اڑانوں کا ہرا موسم ..اسلام عظمی

الف عین

لائبریرین
**
رواں تھیں یاد سمندر میں کشتیاں کیا کیا
سنا رہی تھی ہمیں شب کہانیاں کیا کیا
پسِ بہار تمہارے یہ چاہنے والے
لئے پھرے ہیں گریباں کی دھجیاں کیا کیا
بتا کے اور طبیعت ملال کر بیٹھے
شکستِ خواب سے پہلے تھیں شوخیاں کیا کیا
عجیب دن تھے کہ ہم آشیاں میں رہتے تھے
تلاش میں رہا کرتی تھیں بجلیاں کیا کیا
یہ سیلِ آب جو اُترے تو پھر بتائیں ہم
کہاں کہاں ہوا کرتیں تھیں بستیاں کیا کیا
سراغ پھر بھی نہ پایا اگرچہ باندھی تھیں
ہوائے شوخ کے پاؤں میں گھنٹیاں کیا کیا
سراب کتنے سرِ شہر خواب اُگتے رہے
فریب دیتی رہیں ہم کو دوریاں کیا کیا
یہ کیسی آہٹیں شب بھر جگائے رکھتیں ہیں
کھنکتی رہتی ہیں کانوں میں چوڑیاں کیا کیا
ہمیں تو ہونا تھا آخر کو در بدر عظمیؔ
اُٹھائیں اس پہ بھی لوگوں نے انگلیاں کیا کیا
 

الف عین

لائبریرین
**
پسِ دیوارِ زنداں زندگی موجود رہتی ہے
اندھیری رات میں بھی روشنی موجود رہتی ہے

سرِ دربار و مقتل ایک سا موسم انا کا ہے
گراں سر میں ہمیشہ سرکشی موجود رہتی ہے

رواں رکھتے ہیں ہم کو دشت دریا ، دھوپ دروازے
سرابوں سے سفر میں تشنگی موجود رہتی ہے

نظر سے جوڑ رکھتا ہے یہ دل ایسے بھی نظارے
کہ بعد از مرگ بھی حیرانگی موجود رہتی ہے

بہت آسان راہیں بھی بہت آساں نہیں ہوتیں
سبھی رستوں میں تھوڑی گمرہی موجود رہتی ہے

مری سوچوں میں یوں رچ بس گئے ہیں شبنمی موسم
تواتر سے تہہ مژگاں نمی موجود رہتی ہے

تلاطم میں سدا رہتی ہیں کرنیں حسنِ تاباں کی
نصیب دشمناں کچھ برہمی موجود رہتی ہے

نکل پاتا نہیں میں کوچۂ بے نام سے عظمیؔ
کہ اسبابِ سفر میں کچھ کمی موجود رہتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
واپسی کا استعارا کھو گیا
ہاتھ میں آ کر ستارا کھو گیا

گفتگو گرداب سے ہونے لگی
اک ذرا پل میں کنارا کھو گیا

چار جانب گھنٹیاں بجنے لگیں
کس کو سوچا ہر نظارا کھو گیا

جھوٹ بولا ہاتھ کی ریکھاؤں نے
ملنے والا تو دوبارا کھو گیا

ماں کے ہونٹوں سے ہنسی جاتی رہی
جب سے بچے کا غبارا کھو گیا

جگنوؤں سے کھیلنے کے دن گئے
آگ وہ بھڑکی شرارا کھو گیا

عظمیؔ صاحب تھے بہت مشکل میں ہم
وہ تو کہیے دل ہمارا کھو گیا
 

الف عین

لائبریرین
**
زندانِ تمنا کے درو بام سے نکلیں
کیسے بھی ہو ، بے نام سے اِس دام سے نکلیں

