کرتا رہا۔
3۔ یہ اللہ ہی کی مرضی ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہ قائم رکھتا ہے اور جو چاہتا ہے وہ مٹا دیتا ہے۔ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالی پرانی کتب میں تبدیلی فرما کر نئی کتا عطا فرماتے ہیں۔

4۔ یقینی طور پر یہ کام قرآن حکیم کے نزول کے وقت ہوا۔ جس کا تذکرہ[ayah] 2:106 [/ayah] اور اس کی وضاحت [ayah]13:38 [/ayah]اور [ayah]13:39[/ayah]

بنیادی طور پر کسی بھی آیت کی تنسیخ‌پر یقین رکھنا، منسوخ شدہ آیت کے حکم سے انکار کرنا ہے۔ کیا ہم کسی آیت کا انکار کر سکتے ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔ دیکھئے:

[ayah]2:99[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ [/arabic]
اور بیشک ہم نے آپ کی طرف روشن آیتیں اتاری ہیں اور ان (نشانیوں) کا سوائے نافرمانوں کے کوئی انکار نہیں کر سکتا

کیا ہم ان آیت میں سے کسی کا بھی انکار کرکے اپنا شمار ، اللہ تعالی کے الفاظ میں ---- فاسقوں یعنی نافرمانوں ---- میں کروانا پسند کریں گے۔

ہم سے غلطی جب ہوتی ہے جب ہم ایک ہی آیت پر اپنا فوکس (ارتکاز) کرکے اس آیت سے ہی معانی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور روایات یعنی -- پرکھوں کی معلومات --- کو حجت بنا لیتے ہیں۔ بھائی یہ بزرگ بھی ہماری طرح انسان تھے اس سے زیادہ میں کچھ نہیں‌کہوں‌گا کہ ہم سب کو اپنے اپنے اعمال ‌کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔

میں بھی انسان ہوں اور اپنی تمام تر احتیاط کے باجود غلطی کا پتلا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ اللہ تعالی کی آیات درست سیاق و سباق میں پیش کروں۔ آیات آپ کے سامنے ہیں۔ اس پر غور فرمائیے اور اگر مجھ سے کہیں غلطی ہوگئی ہو تو سامنے لائیے۔ یہ ہار جیت کا مقابلہ نہیں۔ ایک دوسرے کے عقائد کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں۔ یہ کوشش ہے قرآن حکیم میں موجود چمکتی دمکتی نشانیوں میں موجود معلومات کو سامنے لانے کی تاکہ ان آیات پر جو گرد پڑ گئی ہے وہ دور ہو اور ہم قرآن حکیم کے احکامات کے مطابق سوچ اور سمجھ سکیں۔

والسلام
 
سابقہ مراسلہ لمبا ہوگیا تھا میں دو مزید آیات آپ سے شئیر کرنا چاہتا تھا۔

ہم یہ تو بخوبی جانتے ہیں کہ سابقہ کتب میں تحریف ہوئی، ان کی آیات سے انکار ہوا اور ان کتب کی آیات میں تبدیلی ہوتی رہی۔ اس جرم کا ثبوت سب سے پہلے تو قرآن حکیم ہے اور اس کے بعد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی معلومات۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کتب میں موجود --- تحریفات -- کسی طور بھی قرآن حکیم میں‌ پیچھے سے داخل ہوسکتی تھیں۔ پیچھے سے مطلب ہے --- پرکھوں‌کی روایت --- سے۔۔۔؟؟؟

اس کا جواب اللہ تعالی ان آیات میں دیتے ہیں۔

[ayah]41:41[/ayah][arabic] إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ[/arabic]
بلاشبہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ماننے سے انکار کردیا ہے کلامِ نصیحت کو جبکہ وہ ان کے پاس آیا حالانکہ وہ ایک زبردست کتاب ہے۔

[ayah]41:42 [/ayah] [arabic]لاَّ يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ[/arabic]
نہیں آسکتا ہے اس کے پاس باطل نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے۔ یہ نازل کردہ ہے اس ہستی کی طرف سے جو ہے بڑی حکمت والی اور قابلِ تعریف۔

والسلام
 
برادر من محمود احمد غزنوی، سلام علیکم

آپ نے جو وضاحت کی ہے وہ بالکل درست ہے کہ قرآن میں کوئی حکم کینسل نہیں ہوا۔ لیکن شاید الفاظ (ناسخ و منسوخ) کا انتخاب اتبا درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے کسی بھی حکم کو منسوخ شدہ سمجھنا اس حکم سے انکار ہے۔ جو [ayah]2:99[/ayah] کے مطابق اللہ تعالی کی نافرمانی ہے۔
یہ محض لفظی جھگڑا ہے جب اللہ نے خود اپنی آیات کی بابت نسخ کا لفظ استعمال فرمادیا تو ہم کون ہیں کہ اسکو غلط ٹھرائیں؟ جب آپ نے خود بھی تسلیم کرلیا کہ قرآن پاک میں کچھ آیات ایسی ہیں کہ جنکا حکم ایک مخصوص مدت تک تھا، جب وہ مدت پوری ہوگئی تو اللہ کی حکمت کے تحت نیا حکم آیا۔ ۔ ۔اسی بات کو قرآنی اصطلاح میں نسخ کہتے ہیں ۔آپ کو اگر لفظ نسخ سے چڑ ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے تو یہ آپ کی ذاتی پرابلم ہے الحمدللہ تمام علماء و حکمائے اسلام اجماع کے ساتھ نسخ کے قائل ہیں۔
دوبارہ عرض کروں گا کہ نسخ کے وہی معنے لیں جو 1400 سال سے محققین لیتے آرہے ہیں ۔ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں نسخ کے وہ معنی ہیں جو یہودی مراد لیتے تھے(میرا پپچھلا مسئلہ دوبارہ پڑھ لیں)۔ ۔ ان معنوں میں تو واقعی نسخ نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ آپ کا قصور ہے کہ آپ بات کو صحیح تناظر میں یا تو دیکھ نہیں سکتے یا دیکھنا نہیں چاہتے اور خوامخواہ بات کو لمبا کرتے جارہے ہیں۔ ۔ مجھے سرکلز میں گھومنے سے نا تو اتنی دلچسپی ہے اور نہ ہی اتنا فالتو وقت۔




ناسخ و تنسیخ کا فلسفہ خصوصی طور پر اس لئے ایجاد کیا کہ یہ بتایا جاسکے کہ اللہ تعالی کے فرمان، قرآن کی آیات کے احکامات ایک دوسرے کی تنسیخ‌کرتے ہیں۔ اس تنسیخ کے عمل میں جس میں آیات و روایات دونوں‌شامل ہیں۔ اس کا واحد مقصد اللہ تعالی کو نعوذ باللہ ایک انسان جیسی عقل والا ثابت کرنا ہے کہ یا تو اللہ تعالی سے (نعوذ باللہ ) غلطی ہوتی رہی (معاذ اللہ) یا پھر اللہ تعالی ایک آیت نازل کرکے بھول گیا اور پھر ایک مختلف قسم کا حکم نازل کردیا (نعوذ باللہ)
یہی تو مسئلہ ہے آپ کے ساتھ کہ آپ اپنے ذاتی فھم کی رو میں بہہ کرپوری امت مسلمہ کو اور تمام فقہاء و محدثین سب کو گمراہ سمجھنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ آپ کا یہ خیال فاسد ہے ۔جتنے بھی گمراہ فرقوں کے بانی تھے انکی بھی یہی اپروچ تھی۔ مثلاّ خارجی قرآن کی صرف ایک آیت کے اپنے ذاتی فہم کی رو میں بہہ کر بڑے بڑے جید صحابہ کو گمراہ اور کافر کہنے لگے۔ مرزا قادیانی کو بھی یہی خبط لاحق ہوا اسکے نزدیک پوری امت اور اجماع علماء کی بھی کوئی حیثیت نہیں سب غلطی پر تھے۔ یہ جتنا فسادِ امت ہے یہ سو کالڈ عقلمندوں کےذاتی فہم کا ہی ہے۔ اسی وجہ سے رسول کریم کا ارشاد ہے کہ اللہ کا ھاتھ جماعت پر ہے اور جو جماعت سے علیحدہ ہوا وہ شیطان کا شکار ہی بنا۔
آپ کی اس ذاتی فہم کا شاخسانہ یہ ہے کہ گویا سب علماء و محققین یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اللہ سے غلطی ہوتی رہی یا اللہ ایک آیت نازل کرکے بھول گیا۔ ہمارے نزدیک ایسا نہیں ہے آپ یہودیوں کی طرح نیگیٹو انداز میں سوچنا بند کردیں۔ غلطی آپ کی سوچ میں ہے امت مسلمہ کے تمام کے تمام علماء غلطی پر مجتمع نہیں ہوسکتے۔ جس طرح یہودی لوگ 'راعنا' کہتے وقت غلط مظلب قرار لیتے تھے آپ بھی 'نسخ' کا یہودی مفہوم مسلمانوں پر چسپاں کر رہے ہیں۔

جس منسوخی اور بھلا دینے کا ذکر اللہ تعالی [arabic]2:106 [/arabic] میں‌کرتا ہے وہ ان آیات کے کی منسوخی اور بھلا دینے کے بارے میں ہے جن میں جعل سازی کی گئی۔
جی نہیں ۔ آیت میں ایسا کوئی قرینہ نہیں جس سے آپ اس آیت کو گذشتہ کتابوں کیلئے مخصوص کرسکیں۔ میں ایک جگہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس آیت کے تمام مفسرین نے یہی معنی لئے ہیں کہ یہ آیت قرآن کی آیات کیلئے ہے۔ آیت کودوبارہ پڑھئے اس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ"ہم جس آیت کا نسخ کرتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر آیت لے آتے ہیں۔" اور اسی طرح سورہ الاعلی میں فرمایا کا "ہم تمہیں پڑھائیں گے تاکہ تم بھول نا سکو مگر وہ جو اللہ چاہے" تو میرے بھائی آپ غور کریں کہ رسولِ کریم گذشتہ کتابوں کے حافظ نہیں تھے۔ ان دونوں آیات میں جو کچھ بھلانے کا تذکرہ ہو رہا ہے وہ گذشتہ کتابوں کی آیات نہیں۔ رسولِ کریم نے توریت یا انجیل یا زبور کی آیات کو زبانی یاد نہیں کیا ہوا تھا۔ بات قرآن کی آیات کی ہورہی ہے دونوں آیات میں ایک ہی بات ہے کہ اللی کی حکمت کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ آیات بھلادی گئیں بلکہ جن جن صحابہ کو وہ یاد تھیں ، وہ بھی بھول گئے۔ کیونکہ یہ اللہ کی عین حکمت کے تحت ہوا ہے۔ اسی کو علمائے اسلام نے ہر دور میں نسخ کہا ہے۔

