اگر کہیں ہوتا یہ غیر اللہ کی طرف سے تو ضرور پاتے یہ اس میں -- اختلافاَ كثيراً

تقریباً ایک سال پیشتر ایک رکن محفل باذوق نے فرمایا کہ قرآن تناقصات سے بھرپور ہے اور یہ دھاگہ رقم کیا۔ مین نے وعدہ کیا تھا کہ اس کا جواب وقت ملنے پر انشاء اللہ تعالی دوں گا۔ اس کے بعد سے میں اپنے ذاتی کام کاج کے علاوہ ایک نان پروڈکٹو بحث میں الجھا رہا جو اب ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے کہ منکرین سنت رسول و قران کیا ہیں - یہ موقف اب سامنے ہے اور میرا موقف بھی اب بہت ہی واضح ہے۔ لہذا اب میں نے طے کیا ہے کہ اس بے کار کی بحث میں حصہ لینے کے بجائے قرآن کی تعلیم پر وقت صرف کرنا بہتر ہے۔

لہذا حسب وعدہ جواب کی ابتداء کررہا ہوں۔ جس میں ایک ایک آیت کرکے جواب دیا جائے گا۔ انشاء اللہ

میں یہ واضح کردوں کہ جناب باذوق کا اپنا مقصد قرآن میں تناقصات کو سامنے لانا نہیں تھا بلکہ یہ بتانا تھا کہ لوگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو وضاحت کردی تھی کہ وہ اس طرح نہیں سوچتے ہیں بلکہ اس مثال سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر قرآن میں ایسے اختلافات ہیں جن کو وہ خود تو نہیں مانتے لیکن لوگ کہتے ہیں۔ تو کیا ہم قرآن پڑھنا بند کردیں۔

میں یہ ضروری سمجھتا ہوں‌کہ ہم ان اختلافات کو دیکھیں کہ ان کی حقیقت کیا ہے؟
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=176111&postcount=75

پوسٹ نمبر : 2
واہ جناب ، بہت خوب !
یعنی ، اگر کوئی اٹھ کر خود قرآن میں موجود اہانتِ رسول اور قرآنی احکامات کا تناقض بیان کرنے لگ جائے تو کیا عامۃ المسلمین پر یہ حکم صادر کر دیا جائے گا کہ : وہ قرآن سے دور رہیں ؟
چند مثالیں دیکھ لیں ۔ یہ مثالیں عرصہ قبل راقم نے یہاں بھی پیش فرمائی تھیں اور فردِ مقابل ان کو دیکھ کر جو رفو چکر ہوئے ہیں تو اُس فورم پر آج تک ان کا پتا نہیں ، جواب دینا تو دور کی بات۔

قرآنی تناقضات :
‫1) زمین چھ دن میں تخلیق ہوئی ۔۔۔۔ (سورہ : 7 ، آیت : 54 )۔
زمین آٹھ دن میں تخلیق ہوئی ۔۔۔۔ (سورہ : 41 ، آیات : 9 تا 12 )۔

‫2) برائی شیطان کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیات : 117 تا 120 )۔
برائی انسان کی اپنی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 79 )۔
سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 78 )۔

‫3‬) یہ کتاب پہلی کتابوں کی تصدیق ‫(confirm) کرتی ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 97 )۔
ہم ایک آیت کسی دوسری کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 16 ، آیت : 101 )۔

‫4) ۔۔۔ تمام پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 285 )۔
ان (پیغمبروں) میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 253 )۔

‫5) زانی مسلمان عورت کی سزا عمر بھر کے لیے گھر میں نظر بندی ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 15 )۔
زانی مسلمان عورت کی سزا سو کوڑے ۔۔۔۔ (سورہ : 24 ، آیت : 2 )۔

‫6) اللہ کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 22 ، آیت : 47 )۔
اور وہ عذاب اس روز نازل ہوگا جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔۔۔۔ (سورہ : 70 ، آیت : 4 )۔

‫7) اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 48 )۔
وہ بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے تو اس سے ہم نے درگزر کیا ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 153 )۔

اہانت :
1۔ امہات مومنین کی شخصیت پر حرف ‫:
اے نبی (ص) ! اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی طلبگار ہو تو آؤ ، میں تمہیں کچھ مال دے دوں اور تمہیں اچھی طرح رخصت کردوں ۔۔۔۔ (سورہ : 33 ، آیت : 28 )۔
گویا امہات المومنین (رضی اللہ عنہا) کا یہ میلان ، اللہ اور اس کے رسول (ص) کی نظروں میں اتنا ناپسندیدہ تھا کہ : اللہ نے نبی کو حکم دیا کہ اگر وہ اپنی ان خواہشات سے باز نہیں آتیں تو ان سب کو طلاق دے کر رخصت کر دو۔
فرمائیے : کیا اس آیت سے امہات مومنین کی شخصیت پر حرف نہیں آتا ؟؟
اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرلو (تو خیر ورنہ) تمہارے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 66 ، آیت : 4 )۔
اللہ تعالیٰ نبی کریم کی دو ازواج مطہرات (رض) کے متعلق فرماتا ہے کہ ان کے دل ٹیڑھے ہو گئے ۔۔۔ فرمائیے : کیا اس آیت سے امہات مومنین کی شخصیت پر حرف نہیں آتا ؟؟

2۔ صحابہ کرام کی شخصیت پر حرف ‫:
اور یہ لوگ جب کوئی تجارت یا تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ (ص) کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 62 ، آیت : 11 )۔
اللہ تعالیٰ کبار صحابہ (رض) کے متعلق فرما رہے ہیں کہ خطبہ جمعہ کے وقت ، تجارت کا مال یا کوئی تماشا دیکھ کر نبی کریم (ص) کو اکیلا کھڑا چھوڑ جاتے تھے ۔
کیا اس آیت سے صحابہ کرام کی سیرت داغدار نہیں ہوتی ؟ اور صحابہ کرام کی شخصیت پر حرف نہیں آتا ؟؟
اور مومنوں کی ایک جماعت (جہاد سے) نفرت کرتی تھی ، یہ لوگ فتح کے ظاہر ہونے کے بعد آپ (ص) سے جھگڑنے لگے گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 8 ، آیات : 5 تا 6 )۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت جہاد سے نفرت کرتی تھی ۔۔۔ کیا اس آیت سے صحابہ کرام کی شخصیت پر حرف نہیں آتا ؟؟

3۔ نبی سید کائنات (ص) کی شخصیت پر حرف ‫:
رسول نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا جب اس کے پاس ایک نابینا آیا ۔۔۔۔ ( سورة عبس : 80 ، آیات : 1 تا 2 )۔
یہ آیت ایک اخلاقی عیب کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس سے آپ (ص) کی شخصیت پر حرف آتا ہے اور آپ (ص) کی سیرت داغدار ہوتی ہے۔
ہم نے آپ کو فتح مبین دے دی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردے ۔۔۔۔ ( سورة الفتح : 48 ، آیات : 1 تا 2 )۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (ص) سے کچھ نہ کچھ گناہ بھی سرزد ہوئے ہیں لہذا یہ آیت بھی آپ (ص) کی شخصیت پر حرف ہے ۔

محبی فاروق صاحب ، اگر آپ درج بالا آیات کی کوئی معقول تاویل ہم سے بیان بھی کر دیتے ہیں تو میرا سوال یہ ہے کہ :
آخر آپ ایسا ہی حق اُن محدثین کو دینے سے کیوں کترا رہے ہیں جو ان آپس میں متعارض احادیث کے حقیقی معانی آپ کو بتلانا چاہتے ہیں؟
کیا ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ آپ صرف الزام لگانا جانتے ہیں اور مشکلہ احادیث پر محدثین کی تاویلات و تشریحات سننے کے لیے آپ کے پاس وقت نہیں؟
جس قسم کی علمی بحث اور جس قسم کا مطالعہ آپ یہاں شئر کر رہے ہیں اور جس کی بنیاد پر محترم اجمل صاحب بھی آپ کی “فصاحت ، بلاغت ، سحر بیانی وغیرہ وغیرہ“ کے قائل ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ۔۔۔ اس کی بنیاد کو دیکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ آپ کے پاس وقت نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ سمجھتا ہوں کہ آپ صرف ایک خاص نظریہ یا خاص مکتبِ فکر کی ہی تحاریر سے مستفید ہونے کو حق مانتے ہوں۔
پھر اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ جو آپ تحقیق کرنے کی بہ نسبت دوسروں (مستشرقین اور منکرینِ حدیث) کے لگائے گئے الزامات کے دہرانے ہی کو دین کی خدمت سمجھ بیٹھے ہیں ؟؟
 
‫1) زمین چھ دن میں تخلیق ہوئی ۔۔۔۔ (سورہ : 7 ، آیت : 54 )۔
زمین آٹھ دن میں تخلیق ہوئی ۔۔۔۔ (سورہ : 41 ، آیات : 9 تا 12 )۔

پوری آیات:
[ayah]7:54 [/ayah] [arabic] إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ[/arabic]

بلاشُبہ تمہارا رب اللہ ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پھر جلوہ افروز ہوا اپنے تخت سلطنت پر۔ ڈھانک دیتا ہے وہ رات کو دن پر اور وہ چلی آتی ہے اس کے پیچھے پیچھے دوڑتی اور سورج اور چاند اور ستارے سب کام میں لگے ہوئے ہیں اس کے حکم کے مطابق، خبر دار ہو اسی کا کام ہے پیدا فرمانا اور (اُسی کو اختیار ہے) حکم دینے اور فیصلہ کرنے کا بہت بابرکت ہے اللہ جو رب ہے سب جہانوں کا۔

چھ دن میں کیا بنایا گیا ؟
السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ
زمین و آسمان

اب دوسرا سیٹ دیکھتے ہیں۔

[ayah]41:9[/ayah] [arabic]قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ[/arabic]
[ayah]41:10[/ayah] [arabic]وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ[/arabic]
[ayah] 41:11 [/ayah] [arabic]ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ اِئْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ[/arabic]
[ayah]41:12[/ayah] [arabic] فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ[/arabic]

41:9 فرما دیجئے: کیا تم اس (اﷲ) کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دِن (یعنی دو مدّتوں) میں پیدا فرمایا اور تم اُس کے لئے ہمسر ٹھہراتے ہو، وہی سارے جہانوں کا پروردگار ہے

[ayah]41:10 [/ayah] اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہے
[ayah]41:11[/ayah] پھر وہ سماوی کائنات کی طرف متوجہ ہوا تو وہ (سب) دھواں تھا، سو اس نے اُسے (یعنی آسمانی کرّوں سے) اور زمین سے فرمایا: خواہ باہم کشش و رغبت سے یا گریزی و ناگواری سے (ہمارے نظام کے تابع) آجاؤ، دونوں نے کہا: ہم خوشی سے حاضر ہیں
[ayah]41:12[/ayah] پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کر دیا اور محفوظ بھی (تاکہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت نہ کر سکے)، یہ زبر دست غلبہ (و قوت) والے، بڑے علم والے (رب) کا مقرر کردہ نظام ہے

اب دیکھئے:
41:9صرف زمین کی تخلیق - دو دن میں
41:10 زمین کی تزئین - چار دن میں - یہ ہوئے 6 دن یا کل 4 دن کہ تزئین اور تخلیق ایک دوسرے پر اور لیپ (منطبق) ہوئی؟
41:11 - آسمانی کرے موجود تھے جن کی شکل دھوئیں جیسی تھی۔
41:12 پھر دو دِنوں میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں سے آراستہ کر دیا اور محفوظ بھی - یہ دو دن کیا 4 دن کے بعد شروع ہوئے یا 6 دن کے بعد؟
ان دو دنوں میں آسمانی کروں کے علاوہ جو کام تھا مکمل ہوا۔ جس میں آسمان کی حفاظت اور تزئین کا کام ہے۔

سب سے پہلے تو آپ --- میں ---- نوٹ کیجئے۔ اللہ تعالی گنتی نہیں‌گن رہے بلکہ دورانیہ بتا رہے ہیں۔ یہ دورانیے ایک دوسر ے پر منطبق یعنی اوور لیپ بھی ہو سکتے ہیں۔ جدید پراجیکٹ مینیجمنٹ میں ایک پراجیکٹ‌کا مطلق دورانیہ 6 دن ہو سکتا ہے جبکہ اس کے سب پراجیکٹس کے دورانیے ایک کے بعد ایک رکھ کر دیکھے جائیں تو ان کی طوالت 6 دن سے بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔

پہلی مثال:
گویا چھ دنوں میں زمین اور اس کا آسمان تخلیق کیا گیا 7:54،
واضح‌ ہے کہ باقی کائنات بھی تخلیق ہو رہی تھی جس میںممکن ہے کہ ‌مزید دو دن لگے جو کہ دوسری آیات میں بتا جارہا ہے۔ پہلی آیت 7:54 محض‌ایک سمری ہے اور دوسری آیات 41:9 سے لے کر 41:12 تک مزید تخلیقی تفصیلات۔ اگر 41:9 سے 41:12 تک صرف زمین اور آسمان کا تذکرہ کیا جاتا جیسا کہ 7:54 میں‌کیا گیا ہے تو پھر ہم کہہ سکتے تھے کہ ایک ہی کام کے لئے دو مختلف ‌دورانیے بتائے جارہے ہیں ۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان دونوں آیات کے سیٹ میں کام کی مقدار اور نوعیت دونوں ہی بہت مختلف ہے۔