یہ شہر بھی اُجڑے گا ترے نام سے مولا
سب کام یہاں اور ہی اِک نام سے نکلیں

لے دے کے اُسی کوئے ملامت کا سفر ہے
بے وجہ نکلنا ہو کہ ہم کام سے نکلیں

گنجلک ہی سہی قریۂ تشکیک کی گلیاں
ہم ایسے مسافر بڑے آرام سے نکلیں

انمول سے کچھ لوگ کہ ہیں سنگ صفت بھی
ٹوٹیں تو بہت ارزاں بہت عام سے نکلیں

کر دیکھیں مگر دوستو! ممکن ہی نہیں ہے
ہم اُس کے مقرر شدہ انجام سے نکلیں

اک شام کبھی نام پہ اپنے بھی لکھیں ہم
عظمیؔ جو ذرا گردشِ ایام سے نکلیں
 

الف عین

لائبریرین
**
اِظہار محبت میں بھی اوروں سے جدا ہو
شاید وہ مری طرح پرستارِِ وفا ہو

یوں کھل وہ ہنستا ہو کہ زندہ ہو وہ اب تک
پتھرائے ہوئے شہر میں پتھر نہ ہوا ہو

ملتا ہی نہ ہو لفظ مناسب اُسے کوئی
ممکن ہے کہ وہ بھی اَبھی سوچوں میں گھرا ہو

ممکن ہے کسی اور کو دیکھا نہ ہو اُس نے
ممکن ہے وہ اَب تک اُسی کھڑکی میں کھڑا ہو

ممکن ہے کہ آواز تجھے دی ہو کسی نے
ممکن ہے کہ جو تم نے سنا شورِ ہوا ہو

ممکن ہے کہ اُس نے تمہیں دیکھا ہی نہ ہو آج
ممکن ہے کہ وہ کب کا تمہیں بھول چکا ہو

اَس کوچۂ خاموش پہ حیرت نہ بہت کر
ممکن ہے کہ یہ شہر ہی پتھر کا بنا ہو

اُترے کبھی مجھ پر بھی تری دید کا موسم
مجھ کو بھی کوئی ساعتِ تصدیق عطا ہو
 

الف عین

لائبریرین
**
ترے بازار کا کوئی اثر مجھ پر نہیں ہوتا
مجھے سود و زیاں کا باب کیوں ازبر نہیں ہوتا

ذرا سا بھی بڑھوں آگے تو مڑ کر دیکھ لیتا ہوں
میں اپنے بس میں رہتا ہوں کبھی پتھر نہیں ہوتا

فصیلیں کھینچتا رہتا ہوں چاروں اور بستی کے
مگر لوگوں کے دل سے دور پھر بھی ڈر نہیں ہوتا

یہ کیسے موڑ پر لے آئیں سرکش خواہشیں میری
کدھر جانا ہے مجھ فیصلہ اکثر نہیں ہوتا

مری بے احتیاطی کام میرے آ گئی ورنہ
مجھے بھی تیر لگ جاتا جو میں زد پر نہیں ہوتا

میں اپنے ڈھنگ سے تسخیر کرتا ہوں زمانے کو
نکلتا ہوں اکیلا ساتھ میں لشکر نہیں ہوتا

روایت ہو تو کیسے ہو یہاں آنسو بہانے کی
مکاں ہوتے ہیں اس بستی میں کوئی گھر نہیں ہوتا

تو پھر یہ زندگی کا دن گزرتا کون چھاؤں میں
دکھوں کا سائباں عظمیؔ اگر سر پر نہیں ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
**
اپنے وجود کو کبھی ثابت نہ کر سکے
جو اعترافِ جرمِ محبت نہ کر سکے
تصویر سی اک آنکھ کی پتلی میں بن گئی
وہ تو چلا گیا اُسے رخصت نہ کر سکے
فکرِ رسا سے ایسی ہوئی روشنی کہ پھر
سہواً بھی اختیار جہالت نہ کر سکے
انسانیت کے ناطے سے شامل تھی خون میں
پھر بھی کسی کے ساتھ عداوت نہ کر سکے
اک ساتھ کر سکے نہ کبھی سجدہ و دعا
اپنے خدا کے ساتھ تجارت نہ کر سکے
خود اپنے آپ چہرے پر تحریر ہو گئے
جن حادثوں کو صرفِ حکایت نہ کر سکے
گو پاسدارِ حرفِ صداقت رہے سدا
جو سچ تھا اُس کو ثابت و جاری نہ کر سکے
ہم پر جنوں سوار تھا ہم سے گلہ ہے کیا
اُس راز کی تم بھی حفاطت نہ کر سکے
عظمیؔ تو آج اُس سے کوئی ایسا سوال کر
جس کے جواب کو وہ اَکارت نہ کر سکے
 

الف عین

لائبریرین
**
ذرا سی بات کو ، برسوں سنبھال رکھتا ہے
وہ اختلاف کا پہلو نکال رکھتا ہے