[ayah]16:101 [/ayah][arabic]وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ[/arabic]
اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ حالانکہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازِل کرے؟ تو یہ کہتے ہیں کہ بس تم خود ہی گھڑلیتے ہو (یہ کلام)۔ دراصل اکثر لوگ ان میں سے (حقیقت سے) بے خبر ہیں۔
یہاں بھی وہی بات ہے کہ اللہ خود کہ رہا ہے کہ 'ھم بدلتے ہیں ایک آیت کو دوسری آیت سے" تو مخالفین خصوصاّ یہودیوں نے یہی کہا کہ محمد اپنی طرف سے آیات گھڑ لیتے ہیں۔ یونکہ انکی عقلوں نے اس بات کو بعید جانا کہ اللہ بھی آیات کو بدلتا ہوگا۔ وجہ یہی کہ نیگیٹو سوچ کے تحت انہوں نے اپنی ژاتوں میں موجود نقص کو اللہ کی طرف منسوب سمجھا کیونکہ انسان اپنی بات بدلتے ہیں غلطی کی وجہ سے۔ ۔ ۔لیکن وہ یہ بات نہ سمجھ سکے کہ اللہ کے معاملے میں تو ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا لیکن اگر اللہ خود کہتا ہے کہ ہم کبھی کبھی ایک آیت کو دوسری آیت سے بدل دیتے ہیں تو اسکا معنی یہی ہے کہ یہ ہماری حکمت ہے کہ احکامات کو تدریجاّ نازل کرتے ہیں اور جب ایک آیت کا مقصد(جو ایک خاص مدت تک کیلئے تھا) پورا ہوجاتا ہے تو ہم حکمت کے تحت ئی آیت لے آتے ہیں۔ واضح ہو کہ نسخ صرف اھکامات میں ہوتا ہے اخبار میں نہیں۔ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ" يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ﴿٣٩﴾ اللہ مٹاتا ہے جو چاہے اور ثابت رکھتا ہے جو چاہے۔ اور اسکے پاس ام الکتاب ہے"
اب اللہ خود کہے کہ میں مٹاتا ہوں لیکن کچھ عقلبند اسے ناممکن اور محال سمجھیں تو سمجھتے رہیں۔ اہلسنت والجماعت الحمدللہ قرآن کی تفسیر بالرّئے نہیں کرتے اور جو کچھ اللہ اور اسکے رسول سے ملے اسے قبول کرکے اس پر ایمان رکھتے ہیں۔
 
قرآن کی کوئی آیت خود قرآن کی کسی دوسری آیت کو منسوخ‌نہیں کرتی ہے۔

آپ بڑے مزے سے اللہ تعالی کا نسخ اور بھلا دینے کا عمل قرآن حکیم کے لئے استعمال کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ ایسی ہی بات ہے۔ جبکہ آپ کے پاس ایک بھی مثال نہیں کہ قرآن کی ایک آیت ، کسی بھی دوسری آیت کی تنسیخ کرتی ہے۔

میں‌ اس کو بہت ہی مضحکہ خیز نظریہ پاتا ہوں کہ کچھ لوگ اپنے چند پرکھوں کے نظریات کو تمام کے تمام مسلمانوں‌کا نظریہ کہتے ہیں۔ آپ کرتے رہئیے قرآں کے احکامات سے انکار ۔ اور مانتے رہئیے اس کو تمام مسلمانوں کا نظریہ۔ میرا کام تھا سب سے شئیر کرنا وہ میں کر چکا ہوں۔ میرے اس تمام مراسلے میں میں‌ نے کسی حکم کو کینسل ہونے والا نہیں‌مانا ہے اور نہ ہی ثابت کیا ہے۔

آپ کا دین آپ کو مبارک اور میرا قرآن حکیم پر کام ایمان مجھ کو مبارک۔

والسلام
 
ہم کو باوجود ہزار کوشش کے ایک بھی آیت ایسی نہیں ملتی جو قرآن حکیم کے ایک حکم کی تردید یا منسوخی کرتی ہو۔
تردید اور چیز ہوتی ہے اور منسوخی اور چیز۔ ان دونوں کو مکس نہ کریں۔ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ اللہ نے اپنی آیات کی تردید کی۔

تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ --- نعوذ باللہ --- اللہ تعالی نے ایک حکم دیا اور اس کو کینسل کردیا؟ یقیناً نہیں۔۔۔ ایک حکم دیا، جب مقصد پورا ہوگیا تو پہلے حکم پر عمل کرنے سے روک دیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب زندگی سے اور قرآن سے بھی ایسی مزید مثالیں فراہم کرسکتے ہیں۔
اب آپ یہاں‌خود ہی مان رہے ہیں کہ اللہ نے پہلے حکم پر عمل کرنے سے روک دیا۔ تو اب جو بھی اس پہلے والے حکم پر عمل کرے گا، غلط کرے گا۔ کیونکہ پہلے والے حکم سے اللہ نے خود ہی اب روک دیا ہے۔ ۔ بھائی اب آپ خود ہی بتائیے کہ اختلاف کہاں ہے۔ ہم بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ پہلے والا حکم اب منسوخ ہے۔
 
محمود غزنوی صاحب۔ سلام

بھائی آپ میرے منہہ میں‌ اپنے الفاظ‌ رکھ رہے ہیں۔ میں واضح کرچکا ہوں کہ کسی حکم کی تکمیل اس حکم کی تنسیخ‌نہیں‌ہے۔

آپ مکمل بات سے ایک جملہ نکال کر اپنے نظریہ کی توثیق کررہے ہیں۔ کہ کسی کام کا مکمل ہونا ہی اس حکم کی تنسیخ ہے۔ میرے بھائی۔ اللہ تعالی نے تنسیخ اور بھلا دینا جن معانوں میں استعمال کیا ہے وہ قطعاً تنسیخ اور بھلا دینے والے نظریات کی حمایت نہیں کرتا۔ آپ پلیز ایسا کیجئے کہ اس لنک کو پہلے غور سے پڑھئی اور اس پر 24 گھنٹے سوچئیے پھر ایک مخلصانہ جواب ترتیب دیجئے۔ ساتھ میں تکمیل کے نہیں‌ بلکہ قرآن حکیم کے وہ احکامات سامنے لائیے جو ایک دوسرے کو درھقیقت کینسل کردیتے ہوں۔

اس کو آپ میری استدعا سمجھئے۔ نرم دلی سے برادرانہ استدعا۔

یہاں ہم ایک ایسے نظریہ کے بارے میں بات کررہے ہیں ، جس کو --- حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار --- کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔

لنک یہ ہے۔

والسلام
 
قرآن کی کوئی آیت خود قرآن کی کسی دوسری آیت کو منسوخ‌نہیں کرتی ہے۔

آپ بڑے مزے سے اللہ تعالی کا نسخ اور بھلا دینے کا عمل قرآن حکیم کے لئے استعمال کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ ایسی ہی بات ہے۔ جبکہ آپ کے پاس ایک بھی مثال نہیں کہ قرآن کی ایک آیت ، کسی بھی دوسری آیت کی تنسیخ کرتی ہے۔
بار بار ایک بات کو دہرا دینے سے وہ بات ثابت نہیں ہوجاتی۔ آپ نے کسی دلیل کا جواب نہیں دیا ہے ۔


میں‌ اس کو بہت ہی مضحکہ خیز نظریہ پاتا ہوں کہ کچھ لوگ اپنے چند پرکھوں کے نظریات کو تمام کے تمام مسلمانوں‌کا نظریہ کہتے ہیں۔

الحمدللہ تمام انبیائے کرام، صحابہ کرام، خلفائے راشدین، علمائے محققین، صالحین، محدثین ہمارے پُرکھ ہیں اور ہمیں فخر ہے ان پر اور انکی تحقیقات پر۔ آپ بیشک ابنے پرکھوں کو نہ مانیں اگر وہ گمراہ ہیں تو;)۔
1400سال کے دوران 87 سے زیادہ شخصیات نے ناسخ و منسوخ کے موضوع پر کتابیں اور رسائل لکھے۔ یقیناّ وہ آپ کے پُرکھ نہیں ہوسکتے۔ اگر کہیں تو انکے نام بھی لکھ دوں تاکہ پتہ چلے کہ ان میں کیسے کیسے علماء شامل ہیں۔
اگر آپ کے کسی مسلمان پرکھ نے اس موضوع پر کچھ لکھا ہو تو وہ بھی ضرور بتائے گا تاکہ پتہ چل سکے کہ تمام مسلمانوں کا نظریہ کیا ہے:);)

آپ کا دین آپ کو مبارک اور میرا قرآن حکیم پر کام ایمان مجھ کو مبارک۔

والسلام
گڈ رڈنس۔ ۔ ۔ ;)جب دلائل کا جواب دلائل سے ممکن نہ ہو تو ایسا ہی کرتے ہیں;) مجھے بھی آپ سے مغز ماری کا کوئی شوق نہیں ہے:)
 
محمود احمد غزنوی صاحب ، سلام علیکم،

سب سے اچھی تفسیر کونسی ہے؟
بندوں ‌کی تفسیر یا پھر اللہ تعالی کی تفسیر، ہم کو کس کو قبول کرنا چاہئیے؟ تفسیروں میں سب سےاحسن تفسیر اللہ کی ہے۔ یہ اللہ تعالی خود فرماتے ہیں۔


[AYAH]25:33 [/AYAH] [ARABIC]وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا[/ARABIC]
اور یہ لوگ تمہارے پاس جو (اعتراض کی) بات لاتے ہیں ہم تمہارے پاس اس کا معقول اور خوب مشرح جواب (احسن و بہتر تفسیر) بھیج دیتے ہیں

کوئی شبہ ہے کسی کو؟

اب ہم اللہ تعالی کی تفسیر دیکھتے ہیں۔ فرمان الہی دیکھئے:
جو لوگ ایمان لائے
[AYAH]22:50[/AYAH] [ARABIC]فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ [/ARABIC]
پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لئے مغفرت ہے اور (مزید) بزرگی والی عطا ہے

ایمان لانے والوںکے برعکس ہیں وہ جہنمی لوگ جو کوشش کرتے رہے کہ آیات میں عاجز کرنے والی باتیں نکالیں جیسے نسخ و تنسیخ:
[AYAH]22:51 [/AYAH][ARABIC]وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ [/ARABIC]
اور جو لوگ ہماری آیتوں (کی تردید) میں کوشاں رہتے ہیں اس خیال سے کہ (ہمیں) عاجز کردیں گے وہی لوگ اہلِ دوزخ ہیں

اللہ تعالی تنسیخ کرتا ہےشیطان کے القا شدہ بیان کی جو اس نے سابقہ انبیاء کی تلاوت میں کی۔ ۔
[AYAH]22:52[/AYAH] [ARABIC] وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [/ARABIC]
اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر (ایسا ہوتا رہا) کہ جب اس نے تلاوت کی تو خلل اندز ہوا شیطان اُس کی تلاوت میں۔ پھر مٹا دیتا رہا اللہ اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا رہا پھر پختہ کردیتا رہا اللہ اپنی آیات کو اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ے

شیطان کے خلل کو اللہ نے بامر دل لوگوں کے لئے آزمائش بنایا، یہ مخالفت میں‌بہت آگے ہیں
[AYAH]22:53 [/AYAH][ARABIC]لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ [/ARABIC]
[COLOR="darkgreenیہ اس لیے کرتا ہے کہ بنادے اللہ شیطان کے ڈالے ہُوئے خلل کو فتنہ و آزمائش ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور سخت ہیں جن کے دل اور بے شک یہ ظالم مخالفت میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔[/COLOR]

[AYAH]22:54[/AYAH] [ARABIC]وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ [/ARABIC]
[COLOR="darkgreen"]اور یہ بھی غرض ہے کہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے وہ جان لیں کہ وہ (یعنی وحی) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے تو وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل اللہ کے آگے عاجزی کریں۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اللہ ان کو سیدھے رستے کی طرف ہدایت کرتا ہےے[/COLOR]

یہ لوگ کافر ہیں جو قرآن پر شک کرتے ہیں۔ یہ شک قیامت تک جاری رہے گا۔
[AYAH]22:55 [/AYAH][ARABIC]وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ [/ARABIC]
اور ہمیشہ پڑے رہیں گے وہ لوگ جو کافر ہیں شک میں اس کے بارے میں حتیٰ کہ آجائے گی اُن پر قیامت کی گھڑی اچانک یا آجائے گا اُن پر عذاب نامبارک دن کا۔ں

قرآن میں قرآن کی آیات کی تنسیخ کا فیصلہ اللہ تعالی قیامت کے دن فرما دے گا۔
[AYAH]22:56[/AYAH] [ARABIC]الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ [/ARABIC]
حکمرانی اس دن صرف اﷲ ہی کی ہوگی۔ وہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا، پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے (وہ) نعمت کے باغات میں (قیام پذیر) ہوں گے