گویا یہ ممکن ہے کہ زمین و آسمان 6 دن میں ---- اور --- زمین و آسمان کے علاوہ باقی کائنات 8 دن میں‌ مکمل ہوئی ہو۔ اس طرح اس مفہوم میں کوئی بات اختلافی نہیں ہے کہ کام کی مقدار اور نوعیت کا فرق ہے۔

دوسری مثال :
زمیں بنانے کے ساتھ ساتھ آسمانوں‌ کا کام بھی چل رہا تھا، مکمل کائنات کا کام 6 دن میں‌مکمل ہوا۔ لیکن زمین پر جو تزئین کی گئی وہ پہلے دو دن کے بعد مزید 2 دن چلتی رہی یعنی کل 4 دن ۔ اس دوران آسمانوں کی تخلیق، زمین کی (2 دن کی ) تخلیق کے بعد مزید 4 دن جاری رہی اور کائنات اس طرح 6 دن تک تخلیق ہوتی رہی۔

گویا جس طرح سے بھی حساب کریں 6 دن میں زمین اور اسکے آسمان کی تخلیق ممکن ہے اور ایسے امکانات موجود ہیں کہ دونوں آیات کے سیٹ ایک دوسرے سے اختلاف نہ رکھتے ہوں۔ لہذا وہ ممکنہ معانی لینا جو پہلی آیت کے مخالف ہوں‌ ، انصاف کے اصولوں سے بہت دور ہیں۔


تیسری مثال:
اللہ تعالی نے زمین و آسمان و کائینات کو " کن فیکون" کے مصداق تخلیق کیا۔ اس میں کل وقت 6 دن لگا جو کہ پہلی آیت میں درج ہے اور یہ سب کائینات ایک ساتھ بن کر تیار ہوگئی۔ اب اللہ تعالی دوسری آیات کے سیٹ میں ان واقعات کی طرف اشارہ کررہے ہیں جو ہمارے لیے اہم ہیں کہ زمین دو دن میں بنی تھی، اس پر باقی ضروری اشیا میں دو دن اور لگ گئے گویا چار دن زمین پر لگے۔ اور آسمان یعنی تمام کائنات دو دن مزید میں کامل تخلیق ہوئی۔ یہ ایک بہت ہی سادہ سا ماڈل ہے جو ان آیات نے تخلیق کائنات کے بارے میں عام انسانوں‌ کے سامنے پیش کیا ہے۔ جس پر اسی سادگی سے دیکھنا چاہئے۔ جہاں یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے خیال کی کجی سے 6 اور 8 کے فرق کو نمایاں کریں‌ وہان یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں جگہ 6 دن بنیں یا 2 مزید دن مزید کاموں میں صرف ہوں۔

ان آیات کے کئی پہلو ممکن ہیں ۔ اس لئے یہ اعتراض کہ ان آیات میں کوئی اختلاف ہے مناسب اعتراض قطعاً نہیں‌ہے۔

نوٹ:
یہاں دنوں‌ سے کیا مراد ہے وہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہمارے شمسی دن ہوں - انکا شمسی دن ہونا ممکن بھی ہے اور ایس ابھی ممکن ہے کہ یہ مختلف قسم کے دن ہوں ۔

اس کےبارے میں کچھ آرٹیکلز کے بعد لکھوں گا۔ انشاء اللہ۔

ایک بار پھر عرض کردوں کہ باذوق ایسا نہیں‌ کہنا چاہتے کہ قرآن میں اختلاف ہے بلکہ وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسا سمجھتے ہیں ۔ جو کہ ان لوگوں کی معصومیت ہے۔
والسلام
 
اصل مباحثہ اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ کیا قرآن کی آیات خود دوسری آیات کی تنسیخ کرتی ہیں؟ یعنی ایک آیت کو مانئے تو دوسری آیت قابل قبول نہیں‌رہتی؟ اس کی تاریخ‌بہت پرانی ہے ۔ بہت سے لوگوں نے اس پر خیال آرائی کی ہے۔ شاہ ولی اللہ نے ایسی آیات کی تعداد 5 بتائی جو ایک دوسرے کی تنسیخ کرتی ہیں۔ ہم ان آیات کو بھی دیکھیں گے کہ کیا ایسا ہے کہ وہ آیات ایک دوسرے کی تردید یا تنسیخ کرتی ہیں ۔

بندہ نے قران کی تعلیم سے یہ سیکھا ہے کہ قرآن میں واضح‌شہادت پائی جاتی ہے کہ خود قرآن میں کوئی آیت کسی دوسری آیت سے منسوخ‌ نہیں کی گئی۔ یعنی قران کی کوئی آیت کسی دوسری آیت کو منسوخ نہیں کرتی۔ کہیں ایک آیت کے فرمان کی مزید تفصیل بتائی گئی اور کہیں ایک آیت سے پیدا ہونے والی ممکنہ سختی کو نرم کیا گیا۔

اگر آپ کا اس سلسلے میں اعتراض‌ہے تو گذارش یہ ہے آپ ایسی آیات پیش کیجئے اور ساتھ میں یہ بھی بتائیے کہ آپ کس آیت کو منسوخ‌ قرار دیتے ہیں اور کیوں؟ اور کسی آیت کو قبول کرت ہیں اور کیوں۔ یہ اس وجہ سے کہ اگر آپ کا ایمان نہیں ہے اور سنی سنائی بات کررہے ہیں تو پھر ہم وقت کیوں ضائع کریں۔

آئیے اس کا مشاہدہ کرتے ہیں خالص قرآن سے۔

سب سے پہلے آپ اللہ تعالی کا یہ فرمان دیکھئے کہ قران میں‌ بڑا سااختلاف نہیں‌ پایا جاتا۔

[AYAH]4:82[/AYAH] تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے، اور اگر یہ (قرآن) غیرِ خدا کی طرف سے (آیا) ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے

یہاں لفظ استعمال کیا گیا ہے اختلافاً‌ کثیراً اس کی مماثل مثالیں عربی میں‌ملتی ہیں عفواً کثیراًَ بہت سا شکریہ، یا بھر شکراً جزیلاً یا شکراً کثیراً یعنی بہت سارا شکریہ۔ یہاں پر اختلافاً‌ کثیراً سے مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں کہیں‌تھوڑا تھوڑا اختلاف ہے ۔ بلکہ یہاں‌ مقصد ہے کہ آپ کو بہت بڑا سا اختلاف مل جاتا۔


سوال یہ ہے کہ کیا آیات صرف قرآن میں عطا ہوئیں؟ یہ ان آیات کی ایک مثال ہے جو ہم کو بتائی ہیں کہ آیات قرآن سے پہلے بھی نازل ہوئیں۔
[AYAH]2:211[/AYAH] [ARABIC] سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ [/ARABIC]
Tahir ul Qadri آپ بنی اسرائیل سے پوچھ لیں کہ ہم نے انہیں کتنی واضح نشانیاں عطا کی تھیں، اور جو شخص اﷲ کی نعمت کو اپنے پاس آجانے کے بعد بدل ڈالے تو بیشک اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے

تو یہ ثابت ہوا۔ قرآن سے پہلے کتب بھی اللہ کی آیات پر مشتمل تھیں۔ ان آیات کے الفاظ میں- (فرمان میں نہیں) - تبدیلی کو اللہ نے ضروری سمجھا تاکہ مسلمانوں کو آسانی رہے ۔ لہذا ان سابقہ آیات کو تبدیل بھی کیا اور فراموش بھی۔ درج ذیل آیت اس ضمن میں دلیل کی جاتی ہے کہ قرآن میں کچھ آیات دوسری آیات کو منسوخ‌ کرتی ہیں۔ یہ پچھلی کتب کی آیات کی بات ہورہی ہے ۔ اس آیت میں کسی طور پر بھی قرآن حکیم کا نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہے کہ --- جو تم پر نازل کیا --- جو کہ عام طور پر اللہ تعالی اس وقت استعمال کرتے ہیں جب رسول اکرم پر نازل شدہ کو ممتاز کرنا مقصود ہو۔

[AYAH]2:106[/AYAH] ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے

جن سابقہ آیات کی منسوخی ہوئی اس کی وجہ بھی بیان کی گئی کہ رسول اللہ سے پہلے کوئی نبی اور رسول اللہ کا بھیجا ہوا ایسا نہیں تھا جس کی کی ہوئی تلاوت کو شیطان نے متاثر نہ کیا ہو۔ ان سابقہ کتب کی ان آیات کو جن سے شیطان نے کسی طور انسانوں کے دل میں‌ وسوسہ ڈال کر خلل ڈالا تو اللہ نے ان کو منسوخ کیا اور بہتر الفاظ کے ساتھ آیات نازل فرمائیں۔ دیکھئے کہ اللہ تعالی رسول اکرم کو اس سے مبرا قرآر دے رہے ہیں۔ ان آیات کے بارے میں ارشاد اللہ تعالی یہ ہے کہ :
[AYAH]22:52[/AYAH] [ARABIC]وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ[/ARABIC]
اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر (ایسا ہوتا رہا) کہ جب اس نے تلاوت کی تو خلل اندز ہوا شیطان اُس کی تلاوت میں۔ پھر مٹا دیتا رہا اللہ ([ARABIC]فَيَنسَخُ اللَّهُ[/ARABIC]ُ ) اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا رہا پھر پختہ کردیتا رہا اللہ اپنی آیات کو اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

ثبوت اس کا یہ ہے کہ یہ سابقہ کتب کی آیات کو بدلنے کی بابت ہے ۔ کہ جب سابقہ آیات دوسرے الفاظ پر مشتمل تھیں اور رسول اللہ پر نئے الفاظ میں یہی آیات نازل ہوئی تو کفار۔ جو قران پر ایمان سرے سے رکھتے ہی نہیں تھے -- انہوں نے کہا کہ آپ اپنی طرف سے گھڑ رہے ہیں۔
[AYAH]16:101[/AYAH] [ARABIC]وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ [/ARABIC]
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے جو (کچھ) وہ نازل فرماتا ہے (تو) کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ (آیتوں کے اتارنے اور بدلنے کی حکمت) نہیں جانتے

کفار قرآن کی آیات کو پرانی کتب کی آیات سے تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے تھے کہ اس قرآن کو اپنی ترمیم شدہ کتب کے مطابق بنالیں ۔ وہ قرآن کو مانتے ہیں نہیں تھے۔
[AYAH]10:15 [/AYAH] اور جب ان پر ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس (قرآن) کے سوا کوئی اور قرآن لے آئیے یا اسے بدل دیجئے، (اے نبیِ مکرّم!) فرما دیں: مجھے حق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے بدل دوں، میں تو فقط جو میری طرف وحی کی جاتی ہے (اس کی) پیروی کرتا ہوں، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بیشک میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں

اگر اللہ تعالی اپنی آیات قرآن میں‌بدلتا رہتا تو ہر مسلمان کے لئے مشکل ہوجاتا کہ وہ کونسی والی مانے اور کونسی کا انکار کرے ۔ اس صورت میں ایک نا ایک آیت کی تکفیر کرنی پڑتی ۔ اس صورت میں یہ آیت معنی کھودیتی۔
[AYAH]4:56[/AYAH] بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ہم عنقریب انہیں (دوزخ کی) آگ میں جھونک دیں گے، جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم انہیں دوسری کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ (مسلسل) عذاب (کا مزہ) چکھتے رہیں، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے

اسی لئے اللہ تعالی نے بار بار قرآن میں واضح کیا کہ وہ اپنی سنت تبدیل نہیں کرتا ہے۔ یعنی اس کے احکامات تبدیل نہیں ہوتے ہیں ۔ الفاظ تبدیل ہونے سے فرمان کا مفہوم تبدیل نہیں ہوتا۔ لہذا قرآن کی کوئی آیت منسوخ شدہ نہیں ہے ورنہ اللہ تعالی واضح‌ طور پر تفصیل سے فرماتے کہ ہم یہ آیت منسوخ‌ کررہے ہیں ۔

[AYAH]50:29 [/AYAH][ARABIC]مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ[/ARABIC]
میری بارگاہ میں فرمان بدلا نہیں جاتا اور نہ ہی میں بندوں پر ظلم کرنے والا ہوں

کیا اللہ کی سنت تبدیل ہوتی ہے ۔ نہیں۔
[AYAH]35:43[/AYAH] [ARABIC] اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [/ARABIC]
(انہوں نے) زمین میں اپنے آپ کو سب سے بڑا سمجھنا اور بری چالیں چلنا (اختیار کیا)، اور برُی چالیں اُسی چال چلنے والے کو ہی گھیر لیتی ہیں، سو یہ اگلے لوگوں کی رَوِشِ (عذاب) کے سوا (کسی اور چیز کے) منتظر نہیں ہیں۔ سو آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے، اور نہ ہی اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی پھرنا پائیں گے

[AYAH]33:62[/AYAH] [ARABIC] سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [/ARABIC]
اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے

جب اللہ کا دستور تبدیل نہیں ہوتا۔ اس کی بارگاہ میں فرمان تبدیل نہیں ہوتا تو پھر اللہ تعالی کی ان آیات کے بعد آپ کے پاس کیا وجہ ہے کہ آپ کہیں کہ اللہ تعالی نے بذات خود قرآن میں آیات مع احکامات کے منسوخ کیں ۔ جب کہ اس کا ایک بھی ثبوت آپ کے پاس قرآن حکیم سے نہیں ہے۔