الگ ڈھنگ ہے اُس کا ، مبارزت کے لئے
میاں میں تیغ نہ کوئی وہ ڈھال رکھتا ہے

وہ حیرتوں کا سمندر ، مسرتوں کا اَمیں
عجب نہیں کہ ہواؤں سی چال رکھتا ہے

یہ شہرِ فکرِ رسا ہے یہاں کا ہر لمحہ
نیا جواب پرانے سوال رکھتا ہے

اَنا کے خول سے باہر نہیں نکلتا وہ
یوں رابطہ تو ہمیشہ بحال رکھتا ہے

عجیب شخص ہے عظمیؔ کہ نامرادی میں
ترے وصال کی خواہش بھی پال رکھتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
بے سبب وحشتیں کرنے کا سبب جانتا ہے
میں جو کرتا ہوں وہ کیوں کرتا ہوں سب جانتا ہے

بولتے سب ہیں مگر بات کہاں کرتے ہیں ؟
یہ سلیقہ تو کوئی مہر بہ لب جانتا ہے

مجھ سے گستاخ کو وہ کیسے گورا کر لے
جب کہ وہ شہرِ سخن حدِ ادب جانتا ہے

اپنے ہی ڈھب سے وہ کرتا ہے مری چارہ گری
کب چمکنا ہے مرا طالعِ شب جانتا ہے

کیسے موسم میں کہاں راحتِ جاں اُترے گا
ایسی سب باتیں دلِ رنج طلب جانتا ہے

بھول سکتا ہے اُسے یہ دلِ عیار مگر
چشم و اَبرو کا فسوں لذتِ لب جانتا ہے

مسکرا کر جسے ملتا ہوں ہمیشہ عظمیؔ
اِک وہی میری اُداسی کا سبب جانتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
جب کر سکی نہ چاکِ جدائی رفو ہوا
وحشت میں سر پٹختی پھری کو بکو ہوا

سورج نہ چاند تھا نہ کہیں رات تھی نہ دن
دشتِ فراقِ یار تھا اور چار سو ہوا

کن غرق ہونے والوں کی جانے ہیں یادگار
گرداب پانیوں میں ، لبِ آبجو ہوا

مدت سے قریہ قریہ وہ گرداں اگرچہ تھی
کوچے میں تیرے آ کے ہوئی مشکبو ہوا

خوشبو کی طرح کون ہے آتا نہیں جو ہاتھ
کس گل بدن کی کر رہی ہے جستجو ہوا

ہر آنکھ تیرتا تھا شب و روز تیرا خواب
کرتی تھی ہر کسی سے عجب گفتگو ہوا

ہم پاس پاس بھی رہے اور دور دور بھی
میں ریگ زارِ بے کراں تھا اور تو ہوا

بے نام سی تھکن سے بدن چور چور ہے
عظمیؔ تہی رتوں میں بہت تند خو ہوا
 

الف عین

لائبریرین
**
اگر ان وادیوں کے اس طرف رہتا نہیں کوئی
بہت دن تک یہاں پر کس کئے رکتا نہیں کوئی
چھلاوا سا بلاوا پاؤں کو حرکت میں رکھتا ہے
وگرنہ بے ارادہ رات دن چلتا نہیں کوئی
تو پھر یہ منزلیں کس طرح اتنی دور رہتی ہیں
قدم آگے بڑھا کر پیچھے جب ہٹتا نہیں کوئی
غضب کی روشنی ہے آئینہ سازوں کی بستی میں
بصد کوشش کہیں پہ عکس ہی بنتا نہیں کوئی
کبھی اندر ہی اندر ایسے اُگ آتا ہے سناٹا
یہ لگتا ہے کہ پورے شہر میں رہتا نہیں کوئی
یہ کن خوابوں میں شب بھر گھومتے رہتے ہیں ہم دونوں
بقولِ دشمناں جب درمیاں رشتہ نہیں کوئی
طلسمِ زر نے آخر کار سب کچھ کر دیا پتھر
صدائیں اپنے اندر کی بھی اب سنتا نہیں کوئی
خدا جانے نئی فہرست میں ہو نام کس کس کا
اسی ڈر سے کسی سے رابطہ رکھتا نہیں کوئی
بھری بستی ہے عظمیؔ اس میں کوئی جاگتا ہو گا
منڈیروں پر دیا ہر چند کہ جلتا نہیں کوئی
 