[AYAH]22:57[/AYAH] [ARABIC]وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ [/ARABIC]
اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو انہی لوگوں کے لئے ذلت آمیز عذاب ہوگا



میرا خیال ہے کہ آپ کو مندرجہ بالاء آیات میں اللہ تعالی کا صاف اور واضح بیان نظر آ گیا ہوگا کہ۔
1۔ ایمان لانے والوں سے اللہ خوش ہوتا ہے۔
2۔ قرآن میں ناسخ و تنسیخ کی مدد سے شک ڈالنے والے اللہ تعالی کی الفاظ میں جہنمی ہیں۔
3۔ شیطان کے القاء کئے کی اللہ تعالی نے تنسیخ کی۔
4۔ وہ لوگ جو قرآن کی آیات کے بارے میں کسی بھی شک میں مبتلا ہیں وہ جہنمی ہیں۔
5۔ قرآں حکیم میں شک ڈالنے کا یہ ناسخ و تنسیخ کا فلسفہ قیامت جاری رہے گا۔
6۔ اللہ تعالی قیامت میں یہ فیصلہ فرمادیں گے کہ ناسخ و تنسیخ سے اللہ تعالی کی مراد شیطان کا کیا ہوا القاء تھا جو سابقہ انبیاء کی تلاوت کے دوران شیطان نے خلل ڈال کر پیدا کیا۔
7۔ نبی اکرم کی تلاوت میں شیطان نے خلل نہیں ڈالا لہذا کسی آیت کی منسوخی کی ضرورت نہیں۔
8۔ جو لوگ اس قرآن کے مکمل ہونے اور اس میں کسی بھی آیت کے مشکوک نہ ہونے پر ایمان لائے ، ان کا انعام جنت ہوگا۔


اب آپ دیکھئے اسی امر کا دوبارہ اشارتی تذکرہ:
[AYAH]2:106[/AYAH] [ARABIC]مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[/ARABIC]
ہم جس آیت کو منسوخ کر تے یا اسے فراموش کرا تے ہیں تو پھر اس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے

یہ تنسیخ اور بھلوا دینے سے متعلق، سورۃ البقرہ کی آیت 106، در حقیقت، سورۃ الحج کی مندرجہ بالاء آیات کی طرف صرف اشارہ ہے جہاں اللہ تعالی نے ان لوگوں کو جہنمی کہا گیا ہے جو قرآن کی آیات میں شکوک پیدا کرنے لئے، ناسخ و تنسیخ کا شوشہ چھوڑتے ہیں۔

میں کسی کو جہنمی قرآر نہیں دے سکتا، میں صرف آیات شئیر کرتا ہوں۔ اگر آپ ناسخ و تنسیخ کے ذریعے قرآن حکیم میں شکوک پید کرنے والے جہنمی لوگوں کے نام یہاں لکھنا چاہتے ہیں تو بھائی یہ آپ کا فعل ہے ، میں‌ اس کی حوصلہ افزائی نہیں کروں گا۔

میری استدعا یہ ہے کہ جس طرح میں اپنی طور قرآن حکیم کے حوالے دیتا ہوں اور اس کا دفاع قرآن حکیم کے آیات سے ہی دیتا ہوں، آپ بھی خود سے لکھئے۔ "پرکھوں" کے پردے میں نہیں چھپئیے۔

بات تو سخت ہے لیکن عرض یہ کروں گا کہ پرکھوں اور بزرگوں کی وکالت کرنے کے بجائے ان کو یہاں لے آئیے تاکہ بالمشافہ بات چیت ہوسکے۔ یہ کیا کہ "پرکھوں" کے پردے میں چھپا جائے۔ اگر پھر بھی اصرار ہے کہ "پرکھوں" کے پردے میں ہی چھپنا ہے تو پھر اس دن کا انتظار کیجئے جب اللہ تعالی ان "پرکھوں" کا اور قرآن حکیم کی گواہی کے درمیان فیصلہ فرمادے گا۔

اپنی بات کیجئے، اپنے دلائل و نکات پیش کیجئے۔ الحمد للہ مرحوم "پرکھوں" کا حساب اللہ اور ان کے درمیان ہے۔ ہم ان کے لئے کچھ نہیں کہہ سکتے اار نہ ہی کچھ کرسکتے ہیں۔

"پرکھوں" میں سے اگر کوئی صاحب یہاں آئیں تو انشاء اللہ ان پرکھوں کو ہم قرآن حکیم اور سنت رسول اللہ سے مناسب حوالہ پیش کرسکتے ہیں جن کو یہ سب "پرکھ" قابل قبول پائیں گے۔ اگر آپ نے اللہ تعالی کی آیات کو پڑھ کر قبول کرنا ہے تو صد بسم اللہ۔ اور اگر آپ کا جواب ہے کہ پہلے ان " مرحوم پرکھوں " کو مطمئن کیا جائے تو بھائی یہ "مرحوم پرکھوں" کے پردے میں چھپ کر آیات ربانی کا صاف انکار کرنے کی ایک ایسی کوشش ہے جس کو اللہ تعالی نے شیطانی خلل قرار دیا ہے۔ :)

صبر و تحمل سے اس بارے میں سوچئیے اور غصہ نہ کیجئے۔ آپ نے اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہے اور میں نے اپنے اعمال کا۔ "پرکھوں " کے اعمال نامہ قیامت تک منجمد کردئے گئے ہیں۔


اگر اس کے باوجود کچھ لوگ --- پرکھوں یعنی اباء و اجداد ---- کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالی کا یہ فرمان ذہن میں رکھئے۔

[AYAH]2:170[/AYAH] [ARABIC]وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُونَ[/ARABIC]

اور جب کہا جاتا ہے اِن سے کہ پیروی کرو ان (احکام) کی جو نازل کیے ہیں اللہ نے تو کہتے ہیں نہیں بلکہ ہم تو پیروی کریں گے ان (طور طریقوں) کی جن پر پایا ہے ہم نے اپنے آباأ اجداد کو۔ کیا پھر بھی کہ ہوں ان کے باپ دادا ایسے جو نہ سمجھتے ہوں کچھ اور نہ سیدھے راستے پر ہوں؟۔

والسلام
 
آخر بلّی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔ آپ کا تمام علماءِکرام و مفسّرین کرام جنہوں نے ناسخ و منسوخ کی بات کی ان کو بیک وقت جہنمی قرار دیدینا آپکی جہالت و سفاہت کی دلیل ہے بقولِ قرآن:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾
"جب انہیں کہا جاتتا ہے کہ ایمان لے آؤ جیسے کہ لوگ ایمان لے آئے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا ہم ہم گھٹیا لوگوں کی طرح ایمان لے آئیں۔ سن لو کہ یہی لوگ گھٹیا ہیں۔"

غضب خدا کا کہ تمام مفسرین ( میں چیلنج کرتا ہوں کہ کسی ایک مفسر کی تفسیر سمنے لیکر آئیں جس میں ناسخ و منسوخ کا ذکر نہ ہو) اور محققین علماء سب لوگ تو آپ کے نزدیک جہنمی ٹھرے جو سب کے سب آیات قرآن کو نہ سمجھ سکے اور ناسخ و منسوخ کی بات کی۔ ۔ خارجی کس کو کہتے ہیں؟
اس شخص کو ذرا شرم نہ آئی کہ کہنے سے پہلے کچھ سوچ لیتا۔ یعنی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، امام فخر الدین رازی صاحبِ تفسیرِ کبیر، جلال الدین سیوطی جنہوں نے الاتقان فی علوم القرآن جیسی معرکتہ الآراء کتابیں لکھیں،زرکشی صاحبِ برہان القرآن، ابنِ حزم، امام غزالی، مصنفِ تفسیر روح المعانی، روح البیان، تفسیرِ قرطبی، جلالین، بیضاوی، ابنِ تیمیہ، ابنِ قیم، ابنِ جوزی، امام بخاری، امام مسلم، ابو طالب مکی، زمخشری صاحبِ کشّاف،فقہ کے چاروں امام یعنی امام مالک، ابو حنیفہ، احمد بن حنبل، شافعی اور لاتعداد مصنفین سب کے سب معاذاللہ جاہل اور جہنمی ٹھرے۔
مثل مشہور ہے کہ چاند کا تھوکا منہ پر۔ ۔ ۔ دہبارہ یہ آیت پڑھ لیجئے اور آئینے میں اپنی صورت دیکح لیجئے صاحب:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ ﴿١٣﴾
"جب انہیں کہا جاتتا ہے کہ ایمان لے آؤ جیسے کہ لوگ ایمان لے آئے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا ہم ہم گھٹیا لوگوں کی طرح ایمان لے آئیں۔ سن لو کہ یہی لوگ گھٹیا ہیں۔"

جہاں تک آپ کا دعوی ہے کہ جی آبجیکٹو ہو کر بات کیجئے تو آپ پہلے خود تو آبجیکٹو طریقے سے اپنی بات کو آگے بڑھائیں۔ جب آبکی بیان کردہ توضیح پر جو جو اعتراض وارد ہوتے ہیں انکا تو آپ جواب نہ دیں اور پھر ہم سے یہ توقع رکھیں کہ سب اھلِ اسلام کو گمراہ سمجھتے ہوئے ہم آپکے ہمنوا بن جائیں تو ایسا کس طرح ہو سکتا ہے میرے بھائی۔
آپ سورہ بقرہ آیت نمبر 106 اور سورہ الاعلی کی آیت کی آپکی ذاتی تشریح پر وارد ہونے والے اعتراض تو پہلے رفع کریں اسکے بعد بلند بانگ دعوے کرتے رہنا۔
حضرت کی یاوہ گوئی کچھ مستند نہیں ہے۔ ۔
کہنے کی حد ہے لیکن بکنے کی حد نہیں ہے

میں نے آپ کی پیش کردہ تاویل پر جو اعتراض وارد کئے ہیں انکا جواب ہنوز پردہءِ عدم میں ہے۔
 