ہم نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے ان آیات کی تنسیخ کی جو سابقہ انبیاء‌کرام پر نازل کی گئی تھیں اور جن میں شیطان نے خلل ڈالا تھا۔

والسلام۔
 
اقتباس
‫2) برائی شیطان کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیات : 117 تا 120 )۔
برائی انسان کی اپنی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 79 )۔
سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 78 )۔


سب سے پہلے مکمل آیات :
‫2) برائی شیطان کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیات : 117 تا 120 )۔
[ayah]4:117[/ayah] نہیں عبادت کرتے یہ (مشرک) اللہ کے سوا مگر دیو یوں کی اور نہیں عبادت کرتے یہ (ان کی بھی) بلکہ شیطان کی جو باغی ہے۔
[ayah]4:118[/ayah] لعنت کی اس پر اللہ نے۔ اور کہا تھا اس نے کہ ضرور لے کر رہوں گا میں، تیرے بندوں میں سے (اپنا) مقّررہ حصّہ۔
[ayah]4:119[/ayah] اور ضرور گمراہ کروں گا میں ان کو اور ضرور آرزؤو ں کے سبز باغ دکھاؤں گا میں ان کو اور ضرور حُکم دوں گا میں ان کو تو ضرور چیریں گے وہ کان مویشیوں کے اور ضرور حُکم دُوں گا میں اُن کو تو وہ ضرور ردوبدل کریں گے اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں اور جس نے بنایا شیطان کو اپنا ولی و سرپرست اللہ کو چھوڑ کر تو یقیناً اُٹھایا اس نے گھاٹا کھُلا۔
[ayah]4:120[/ayah] وعدے کرتا ہے شیطان اُن سے اور آرزؤوں کے سبز باغ دکھاتا ہے اُن کو اور نہیں وعدے کرتا اُن سے شیطان، مگر پر فریب۔

ان آیات میں‌یہ بتایا گیا ہے کہ لوگ شیطان کی عبادت کرتے ہیں، شیطان ان کو آرزؤں کے سبز باغ دکھات ہے۔


برائی انسان کی اپنی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 79 )۔
سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 78 )۔

[ayah]4:75[/ayah] اور کیا ہوا ہے تم کو کہ نہیں جنگ کرتے تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں (کی خاطر) جو فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! نکال تو ہمیں اس بستی سے کہ ظالم ہیں، جس کے رہنے والے۔ اور بناتُو ہمارے لیے اپنی جناب سے کوئی حامی اور بنا تو ہمارے لیے اپنی جناب سے کوئی مدد گار۔
[ayah]4:76[/ayah] وہ لوگ جو ایمان والے ہیں، جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں اور جو کافر ہیں وہ جنگ کرتے ہیں راہ میں، شیطان کی پس جنگ کرو تم شیطان کے ساتھیوں سے۔ بے شک چال شیطان کی ہے نہایت کمزور۔
[ayah]4:77[/ayah] کیا نہیں دیکھا تم نے ان لوگوں کو، کہا گیا تھا جن سے کہ روکے رکھو اپنے ہاتھ (جنگ سے) اور قائم کرو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ پھر جونہی حکم دیا گیا انہیں جنگ کا تو ایک گروہ ان میں سے ایسا جو جو ڈرتا ہے لوگوں سے ایسا جیسے ڈرنا چاہیے اللہ سے یا اس بھی زیادہ ڈر۔ اور کہتے ہیں یہ لوگ۔ اے رب ہمارے! کیوں فرض کیا تونے ہم پر جنگ کرنا؟ کیوں نہ مہلت دی تونے ہم کو تھوڑی مُدّت اور؟ کہو دو (اے نبی!) دُنیاوی فائدہ حقیر ہے اور آخرت بہت بہتر ہے، ان کے لیے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ اور نہیں ظلم کیا جائے گا تم پر ذرّہ برابر۔
[ayah]4:78[/ayah] جہاں کہیں بھی ہوگے تم، آلے گی تم کو موت اگرچہ ہو تم مضبوط قلعوں کے اندر۔ اور اگر حاصل ہوتی ہے ان (موت سے ڈرنے والوں) کو کامیابی تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اگر پہنچتا ہے ان کو کوئی نقصان تو کہتے ہیں کہ (اے محمد) یہ تمہاری وجہ سے ہے۔ کہو سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے۔ آخر کیا ہوگیا ہے ان لوگوں کو کہ نہیں لگتے یہ کہ سمجھیں کوئی بات۔
[ayah]4:79[/ayah] جو پہنچتی ہے تم کو کسی قسم کی بھلائی سو وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور جو پہنچتی ہے تم کو کسی قسم کی بُرائی سو تمہارے نفس کی طرف سے ہے اور بھیجا ہے ہم نے تم کو (اے محمد) لوگوں کے لیے رسول بنا کر اور کافی ہے اللہ (اس بات پر) گواہ۔
[ayah]4:80[/ayah] جس نے اطاعت کی رسول کی سو در حقیقت اطاعت کی اس نے اللہ کی اور جو منہ موڑ گیا تو نہیں بھیجا ہے ہم نے تم کو ان پر پاسبان بناکر۔
[ayah]4:81[/ayah] اور کہتے ہیں ہم فرمانبردار ہیں مگر جب چلے جاتے ہیں تمہارے پاس سے تو راتوں کو مشورہ کرتا ہے ایک گروہ ان کا، خلاف اس کے جو تم کہتے ہو۔ اور اللہ لکھ رہا ہے جو مشورے یہ کرتے ہیں سو پرواہ نہ کرو ان کی اور بھروسہ کرو اللہ پر اور کافی ہے اللہ کار ساز۔

4:78 میں بتایا گیا ہے کہ لوگ فائیدہ اللہ کی طرف سے قرآر دیتے ہیں اور نقصان رسول اللہ صلعم کے سر رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ نفع اور نقصان (جنگ)‌میں‌دونوں اللہ کی طرف سے ہے۔ رسول اللہ اس سے بری ہیں۔

4:79 میں بتایا جارہا ہے کہ اللہ تعالی بھلائی رحمت و فضل کا عطا کرنے والا ہے اور انسان کو اپنے نفس کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے۔

4:78، 4:79 اور اس سے پیشتر دی ہوئی آیات کو مکمل طور پر ان سے پیشتر اور بعد کی آیات کے ساتھ دیکھا جائے تو ان آیات کا پیغام بہت ہی واضح‌ہے۔ میں ان آیات میں‌کسی طور بھی کوئی ایسی بات نہیں نکال پایا جو آپس میں اختلاف رکھتی ہوں۔

عربی اور دیگر تراجم لنک کو کلک کرکے دیکھے جاسکتے ہیں کہ کوئی منطقی وجہ ایسی نہیں‌کہ ان آیات کو ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والی آیات کہا جائے ، جبکہ یہ آیات ایک دوسرے کے قریب بھی ہیں کہ یہ شبہ بھی نہیں‌ ہوسکتا کہ کہنے والا --- نعوذ‌باللہ --- بھول جائے۔

والسلام
 

مغزل

محفلین
وللہ اعلم بالصواب
بہت خوب موضوع ہے۔
اللہ ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی توفیق اور اس پر قائم رہنے کی ہمت عطا فرمائے (اٰمین)
 
جی مغل صاحب، بہت سے موضوع ایسے ہیں کہ غلط العام ہوگئے ہیں۔ ضروری ہے کہ ان خام خیالات کا تدارک کیا جائے۔ ایک غلظ العام نظریہ جو ناسخ و منسوخ‌کے ضمن میں‌پایا جاتا تھا وہ ہم نے اس دھاگہ کے تیسرے پیخام میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالی منسوخ‌شدہ آیات کی وجہ کیا بتاتے ہیں کہ کن آیات کی تنسیخ‌ کی گئی اور کیوں‌ کی گئی۔

میں‌اس کے لئے تہہ دل سے باذوق، میاں‌شاہد اور پیاسا کا شکرگذار ہوں کہ انہوں نے اس موضوع کو سامنے لانے میں اپنے بیانات اور سوالات سے مدد کی۔ اور اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں‌کہ اس نے اب تک مدد فرمائی اور انشاء اللہ مزید ابہام کو دور کرنے میں مدد دے گا۔

والسلام
 
اقتباس:
‫3‬) یہ کتاب پہلی کتابوں کی تصدیق ‫(confirm) کرتی ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 97 )۔
ہم ایک آیت کسی دوسری کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 16 ، آیت : 101 )۔

سب سے پہلے مکمل آیات۔
[AYAH]2:97[/AYAH] [ARABIC]قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللّهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ [/ARABIC]
آپ فرما دیں: جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مؤمنوں کے لئے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہے

اس میں‌کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن سابقہ الہامی کتب کی تصدیق کرنے والا ہے۔ اور ساتھ ساتھ قرآن الفرقان یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والا بھی ہے۔ لہذا صرف وہ آیات جو سابقہ کتب میں‌ پائی جاتی ہیں‌ لیکن ان میں‌ شیط۔ٰن نے تبدیلی کی تو رحمٰن نے اس کو تبدیل کرکے درست فرمایا۔ آئیے اس کا ثبوت قران میں دیکھتے ہیں۔

[AYAH]2:106 [/AYAH][ARABIC]مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [/ARABIC]
ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے

اللہ تعالی کوئی آیت کیوں منسوخ‌ یا تبدیل فرماتے ہیں؟ اسکی وجہ دیکھئے۔

[AYAH]22:52[/AYAH] [ARABIC]وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ [/ARABIC]
اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر (ایسا ہوتا رہا) کہ جب اس نے تلاوت کی تو خلل اندز ہوا شیطان اُس کی تلاوت میں۔ پھر مٹا دیتا رہا اللہ اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا رہا پھر پختہ کردیتا رہا اللہ اپنی آیات کو اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

تو وجہ صاف صاف ظاہر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور پیشتر ، شیطان آیات میں خلل ڈالتا رہا لہذا ضروری پایا کہ ---- [ARABIC]مَا يُلْقِي الشَّيْطَان[/ARABIC] ---- کی تنسیخ‌ کی جائے اور اس کو تبدیل فرمایا جائے ۔ یہ کام قرآن ہی میں ممکن تھا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو انسان کونسی آیت پر ایمان رکھتا ؟

معذرت چاہتا ہوں کہ یہ وجہ پہلے بیان ہوچکی ہے ، اس امر کے ثبوت میں کہ قرآن میں‌ کوئی ناسخ‌ و تنسیخ نہیں‌ہے۔ چونکہ یہ نکتہ اس سوال میں موجود تھا لہذا دوبارہ سے اس بات کا جواب دیا ہے۔

والسلام
 
اقتباس:
‫4) ۔۔۔ تمام پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 285 )۔
ان (پیغمبروں) میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 253 )۔


سب سے پہلے پوری آیات:
[ayah]2:285 [/ayah] [arabic]آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلَآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ[/arabic]
(وہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (نیز کہتے ہیں: ) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی (ایمان لانے میں) فرق نہیں کرتے، اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے ہیں: ہم نے (تیرا حکم) سنا اور اطاعت (قبول) کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں اور (ہم سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے

بغور دیکھئے کہ یہ آیت ----- ایمان لانے والوں ---- کے بارے میں ہے کہ ایمان لانے والے کسی بھی نبی یا رسول پر جسے اللہ تعالی نے بھیجا ہے ایمان لانے میں کوئی فرق نہیں‌کرتے۔

[ayah]2:253[/ayah] [arabic]تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَ۔كِنِ اخْتَلَفُواْ فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَ۔كِنَّ اللّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ[/arabic]

یہ سب رسول، فضیلت دی ہے ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر، ان میں سے کوئی ایسا تھا جس سے ہم کلام ہوا اللہ اور بلند کیے بعض کے مرتبے۔ اور عطا کیں ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کُھلی نشانیاں اور مدد کی ہم نے اس کی رُوح القدس سے۔ اور اگر چاہتا اللہ تو نہ لڑتے آپس میں وہ لوگ جو ان رسولوں کے بعد ہوئے اس کے بعد کہ آچُکی تھیں ان کے پاس کھُلی نشانیاں لیکن انہوں نے باہم اختلاف کیا پھر کوئی تو ان میں سے ایمان لے آیا اور کسی نے کفر اختیار کیا اور اگر چاہتا اللہ تو نہ لڑتے یہ لوگ آپس میں لیکن اللہ کرتا ہے وہی جو چاہتا ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کس طرح رسول پر فضل کیا گیا کہ کسی سے تو اللہ تعالی نے خود کلام کیا (مراد موسی علیہ السلام ) ہیں اور کسی کو معجزہ عطا فرمائے کہ لوگ ان نشانیوں کو دیکھ کر ایمان لائیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی آیت تو ایمان لانے والوں کے بارے میں‌ہے کہ وہ مساوی ایمان لاتے ہیں جبکہ دوسری آیت اللہ تعالی کے رسولوں‌پر فضل کے بارے میں ہے کے اللہ نے اپنے فضل سے ان نبیوں کو کیا عطا فرمایا۔