الف عین

لائبریرین
**
فزوں ہر لحظہ اس کی تشنگی ہے
زمیں بھی تو سمندر سے بنی ہے
میں اس کے چار سو پھیلا ہوا ہوں
جدھر جاؤں یہ مجھ کو کھینچتی ہے
اندھیرے ہی پسِ دیوار جاگیں
یہی اسلوبِ شہرِ روشنی ہے
تری ترغیب سے میں ہار جاؤں
مری خواہش سے کیا دنیا بڑی ہے ؟
ضرورت سے زیادہ زندگی کیا؟
یہ اسرافِ متاعِ زندگی ہے
دلِ لاچار کی لا چاریاں ہیں
وگرنہ غم کیا ہے ؟ کیا خوشی ہے ؟
سکونت کا بھی اک اپنا مزہ ہے
مگر آوارگی آوارگی ہے
جسے ہم روشنی سمجھا کئے ہیں
فقط اک انعکاسِ روشنی ہے
میں اپنے ڈھب سے جینا چاہتا ہوں
کوئی سمجھے تو سمجھے خوشی ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
برنگِ سرخیِ اخبار جاگی
سیاہی بر سرِ دیوار جاگی

عجب ہے گفتگو اُس گلبدن کی
پس دیوار بھی مہکار جاگی

سر افلاک اک مہتاب جاگا
تہہ دل خواہش گفتار جاگی

رُکے تو دل میں کیا کیا خوف ٹھہرے
چلے تو خوبیِ رفتار جاگی

سرِ صحرا تھی خوابیدہ تمنا
کبھی دریاؤں کے اُس پار جاگی

کہاں پر آ کے عظمیؔ خواب ٹوٹا
کہاں پہ آ کے یہ دیوار جاگی
 

الف عین

لائبریرین
**
باتوں باتوں میں بیاں اس کی شباہت کر گیا
بے خیالی میں یہ کیا عظمی جسارت کر گیا
اِک کشش اُس کی بھی شامل تھی مری رفتار میں
طے میں اُس کے نام پر کیا کیا شباہت کر گیا
میں گواہی دے کے ، ناحق شہر میں رسوا ہوا
اُس کو کرنا تھی عدالت ، وہ عدالت کر گیا
میری باتیں غور سے سنتا رہا ، جب تک رہا
جاتے جاتے میرے دشمن کی حمایت کر گیا
گنگ ہو جاتا ہے جو بھی بات سنتا ہے مری
زہر کیسا میرے لہجے میں سرایت کر گیا
کھینچ کر وہ اک خطِ تنسیخ میرے نام پر
عشق کی کچھ اور با معنی عبارت کر گیا
بو گیا زرخیز کھیتوں میں وہ کیسے وسوسے
کیسی کیسی محنتیں پل میں اکارت کر گیا
سرد ہوتے موسموں میں بو گیا چنگاریاں
وہ گئے گزرے دنوں میں بھی قیامت کر گیا
قتل کر دیں میں نے عظمی کیسی کیسی چاہتیں
کچھ میں اس کی اور کچھ اپنی حفاظت کر گیا
 

الف عین

لائبریرین
**
برف موسم بدلنے لگا
شب میں سورج نکلنے لگا
میں نے سوچا اُسے ، اک دیا
آپ ہی آپ جلنے لگا
حدتوں سے مرے پیار کی
ایک پتھر پگلنےہ لگا
میں چلا جانبِ شہرِ دل
ساتھ رستہ بھی چلنے لگا
اک دیا پھر سر رہگزر
کس بھروسے پہ جلنے لگا
چند ویراں دلوں کے لئے
کیوں یہ سورج نکلنے لگا
وہ سر بام کیا آ گیا
منظر شام جلنے لگا
دور سے کس نے آواز دی
درد کروٹ بدلنے لگا
اک جہاں گرد عظمی سا بھی
اس کے رستے پہ چلنے لگا
 

الف عین

لائبریرین
**
چشمہ پھوٹا گاگر سے
گاگر ٹوٹی کنکر سے
مجھ سے رونق ساری ہے
بولی ، بوند سمندر سے
تیری اور ہی لپکوں گا
جب بھی نکلا محور سے
بستی ، دشت نہ کر دینا
اُلٹے سیدھے منتر سے
پوچھو بستی کی باتیں
اک پنچھی اُک بے گھر سے
تنہا گھوموں سڑکوں پر
جلدی اُٹھ کر بستر سے
کچھ سپنوں کی باتیں ہیں
کچھ سپنے ہیں بنجر سے
تم جیسا کب دوجا ہے
روشن اندر باہر سے
دشت دہائی دیتا ہے
عظمیؔ نکلو بستر سے
 