میں پھر عرض کرتا چلوں کہ سب سے پہلے نسخ کے معنی متعین کیجئے۔ شرع کی اصطلاح میں نسخ جسے کہتے ہیں اسکو اسی معنعوں میں استعمال کریں۔ ییہودیوں والی بات کو مسلمانوں پر چسپاں کرنے سے آپ دین کی کوئی خدمت نہیں کریں گے بلکہ کم پڑھے لکھے لوگوں کو محض کنفیوز کریں گے۔
واضح ہو کہ یہودی نسخ کے قائل نہیں تھے۔ وہ نسخ سے وہی مراد لیتے تھے جو خان صاحب مراد لے رہے ہیں یعنی" پہلے کوئی بات کرنا لیکن بعد میں اس بات کو غلط سمجھتے ہوئے اس بات کو کینسل کردینا"۔ اسی لئے یہودیوں نے صحابہ کو طعنہ دیا کہ مسلمانوں کا خدا غلطیاں کرتا ہے۔
لیکن نسخ کے یہ معنی نہیں ہیں۔ نسخ کے معنی جو علمائے اسلام نے ہر دور میں لئے وہ یہی ہیں کہ اللہ کا اپنے احکامات مین اپنی حکمت کے تحت تبدیلی کرنا۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ سرکمسٹانسز تبدیل ہوجانے سے احکامات بھی اس لحاظ سے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جب مسلمان مکے میں تھے تو کافروں کے ظلم و ستم کے جواب محض صبر و تحمل سے دینے کے احکامات نازل ہوئے۔ ان تمام آیات میں صبر، تحمل، درگزر، کی تلقین کی گئی تھی۔ لیکن جب مدینے میں آئے اور حالات تبدیل ہوئے تو پھر مسلمانوں کو کہا گیا کہ مشرکین کو جہان پاؤ قتل کرو۔ اسی کو صحابہ اور تابعین نے نسخ کہا ہے اور یہ معاذ اللہ نازل کرنے والے کی جہالت کا نہیں بلکہ حکمت کا اظہار ہے۔
اسی طرح پہلے مسلمانوں کو آیت میں کہا گیا اگر دس مسلمان 1000 کافروں سے لڑین تو غالب آئیں گے۔ اس طرح انکو ہمت دلانے اور انکا مورال بلند کرنے کے بعد ان پر تخفیف یعنی نرمی کی گئی اور کہا گیا کہ 200 پر غالب آؤ گے یعنی تمیہرے مقابلے میں اگر اتنے کافر اس نسبت سے ہوں تو بھاگنا نہیں اللہ کا وعدہ ہے کہ تم لوگ ان پر غالب آجاؤ گے۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
پہلے رسول کریم کو آیت میں شادیوں کا حکم دیا گیا اس میں تعداد کی کوئی قید نہیں تھی لیکن بعد میں ایک خاص تعداد پورا ہو جانے کے بعد آیت نازل کرکے مزید نکاح سے روک دیا گیا۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
پہلے آیت نازل کی گئی کہ اللہ کے رسول سے تنہائی میں ملاقات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ صدقہ دیی جائے پھر ملاقات کی جائے۔ جب صحابہ نے اس بات کی حکمت کو بخوبی سمجھ لیا تو پھر ان سے یہ قید اٹھالی گئی۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
ایسی کئی مثالیں ہیں قرآن میں جنہیں صاحبعلم لوگ بخوبی جانتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی حکمت پر مبنی ہے کم از کم مسلمان تو یہی سمجھتے ہیں‌لیکن یہودی اور ہمارے خان صاحب جان بوجھ کر اسکے نیگیٹو معنی لیتے ہیں اور کہتے ہیں لو جی ایسا کبھی ہو سکتا ہے کہ خدا غلطیاں کرے۔ سوچ انکی اپنی غلط ہے مسلمانوں کی نہیں۔ یہ جس بات کع اللہ کی غلطی سمجھتے ہیں ہمارے نزدیک وہ اللہ کی عین حکمت ہے۔
اب بات یہ رہ جاتی ہے کہ جی کیا بہتر نہیں کہ اس بات کیلئے نسخ کا لفظ ہی نہ استعمال کیا جائے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ نسخ کا لفظعلما نے اپنی طرف سے نہیں‌نکالا بلکہ یہ خود اللہ کی آیات میں اللہ نے استعمال کیا ہے جب اللہ خود اپنی آیت میں کہتے ہیں کہ "ہم جس آیت کو نسخ کردیں یا لوگوں کے حافظوں سے بھلا دیں تو اس سے بہتر آیت لے آتے ہیں"۔ اور ایک اور جگہ اللہ کے رسول سے کہا گیا کہ "ہم تمہیں پڑھائیں گے جسکے بعد تم بھولو گے نہیں لیکن وہی کچھ جو اللہ چاہے"۔ اب یہاں بھی اللہ تعالی نے کہا کہ کچھ نہ کچھ ہم تمہیں بھلادین گے یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے والی آیت میں بیان کی گئی کہ جب ہم حافطوں سے کوئی آیت بھلادین تو اس سے بہتر لے آتے ہیں۔ ان جیسی اور بھی آیات ہیں مثلاّ "اللہ جو چاہے مٹاتا ہے اور جا چاہے باقی رکحتا ہے اور اسکے پاس ام الکتاب ہے"۔ ان تمام آیات کی بناء پر لفظ نسخ استعمال کرنا بالکل جائز ہے لیکن انہی معنوں میں جو صحابہ و تابعین و علمائے اسلام نے بیان کئے۔
اب اگر کوئی کہے کہ جی یہ آیات تو صرف اور صرف پرانی کتابوں کی تنسیخ کیلئے استعمال ہوئی ہیں تو اسکو چاہئیے کہ اپنی اس بات کو علمی طور پر ثابت کرے۔ کیونکہ اسکی بات کی مخالفت میں بہت سی احادیث ہیں، صحابہ کی روایات ہیں خود قرآن کی مثالیں ہیں۔ یار لوگوں نے اسکا یہ آسان طریقہ نکالا ہوا ہے کہ جی ہم کسی روایت کسی حدیث کو نہیں مانتے اور ہم اجماع امت کو بھی نہیں مانتے کیونکہ وہ سب علما گمراہ تھے اور انہوں نے امت کو گمراہ کرنے والا جہنمی کام کیا۔
اسکے علاوہ اگر سورہ اعلی کی آیت پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ"ہم تمہیں پڑھائیں گے اسکے بعد تم نہیں بھولوگے سوائے اسکے جو اللہ چاہے"۔ یعنی اللہ نے استثنی پیدا کیا کہ ہاں کچھ نہ کچھ آیات ہم تمہارے ذہن سے محو کردیں گے اپنی حکمت کے تحت۔ اب اگر کوئی کہے کہ ان آیات سے پرانی کتابوں کی آیات مراد ہیں تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم کو پرانی کتابوں کی آیات زبانی یاد تھیں جنکو اللہ آپ کے حافظے سے محو کردے گا تو یہ بات قابل قبول نہیں بنتی کیونکہ آپ نے پرانی کتابوں کو زبانی یاد نہیں کیا ہوا تھا۔ بات یہاں ان آیات کی ہورہی ہے جو کسی وقت آپ پر نازل کی گئیں اور ان پر عمل بھی ہوا لیکن بعد میں سرکمسٹانسز تبدیل ہوجانے کے بعد اللہ کی حکمت کت تحت آپ کے حافطے سے محو کردی گئیں ۔ یہی بات قرآن کہ رہا ہے اور اسی بات کی تائید بہت سی احادیث کرتی ہیں۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ جی ان ساری آیات سے مراد پرانی کتابوں کی وہ آیات ہیں جن میں شیطان نے اپنی طرف سے کچھ ملا کر تحریف کردی تھی۔ تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ انکے لئی لفظ نسخ استعمال نہیں ہوسکتا۔ جو بات آپ نے کہی ہی نہیں اسکو اگر آپ سے منسوب کردیا جائے تو آپ اسکی تردید کریں گے، اسکو منسوخ نہیں کریں گے۔ تردید اور چیز ہے اور نسخ اور چیز۔ آپ کہیں گے کہ میں نے یہ بات تو کہی ہی نہیں لہذا میں اسکی تردید کرتا ہوں۔ لیکن آپ یہ نہیں کہیں گے کہ میں اس بات کو منسوخ کرتا ہوں۔ کیونکہ منسوخ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اس بات کو قبول کررہے ہیں کہ ہاں کسی وقت میں نےے یہ بات کہی تھی لیکن اب اسکو منسوخ سمجھا جائے۔ اللہ نے کبھی بھی نہیں کہا کہ عیسی خدا کے بیٹے ہیں لہذا اللہ نے اس بات کی تردید کی، چنانچہ وہ تمام باتیں جن میں شیطان کی طرف سے تحریف ہوئی ان پر لفظ نسخ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
لیکن یہودی اورخان صاحب بضد ہیں کہ نہیں جناب یہ بات ہم نہیں مانیں گے۔
جب ہم کہیں کہ چلو قرآن میں آیا ہے کہ " اھلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے"۔ ۔ تو بتہ چلتا ہے کہ وہ تمام ہستیاں جنہیں ہم اھلِ ذکر سمجھتے ہیں جن کی ایک بڑی لمبی فہرست ہے بڑے بڑے معتبر نام ہیں علماء و فقہاء و محدثین و محققین کے، وہ سب تو جناب جاھل اور گمراہ لوگ تھے بلکہ قرآن کی آیات کیلئے ناسخ و منسوخ کا لفظ اسرتعمال کرنے کی بناے پر جہنمی تھے۔ ۔ ۔ انا للہ و انا علیع راجعون۔
حضرت کی یاوہ گوئی کچھ مستند نہیں ہے:)
کہنے کی حد ہے لیکن، بکنے کی حد نہیں ہے​
 
آخر بلّی تھیلے سے باہر آ ہی گئی۔ آپ کا تمام علماءِکرام و مفسّرین کرام جنہوں نے ناسخ و منسوخ کی بات کی ان کو بیک وقت جہنمی قرار دیدینا آپکی جہالت و سفاہت کی دلیل ہے

برادر من، غزنوی سلام،

سورۃ الحج کی آیات 50 تا 57 ۔۔۔۔۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے میری آیات نہیں۔۔۔ یہ کیا بات ہے کہ جب جناب کو اللہ تعالی کی آیات سے کامل ناقابل تردید دلیل فراہم کی تو اس کلام کو آپ نے مجھ جیسے عاصی کا کلام قرار دے دیا ۔ میں‌نے تو صرف ترجمہ پیش کیا اور ترجمہ کے ساتھ ساتھ دنیا کے 23 مکرم ترین مترجمین کا ترجمہ بھی پیش کیا۔ اپنی طرف سے کوئی تفسیر نہیں‌پیش کی۔ بلکہ اللہ تعالی کا یہ دعوی پیش کیا کہ وہی سب سے بڑے مفسر ہیں ۔۔ اب اگر ان آیات کی روشنی میں کچھ لوگ جہنمی قرار پاتے ہیں تو یہ تو احکام اللہ کی روشنی میں‌ہوا۔ آپ مجھے اس کو قصور وار صرف اس لئے قرار دے رہے ہیں کہ میں نے کلام اللہ آپ سے شئیر کیا؟ چہ خوب۔

ناسخ و تنسیخ کی مدد سے شکوک پیدا کرنے والوں کے بارے میں ، اگر اللہ تعالی ان شکوک پیدا کرنے والوں کو کو الجحیم کا مستحق قرار دیتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور؟ اللہ تعالی کی ان آیات کو شئیر کرنا --- اگر جہالت اور سفاحت ہے ---- تو یقیناً اس جہالت و سفاحت کا قصور وار آپ اس کو ٹھیرا رہے ہیں جس نے یہ آیات سب سے پہلے دنیا کے سامنے رکھی ہیں۔ تعوذ‌باللہ۔ میں یہ معاملہ اپنے رب اور اس کے نبی محترم صلعم کے درمیان چھوڑتا ہوں۔

مکمل آیات ترتیب سے بنا کسی فرق کے آپ کے سامنے ایک بار پھر رکھتا ہوں۔ جو لوگ شکوک پیدا کرتے ہیں ان کے بارے میں‌کیا بیان ہے اس کو آپ خوب انگریزی اور اردو میں صرف ایک کلک کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ بقول آپ کے یہ جہالت اور سفاحت ہے۔ دیکھئے کہ اس جہالت اور سفاحت کا قصور وار سب سے پہلے کون ہے۔ نعوذ‌باللہ۔ نعوذ باللہ نعوذ باللہ۔ کم از کم اللہ تعالی کی آٰیات کو تو مجھ سے منسوب نہ کیجئے۔ گو کہ یہ کہنا غیر ضروری ہے --- کہ کچھ لوگوں کی عادت ہے کہ اپنی من گھڑت بنا ثبوت رسول اکرم سے منسوب کردیتے ہیں اور اللہ تعالی کا کلام مجھ جیسے عاصی کا کلام قرآر دے دیتے ہیں۔ جن کو اللہ تعالی کا کلام نہ سمجھا سکے ان کو کون سمجھائے؟