فضل الہی کیا ہے؟
جب اللہ تعالی اپنے پاس سے کچھ بھی عطا فرماتا ہے تو وہ فضل الہی ہوتا ہے۔ جیسے مال و دولت یا اولاد یا کھیتی باڑی یا تجارت یا خزائن الارض ، زمین سے دھاتیں، کوئلہ، تیل وغیرہ۔ یہ سب اللہ کا فضل کہلاتا ہے۔ مثال اس فضل کی دیکھئے۔

اللہ ہی فضل دینے والا ہے:
[ayah]57:29 [/ayah] (یہ بیان اِس لئے ہے) کہ اہلِ کتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل پر کچھ قدرت نہیں رکھتے اور (یہ) کہ سارا فضل اللہ ہی کے دستِ قدرت میں ہے وہ جِسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ فضل والا عظمت والا ہے

[ayah]2:198[/ayah] اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں اگر تم (زمانہء حج میں تجارت کے ذریعے) اپنے رب کا فضل (بھی) تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعرِ حرام (مُزدلفہ) کے پاس اﷲ کا ذکر کیا کرو اور اس کا ذکر اس طرح کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی، اور بیشک اس سے پہلے تم بھٹکے ہوئے تھے

[ayah]3:170[/ayah] وہ (حیاتِ جاودانی کی) ان (نعمتوں) پر فرحاں و شاداں رہتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرما رکھی ہیں اور اپنے ان پچھلوں سے بھی جو (تاحال) ان سے نہیں مل سکے (انہیں ایمان اور طاعت کی راہ پر دیکھ کر) خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے

اللہ تعالی کے فضل کا مطلب یہ ہے اللہ کی طرف سے کچھ عطا کیا گیا۔ چاہے وہ معجزہ ہوں یا نشانی ہو۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اللہ تعالی کا فضل ہونے کو وجہ سے ایک نبی کو زیادہ بہتر سمجھیں اور دوسرے کو کم بہتر۔ یقییناً‌ ایسا سمجھنا ایک نا مناسب معنی اخذ کرنا ہے۔

ایمان لانے والوں کے لحاظ سے سب نبی ایک دوسرے کے مساوی ایمان لانے کے حقدار ہیں۔

اللہ کا فضل کچھ نبیوں پر اس طرح رہا کہ ان کو معجزات اور نشانیاں زیادہ عطا کی گئیں۔ رسول اکرم پر یہ اعجاز کہ ان کو شبہ سے پاک ایک کتاب عطا کی گئی جو کہ ایک معجزہ جاریہ ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے فضل و کرم سے ہدایت عطا فرمائیں۔

والسلام
 
اقتباس:
‫5) زانی مسلمان عورت کی سزا عمر بھر کے لیے گھر میں نظر بندی ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 15 )۔
زانی مسلمان عورت کی سزا سو کوڑے ۔۔۔۔ (سورہ : 24 ، آیت : 2 )۔


سب سے پہلے مکمل آیات
[ayah]4:15[/ayah] [arabic]وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُواْ عَلَيْهِنَّ أَرْبَعةً مِّنكُمْ فَإِن شَهِدُواْ فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً [/arabic]
اور جو ارتکاب کریں بدکاری کا تمہاری عورتوں میں سے تو گواہی لاؤ اُن پر چار (مردوں) کی اپنوں میں سے۔ پھر اگر گواہی دے دیں وہ تو قید رکھو ان عورتوں کو گھروں میں حتّٰی کہ آجائے اُنہیں موت یا نکالے اللہ ان عورتوں کے لیے کوئی اور سبیل

مندرجہ بالاء قرآن نے جرم کے لئے لفظ استعمال کیا ہے الفاحشۃ ۔ جبکہ درج ذیل آیت کو دیکھئے۔ اس میں فرد جرم ہے زنا۔

[ayah]24:2 [/ayah] [arabic]الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ [/arabic]
زانی عورت اور زانی مرد، کوڑے مارو ہر ایک کو ان دونوں میں سے، سو سو کوڑے اور نہ دامن گیر ہو تم کو ان کے سلسلہ میں ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں اگر رکھتے ہو تم ایمان اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور چاہیے کہ مشاہدہ کرے ان کی سزا کا ایک گروہ مومنوں کا


جہاں بہت سے علماء الفاحشۃ‌ اور زنا میں تمیز نہیں کرتے وہاں بہت سے علماء الفاحشۃ اور زنا میں تمیز کرتے ہیں۔ آپ کو دونوں‌ طرح کی تفاسیر مل جائیں گی۔

اس بحث سے قطع نظر کہ ان دونوں الفاظ کے ایک ہی معانی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دو مختلف جرائم کو دو مختلف نام دئے گئے ہیں، اور اس کی سزا بھی الگ الگ بتائی گئی ہے۔ یہ قرآن کا اختلاف نہیں بلکہ ہماری تفسیر کا اختلاف ہے۔ اللہ تعالی نے تو صاف صاف دونوں جرائم کو الگ الگ نام سے پکارا اور دونوں کو سزا بھی الگ الگ مقرر کی۔ تو یہ قرآن کا اختلاف ہو یا ہمارے علماء‌کا اختلاف ہوا؟

تو پھر اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ جرم کیا ہے اور اس کی سزا کیا؟
یہ فیصلہ کرنا کسی فرد واحد کاکام نہیں ۔ ان جرائم کے الفاظ کے معانی نکالنے کے لئے فیصلہ ہوگا اس حکم ربانی کے مطابق:
[ayah]42:37[/ayah] [arabic]وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ[/arabic]
اور جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں

[ayah]42:38[/ayah] [arabic]وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ [/arabic]
اور جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں

ان الفاظ کا مناسب ترجمہ باہمی مشورہ سے صرف ایک شورائی کونسل کرسکتی ہے۔

بنیادی امر یہ ہے کہ اختلاف ہمارے علماء کا الفاظ کے ترجمے اور مفہوم پر ہے نہ کہ اللہ تعالی کے جرائم کو نام دینے اور ان مختلف جرائم کی مختلف سزا قرار دہنے پر۔

والسلام
 
اقتباس:
) اللہ کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 22 ، آیت : 47 )۔
اور وہ عذاب اس روز نازل ہوگا جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔۔۔۔ (سورہ : 70 ، آیت : 4 )۔


سب سے پہلے مکمل آیات:
[AYAH]22:47[/AYAH] [ARABIC]وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ [/ARABIC]
اور جلدی مچارہے ہیں یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے حالانکہ ہرگز نہیں خلاف کرتا اللہ اپنے وعدہ کے۔ اور دراصل ایک دن تیرے رب کے نزدیک ایک ہزار سال کے برابر ہے تمہارے حساب کی رُوسے۔

اسی کے مضمون کی یہ آیت بھی ہے ، جس کو اختلاف ظاہر کرنے والے شاید جلدی میں دیکھ نہ سکے۔
[AYAH]32:5[/AYAH] وہ آسمان سے زمین تک (نظامِ اقتدار) کی تدبیر فرماتا ہے پھر وہ امر اس کی طرف ایک دن میں چڑھتا ہے (اور چڑھے گا) جس کی مقدار ایک ہزار سال ہے اس (حساب) سے جو تم شمار کرتے ہو


[AYAH]70:4[/AYAH][ARABIC] تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ[/ARABIC]
چڑھ کرجاتے ہیں فرشتے اور روح اس کے حضور، ایک ایسے دن میں ہے جس کی مقدار پچاس ہزار سال۔
Literal The angels and the Soul/Spirit ascend/climb to Him in a day/time its value/estimation/ measure was/is fifty thousand years.​

پہلی آیت کو دیکھئے۔ اور دوسری آیت کو دیکھئے ، حساب و کتاب کا بہت ہی نمایاں فرق موجود ہے۔ اور ساتھ ساتھ ہی ایک فرق اور بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ درج ذیل آیت میں کہا گیا ہے کہ تیرے رب کا ایک دن مساوی ہے تیرے حساب کے مطابق جو ایک ہزار سال بنتے ہیں۔ ہمارے حساب سے؟

اور جلدی مچارہے ہیں یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے حالانکہ ہرگز نہیں خلاف کرتا اللہ اپنے وعدہ کے۔ اور دراصل ایک دن تیرے رب کے نزدیک ایک ہزار سال کے برابر ہے تمہارے حساب کی رُوسے۔

ہمارے حساب سے؟ ہمارا حساب کیا ہے ؟
ہمارا حساب ہے چاند کے ایک ہزار سال یعنی چاند کے 12 ہزار چکر
اور رب کا حساب ہے ایک دن؟

اب دوسری آیت دیکھئے
70:4 چڑھ کرجاتے ہیں فرشتے اور روح اس کے حضور، ایک ایسے دن میں ہے جس کی مقدار پچاس ہزار سال۔

یہ ایک ایسا دن ؟ جس کی مقدار 50 ہزار سال ہے
یہاں‌ہمارا حساب نہیں ہے۔ بلکہ وقت کا حساب وقت سے ہے۔

1۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک دن ایسا ہو جس کی مقدار ہمارے حساب سے ہزار برس ہوِ؟ یہاں دورانیہ کو ہمارے حساب سے کہہ کر چاند کے 1000 سال کہا گیا ہے۔
2۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک دن ایسا ہو کہ فرشتہ یا روح‌ کا ایک دن گذرے تو اس وقت کی مقدار وقت کی نسبت 50 ہزار سال ہو؟ یہاں‌ روح اور فرشتہ کے وقت کا مقابلہ انسان کے وقت سے کیا گیا ہے۔ فاصلہ کے حساب سے نہیں

گویا پہلی آیت میں وقت اور فاصلہ کی نسبت (‌ہمارے حساب سے کہہ کر )‌ بتائی گئی ہے ۔
جبکہ دوسری آیت میں وقت کا مقابلہ وقت سے کیا گیا ہے جہاں ایک آبجیکت زمین پر ہے اور ایک آبجیکٹ‌اللہ کی طرف عروج کررہا ہے۔

آئیے اس کا حساب دیکھتے ہیں۔
درج ذیل تحقیق رائف فانوس صاحب کی ہے اور یہاں دیکھی جاسکتی ہے۔
http://www.speed-light.info/index.html
http://www.speed-light.info/


یہ آیت بیان کرتی ہے ہے کہ اللہ کے یہاں کا ایک دن میں‌طے کیا ہوا فاصلہ برابر ہے = 12000 x چاند جو فاصلہ ایک مکمل مدار میں طے کرتا ہے۔
گویا C t = 12000 L جبکہ C = فرشتہ کی رفتار
t = زمین کا ایک دن ، اس کی اپنی gravitational fields سے باہر 24 گھنٹے۔ 86400 سیکنڈ سورج کے حساب سے۔ اور 23 گھنٹے، 56 منٹ اور 4.0906 سیکنڈ = 86164.0906 سیکنڈ، ستاروں حساب سے


L = چاند کے مدار کا فاصلہ اس کی اپنی gravitational fields سے باہر چاند کا ایک ماہ کا وقت
29.53059 دن سورج کے دنوں کے حساب سے اور 27.321661 دن اور 655.71986 گھنٹے، ستاروں کے حساب سے (Side Real)
چاند کا ایک مدار: 2153025.3191666666666666666666667

چاند کا 12000 مدار کا فاصلہ، اوپر کے مدار کو 12000 سے ضرب کریں ۔۔ 25836303830 ک م
روشنی زمیں کے ایک دن میں کتنی دور جاتی ہے؟
C t' = 2997952.458 km/sec x 86170.46591 sec = 25833255780 km

کشش ثقل کے باہر، Outside gravitational fields
12000 چاند کے مدار (ہمارے حساب سے ایک ہزار سال) / زمین کا ایک دن برابر ہے = روشنی کی رفتار کے


دوسری آیت جو ایک یزار کی جگہ دوسرے الفاظ استعمال کرتے ہوئے میں انسان کے 50 ہزار سال کو فرشتے کے ایک دن کےمساوی قرار دیتے ہیں/
[AYAH]70:4[/AYAH] اس (کے عرش) کی طرف فرشتے اور روح عروج کرتے ہیں ایک دن میں، جس کی مقدار ہے پچاس ہزار برس کا ہے

اس مساوات کو دیکھئے، ی ہنطریہ آئین سٹائین کے مطابق وقت کا تناسب وقت سے بیان کرتی ہے :
speed_of_light_01.gif


∆to(1 day). فرشتہ کے پاس وقت = 1 دن

∆t انسانوں کا ناپ ہوا وقت زمین پر۔ = 50000 چاند کے سال ۔ x ۔ 12 چاند کے مہینے = 1 چاند کا سال x 27.321661 دن / چاند کا مہینہ).
v ). فرشتے کی ویلاسٹی جو ہم کیلکولیٹ کرنے جارہے ہیں۔
c روشنی کی رفتار، خلا میں = 299792.458 .

speed_of_light_03.gif


v = 299792.4579999994 km / s
یہ اوقات کا فرق بتاتا ہے کہ فرشتہ یقیناَ "اضافی ویلاسٹی" تک ایکسلریٹ کرتے ہیں۔ یہ وہی رفتار ہے جو پچھلی دونوں آیات سے حاصل ہوئی۔ پہلی دو آیات فاصلے اور وقت کی مدد سے اور تیسری آیت وقت کے وقت سے فرق (نظریہ آین اسٹائین کے مطابق) سے روشنی کی ایک ہی رفتار ظاہر ہوتی ہے۔ یہ رشتہ روشنی کی درست اور بہتر طریقہ سے بیان کرتا ہے۔ جو زمان و مکان اور کشش ثقل سے بے نیاز ہے۔ اور یہ فارمولہ سائنسی طور پر ہمیشہ درست رہے گا، چاہے چاند کا مدار بڑا ہو جائے، آج، آج سے پہلے اور آیندہ بھی۔ جب تک کے اس Equilibrium کو دھچکا نہ پہنچایا جائے۔

مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے : http://www.speed-light.info/index.html

ہم دیکھ رہے ہیں کہ دونوں آیات میں بالکل درست حساب بتایا گیا ہے وقت کا۔ ایک جگہ فاصلہ کی مدد سے کہ اللہ کا ایک دن ہمارے حساب کئے ہوئے 1 ہزار سال کے برابر ہے۔ اور دوسری جگہ فرشتہ کی ویلاسٹی سے یہی ریلیشن شپ ، مساوات یا رشتہ بتایا گیا ہے۔

کیا یہ دو آیات ایک دوسرے سے اختلاف رکھتی ہیں؟‌ یا یہ کہ ہمارا علم کمزور تھا جب ہم نے ان آیات کو مختلف قرار دیا؟۔

سبحان اللہ۔
یہ آیات اس ہستی کی لکھی ہوئی ہیں جس کا علم کامل ہے۔ دونوں آیات جس مسقل کانسٹنٹ‌کی طرف ااشارہ کرتی ہیں وہ ہے روشنیکی رفتار ، جس کو بیان کرنے کا ان دونوں آیات سے بہتر طریقہ ممکن نہ تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا آج سے 1400 سال سے بھی پہلے صحرائے عرب میں رہنے والے ایک امی شخص کو روشنی کی رفتار کا علم تھا اور اس طرح وقت اور فاصلے کی مساوات کا، چاند کے مدار کے سائز کا علم تھا؟‌ کیا اس کو نظریہ آئین سٹائین کے مطابق دو مختلف جہتوں‌اور رفتار پر وقت کے بہاؤ میں فرق کا علم تھا؟

جو بھائی/بہن اس پر مزید ریسرچ کرنا چاہیں وہ یہاںیہ کیلکولیٹر دیکھ سکتے ہیں۔
http://www.1728.com/reltivty.htm

رایف فانوس کا ایک اور جواب
http://iidb.infidels.org/vbb/showthread.php?t=141588

سبحان اللہ۔

[AYAH]2:22[/AYAH] جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور برسایا آسمان سے پانی، پھر نکالا اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی پیداوار کو بطور رزق تمہارے لیے، پس نہ ٹھہراؤ اللہ کا ہمسر (کسی کو) در آنحالیکہ تم (یہ باتیں) جانتے ہو۔
[AYAH]2:23[/AYAH] اور اگر ہے تم کو شک اس (کتاب) کے بارے میں جو ہم نے نازل کی اپنے بندے پر، تو بنالاؤ ایک ہی سورت اس کی مانند اور بلالو اپنے سب حمائیتیوں کو بھی اللہ کے سوا، اگر ہو تم سچے۔
[AYAH]2:24[/AYAH] لیکن اگر تم (ایسا) نہ کرسکو اور ہر گز نہ کرسکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن ہیں انسان اور پتّھر، جوتیّار کی گئی ہے منکرین حق کے لیے۔

والسلام
 
برادر من ظہور سولنگی۔ یہ سب کچھ پڑھنا اور سمجھنا ایک مشکل کام ہے اور کافی علم و سائینسدانی درکار ہے۔ اللہ تعالی نے درج ذیل آیت یقیناً آپ جیسے باعلم سائینسدانوں کے لئے ہی اتاری ہے ، جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کتاب کے مندرجات کی تصدیق علم والے یعنی سائینس کے علم سے بہرہ ور لوگ کرسکتے ہیں۔


[ayah]34:6[/ayah] [arabic]وَيَرَى الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ الَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ هُوَ الْحَقَّ وَيَهْدِي إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ [/arabic]
اور ایسے لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے (سائینسدان حضرات؟) وہ جانتے ہیں کہ جو (کتاب) آپ کے رب کی طرف سے آپ کی جانب اتاری گئی ہے وہی حق ہے اور وہ (کتاب) عزت والے، سب خوبیوں والے (رب) کی راہ کی طرف ہدایت کرتی ہے

توٹ: یہ پیغام لکھ ہی رہا تھا کہ بھائی مغل کا شکریہ دیکھا۔ عرض یہ ہے کہ یہ کلام الہی سب سمجھنے والے سائینسدانوں کے لیئے ہے۔ اللہ ہم سب کو بہترین ہدایت عطا فرمائے۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
بہت خوب جناب،
ایک سوال میرے ذہن میں ہے ،
کہ آدم کو دانہ گندم کھانے کے سزا کے طور پر زمین پر بھیجا گیا،
سورۃ بقرہ میں اللہ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے ، کہ ’’ میں زمین پرایک خلیفہ بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں ‘‘
یعنی اس رو سے آدم کو بنایا ہی گیا زمین کیلئے تھا، تو پھر ’’ یہ جنت سے بیدخلی کا کیا معاملہ ہے ‘‘ ؟
والسلام
 
برادر من مغل۔
بہت شکریہ اس مد میں سوال کرنے کا۔ میری اپنی معلومات اور سوچ اس مد میں گو کہ صفر ہے۔ لیکن پھر بھی دیکھوں گا کہ کیا حوالہ ڈھونڈھ سکتا ہوں۔ ایک آیات کو جوڑا اور رہ گیا ہے وہ پورا کرلوں تو آپ کے موضوع کے سوال پر غور کروں‌گا۔ انشاء اللہ ۔

میرا بنیادی مقصد صرف اتنا ہے کہ تمام تر خلوص کے ساتھ، اپنی مختصر معلومات کے مطابق عام فہم موضوعات پر جہاں‌ تک ممکن ہو قرآن کے حوالے فراہم کروں تاکہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کی قران فہمی میں اضافہ ہو ، ابہام دور ہوں اور ہم اپنے دین کی سوچ کے مطابق سوچ سکیں۔

کچھ مزید عرض کرنے سے پہلے تھوڑی سے دراز نفسی کی اجازت چاہتا ہوں۔ بچپن کے ناظرہ قرآن کے بعد میں ستمبر 1980 سے بامعنی قرآن پڑھنے کا ایک مستقل اور باقاعدہ طالب علم ہوں۔ ان میں مشہور تراجم اور تفاسیر شامل ہیں۔ اس وجہ سے جب بھی کوئی بات کہی جاتی ہے تو ذہن میں‌وہ آیات گھومنے لگتی ہیں جو اس موضوع سے تعلق رکھتی ہوں۔ چاہے موضوع کی تائید میں ہوں یا تنقید میں۔

یہ میں‌نے کیوں کہا؟
اس لئے کہ اس سارے عرصے میں میں نے یہ سمجھا ہے وہ یہ کہ قرآن عبادات سے ہماری تعمیر ایک بہتر انسان کے طور پر کرتا ہے، تاکہ ہم وہ بہتر انسان یعنی مسلمان بن کر اس زمین پر یعنی اس دنیا میں حق و انصاف، امن و آشتی یعنی اسلام کا نفاذ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق کرسکیں۔

تخلیق انسانی ایک بہت ہی گہرا فلسفہ ہے جس کے بارے میں ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جو اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ بہر حال اس موضوع پر میں انشاء اللہ آیات جمع کروں گا اور جو منطقی طور پر سمجھ میں آسکتا ہے اس کے حوالے فراہم کردوں گا۔

والسلام
 
گذارش یہ ہے کہ اسی دھاگہ میں دئے گئے صفحہ اول پر مزید دلائل بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جس میں کئی دوسری آیات میں مبینہ اختلافات کی وجاحت کی گئی ہے
والسلام
 
اقتباس:
‫7) اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 48 )۔
وہ بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے تو اس سے ہم نے درگزر کیا ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 153 )۔


سب سے پہلے مکمل آیات:
[AYAH]4:48 [/AYAH][ARABIC] إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا [/ARABIC]
بے شک اللہ نہیں معاف کرتا یہ (گناہ) کہ شرک کیا جائے اس کے ساتھ اور معاف کردیتا ہے شرک کے علاوہ (باقی گناہ) جس کے لیے چاہے۔ اور جس نے شریک ٹھہرایا اللہ کا (کسی کو) اس نے بہتان باندھا اللہ پر (اور ارتکاب کیا) بہت بڑے گناہ کا۔

[AYAH]4:153 [/AYAH] [ARABIC]يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَن تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتَابًا مِّنَ السَّمَاءِ فَقَدْ سَأَلُواْ مُوسَى أَكْبَرَ مِن ذَلِكَ فَقَالُواْ أَرِنَا اللّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ثُمَّ اتَّخَذُواْ الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَلِكَ وَآتَيْنَا مُوسَى سُلْطَانًا مُّبِينًا[/ARABIC]

مطالبہ کرتے ہیں تم سے (اے پیغمبر!) اہلِ کتاب کہ نازل کراؤ ان پر کوئی کتاب آسمان سے (کچھ عجب نہیں) کہ مطالبہ کرچُکے ہیں یہ لوگ موسیٰ سے، اس سے بھی بڑا چنانچہ انہوں نے کہا تھا کہ دکھا تو ہم کو اللہ کُھلم کُھلا سا آلیا اُن کو بجلی نے اُن کے ظلم کے سبب۔ پھر پُوجنا شروع کردیا اُنہوںنے بچھڑے کو اس کے بعد بھی کہ آچُکی تھیں اُن کے پاس کھلی نشانیاں لیکن معاف کردیا ہم نے اس کو بھی اور عطا کیا ہم نے موسیٰ کو کُھلا غلبہ۔

پہلی آیت میں یہ واضح‌ہے کہ اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کرتا،۔
دوسری آیت میں اللہ تعالی نے جس واقعہ کی سمری بیان فرمائی ہے۔ جس کی تفصیل ہم کو [AYAH]2:51[/AYAH] سے [AYAH]2:56 [/AYAH]میں ملتی ہے۔ کہ جن لوگوں نے شرک کیا تھا ان کو شرک نہ کرنے والوں نے قتل کردیا پھر اللہ تعالی نے باقی بچنے والوں کو معاف کیا۔ دیکھئے۔

[AYAH]2:51[/AYAH] اور جب وعدہ کیا ہم نے موسٰی سے چالیس رات کا پھر بنا لیا تم نے بچھڑے کو (معبود) موسیٰ کے بعد اور تم ظلم کر رہے تھے۔
[AYAH]2:52[/AYAH] پھر معاف کردیا ہم نے تم کو اس کے بعد بھی تاکہ تم شکر گزاربنو۔
[AYAH]2:53[/AYAH] اور جب دی ہم نے موسی کو کتاب اور فرقان تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔
[AYAH]2:54[/AYAH] اور جب کہا موسی نے اپنی قوم سے اے میری قوم، یقیناً تم نے ظلم کیا ہے اپنی جانوں پر، معبود ٹھہرا کر بچھڑے کو، پس توبہ کرو تم اپنے خالق کے حضور، لٰہذا قتل کرو تم اپنی جانوں کو یہی ہے بہتر تمہارے حق میں، تمہارے خالق کے نزدیک۔ سو توبہ قبول کرلی اللہ نے تمہاری۔ بیشک وہی تو ہے بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا۔
[AYAH]2:55[/AYAH] اور جب تم نے کہا: اے موسی! ہر گز نہ یقین کریں گے ہم تمہارا جب تک (نہ) دیکھ لیں ہم اللہ کو علانیہ، تو آلیا تم کو ایک کڑکے نے تمہارے دیکھتے دیکھتے۔
[AYAH]2:56[/AYAH] پھر زندہ کیا ہم نے تم کو تمہاری موت کے بعد تاکہ تم شکر گزار بنو۔

دوسرے مترجمیں کا ترجمہ
[AYAH]2:254 [/AYAH]
طاہر القادری: اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! بیشک تم نے بچھڑے کو (اپنا معبود) بنا کر اپنی جانوں پر (بڑا) ظلم کیا ہے، تو اب اپنے پیدا فرمانے والے (حقیقی رب) کے حضور توبہ کرو، پس (آپس میں) ایک دوسرے کو قتل کر ڈالو (اس طرح کہ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی اور اپنے دین پر قائم رہے ہیں وہ بچھڑے کی پرستش کر کے دین سے پھر جانے والوں کو سزا کے طور پر قتل کر دیں)، یہی (عمل) تمہارے لئے تمہارے خالق کے نزدیک بہترین (توبہ) ہے، پھر اس نے تمہاری توبہ قبول فرما لی، یقینا وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے

احمد رضا خان: اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم نے بچھڑا بناکر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع لاؤ تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کردو یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لیے بہتر ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان

Yusuf Ali And remember Moses said to his people: "O my people! Ye have indeed wronged yourselves by your worship of the calf: So turn (in repentance) to your Maker, and slay yourselves (the wrong-doers); that will be better for you in the sight of your Maker." Then He turned towards you (in forgiveness): For He is Oft-Returning, Most Merciful.