الف عین

لائبریرین
**
چھتنار اک شجر تو مرا ہم سفر رہا
لیکن میں عمر بھر کے لئے بے ثمر رہا

وہ رن پڑا کہ بازو ہی پتوار بن گئے
درپیش موج موج بھنور پہ بھنور رہا

بن باس ختم ہو تو حکایت رقم کروں
کھل کر لکھوں کہ کس کے لئے دربدر رہا

میں اپنی سادگی سے اگر مات کھا گیا
پہلے کی طرح وہ بھی کہاں معتبر رہا

برسوں قیام کر کے بھی بستی میں اجنبی
مہمان جیسے کوئی کہیں رات بھر رہا

پاگل ہوا کا زور تھا، صحرا تھا اور میں
جگنو سا پھر بھی ، مرا راہبر رہا

اوجھل تھا آنکھ سے تو رسائی سے ماورا
یہ میری جستجو تھی ، اسے ڈھونڈ کر رہا

تج دیں جو خواہشیں تو ، سبھی دردِ سر گئے
فردا کا ڈر رہا نہ غمِ خیر و شر رہا
 

الف عین

لائبریرین
**
بنجر آنکھ میں جھلمل سپنے بو دیکھیں
جانے کو ہے رات ذرا ہم سو دیکھیں

دھند کے پیچھے کیا ہے ؟ شاید کھل جائے
اُس کو یاد کریں تھوڑا سا رو دیکھیں

اپنا فرض نبھائیں قرض چکائیں ہم
وہ آئے نہ آئے رستہ تو دیکھیں

پچھتاوے سے بہتر ہے کچھ کر گزریں
چھوڑ کے اپنی بات کسی کا ہو دیکھیں

ہم تو بندھے ہیں اس کی چاہت ڈوری میں
دنیا والے اپنی رسموں کو دیکھیں

جانے کیا پھر کب پھولوں کا موسم ہو
اس کے نام کا عظمیؔ ہار پرو دیکھیں
 

الف عین

لائبریرین
**
ہر قدم اک رہنا اس شہر میں
جینا مشکل ہو گیا اس شہر میں

مسکرانے کی روایت چل بسی
کوئی ہے آسیب سا اس شہر میں

یہ کہیں روزِ قیامت تو نہیں
آشنا ، نا آشنا اس شہر میں

ایک سے اک ہے یہاں اہل ہنر
اب کہاں رسم وفا اس شہر میں

ایک صحرا چل رہا ہے ساتھ ساتھ
آ کے ہم کو یوں لگا اس شہر میں

ہر سفر میں ہم سفر اپنا جو تھا
ہو گیا ہم سے جدا اس شہر میں

جانے والوں کو تھا جانا ، سو گئے
ذکر ان کا رہ گیا اس شہر میں

کس لئے عظمیؔ اُٹھائے تم نے ہاتھ
اب نہیں رسم دعا اس شہر میں
 

الف عین

لائبریرین
**
حدت ہی کی روانی سے خود جلنے لگا ہوں
سورج کی طرح میں بھی گرفتار انا ہوں

خود اپنی صدا مجھ کو سنائی نہیں دیتی
اک سنگ ہوں اور اپنے ہی رستے میں پڑا ہوں

پھیلا ہوں میں تا حدِ نظر گرد کی صورت
خاشاک ہوں ، اک عمر سے بر دوشِ ہوا ہوں

جاں دی ہے تو جینے کا سلیقہ بھی مجھے دے
پھر نیل ہو دو لخت کہ میں ڈوب چلا ہوں

کس طرح بتا دوں انہیں دیکھا ہے جو میں نے
کس طرح سے کہہ دوں تجھے پہچان چکا ہوں

تو جان لے یہ بات تو مر جائے خوشی سے
جتنا تو سمجھتا ہے میں اس سے بھی برا ہوں

جس دن بھی ترے آنے کی امید بندھی ہے
تکتے ہوئے رستہ ، ترے گھر تک میں گیا ہوں
 
Top