[ayah]22:49[/ayah] کہہ دو (اے نبی) اے لوگو! درحقیقت میں تو بس تمہیں خبردار کرنے والا ہوں واضح طور پر۔
[ayah]22:50 [/ayah]سو جو لوگ ایمان لائے اور کیے اُنہوں نے اچّھے عمل ان کے لیے ہے مغفرت اور روزی عزّت کی۔
[ayah]22:51[/ayah] اور وہ لوگ جو کوشش کریں گے ہماری آیات کو نیچا دکھانے کی ایسے ہی لوگ اہلِ دوزخ ہیں۔
[ayah]22:52[/ayah] اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر (ایسا ہوتا رہا) کہ جب اس نے تلاوت کی تو خلل اندز ہوا شیطان اُس کی تلاوت میں۔ پھر مٹا دیتا رہا اللہ اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا رہا پھر پختہ کردیتا رہا اللہ اپنی آیات کو اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
[ayah]22:53 [/ayah]یہ اس لیے کرتا ہے کہ بنادے اللہ شیطان کے ڈالے ہُوئے خلل کو آزمائش ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں بیماری ہے اور سخت ہیں جن کے دل اور بے شک یہ ظالم مخالفت میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔
[ayah]22:54[/ayah] اور اس لیے بھی کرتا ہے کہ جان لیں وہ لوگ جنہیں دیا گیا ہے علم کہ بے شک قرآن حق ہے تیرے رب کی طرف سے پھر وہ ایمان لے آئیں اس پر اور جھک جائیں اس کے آگے ان کے دل۔ اور یقینا اللہ ہدایت دیتا ہے ان لوگوں کو جو ایمان لائے، سیدھے راستے کی۔
[ayah]22:55 [/ayah] اور ہمیشہ پڑے رہیں گے وہ لوگ جو کافر ہیں شک میں اس کے بارے میں حتیٰ کہ آجائے گی اُن پر قیامت کی گھڑی اچانک یا آجائے گا اُن پر عذاب نامبارک دن کا۔
[ayah]22:56[/ayah] بادشاہی ہوگی اُس دن اللہ کی۔ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان پھر جو لوگ ایمان لائے اور کیے انہوں نے نیک عمل (ہوں گے وہ) نعمت بھری جنتوں میں۔
[ayah]22:57[/ayah] اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہوگا اور جھٹلایا ہوگا ہماری آیات کو سو ایسے ہی لوگ ہیں کہ اُن کے لیے عذاب رسواکن۔

والسلام
 
آپ نے جن عظیم علماء کے حوالے دئے کہ انہوں نے قرآن کو مشکوک قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔ ان کے بارے میں میری عرض یہ ہے کہ ان میں سے نہ کوئی نبی تھا اور نہ ہی کوئی رسول۔ اللہ تعالی نے صاف صاف فرمادیا ہے کہ شیطان نے تو محمد الرسول اللہ صلعم کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تلاوت میں خلل ڈالا۔ تو پھر یہ علماء‌ کیا چیز ہیں۔ ان علماء کی مانی جائے یا اللہ تعالی کی؟؟

والسلام
 
میرے اس مراسلے کو غور کے ساتھ پڑھ لیجئے اس میں میں نے اپنے نقطءِ نظر کا خلاصہ بیان کردیا ہے۔ ۔ ۔سرکلز میں گھومنے اور کٹ حجتی سے گریز کرتے ہوئے اگر اوپن مائنڈ کے ساتھ بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو بات اتنی مشکل بھی نہیں ہے
صاحبِ الفاظ کو دفتر سے بھی سیری نہیں
صاحبِ معنی کو بس اک لفظ کافی ہوگیا۔ ۔​
میں پھر عرض کرتا چلوں کہ سب سے پہلے نسخ کے معنی متعین کیجئے۔ شرع کی اصطلاح میں نسخ جسے کہتے ہیں اسکو اسی معنعوں میں استعمال کریں۔ ییہودیوں والی بات کو مسلمانوں پر چسپاں کرنے سے آپ دین کی کوئی خدمت نہیں کریں گے بلکہ کم پڑھے لکھے لوگوں کو محض کنفیوز کریں گے۔
واضح ہو کہ یہودی نسخ کے قائل نہیں تھے۔ وہ نسخ سے وہی مراد لیتے تھے جو خان صاحب مراد لے رہے ہیں یعنی" پہلے کوئی بات کرنا لیکن بعد میں اس بات کو غلط سمجھتے ہوئے اس بات کو کینسل کردینا"۔ اسی لئے یہودیوں نے صحابہ کو طعنہ دیا کہ مسلمانوں کا خدا غلطیاں کرتا ہے۔
لیکن نسخ کے یہ معنی نہیں ہیں۔ نسخ کے معنی جو علمائے اسلام نے ہر دور میں لئے وہ یہی ہیں کہ اللہ کا اپنے احکامات مین اپنی حکمت کے تحت تبدیلی کرنا۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ سرکمسٹانسز تبدیل ہوجانے سے احکامات بھی اس لحاظ سے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جب مسلمان مکے میں تھے تو کافروں کے ظلم و ستم کے جواب محض صبر و تحمل سے دینے کے احکامات نازل ہوئے۔ ان تمام آیات میں صبر، تحمل، درگزر، کی تلقین کی گئی تھی۔ لیکن جب مدینے میں آئے اور حالات تبدیل ہوئے تو پھر مسلمانوں کو کہا گیا کہ مشرکین کو جہان پاؤ قتل کرو۔ اسی کو صحابہ اور تابعین نے نسخ کہا ہے اور یہ معاذ اللہ نازل کرنے والے کی جہالت کا نہیں بلکہ حکمت کا اظہار ہے۔
اسی طرح پہلے مسلمانوں کو آیت میں کہا گیا اگر دس مسلمان 1000 کافروں سے لڑین تو غالب آئیں گے۔ اس طرح انکو ہمت دلانے اور انکا مورال بلند کرنے کے بعد ان پر تخفیف یعنی نرمی کی گئی اور کہا گیا کہ 200 پر غالب آؤ گے یعنی تمیہرے مقابلے میں اگر اتنے کافر اس نسبت سے ہوں تو بھاگنا نہیں اللہ کا وعدہ ہے کہ تم لوگ ان پر غالب آجاؤ گے۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
پہلے رسول کریم کو آیت میں شادیوں کا حکم دیا گیا اس میں تعداد کی کوئی قید نہیں تھی لیکن بعد میں ایک خاص تعداد پورا ہو جانے کے بعد آیت نازل کرکے مزید نکاح سے روک دیا گیا۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
پہلے آیت نازل کی گئی کہ اللہ کے رسول سے تنہائی میں ملاقات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ صدقہ دیی جائے پھر ملاقات کی جائے۔ جب صحابہ نے اس بات کی حکمت کو بخوبی سمجھ لیا تو پھر ان سے یہ قید اٹھالی گئی۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
ایسی کئی مثالیں ہیں قرآن میں جنہیں صاحبعلم لوگ بخوبی جانتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی حکمت پر مبنی ہے کم از کم مسلمان تو یہی سمجھتے ہیں‌لیکن یہودی اور ہمارے خان صاحب جان بوجھ کر اسکے نیگیٹو معنی لیتے ہیں اور کہتے ہیں لو جی ایسا کبھی ہو سکتا ہے کہ خدا غلطیاں کرے۔ سوچ انکی اپنی غلط ہے مسلمانوں کی نہیں۔ یہ جس بات کع اللہ کی غلطی سمجھتے ہیں ہمارے نزدیک وہ اللہ کی عین حکمت ہے۔
اب بات یہ رہ جاتی ہے کہ جی کیا بہتر نہیں کہ اس بات کیلئے نسخ کا لفظ ہی نہ استعمال کیا جائے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ نسخ کا لفظعلما نے اپنی طرف سے نہیں‌نکالا بلکہ یہ خود اللہ کی آیات میں اللہ نے استعمال کیا ہے جب اللہ خود اپنی آیت میں کہتے ہیں کہ "ہم جس آیت کو نسخ کردیں یا لوگوں کے حافظوں سے بھلا دیں تو اس سے بہتر آیت لے آتے ہیں"۔ اور ایک اور جگہ اللہ کے رسول سے کہا گیا کہ "ہم تمہیں پڑھائیں گے جسکے بعد تم بھولو گے نہیں لیکن وہی کچھ جو اللہ چاہے"۔ اب یہاں بھی اللہ تعالی نے کہا کہ کچھ نہ کچھ ہم تمہیں بھلادین گے یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے والی آیت میں بیان کی گئی کہ جب ہم حافطوں سے کوئی آیت بھلادین تو اس سے بہتر لے آتے ہیں۔ ان جیسی اور بھی آیات ہیں مثلاّ "اللہ جو چاہے مٹاتا ہے اور جا چاہے باقی رکحتا ہے اور اسکے پاس ام الکتاب ہے"۔ ان تمام آیات کی بناء پر لفظ نسخ استعمال کرنا بالکل جائز ہے لیکن انہی معنوں میں جو صحابہ و تابعین و علمائے اسلام نے بیان کئے۔
اب اگر کوئی کہے کہ جی یہ آیات تو صرف اور صرف پرانی کتابوں کی تنسیخ کیلئے استعمال ہوئی ہیں تو اسکو چاہئیے کہ اپنی اس بات کو علمی طور پر ثابت کرے۔ کیونکہ اسکی بات کی مخالفت میں بہت سی احادیث ہیں، صحابہ کی روایات ہیں خود قرآن کی مثالیں ہیں۔ یار لوگوں نے اسکا یہ آسان طریقہ نکالا ہوا ہے کہ جی ہم کسی روایت کسی حدیث کو نہیں مانتے اور ہم اجماع امت کو بھی نہیں مانتے کیونکہ وہ سب علما گمراہ تھے اور انہوں نے امت کو گمراہ کرنے والا جہنمی کام کیا۔
اسکے علاوہ اگر سورہ اعلی کی آیت پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ"ہم تمہیں پڑھائیں گے اسکے بعد تم نہیں بھولوگے سوائے اسکے جو اللہ چاہے"۔ یعنی اللہ نے استثنی پیدا کیا کہ ہاں کچھ نہ کچھ آیات ہم تمہارے ذہن سے محو کردیں گے اپنی حکمت کے تحت۔ اب اگر کوئی کہے کہ ان آیات سے پرانی کتابوں کی آیات مراد ہیں تو اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم کو پرانی کتابوں کی آیات زبانی یاد تھیں جنکو اللہ آپ کے حافظے سے محو کردے گا تو یہ بات قابل قبول نہیں بنتی کیونکہ آپ نے پرانی کتابوں کو زبانی یاد نہیں کیا ہوا تھا۔ بات یہاں ان آیات کی ہورہی ہے جو کسی وقت آپ پر نازل کی گئیں اور ان پر عمل بھی ہوا لیکن بعد میں سرکمسٹانسز تبدیل ہوجانے کے بعد اللہ کی حکمت کت تحت آپ کے حافطے سے محو کردی گئیں ۔ یہی بات قرآن کہ رہا ہے اور اسی بات کی تائید بہت سی احادیث کرتی ہیں۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ جی ان ساری آیات سے مراد پرانی کتابوں کی وہ آیات ہیں جن میں شیطان نے اپنی طرف سے کچھ ملا کر تحریف کردی تھی۔ تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ انکے لئی لفظ نسخ استعمال نہیں ہوسکتا۔ جو بات آپ نے کہی ہی نہیں اسکو اگر آپ سے منسوب کردیا جائے تو آپ اسکی تردید کریں گے، اسکو منسوخ نہیں کریں گے۔ تردید اور چیز ہے اور نسخ اور چیز۔ آپ کہیں گے کہ میں نے یہ بات تو کہی ہی نہیں لہذا میں اسکی تردید کرتا ہوں۔ لیکن آپ یہ نہیں کہیں گے کہ میں اس بات کو منسوخ کرتا ہوں۔ کیونکہ منسوخ کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اس بات کو قبول کررہے ہیں کہ ہاں کسی وقت میں نےے یہ بات کہی تھی لیکن اب اسکو منسوخ سمجھا جائے۔ اللہ نے کبھی بھی نہیں کہا کہ عیسی خدا کے بیٹے ہیں لہذا اللہ نے اس بات کی تردید کی، چنانچہ وہ تمام باتیں جن میں شیطان کی طرف سے تحریف ہوئی ان پر لفظ نسخ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
لیکن یہودی اورخان صاحب بضد ہیں کہ نہیں جناب یہ بات ہم نہیں مانیں گے۔
جب ہم کہیں کہ چلو قرآن میں آیا ہے کہ " اھلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے"۔ ۔ تو بتہ چلتا ہے کہ وہ تمام ہستیاں جنہیں ہم اھلِ ذکر سمجھتے ہیں جن کی ایک بڑی لمبی فہرست ہے بڑے بڑے معتبر نام ہیں علماء و فقہاء و محدثین و محققین کے، وہ سب تو جناب جاھل اور گمراہ لوگ تھے بلکہ قرآن کی آیات کیلئے ناسخ و منسوخ کا لفظ اسرتعمال کرنے کی بناے پر جہنمی تھے۔ ۔ ۔ انا للہ و انا علیع راجعون۔
حضرت کی یاوہ گوئی کچھ مستند نہیں ہے:)
کہنے کی حد ہے لیکن، بکنے کی حد نہیں ہے​
 