Malik Remember when Moses returned with the Divine Book, he said to his people: "O my people! You have indeed grievously wronged yourselves by taking the calf for worship; so turn in repentance to your Creator and slay the culprits among you; that will be best for you in His sight." He accepted your repentance; surely He is the Forgiving, the Merciful​
اپنوں میں سے غلط کاروں کو قتل کردو ، اللہ کے حضور توبہ کرنے کے لیئے۔

یہ درگذر، حضرت عیسی کی دعا [AYAH]7:150 [/AYAH]تا [AYAH]7:156 [/AYAH]اور غلط کاروں‌کے قتل ( اوپر دیا گیا) کے بعد کی گئی۔

[AYAH]7:150[/AYAH] پھر جب لوٹے موسٰی طرف اپنی قوم کے غصے میں بھرے ہُوئے اور رنجیدہ ،فرمایا، بہت ہی بُری ہے جو جانشینی کی ہے تم نے میری ،میرے بعد ،کیا جلد بازی کی تم نے اپنے رب کے عذاب کے لیے ؟ اور پھینک دیں (تورات کی )تختیاں اور پکڑلیا سر کے بالوں سے اپنے بھائی کو، کھینچھتے ہُوئے اپنی طرف ،وہ بولے:اے میرے ماں جائے ! بے شک ان لوگوں نے مجھے دبالیااور قریب تھاکہ قتل کردیں مجھے۔ پس نہ ہنسنے کا موقع دیں آپ مجھ پر دشمنوں کو اور نہ کرو مجھے شامل ایسے لوگوں میں جو ظالم ہیں۔
[AYAH]7:151[/AYAH] موسٰی نے کہا: اے میرے مالک !معاف کردے مجھے اور میرے بھائی کو اور داخل فرماتو ہمیں اپنی رحمت میں اور تُو تو ہے ہی سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ۔
[AYAH]7:152[/AYAH] بے شک وہ لوگ جہنوں نے بنالیا تھا بچھڑے کو (معبود) عنقریب گرفتار ہوکر رہیں گے وہ غضب میں اپنے رب کے اور ذلیل ہوں گے دنیاوی زندگی میں اور ایسی ہی سزادیتے ہیں ہم جُھوٹی باتیں گھڑنے والوں کو۔
[AYAH]7:153[/AYAH] لیکن وہ لوگ جنہوں نے کیے بُرے کام پھر توبہ کرلی اس کے بعد اور ایمان لے آئے تو یقینا تیرارب تو بہ اور ایمان کے بعد ضرور معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
[AYAH]7:154[/AYAH] اور جب ٹھنڈا ہُوا موسٰی کا غصہ تو اُٹھالیں اُنہوں نے وہ تختیا ں اور اُن کی تحریر میں ہدایت اور رحمت تھی ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔
[AYAH]7:155[/AYAH] اور متخب کیا موسٰی نے اپنی قوم سے سَتّر آدمیوں کو ہمارے وقتِ مقرّرہ پر حاضرہونے کے لیے پھر جب آلیا اُنہیں ایک سخت زلزلہ نے تو عرض کیا موسٰی نے، اے میرے مالک! اگرتو چاہتا تو ہلاک کرسکتا تھا اُن کو اس سے پہلے بھی اور مجھے بھی۔ کیا تو ہلاک کرے گا ہمیں اس (قصور) میں جو کیا ہے (چند) نادانوں نے ہم میں سے؟ نہیں ہے یہ مگر ایک آزمائش تیری طرف سے۔ گمراہی میں مُبتلا کردیتا ہے تو اس کے ذریعہ سے جسے چاہے اور ہدایت بخش دیتا ہے تو جسے چاہے۔ تُوہی ہمارا سرپرست ہے پس معاف فرمادے ہمیں اور ہم پر رحم فرما، تُو سب سے بڑھ کر معاف کرنے والا ہے۔
[AYAH]7:156[/AYAH] اور لکھدے ہمارے لیے اس دُنیا میں بھی، بھلائی اور آخرت میں بھی۔ بے شک ہم نے رجوع کیا تیری طرف۔ ارشاد ہُوا: مَیں سزا دیتا ہُوں جس کو چاہوں لیکن میری رحمت چھائی ہے ہرچیزپر۔ سواُسے میں لکھّے دیتا ہُوں اُن لوگوں کے لیے جو ڈرتے رہیں گے اور ادا کریں گے ذکوٰۃ ان لوگوں کے لیے جو میری آیات پر ایمان لائیں گے۔


ان آیات سے مکمل تصویر سامنے آتی ہے کہ اس موقعہ پر یہ سارا واقعہ ایک دو جملوں‌ میں نہیں مکمل ہوگیا تھا۔ بلکہ جب موسٰی علیہ السلام واپس آئے تو اپنی امت پر غیض و غضب کیا۔ ہارون علیہ السلام سے پرسش کی اور جن لوگوں نے زبردستی یہ کام کروایا تھا ان کا قتل ہوا ، زلزلہ آیا۔ اللہ کے رسول نے اللہ سے دعا مانگی اور پھر شرک نہ کرنے والوں کی توبہ قبول ہوئی ۔[AYAH] 4:153[/AYAH] اس واقعہ کی ایک سمری ہے جو قرآن کے ایک سرسری قاری کو دعوت فکر دیتی ہے کہ اگر ذہن میں سوال اٹھا ہے تو مزید قرآن کو دیکھئے اور عبرت پکڑئے کہ ۔ شرک اللہ کے نزدیک ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ ضرورت ہے صرف اللہ کی کتاب پر ایمان رکھنے کی۔

ضرورت ہے اپنے اعمال کو اللہ کی کتاب اور موافق القران سنت رسول کے مطابق کرنے کی۔

والسلام
 
آخر میں عرض:
اگر مقصدیت سے دیکھا جائے تو قرآن میں کوئی ناسخ‌ و منسوخ‌ نہیں‌ ہے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالی نے روزہ فرض کیا اور کوئی اپنی کسی کمزوری یا بیماری یا مجبوری سے اس سعادت سے محروم رہ گیا اور اللہ تعالی نے اس کو اس فرض کو معاف کرنے کے لئے مزید آسانی پیدا کردی کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلا دے تو یہ صرف آسانی پیدا کی گئی نہ کہ ایک فرض کو مکمل طور پر معطل کردیا گیا؟ اسی طرح جب ایک حکم کی تفصیل عطا ہوئی تو یہ سمجھنا کہ اصل حکم منسوخ‌ ہو گیا انصاف نہیں۔ یا یہ کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ کو بطور خاص کوئی حکم دیا اور پھر جب مقصد پورا ہوگیا تو روک دیا تو یہ اصل حکم کی منسوخی نہیں ہوئی بلکہ اصل حکم کا مقصد مکمل ہوگیا۔

اگر ایک فوجی کو اس کا کمانڈر موقع کے مناسبت سے کہتا ہے چل پڑ اور پھر موقع کی مناسبت سے کہتا ہے رک جا تو یہ دونوں‌حکم کسی مقصد کی تکمیل کے لئے ہیں۔ ان احکام میں گو کہ ایک حکم دوسرے کا مخالف ہے لیکن مقصد کی تکمیل کرنا ہی ان احکامات کی روح ہوگا۔

اس کی مثال دیکھئے [ayah]33:50 [/ayah]میں رسول اللہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ کن خواتین سے نکاح کرسکتے ہیں ؟


[ayah]33:50 [/ayah] اے نبی! بے شک ہم نے حلال کردی ہیں تمہارے لیے تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کردیے ہوں اور وہ لونڈیاں بھی جو تمہاری ملک میں آئیں اس (مال غنیمت) میں سے جو عطا کیا ہے اللہ نے تمہیں اور (حلال کردی ہیں) تمہاری چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد (بہنیں) جنہوں نے ہجرت کی ہے تمہارے ساتھ اور کوئی مومن عورت اگر ہبہ کرے اپنے نفس کو نبی کے لیے اگر نبی بھی چاہے (تو حلال ہے) اس سے نکاح کرنا۔ (یہ رعایت) خالصتاً تمہارے لیے ہے دوسرے مومنوں کے لیے نہیں۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ کیا فرض کیا ہے ہم نے مومنوں پر اُن کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں؟ (تمہیں ان حدود سے متثنٰی کردیا ہے) تاکہ نہ رہے تم پر کوئی تنگی۔ اور ہے اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا۔

اور جب اللہ تعالی کا مقصد پورا ہوگیا تو اللہ تعالی نے یہ حکم دیا:

[ayah]33:52[/ayah] نہیں حلال ہیں تمہارے لیے عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ تم بدلو ان کی جگہ اور بیویاں اگرچہ تمہیں بہت ہی پسند ہو ان کا حسن سوائے ان کے جن پر تمہارا حق ہے، ہے اللہ ہرچیز پر نگران

تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ --- نعوذ باللہ --- اللہ تعالی نے ایک حکم دیا اور اس کو کینسل کردیا؟ یقیناً نہیں۔۔۔ ایک حکم دیا، جب مقصد پورا ہوگیا تو پہلے حکم پر عمل کرنے سے روک دیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب زندگی سے اور قرآن سے بھی ایسی مزید مثالیں فراہم کرسکتے ہیں۔ اصل مقصد ہے بنیادی نکات پر اور ٹائم لائین پر نظر رہے نہ کہ یہ بحث چھیڑی جائے کہ کونسا حکم کس حکم کو روک رہا ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو بہترین ہدایت عطا فرمائیں۔ تاکہ یہ دنیا عدل و انصاف اور امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔

جب ہم قرآن پڑھیں تو ہم پر فرض ہے کہ ہم اس کو "پاک صاف" ہو کر پڑھیں ۔ کیا یہ پاکی صرف ہاتھوں اور جسم تک محدود ہے یا ذہن کی پاکی بھی مقصود ہے؟

تھوڑا سا خلوص‌ دل چاہئیے دوستو !

والسلام
 

سعود الحسن

محفلین
اس سے پہلے میں نے کئی مرتبہ نجی گفتگو میں لوگوں سے سنا تھا کہ قرآن کی کچھ آیات میں اختلافات ہیں لیکن کوئی بھی ایسی آیات پیش نہ کر سکا تھا۔ لیکن آج نہ صرف آن آیات کا پتا چلا بلکہ ان کا رد بھی پڑھنے کو ملا، بے ساختہ آپکا شکریہ ادا کیا، لیکن محسوس کرتا ہوں کہ آپ کی یہ تحریر شکریہ سے کہیں زیادہ کی مستحق ہے۔ لہٰزا اس کا اعتراف کرتا ہوں، امید ہے آئندہ بھی ایسی تحریریں لکھتے رہیں گے۔ جزاک اللہ۔
 
صاحبو اور احبابو۔ سلام علیکم۔

ہمارے محترم برادر جناب محمود غزنوی صاحب نے قرآن کی آیات کی تنسیخ قرآن کی ہی آیات سے کئے جانے کی کچھ مثالیں پیش کی ہیں۔ یہاں میں ان آیات کی وضاحت کررہا ہوں یہ دیکھنے کے لئے کہ آٰیا کہ یہ آیات کیا حقیقت میں ایک دوسرے کی تنسیخ‌کرتی ہیں یا پھر یہ ایک واہمہ یا شائبہ ہے جو شیطان نے انسانوں‌کے بہکانے کے لئے دلوں میں‌ڈالا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھئے کہ ایک حکم کی تنسیخ یا منسوخ ہونا یا کینسل ہونا کیا ہے؟
بہت ہی سادہ الفاظ میں اگر آپ کو حکم دیا جارہا ہے کہ

نماز قائم کیجئے تو اس کو کینسل کرنے کا حکم ہوگا
نماز قائم کرنا بند کردیجئے۔


محمود احمد غزنوی نے کہا:
اس وقت امام فخرالدین رازی کی تفسیرِ کبیر میرے سامنے ہے اور انہوں نے نسخ کے متعلق کافی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کا مندرجہ ذیل آیاتِ قرآن ناسخ و منسوخ کی مثال ہیں:
مثال نمبر 1۔ ۔ [arabic]الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِيَ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [/arabic]
اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں ان پر لازم ہے کہ (مرنے سے پہلے) اپنی بیویوں کے لئے انہیں ایک سال تک کا خرچہ دینے (اور) اپنے گھروں سے نہ نکالے جانے کی وصیّت کر جائیں، پھر اگر وہ خود (اپنی مرضی سی) نکل جائیں تو دستور کے مطابق جو کچھ بھی وہ اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔

اس مندرجہ بالا آیت کے حکم کو نیچے درج آیت نے منسوخ کردیا۔
[arabic]وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ[/arabic]
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔

ٰ
دونوں آیات کو پڑھئیے۔
پہلی آیت میں اللہ تعالی مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی بیگمات کے لئے ایک سال کے خرچہ کی وصیت کرجائیں اور ان بیواؤں کو ان کے گھروں سے نہ نکالا جائے۔ ساتھ ساتھ ان بیواؤں کو حق حاصل ہے کہ وہ اگر چاہیں تو خود سے نکل کر جاسکتی ہیں۔