چکروں اور دائروں میں گھوم کر کچھ نہیں حاصل ہوگا۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول ک۔تاب
گ۔رہ کش۔ا ہے ن۔ہ رازی ن۔ہ ص۔اح۔ب کش۔اف

رازی : فخرالدین رازی مع اپنی تفسیرات کے۔
صاحب کشاف : علی ہجویری معہ کشف المحجوب، صوفیانہ کلام کے مہر۔

جب تک آپ خود قرآن حکیم نہیں پڑھیں گے ، یہ "پرکھ" لوگ کسی عقدہ کو کھول نہیں‌سکتے۔ تنسیخ کے معانی اللہ تعالی درج ذیل آیت میں بہت ہی اچھی طرح استعمال فرماتے ہیں اور اس تنسیخ کے پیچھے جو وجوہات ہیں وہ بھی بیان فرماتے ہیں۔


سورۃ الحج:22 , آیت:52 اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر (ایسا ہوتا رہا) کہ جب اس نے تلاوت کی تو خلل اندز ہوا شیطان اُس کی تلاوت میں۔ پھر تنسیخ کرتا رہا اللہ اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا رہا پھر پختہ کردیتا رہا اللہ اپنی آیات کو اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

آپ سمجھنا چاہیں تو اللہ تعالی کے مراسلہ کو پڑھئیے ۔ انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔

مجھے مکمل طور پر یقین ہے کہ قرآن حکیم میں‌کوئی ناسخ و منسوخ نہیں ہے۔ یہ شیطانی خیالات نئے نہیں بلکہ رسول اللہ کے سامنے بھی پیش کئے گئے جن کی وضاحت سورۃ‌الحج کی ان آیات میں بہت ہی صاف اور واضح کی گئی ہیں۔ پڑھنے اور سمجھنے والوں کے لئے اللہ تعالی کا بیان کافی ہے۔ اللہ تعالی ان لوگوں کو اصحابِ جہیم قرآر دیتے ہیں جو ناسخ و تنسیخ سے قرآن کی آیات کو مشکوک قرار دیتے ہیں۔ آیات آپ کو پیش کردی ہیں ۔ بار بار اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ پڑھتے نہیں۔ پڑھ کر غور کرلیتے تو بہت ہی آسانی ہوتی۔

تمام ناسخ و تنسیخ دوسرے افرد نے پیش کئے۔
میں صرف ایک قرآن کا ایک معمولی طالب علم ہوں۔ میں نے کبھی بھی کوئی ناسخ و منسوخ پیش نہیں کیا ہے اور نہ ہی کروں گا اور نہ ہی اس بوگس ناسخ و تنسیخ کے نظریہ کا قائل ہوں، جس کی قرآن حکیم تکفیر کرتا ہے۔

مزید یہ کہ الحمد للہ میں‌مکمل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ قرآن حکیم کے کم از کم 23 عدد ترجمے 50 بار سے زائید پڑھ کر میں گواہی دیتا ہوں کہ قرآن کی ایک بھی آیت کسی دوسری آیت کی تنسیخ‌ نہیں ‌کرتی۔ اور الحمد للہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس طرح باذوق صاحب نے شاہ ولی اللہ صاحب کے نکات پیش کئے اور الھمد للہ، ان کو باطل ثابت کرنے کی توفیق اللہ تعالی نے مجھے دی۔ یا آپ نے یہ رازی کے ناسخ‌ تنسیخ‌ کے بوگس نظریات پیش کئے ، جس کی الحمد للہ توفیق مجھے اللہ تعالی نے دی کہ ان کو قرآن مجید کی آیات سے باطل ثابت کروں۔ اسی طرح الحمد للہ میرا ایمان ہے اور مجھے یقین کامل ہے کہ انشاء اللہ تعالی ، اللہ کی مدد سے ایسے کسی بھی ناسخ تنسیخ کے نظریات کو باطل قرار دینے میں‌کامیاب ہونگا جسے آپ پیش کریں گے۔ انشاء اللہ تعالی۔

اس کی وجہ سورۃ الحج کی وہ آیات ہیں جو صاف اور واضح ہیں۔ جن سے کوئی مسلمان انکار نہیں‌کرسکتا۔

والسلام
 
میں پھر عرض کرتا چلوں کہ سب سے پہلے نسخ کے معنی متعین کیجئے۔ شرع کی اصطلاح میں نسخ جسے کہتے ہیں اسکو اسی معنوں میں استعمال کریں۔ ییہودیوں والی بات کو مسلمانوں پر چسپاں کرنے سے آپ دین کی کوئی خدمت نہیں کریں گے بلکہ کم پڑھے لکھے لوگوں کو محض کنفیوز کریں گے۔
واضح ہو کہ یہودی نسخ کے قائل نہیں تھے۔ وہ نسخ سے وہی مراد لیتے تھے جو خان صاحب مراد لے رہے ہیں یعنی" پہلے کوئی بات کرنا لیکن بعد میں اس بات کو غلط سمجھتے ہوئے اس بات کو کینسل کردینا"۔ اسی لئے یہودیوں نے صحابہ کو طعنہ دیا کہ مسلمانوں کا خدا غلطیاں کرتا ہے۔
لیکن نسخ کے یہ معنی نہیں ہیں۔ نسخ کے معنی جو علمائے اسلام نے ہر دور میں لئے وہ یہی ہیں کہ اللہ کا اپنے احکامات مین اپنی حکمت کے تحت تبدیلی کرنا۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے کہ سرکمسٹانسز تبدیل ہوجانے سے احکامات بھی اس لحاظ سے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جب مسلمان مکے میں تھے تو کافروں کے ظلم و ستم کے جواب محض صبر و تحمل سے دینے کے احکامات نازل ہوئے۔ ان تمام آیات میں صبر، تحمل، درگزر، کی تلقین کی گئی تھی۔ لیکن جب مدینے میں آئے اور حالات تبدیل ہوئے تو پھر مسلمانوں کو کہا گیا کہ مشرکین کو جہان پاؤ قتل کرو۔ اسی کو صحابہ اور تابعین نے نسخ کہا ہے اور یہ معاذ اللہ نازل کرنے والے کی جہالت کا نہیں بلکہ حکمت کا اظہار ہے۔
نسخ‌کے معانی: نہ آُ کے نہ میرے نہ یہودیوں کہ بلکہ اللہ کی کتاب سے:
سورۃ الحج:22 , آیت:52[arabic] وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [/arabic]

تنسیخ کس نے کی؟
اللہ تعالی تنسیخ کرتا رہا،
کن آیات کی تنسیخ:
جو رسول اکرم سے پہلے بھیجا تھا اور اس میں جو کچھ شیطان کا القا تھا۔
کیوں تنسیخ کی :
کہ شیطان نے القا کیا تھا۔

اس میں کوئی شبہ ہے؟
اسی طرح پہلے مسلمانوں کو آیت میں کہا گیا اگر دس مسلمان 1000 کافروں سے لڑین تو غالب آئیں گے۔ اس طرح انکو ہمت دلانے اور انکا مورال بلند کرنے کے بعد ان پر تخفیف یعنی نرمی کی گئی اور کہا گیا کہ 200 پر غالب آؤ گے یعنی تمیہرے مقابلے میں اگر اتنے کافر اس نسبت سے ہوں تو بھاگنا نہیں اللہ کا وعدہ ہے کہ تم لوگ ان پر غالب آجاؤ گے۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
یہ سب فرمان الہی ہے یا پھر شیطان کا القا ؟؟؟
اگر شیطان کا القا شدہ میٹیریل نہیں ہے تو کیا اللہ تعالی نے اس کی تنسیخ کی؟؟؟؟؟
تو پھر یہ نسخ نہیں ہے صاحب۔
پہلے رسول کریم کو آیت میں شادیوں کا حکم دیا گیا اس میں تعداد کی کوئی قید نہیں تھی لیکن بعد میں ایک خاص تعداد پورا ہو جانے کے بعد آیت نازل کرکے مزید نکاح سے روک دیا گیا۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
کیا رسول اکرم کو شادیوں کا حکم اللہ تعالی نے دیا تھا یا یہ شیطان کا القا تھا؟ اگر یہ اللہ تعالی کا حکم ہے تو اللہ تعالی نے اس کی تنسیخ‌نہیں کی۔ صرف شیطان کے القا کی - جو کچھ رسول اکرم سے پہلے ارسال کیا گیا تھا اور شیطان نے اس میں القا کیا تھا ---- اس کی تنسیخ کی گئی ۔۔ یہ نسخ نہیں ہے۔ ایک حکم الہی کی اس کے بزرگ رسول کے ہاتھوں تکمیل ہے۔
پہلے آیت نازل کی گئی کہ اللہ کے رسول سے تنہائی میں ملاقات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ صدقہ دیی جائے پھر ملاقات کی جائے۔ جب صحابہ نے اس بات کی حکمت کو بخوبی سمجھ لیا تو پھر ان سے یہ قید اٹھالی گئی۔ اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
یہ آیت اللہ نے نازل فرمائی یا شیطان نے نازل فرمائی؟ اگر یہ اللہ تعالی کی فرمان کردہ آیت ہے تو پھر اس کی کبھی تنسیخ‌نہیں‌ہوئی۔ اس لئے کہ تنسیخ صرف اس کی ہوئی جو الف) --- رسول اکرم سے پہلے نازل ہوا تھا ---- ب) شیطان نے اس میں خلل ڈالا تھا۔ یہ حکم قرآن میں اللہ تعالی نے نازل کیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی آیت اس قید کو نہیں اٹھاتی ہے ۔ یہ آپ کا اپنا قیاس و گمان ہے۔ (‌نوٹ کیجئے کہ اس کو میں آُپ کا قیاس و گمان کہہ رہا ہوں) آپ کہیں گے کہ قصور وار وہ ہے جس نے پہلے لکھا تھا جیسے اس صورت میں الرازی۔ یہ بالکل غلط ہے جو کچھ آپ لکھ رہے ہیں اس کے ذمہ دار آپ ہیں۔ کہ آپ نے سنی سنی بات کو بناء تحقیق آگے بڑھایا۔ آُ کے پاس نہ کوئی ثبوت ہے اور نہ کوئی دلیل کہ ایسا بیان کرنے والے سچا ہے ۔ آُ کے پاس اس حکم کی تنسیخ کرنے والی کوئی آیت نہیں۔
ایسی کئی مثالیں ہیں قرآن میں جنہیں صاحب علم لوگ بخوبی جانتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ کی حکمت پر مبنی ہے کم از کم مسلمان تو یہی سمجھتے ہیں‌لیکن یہودی اور ہمارے خان صاحب جان بوجھ کر اسکے نیگیٹو معنی لیتے ہیں اور کہتے ہیں لو جی ایسا کبھی ہو سکتا ہے کہ خدا غلطیاں کرے۔ سوچ انکی اپنی غلط ہے مسلمانوں کی نہیں۔ یہ جس بات کع اللہ کی غلطی سمجھتے ہیں ہمارے نزدیک وہ اللہ کی عین حکمت ہے
آپ کے الفاظ اور جملوں کا تجزیہ کرکے آپ کو قرآن حکیم کی روشنی میں سمجھا دیا ہے کہ ان متذکرہ آیات میں سے شیطان کی القا شدہ آیات کوئی نہیں ہیں لہذا اللہ تعالی نے اس کی تنسیخ‌نہیں‌کی ہے۔ لہذا آپ کا یہ نکتہ بے معانی ہے۔
اب بات یہ رہ جاتی ہے کہ جی کیا بہتر نہیں کہ اس بات کیلئے نسخ کا لفظ ہی نہ استعمال کیا جائے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ نسخ کا لفظ علما نے اپنی طرف سے نہیں‌نکالا بلکہ یہ خود اللہ کی آیات میں اللہ نے استعمال کیا ہے جب اللہ خود اپنی آیت میں کہتے ہیں کہ "ہم جس آیت کو نسخ کردیں یا لوگوں کے حافظوں سے بھلا دیں تو اس سے بہتر آیت لے آتے ہیں"۔ اور ایک اور جگہ اللہ کے رسول سے کہا گیا کہ "ہم تمہیں پڑھائیں گے جسکے بعد تم بھولو گے نہیں لیکن وہی کچھ جو اللہ چاہے"۔ اب یہاں بھی اللہ تعالی نے کہا کہ کچھ نہ کچھ ہم تمہیں بھلادین گے یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے والی آیت میں بیان کی گئی کہ جب ہم حافطوں سے کوئی آیت بھلادین تو اس سے بہتر لے آتے ہیں۔ ان جیسی اور بھی آیات ہیں مثلاّ "اللہ جو چاہے مٹاتا ہے اور جا چاہے باقی رکھتا ہے اور اسکے پاس ام الکتاب ہے"۔ ان تمام آیات کی بناء پر لفظ نسخ استعمال کرنا بالکل جائز ہے لیکن انہی معنوں میں جو صحابہ و تابعین و علمائے اسلام نے بیان کئے۔
صھابہ و تابعین مرحوم ہیں ، ان کو کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ اس لئے آُ اپنی بات کیجئے۔ اللہ تعالی جب نسخ یا تنسیخ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ تنسیخ کرنے کی درج ذیل شرائط تھیں۔
1۔ جو رسول اکرم سے قبل نازل کیا گیا تھا
2۔ جو شیطان نے خلل ڈالا تھا

آپ کا باقی تنسیخ کا فلسفہ یہاں مکمل طور پر فیل ہوجاتا ہے۔
اب اگر کوئی کہے کہ جی یہ آیات تو صرف اور صرف پرانی کتابوں کی تنسیخ کیلئے استعمال ہوئی ہیں تو اسکو چاہئیے کہ اپنی اس بات کو علمی طور پر ثابت کرے۔ کیونکہ اسکی بات کی مخالفت میں بہت سی احادیث ہیں، صحابہ کی روایات ہیں خود قرآن کی مثالیں ہیں۔ یار لوگوں نے اسکا یہ آسان طریقہ نکالا ہوا ہے کہ جی ہم کسی روایت کسی حدیث کو نہیں مانتے اور ہم اجماع امت کو بھی نہیں مانتے کیونکہ وہ سب علما گمراہ تھے اور انہوں نے امت کو گمراہ کرنے والا جہنمی کام کیا۔
جی آپ اللہ تعالی سے کہئیے کہ وہ آُنی بات کو علمی طور پر ثابت کرے۔ جو وہ آخرات کے دن فرمائیں گے۔
1۔ وہ آیات جو پرانی کتب جو رسول اکرم سے پہلے نازل ہوئیں۔
2۔ اور جن میں شیطان نے القا کیا تھا
صرف وہی آیات منسوخ کی گئیں اور ان کی جگہ بہتر آیات قرآن حکیم میں فراہم کی گئیں۔

یہ جھگڑا یہودی رسول اللہ سے کرتے تھے جو آپ آج اللہ سے کررہے ہیں۔ اللہ تعالی کا جواب یہ ہے:
[ayah]22:52 [/ayah][arabic] وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [/arabic]

بہتر یہ ہوگا کہ ان آیات پر غور فرمائیے۔ اور اس معاملہ کو اپنی ذاتی تحقیق سے سمجھئے نہ کہ "پرکھوں" کی تحقیق سے۔ مجھے مرحوم پرکھوں کے نکات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ نہ وہ یہاں‌آسکتے ہیں نہ بحث کرسکتے ہیں اور نہ ہی کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ اگر کسی کی سمجھ میں‌ان واضح آیات قرآنی سے بھی کچھ سمجھ میں نہ آئے تو بھائی ۔ میں اس کے علم کے لئے اپنا تبصرہ کا حق محفوظ رکھتا ہوں، قابل اظہار نہیں

والسلام

والسلام
 
میرے بھائی سمجھنا چاہو تو بہت آسان ہے لیکن اگر نفس پرستی حائل ہوجائے تو پھر قیامت تک آپ کو کوئی نہیں سمجھا سکتا کیونکہ آپکی فہم میں رکاوٹ محض آپکی نفس پرستی اور جھوٹی انا ہے۔ لہذا اپنے اس بت کو آپ خود ہی توڑین تو کچھ بات بنے گی۔ قرآن حکیم میں بھی ایسی صورتحال کے متعلق ارشاد ہے کہ"لوگوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ہوا(نفسانی خواہش) کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔"۔ ۔۔ یہ شیطانی ہٹ دھرمی نہیں تو اور کیا ہے کہ ساری امت ایک طرف اور آپکی اپنی رائے ایک طرف گویا سب صحابی، تابعین، فقہاء، محدثین، تمام مفسرین، تمام علمائے اسلام اور محققین تو بیک وقت غلط ہو سکتے ہیں لیکن اگر غلط نہیں ہو سکتا تو وہ اکیلا فاروق سرور خان ہے۔:shameonyou:
قرآن تو کہے کہ "پوچھ لو اہلِ ذکر سے اگر تم نہیں جانتے"۔ ۔ ۔ ۔ ۔لیکن فاروق سرور خان بضد ہے 1400 سال میں کوئی اہلِ ذکر نہیں‌گذرا، وہ سب غلط تھے مجھ سے پو چھو صرف میں حق پر ہوں۔:shameonyou:
قرآن تو کہے کہ " اگر تمہارے درمیان کوئی جھگڑا کھڑا ہوجائے تو اس معاملے کو اللہ اور اسکے رسول پر پیش کرو۔ پھر وہ جو فیصلہ دیں اسکو دل و جان سے قبول کرلو۔" لیکن فاروق سرور خان کا کہنا ہے کہ رسول پر پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے میں ہوں ناں آپکے پاس۔ قرآن کو سمجھنے کیلئے میری بات ہی مستند ہے رسول کی بات کا کوئی بھروسہ نہیں کیونکہ جو کچھ بھی ان سے منسوب ہے وہ 300 سال بعد نفسانی لوگوں نے اپنی طرف سے لکھ دیا ہے، اور امت بھی اتنی پاگل تھی کہ اتنا عرصہ اسکو اپنے رسول کی سنتیں سمجھتے ہوئے گلے سے لگائے رکھا۔:shameonyou:
اگر تحقیقی نقطہءِ نظر سے دیکھا جائے تو قرآن میں کئی ایسے الفاظ ملتے ہیں جن کے ایک سے زیادہ معنی ہیں۔ صلٰوة کو ہی لے لیجئے۔ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ" اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر صلٰوة بھیجتے ہیں اسلئے اے ایمان والو تم بھی ان پر صلٰوة و سلام بھیجو"۔ ۔ ۔ اب اللہ کی صلٰوة فرشتوں کی صلٰوة سے اور ہماری صلٰوة سے یقیناّ مختلف ہے۔ اسکو ایک ہی معنوں میں ااستعمال کرنا نری حماقت و جہالت ہوگی۔ ۔ اسی طرح نماز کو بھی صلٰوة کہا گیا ہے اور دعا کو بھی۔ ۔ ۔تو اب میرے بھائی قرآن کو صرف قرآن سے سمجھنے کا اگر دعوٰی ہے تو بتاؤ کہ قرآن میں کہاں یہ لکھا ہے کہ نماز والی صلٰوة اور نبی پر بھیجنے والی صلٰوة میں یہ یہ فرق ہے۔ ۔ ۔ لامحالہ ہم سنت کی طرف دیکھیں گے یعنی رسول کی رہنمائی کے محتاج ہونگے۔ ۔ ۔اب تم بیٹھے نکالتے رہو صرف قرآن سے اسکا فرق۔ جاننے والے تو 1400 سال سے اس پر عمل بھی کر رہے ہیں۔ آپ شوق سے 1400 سال کے غوروفکر کو 'ان ڈُو' کرکے نئے سرے سے دین کو سمجھنے کا کام کیجئے۔ لیکن ہم سے اسکی توقع مت رکھئے کیونکہ ہمارے نزدیک قرآن فہمی کسی ویکیوم میں بیٹھ کر نہیں حاصل ہوتی۔ کسی بات پر امت کا اجماع اس بات کے باطل نہ ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ رسول کریم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ جس بات کو مسلمان اچھا جانیں وہ اچھی ہی ہوتی ہے اور یہ کہ میری امت کبھی گمراہی پر متفق نہیں ہوگی۔ اب یا تو یہ سب لوگ جنکا میں نے ذکر کیا ہے اگر یہی لوگ گمراہی پر متفق ہوگئے ہیں تو پھر آپ اپنی ذات کے گنبد میں قید ہوکر لگے رہئے اسی تندہی سے خدمت دین میں۔ ۔ ۔
گلیاں ہو جان سُنجیاں ۔ ۔ ۔وچ مرزا یار پھرے:)
صلٰوة کی مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ بہت سے ایسے الفاظ ہیں قرآن میں کہ جنکے ایک سے زیادہ کئی معنی ہیں۔ 'نسخ' بھی ایسا ہی ایک لفظ ہے۔ جب یہ سورہ حج کی آیت 53 میں استعمال ہوا تو اسکے معنی اور ہیں اور جب یہ سورہ بقرہ کی آیت 106 میں استعمال ہوا تو یہ دوسرے مفہوم میں استعمال ہوا ۔ پہلے والی آیت میں لغوی معنے مراد لئے جائیں گے اور دوسری آیت میں شرع کے اصطلاحی معنے۔ ۔ ۔تمام مفسرین نے بھی اسکی یہی تفسیر بیان کی ہے آپ اگر نہیں مانتے تو پھر قرآن میں صلٰوة کی طرح اور بھی جتنے کثیر المعنی الفاظ ہیں سب کے متعلق اپنا یہی قاعدہ استعمال کیوں نہیں کرتے؟
اللہ نے اپنے کلام میں اپنی نسبت فرمایا کہ اسکا ایک تخت ہے جس پر وہ کھڑا ہے، اسکی ایک کرسی ہے، اسکے دو ہاتھ ہیں، اسکی پنڈلی بھی ہے، اس کو ہنسی بھی آتی ہے، وہ غصہ بھی کرتا ہے، وہ مذاق بھی اڑاتا ہے، وہ مکر بھی کرتا ہے، وہ منسوخ بھی کرتا ہے، وہ بھول بھی جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔تو میرے بھائی ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سب صفات محض الفاظ کی حد تک ہم جانتے ہیں انکا صحیح مفہوم سمجھنے کیلئے ہم اسکے وہ معنی مراد نہیں لیتے جو عام طور پر ہم انسانوں میں آپس میں مراد لئے جاتے ہیں۔ اگر آپ کو لفظ نسخ پر اتنی تکلیف ہے تو لازم ہے کہ آپ ان تمام مذکورہ الفاظ سے بھی اپنی اسی "خداداد عقل" سے کام لیتے ہوئے بیزاری کا اظہار کریں۔ اگر نہیں تو پھر مان لیں کہ یا تو آپ کی 'عقل' بڑی سلیکٹو قسم کی ہے جو من مانی کاروائیاں کرتی پھرتی ہے، یا پھر اس معاملے میں اپنی عقلِ بے مایہ کو خیر آباد کہ کر ان کا صحیح مفہوم اللہ کے علم کے حوالے کرتے ہوئے رسول کی اتباع کرتے ہوئے باقی لوگوں کی طرح ایمان لے آئیں ۔ ۔ ۔ وما علینا الا البلاغ