جبکہ دوسری آیت ان بیواؤن کو مخاطب کرکے حق دیتی ہے کہ وہ چار ماہ دس دن کے بعد شادی کرسکتی ہیں ۔ یہ دونوں آیات ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتی ہیں۔ بلکہ فوت ہونے والے کو وصیت کا حکم دیتی ہیں کہ پیچھے رہ جانے والی بیوہ کو گھر میں‌رکھنے اور ایک سال تک کا خرچہ برداشت کرنے کی وصیت کرے۔ اللہ تعالی مرجانے والے کی بیوہ کو مرجانے والے کے ساتھ مرجانے کا حکم نہیں‌دیتے بلکہ ایک عورت کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ چار ماہ اور دس دن کے بعد نئی شادی کرنے کا حق رکھتی ہے ۔ اس طرح وہ پہلی آیت میں دئے گئے خود سے نکل جانے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے نئے گھر میں جا کر اپنی خانگی زندگی نئے خاوند کے ساتھ گزار سکتی ہے ۔ اس پر کوئی گناہ نہیں‌ کہ وہ ایسا کرے۔

ملاء کو سب سے زیادہ تکلیف خواتین سے ہے ؛) ملاء کو یہ برداشت نہیں کہ ایک بیوہ عورت بیک وقت ایک سال کا خرچہ بھی پائے اور گھر سے بھی نہ نکالی جائے اور صاحب وہ چار ماۃ دس دن کے بعد شادی کرکے ایک نارمل زندگی گذارنے کا حق بھی رکھتی ہو۔۔ اس لئے کہ اس بیوہ عورت کو کچھ بھی نہ دینا پڑے۔ ان ملاؤں نے اللہ تعالی کا یہ عظیم حکم منسوخ کردیا۔

آپ ان آیات کو بار بار پڑھئیے اور بتائیے کہ کیا ان میں سے ایک آیت دوسری آیت کو در حقیقت منسوخ کرتی ہے؟

ہم کو کسی قسم کا ثبوت ان آیات کے متن سے نہیں ملتا کہ ان میں سے ایک آیت دوسری آیت کو منسوخ‌کرتی ہے۔ ہم کو کوئی منطقی دلیل نہیں ملتی کہ یہ آیات ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔

خدانخوستہ جب آپ 14 سال کے تھے اور آپ کے والد انتقال فرماجاتے تو کیا آپ پسند کرے کے آُپ کی والدہ کو گھر سے نکال کر باہر کھڑا کردیا جائے؟ یا ان سے کھانے پینے کا ھق چھین لیا جائے؟ یا ان معزز خاتون سے دوبارہ شادی کا حق چھین لیا جائے۔

اگر ہم بحیثیت قوم مرحوم افراد کی بیواؤں کو سڑک پر نکال کھڑ ا کریں تو ہر سال صرف پاکستان میں ہر سال لگ بھگ دو لاکھ بیوائیں سرکوں پر آجائیں ، جس سے چوری، زنا، طوائف زدگی جیسے قبیح جرائم پیدا ہوں۔ مزید یہ کہ ان کے بچوں کی تربیت کرنے والا کوئی نہ ہو؟؟؟؟

اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا کہ عملی زندگی میں ان آیات پر عمل ہوتا ہے؟
کیا خواتین کو ان کے گھروں میں ایک سال یا زائید رہنے دیا جاتا ہے یا نکال کھڑا کیا جاتا ہے، کیا بیوہ خواتین کا بوجھ اس کے شوہر کے اثاثے سے اٹھایا جاتا ہے یا یہ غیر قانونی ہے؟
کیا خواتین کو 4 ماہ دس دن بعد شادی کرنے کی اجازت ہے؟ یا ہندوؤں کی طرح ستی کردیا جاتا ہے۔

بھائی جس کسی نے ان آیات کو ایک دوسرے کا مخالف قرآر دیا ہے وہ درست نہیں۔ ہر طرح کے دلائل سے یہ بات ثبت ہے یہ اور بات ہے کہ ہر آدمی کو اپنے نظریہ کا حق ہے لیکن ضروری نہیں کے اس کا نظریہ دنیا کے لئے یا اللہ تعالی کی آیات کی روشنی میں سچ ثابت ہو۔

محمود احمد غزنوی نے کہا:
مثال نمبر 2۔ ۔ ۔ [arabic]۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ[/arabic]
اے ایمان والو! جب تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی راز کی بات تنہائی میں عرض کرنا چاہو تو اپنی رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کر لیا کرو، یہ (عمل) تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے، پھر اگر (خیرات کے لئے) کچھ نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔ ۔ ۔

اس آیت پر صرف ایک صحابی نے عمل کیا (حضرت علی رضی اللہ عنہ) اسکے بعد اسکا حکم منسوخ ہوگیا اور صحابہ بغیر کسی صدقے کا اہتمام کئے رسولِ پاک سے ملاقاتیں کرتے رہے۔
ٰ
یہاں حکم یہ دیا جارہا ہے کہ رسول اللہ صلعم سے تنہائی میں رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ خیرات کر لیا کرو۔ اس کو بہتر اور پاکیزہ قرار دیا گیا۔ لازمی نہیں۔ لہذا اگر کچھ اصحابہ کرم (ر) نے اس پر عمل کیا تو بہت خوب اور اگر نہیں کیا تو اس کا معاملہ ان کے اور اللہ کے درمیان ہے۔ جس کا اعلان اللہ تعالی کرچکے ہیں کہ اللہ ان سے راضی ہوا۔ اگر اللہ ان سے راضی ہوا تو پھر ان سب نے اس ہدایت پر اپنی بساط کے مطابق عمل کیا۔ ورنہ اللہ تعالی کی رضا شامل نہ ہوتی۔

اب جب رسول اللہ حیات نہیں ہیں تو ہم ان سے تنہائی میں‌ نہیں‌مل سکتے لیکن صدقہ دینا اب بھی جاری ہے ۔ لگ بھگ سو سال بعد رسول اکرم سے جو احادیث منسوب کی گئیں وہ بھی صدقہ دئے جانے کے بارے میں حکم دیتی ہیں ۔ صدقہ دینے سے روکتی نہیں ہیں۔

سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ کوئی ایسی آیت موجود نہیں ہے جو یہ حکم دیتی ہو کہ رسول اللہ سے تنہائی میں رازدارنہ گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ دینا منع یا حرام ہے۔


محمود احمد غزنوی نے کہا:
مثال نمبر 3۔ ۔ ۔ [arabic]يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ[/arabic]
اے نبئ (مکرّم!) آپ ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب دیں (یعنی حق کی خاطر لڑنے پر آمادہ کریں)، اگر تم میں سے (جنگ میں) بیس (20) ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو (200) (کفار) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے (ایک) سو (ثابت قدم) ہوں گے تو کافروں میں سے (ایک) ہزار پر غالب آئیں گے اس وجہ سے کہ وہ (آخرت اور اس کے اجرِ عظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے (سو وہ اس قدر جذبہ و شوق سے نہیں لڑ سکتے جس قدر وہ مومن جو اپنی جانوں کا جنت اور اللہ کی رضا کے عوض سودا کر چکے ہیں)۔


اس آیت کے بعد تخفیف کی گئی اور مندرجہ ژیل آیت نے اس آیت کا حکم منسوخ کردیا۔ ۔ ۔

[arabic]الْآنَ خَفَّفَ اللّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُواْ أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ [/arabic]۔
اب اللہ نے تم سے (اپنے حکم کا بوجھ) ہلکا کر دیا اسے معلوم ہے کہ تم میں (کسی قدر) کمزوری ہے سو (اب تخفیف کے بعد حکم یہ ہے کہ) اگر تم میں سے (ایک) سو (آدمی) ثابت قدم رہنے والے ہوں (تو) وہ دو سو (کفار) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے (ایک) ہزار ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار (کافروں) پر غالب آئیں گے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (یہ مومنوں کے لئے ہدف ہے کہ میدانِ جہاد میں ان کے جذبۂ ایمانی کا اثر کم سے کم یہ ہونا چاہیئے)۔

ٰ

پچھلی آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ ایک ہزار کے لشکر سے صرف 100 مومنین لڑ جائیں۔ صرف یہ بتایا گیا کہ اگر صرف 100 مومنین ہوں گے تو اپنے جذبہ ایمانی سے 1000 پر غٍالب آسکیں گے۔ اور ایسا ہوا بھی کہ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی افواج نے بڑے بڑے ممالک پر قبضہ کیا۔ لہذا پہلی آیت نہ غلط ہے اور نہ ہی متروک۔

دوسری آیت میں‌ ہدایت دی گئی کہ چونکہ مسلمانوں میں‌ابھی کمزوری ہے لہذا مندرجہ بالاء آیت کی وجہ سے کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوا جائے بلکہ صورت حال دیکھ کر لڑا جائے۔ اس کے باوجود یہ خوش خبری سنادی گئی کہ مومن اپنے سے دگنے دشمن پر غالب آئے گا۔ ایسا بارہا ہوا ہے کہ مسلمان فوج اپنے سے دگنے یا چار گنے دشمن سے لڑی ہے اور جیتی ہے۔

پھر آج یہ ممکن ہے کہ آج اپنے ماؤس سے کمپیوٹر کی سکرین پر کھیلتے کھیلتے ایک یا د و آدمی ، 10 کیا 100 آدمیوں کا تیا پانچہ کردیں۔ ان دو آیات کو کوئی اپنی معلومات کی کمی کی وجہ سے تو غلط سمجھ سکتا ہے لیکن حقیقت میں‌ یہ دونوں آیات اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔

محمود احمد غزنوی نے کہا:
مثال نمبر 4۔ ۔ ۔ [arabic]سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ [/arabic]
اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے، آپ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ ۔

بعوقوف لوگوں کی اس بات کے بعد یہ آیت نازل کی گئی۔ ۔ ۔
[arabic]وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ[/arabic]
اور تم جدھر سے بھی (سفر پر) نکلو اپنا چہرہ (نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو سو اپنے چہرے اسی کی سمت پھیر لیا کرو تاکہ لوگوں کے پاس تم پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ رہے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں حد سے بڑھنے والے ہیں، پس تم ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈرا کرو، اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اور تاکہ تم کامل ہدایت پا جاؤ۔

ٰ
یہ دونوں آیات ایک ہی حکم دیتی ہیں۔
پہلی آیت صرف کچھ لوگوں‌کی شکایت ظاہر کرتی ہے کہ ----- مسلمانوں کو اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا ---- اللہ تعالی فرماتے ہیں‌کہ مشرق و مغرب اللہ کے لئے ہی ہیں۔
جبکہ دوسری آیت صرف یہ حکم دیتی ہے اپنے منہہ مسجد الحرام کی طرف کیا کیجئے۔

قرآن حکیم میں کوئی‌ آیت ایسی نہیں‌ہے جو ---- قبلہ اول یعنی بیت المقدس کی طرف منہہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیتی ہو۔ کہ جس کی تردید یا تنسیخ اللہ تعالی نے فرمائی ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ جناب ہم کو توراۃ‌ زبور یا انجیل میں بھی کوئی آیت ایسی ‌ نہیں ملتی جو کہ حکم دیتی ہوکہ بیت المقدس کی طرف منہہ کرکے نماز پڑھی جائے۔ جی؟

صرف بائیبل میں اذاخیل 21:2 میں درج ذیل حکم ہے جو کہ نماز پڑھنے کے بارے میں‌نہیں ہے:

Ezekiel 21:2
"Son of man, turn to Jerusalem, preach against the holy places. Prophesy against the land of Israel.​

ایک طرف تو ہم کو یروشلم کی طرف منہہ کرکے نماز پڑھنے کوئی حکم قرآن میں نہیں ملتا اور اب ذرا آپ قرآن حکیم کی درج ذیل آیت بہت ہی پڑھئے تاکہ اندازہ ہو کہ آیا کہ کسی سابقہ حکم کی تنسیخ‌ کی گئی تھی یا نہیں؟
[AYAH]2:143 [/AYAH][ARABIC]وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ[/ARABIC]
اور اس طرح بنادیا ہے ہم نے تم کو ایک اُمّتِ مُعتدل تاکہ بنو تم گواہ لوگوں پر اور ہو رسول تم پر گواہی دینے والا اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے وہ قبلہ کہ تھے تم (پہلے) جس پر مگر اس غرض سے کہ دیکھیں ہم کہ کون پیروی کرتا ہے رسول کی اور کون پھرجاتا ہے اپنے الٹے پاؤں۔ اور بے شک تھا یہ (قبلہ بدلنا) بہت گراں سوائے ان لوگوں کے جنہیں ہدایت دی اللہ نے۔ اور نہیں ہے اللہ ایسا کہ ضائع کر دے تمہارا ایمان۔ بیشک اللہ انسانوں پر بہت ہی شفیق اور رحم کرنے والا ہے۔

قبلہ کی تبدیلی کسی سابقہ قرآنی حکم کی تبدیلی نہیں ہے۔ نہ ہی یہ کسی سابقہ حکم کی تنسیخ‌ہے۔

محمود احمد غزنوی نے کہا:
مثال نمبر 5۔ ۔ ۔ [arabic]وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ[/arabic]
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے جو (کچھ) وہ نازل فرماتا ہے (تو) کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ (آیتوں کے اتارنے اور بدلنے کی حکمت) نہیں جانتے۔
یہ آیت بھی کہہ رہی ہے کہ نسخ ہوا تھا قرآن میں۔
ٰ
اس دھاگہ میں بھی اور جہاں یہ مضمون لکھا گیا تھا وہاں بھی میں نے آیات کے بدلے جانے اور ---- احکامات کے نہ بدلے جانے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ آسانی کے لئے دہرا رہا ہوں۔

ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے

آپ کو درج ذیل کمجھنے کے لئے صرف خلوص دل ضروری ہے۔ میں پہلے کچھ آیات پیش کرتا ہوں اور اس کے بعد ان آیات سے املنے والے نکات کی وضاحت کرتا ہوں۔


1۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آیات صرف قرآن میں ہی نازل نہیں کی ہیں۔ بلکہ آیات اللہ تعالی کی کتابوں تورات، زبور، انجیل اور قرآن حکیم میں نازل ہوئیں ۔
[ayah]3:3[/ayah][arabic]نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ [/arabic]
اسی نے نازل کی ہے تم پر یہ کتاب حق کے ساتھ، تصدیق کرتی ہوئی ان کتابوں کی جو اس سے پہلے موجود تھیں اور اسی نے نازل کی تورات اور انجیل۔

[ayah]17:55[/ayah] [arabic]وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا[/arabic]
اور آپ کا رب ان کو خوب جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں (آباد) ہیں، اور بیشک ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت بخشی اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی


2۔ قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا۔ اللہ تعالی کا دستور، اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ الفاظ اور جملے بدل دئے جاتے ہیں لیکن حکم نہیں تبدیل ہوتا۔
[ayah]33:62 [/ayah][arabic]سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [/arabic]
یہی سنت ہے اللہ کی ایسے لوگوں کے معاملے میں جو گزرچکے ہیں پہلے اور نہ پاؤ گے تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی۔

3۔ توراۃ، زبور اور انجیل کی آیات کو منسوخ کیا گیا اور اس کی جگہ بہتر آیات قرآن مجید میں نازل کی گئیں اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ شیطان سابقہ انبیاء‌کی تلاوت میں خلل انداز ہوا ۔ جو آیت بھی منسوخ کی گئی ہیں ان میں موجود حکم اور نئی آیت میں موجود حکم کبھی تبدیل نہیں ہوئے۔ صرف آیت کے الفاظ تبدیل ہوئے ، اس لئے کہ اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔

[ayah]22:52 [/ayah][arabic]وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ[/arabic]
اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر (ایسا ہوتا رہا) کہ جب اس نے تلاوت کی تو خلل اندز ہوا شیطان اُس کی تلاوت میں۔ پھر مٹا دیتا رہا اللہ اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا رہا پھر پختہ کردیتا رہا اللہ اپنی آیات کو اور اللہ علیم و حکیم ہے۔


آیات کا متن بدلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان سابقہ کتب میں بہت تبدیلی ہوتی رہی ہے۔
[ayah]2:75 [/ayah][ayah]أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُّؤْمِنُواْ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ[/ayah]
کیا تم اب بھی توقّع رکھتے ہو کہ ایمان لے آئیں گے یہ لوگ تمہاری دعوت پر؟ حالانکہ ہے ایک گروہ ان میں (ایسا بھی) جو سنتا ہے اللہ کا کلام پھر ردّ و بدل کردیتا ہے اس میں، بعد خُوب سمجھ لینے کے، جانتے بوجھتے۔


وضاحت:
ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آیات صرف قرآن میں ہی نازل نہیں کی ہیں۔ بلکہ آیات اللہ تعالی کی کتابوں تورات، زبور، انجیل اور قرآن حکیم میں نازل ہوئیں ۔ قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا۔ اللہ تعالی کا دستور، اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ سابقہ کتنب کی آیات یعنی احکامات کے الفاظ اور جملے بدل دئے جاتے ہیں لیکن حکم نہیں تبدیل ہوتا۔ اس طرح قرآن میں فراہم کردہ یہ آیات ایک بہتر شکل میں‌موجود ہیں۔

اس کی وجہ:
آیات کا متن بدلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان سابقہ کتب میں بہت تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ اور دوسری یہ کہ توراۃ، زبور اور انجیل کی آیات کو منسوخ کیا گیا اور اس کی جگہ بہتر آیات قرآن مجید میں نازل کی گئیں اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ شیطان سابقہ انبیاء‌کی تلاوت میں خلل انداز ہوا ۔

اللہ تعالی قرآن حکیم میں کہیں بھی یہ نہیں‌ فرماتے کہ قرآن حکیم کی آیات تبدیل یا منسوخ ہوتی رہی‌ ہیں؟ لیکن یہ ضرور وضاحت کرتا ہے کہ سابقہ کتب میں تحریف کی گئی اور ساتھ ساتھ شیطان بھی سابقہ انبیاء کرام کی تلاوت وحی میں خلل انداز ہوا۔ یہ وجہ ہے کہ سابقہ کتب کے احکامات تبدیل کرکے قرآن میں اس سے بہتر آیات فراہم کی گئیں۔

محمود احمد غزنوی نے کہا:
مثال نمبر 6۔ ۔ ۔ [arabic]۔سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَى۔إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ۔[/arabic]
(اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو خود (ایسا) پڑھائیں گے کہ آپ (کبھی) نہیں بھولیں گے۔مگر جو اﷲ چاہے،

مسلم کی روایت میں ہے کہ صحابہ ایک صبح اٹھے تو انکے ذہن سے ایک پوری سورت محو کی جاچکی تھی۔
امام رازی نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمام مفسرین نے اس آیت( [arabic]مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [/arabic]
ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے) کو قرآنٰ پاک پر حمل کیا ہے گذشتہ کتابوں پر نہیں۔
ٰ
قرآن حکیم ایک لوح محفوظ سے نازل کیا جاتا رہا۔ اللہ تعالی کی نظر ازل سے ابد تک ہے۔ اس لئے ایسا سمجھنا عقل کے خلاف ہے کہ ہم ایسی کہانیوں‌پریقین کریں۔ یہاں ہم کو قرآن حکیم کی کسی آیت کو کینسل کرنے والی کوئی آیت نہیں مل رہی ہے۔ لہذا یہ دعوی کہ قرآن کے احکامات کی تنسیخ ہوتی رہی ہے اس مثال سے ثابت نہیں ہوتا۔

جہاں تک اللہ تعالی کی آیات کا تعلق ہے ، اللہ تعالی کی آیات سابقہ کتب میں‌بھی موجود تھیں ، ان آیات کی تبدیلی کی گواہی قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے دی کہ اس میں ایک تو انسانوں نے تحریف کی اور دوسرے ان سابقہ کتب آیات کی تلاوت کے دوران شیطان نے خلل ڈالا۔
ان دو وجوہات کی بناء اللہ تعالی نے قرآن نازل کیا اور اس کو سابقہ کتب کی توثیق کرنے والی کتاب قرار دیا۔ اس کتاب قرآن حکیم میں بہت سے آیات ہیں جو سابقہ کتب کی آیات کی تصحیح کرتی ہیں۔
اس میں سب سے بڑی تصحیح‌ہے ابراہیم علیہ السلام کے اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کی۔ جو کہ سابقہ کتب میں ---- ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے اسحاق علیہ السلام کی قربانی کے طور --- درج ہے۔ اس پر کفار نے شور مچایا کہ اللہ تعالی اپنی آیات تبدیل کررہا ہے۔ ۔ یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے وضاحت فرمائی کے سابقہ کتب کی آیات کی درستگی قرآن حکیم میں ضروری تھی۔ لیکن یہ آیت قطعاً یہ نہیں بتاتی ہے کہ قرآن حکیم کے احکام کو تبدیل یا منسوخ کیا گیا۔

محمود احمد غزنوی نے کہا:
انہوں نے اور بھی کئی مثالیں‌دی ہیں لیکن میں انکو اسلئے درج نہیں کررہا کہ ان مین احادیث کا ذکر آتا ہے جو کہ آپ کے نزدیک قابلِ حجّت نہیں۔
ٰ

السلام علیکم ، محمود احمد غزنوی۔
آپ اس دھاگہ کو بغور پڑھئے اور اگر ان کے علاوہ بھی کوئی آیات آپ کے علم میں‌ہیں تو ان کو بھی یہاں لکھئے۔ الحمد للہ اب تک پیش کردہ اعتراضات کی وضاحت، منطقی دلائل، عمل طرز عمل اور قرآن کی آیات کے مناسب معانوں سے فراہم کردیا گیا ہے۔ اگر کہیں تشنگی ہے تو سوال کیجئے۔ مجھے بہت خوشی ہوگی کہ میں افواہوں‌کی تصحیح کرسکوں۔

والسلام
 
اس کی مثال دیکھئے [ayah]33:50 [/ayah]میں رسول اللہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ کن خواتین سے نکاح کرسکتے ہیں ؟


[ayah]33:50 [/ayah] اے نبی! بے شک ہم نے حلال کردی ہیں تمہارے لیے تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کردیے ہوں اور وہ لونڈیاں بھی جو تمہاری ملک میں آئیں اس (مال غنیمت) میں سے جو عطا کیا ہے اللہ نے تمہیں اور (حلال کردی ہیں) تمہاری چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد (بہنیں) جنہوں نے ہجرت کی ہے تمہارے ساتھ اور کوئی مومن عورت اگر ہبہ کرے اپنے نفس کو نبی کے لیے اگر نبی بھی چاہے (تو حلال ہے) اس سے نکاح کرنا۔ (یہ رعایت) خالصتاً تمہارے لیے ہے دوسرے مومنوں کے لیے نہیں۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ کیا فرض کیا ہے ہم نے مومنوں پر اُن کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں؟ (تمہیں ان حدود سے متثنٰی کردیا ہے) تاکہ نہ رہے تم پر کوئی تنگی۔ اور ہے اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا۔

اور جب اللہ تعالی کا مقصد پورا ہوگیا تو اللہ تعالی نے یہ حکم دیا:

[ayah]33:52[/ayah] نہیں حلال ہیں تمہارے لیے عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ تم بدلو ان کی جگہ اور بیویاں اگرچہ تمہیں بہت ہی پسند ہو ان کا حسن سوائے ان کے جن پر تمہارا حق ہے، ہے اللہ ہرچیز پر نگران

ایک حکم دیا، جب مقصد پورا ہوگیا تو پہلے حکم پر عمل کرنے سے روک دیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب زندگی سے اور قرآن سے بھی ایسی مزید مثالیں فراہم کرسکتے ہیں۔
الحمدللہ کہ ہم جس بات کے قائل ہیں وہ حق بات آپ کی اس پوسٹ میں آپ کے ہاتھوں ہی درج ہے جسکو میں نے خط کشیدہ کردیا ہے۔
خط کشیدہ عبارت میں بیان کی گئی بات کو ہی اصطلاح میں 'نسخ' کہتے ہیں اور ہم لوگ (اہلسنت والجماعت) آیات کو انہی معنوں میں ناسخ و منسوخ کہتے ہیں ۔ ہم بھی اس سے قطعاّ وہ مراد نہیں لیتے جو یہود 'نسخ' سے لیتے تھے۔
واضح ہو کہ یہودی لوگ نسخ کو 'بدء' سے کنفیوژ کرتے تھے۔ 'بدء' سے مراد ہے کہ کوئی بات کہنا لیکن بعد میں اپنی غلطی پر مطلع ہوجانے کے بعد اس بات کو تبدیل کردینا یا کینسل کردینا۔یعنی وہ طعنے کے طور پر کہتے تھے کہ مسلمانوں کا خدا غلطیاں کرتا ہے اور پھر انکو درست کرتا رہتا ہے۔
حاشا و کلّا کہ مسلمان نسخ سے یہ مراد لیتے ہوں۔ جب نسخ کا لفظ آیت میں موجود ہے کہ "ہم اگر کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا حافظوں سے محو کردیتے ہیں تو اس جیسی یا اس سے بہتر آیت لے آتے ہیں"۔ اس آیت میں لفظ نسخ استعمال ہوا ہے اور مسلمان علماء و فقہاے و محدثین نے ہر دور میں اس'نسخ' سے سے یہی اصطلاحی معنی مراد لئے ہیں جو ھائی لائیٹ کئے گئے ہیں۔ کہ بعض احکام ایک مدت تک تھے انکے بعد ان پر عمل سے روک دیا گیا۔ اسی طرح بعض احکام مسلمانوں کے نزدیک عموم پر تھے یعنی جنرلائزڈ سمجھے جاتے تھے لیکن بعد میں آنے والی کسی آیت سے انکی اس جنرلائزیشن کو ڈیفائن کرکے کسی نہ کسی قید سے مخصوص کر دیا گیا ۔ اس میں نہ تو کوئی سنت اللہ کی تبدیلی ہے نہ کوئی اور منفی بات۔ بلکہ اسی کو حکمت کہتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ آپ پوری مسلم امّہ اور خصوصی طور پر علماء و فقہاء اور محدثین سے شدید قسم کی بد ظنّی کا شکار ہیں۔ جبھی تو مسلمانوں پر یہودیوں‌والے معنی چسپاں کر رہے ہیں۔ بھائی سیدھی سی بات ہے اسکو اسی تناظر میں لیجئے اور اپنی یہ غلط فہمی دور کر لیجئے کہ 1400 سال میں جتنے بھی قابلِ فخر علماءِ دین اور محققین گذرے ہیں وہ سب تو اس بات کو سمجھ نہ سکے اور ساری زندگی جاہل ہی رہے۔:shameonyou:
جن دو حضرات کا آپکے دستخط والے شعر میں ذکر ہے یعنی زمخشری اور رازی، یہ بھی نسخ کے ہی قائل تھے لیکن یہودیوں والے معنوں میں نہیں بلکہ مسلمانوں والے معنوں میں۔:tongue:
 
Top