ٰ
 
۔
صاحب کشاف : علی ہجویری معہ کشف المحجوب، صوفیانہ کلام کے مہر۔
اپنی یہ غلطی بھی درست کر لیجئے(اگر نفس اجازت دے تو) کہ صاحبِ کشّاف کس کو کہا گیا ہے۔ ماشاءاللہ تفسیر دانی کے اتنے بلند بانگ دعوے ہیں لیکن اتنا پتہ نہیں کہ 'کشّاف' کس کو کہتے ہیں۔یہ کتاب کشف المحجوب نہیں ہے‌بلکہ کشّاف مشہورِ زمانہ تفسیر کا نام ہے جسکے مصّنف علی ہجویری نہیں بلکہ زمخشری صاحب ہیں۔
تفسیر دانی کے اتنے بلند بانگ دعوے اور حالت یہ ہے کہ ساری کی ساری قرآن فہمی قرآن کے چند تراجم کی مرہونِ منت ہے۔ تفسیر کرنے کیلئے اہلِ علم نے کافی علوم کا جاننا ضروری قرار دیا ہے لیکن آپ کو بھلا اسکی کیا پرواہ ہوسکتی ہے کیونکہ ماشاء اللہ آپ کے ضمیر پر تو نزولِ کتاب ہوچکا ہے آپ ان علوم سے مستغنی ٹھرے۔ بس کچھ لوگوں (جنکی آراء سے متفق ہونا آپ کیلئے بیحد مشکل ہوگا) کا کیا ہوا ترجمہ قرآن پڑھا، اور خود ساختہ مفسّر بن گئے۔اللہ اللہ خیر سلّا۔ ڈو اٹ یورسیلف ٹائپ کی قرآن فہمی۔ میرا ایک مشورہ یہ ہے کہ مشہورِ زمانہ کتابوں کی سیریز Idiot's Guideکے پبلشرز سے رابطہ کیجئے اور انہی خطوط پر چلتے ہوئے'ایڈیٹس گائڈ فار قرآن' بھی لکھ مارئے:);)
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اس عاشقی میں عزّتِ سادات تو گئی​
 

سویدا

محفلین
میں‌بھی یہی کچھ کہنے لگا تھا جس کی ترجمانی محمود صاحب نے کردی
آج کل سب کی اسلام کی معلومات صرف معلومات کی حد تک ہے
اسلام کی تحقیق کو ہم چلے ہیں‌لیکن مآخذ سے آگاہی ہمیں‌ہے نہیں
جتنے بھی نام نہاد اسکالرز ہیں‌سب کا یہی حال ہے عربی اور اسلامی علوم سے آگاہی نام کو نہیں‌اور چلے ہیں‌اسلام پر تحقیق کرنے
فاروق صاحب کا قصور نہیں‌ہے غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے انسان لاعلم ہوتا ہے بہت ساری باتوں سے اور اسی طرح‌ہی سیکھنے کو ملتا ہے
لیکن خدا را ہم اپنی ذاتی آرائ اور نظریات کو اسلام مت بنائیں‌بلکہ قرآن اور حدیث صحابہ کرام کے اقوال اور عمل کی روشنی میں‌دیکھیں‌
 
اپنی یہ غلطی بھی درست کر لیجئے(اگر نفس اجازت دے تو) کہ صاحبِ کشّاف کس کو کہا گیا ہے۔

جس کو چاہے صاحب کشاف سمجھ لیجئے، زمخشری کو یا علی ھجویری کو، یا پھجا چھولے والے کو۔ بات یہ ہے کہ جب تک ان انسانوں یعنی پرکھوں‌کی پوجا نہیں‌چھوٹے گی ، یہ عقدہ نہیں‌کھلے گا کہ اللہ کا فرمان، قرآن کا پیغام ہے کیا۔

آپ کو تمام ثبوت فراہم کردیے گئے ہیں۔ سکون سے پڑھئیے۔ نرا فلسفہ ہی فلسفہ ہے ، ایک جگہ بھی قرآن حکیم سے کوئی دلیل نہیں‌لاسکے۔ صاحب مجھے یہ سمجھانے کے بجائے کہ

"پرکھوں" نے کیا کہا ہے۔ یا جناب کا فلسفہ کیا ہے ۔ صرف اور صرف قرآن حکیم سے یہ ثبوت فراہم کردیجئے کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم کی آیات کی تنسیخ کی ہے۔ ساری بات یہ ہے کہ وہ لوگ جن کو قرآں حکیم کی آیات سے سخت زک پہنچتی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت تو اس آیت سے منسوخ ہوگئی جی اب تو اس آیت کا حکم باقی نہیں۔ یہی مقصد ہے اس ناسخ و منسوخ‌کا یہ یہ تماشہ کھڑا کیا جائے۔

ایسے شوشہ چھوڑنے والے کس قسم کے گنہ گار ہیں اس کے لئے آیات ایک بار پھر پڑھئیے۔ اللہ تعالی صاف صاف فرماتے ہیں‌کہ قرآن حکیم کی کوئی آیت منسوخ‌نہیں کی گئی۔ تو پھر آپ کے پاس کیا دلیل ہے۔ بندو، پرکھون یا بزرگوں سے نہیں ، تم لوگوں کے پاس ایک بھی ایسی دلیل نہیں‌ہے کہ جس سے قرآن حکیم کی ایک بھی آیت منسوخ ثابت ہوسکے۔ اگر سچے ہو تو اللہ تعالی کے احکام کے خلاف اپنی دلیل لاؤ۔

والسلام
 
پھ گھوم پھر کت وہی بات دہرائی جارہی ہے۔ ۔ میرے بھائی نسخ یا تنسیخ کے جو معنی آپ لے رہے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے تو واقعی قرآن ہی کی کیا بلکہ اللہ تعالٰی کی کسی بھی نازل کردہ آیت(خواہ وہ کسی کتاب کی بھی ہو) کی تنسیخ نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ ہمارا بھی آپکی طرح اسی بات پر ایمان ہے کہ اللہ تعالٰی سے کبھی غلطی کا صدور نہیں‌ہوسکتا۔ اور یہ محال ہے کہ اللہ کوءی آیت نازل کرے لیکن بعد میں اسے اس میں کوئی غلطی نظر آئے اور وہ اسکو کینسل کردے۔ ۔ ۔ استغفراللہ ایسا اعتقاد تو کسی جاہل سے جاہل مسلمان کا نہیں ہوسکتا۔ لیکن بات جو آپ کو سمجھ نہیں آرہی (یا آپ سمجھنے کے باوجود اسکو تسلیم کرنے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں) وہ یہ ہے کہ نسخ یا تنسیخ کا لفظ جب بھی علماء و محققین و اکابرینِ امت نے استعمال کیا تو وہ ان مذموم معنوں میں استعمال نہیں کیا۔ نسخ کے شرعی معنے یہی ہیں کہ کوئی حکم نازل کیا گیا پھر اسکے مطلوبہ نتائج حاصل ہو جانے کے بعد اس حکم پر عمل سے روک دیا گیا(واضح رہے کہ آپ خود اپنے مراسلے میں تسلیم کرچکے ہیں کہ ایسا بہت مرتبہ قرآن میں ہوا ہے) ۔ ۔ اسی کو شرعی اصطلاح میں نسخ کہتے ہیں۔ اور یہ نسخ کا لفظ اللہ نے انہی معنوں میں قرآن کی بعض آیات کے احکامات کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
اسکی مثال آپ ہی کے مراسلے میں سے میں نے دی جس میں آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ نبی کریم کو پہلے شادیوں کا حکم دیا گیا۔ ۔ ۔ جب ان شادیوں‌کی ایک مخصوص تعداد ہوگئی تو پھر انکو مزید نکاح کرنے سے روک دیا گیا۔ ۔ یہ آپ ہی نے لکھا ہے ناں؟۔۔۔تو اس پر ذرا غور کرنے کی زحمت کیجئے کہ اس دوسری آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی اگر نبی کریم پہلے والی آیت پر عمل جاری رکھتے تو کیا یہ درست ہوتا کہ غلط؟۔ ۔ ۔ یقیناّ غلط ہی ہوتا ۔ ۔تو اب اگر کہا جائے کہ اللہ نے انکے لئے وہ پہلے والا حکم منسوخ کردیا تو کیا غلط کہا؟؟؟؟؟؟اسی کو نسخ کہتے ہیں۔
دوسری مثال کہ اللہ نے آیت نازل کی کہ اے نبی مسلمانوں کو قتال پر ابھارو یہ کہہ کر کہ اگر وہ اپنے سے دس گنا تعداد کے دشمن سے لڑیں گے تو اللہ انکو غالب کرے گا۔۔ ۔ اب اس آیت سے یہ واضح ہوا کہ مسلمان دس گنا دشمن سے بھی لڑیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ غالب رہیں گے۔ چنانچہ اس پر عمل ہوتا رہا۔اور اس بات کی اجازت نہ تھی کہ دس گنا دشمن کو دیکھ کر لڑائی سے پیٹح پھیر لی جائے۔ اس آیت سے مسلمانوں کے حوصلے کو ایک بُوسٹ ملا اور مورال بڑھ گیا۔ جب یہ مقاصد پورے ہوگئے تو اللہ نے ایک دوسری آیت نازل کی جس میں فرمایا کہ اب تم پر تخفیف کی جاتی ہے چنانچہ اب اللہ کا تم سے وعدہ ہے کہ اپنے سے دوگنے دشمن سے بھی لڑو گے تو اللہ تمہیں غالب کرے گا۔ اب مسلمانوں کو یہ ریلیکسیشن ملی کہ اگر دس گنا دشمن ہو تو لڑائی کی حکمت عملی تبدیل کی جاسکتی ہے، لیکن اپنے سے دگنے دشمن سے لڑنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں نصرت عطا کرے گا۔ چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اس وعدے کی وجہ سے اب جو کوئی دگنے دشمن سے ڈر کر لڑائی سے بھاگے گا تو وہ کبیرہ گناہ ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ تمام مفسرین اور محققین ان معنوں میں پہلے والی آیت کے حکم کو منسوخ سمجھتے ہیں۔۔ آپ خود ہی سوچیں کہ جب اللہ نے دس کے مقابلے پر ایک کے غلبے کا وعدہ کیا ہوا ہے تو پھر دو کے مقابلے میں ایک کے غلبے کے وعدے کی کیا تک بنتی ہے؟ خصوصاّ جب اللہ نے خود کہہ دیا کہ اس آیت سے "اب ہم نے تم پر تخفیف کردی"۔ ۔
باقی میں نے اپنے موقف کو کافی پوسٹس میں اچھی طرح بیان کردیا ہے۔ بار بار انکو دہرانا تضیعِ اوقات سمجھتا ہوں۔
آپ کو اگر اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی تو لگے رہو منا بھائی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں۔:)
 
Top