اڑانوں کا ہرا موسم ..اسلام عظمی

الف عین

لائبریرین
اڑانوں کا ہرا موسم
اسلام عظمی


اسلام عظمی کی مطبوعہ تخلیقات
ریت اور شبنم(شاعری مرتبہ)۔جوگ سنجوگ(افسانے )۔
بہت پرانی کہانی(افسانے )
اُڑانوں کا ہرا موسم(شاعری)۔دکھ دان(ناول)۔
اسلام عظمی کی آنے والی تخلیقات
دکھ زار(ناول)۔سکوت(شاعری)
اُڑنے والی چڑیا(افسانے )۔
٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
شاعری بہانہ ہے

(شاعری کی کتاب "اُڑانوں کا ہرا موسم" کا دیباچہ)

"جوگ سنجوگ" اور بہت پرانی کہانی کے بعد اسلام عظمی نے شاعری بھی شروع کر دی ہے"
"تو پھر؟"
"اُڑانوں کا ہرا موسم" اُس کی شاعری کی کتاب ہے"
"تو پھر؟"
"اچھی شاعری ہے"
"تو پھر؟"
" بس ایسے ہی ہے"
"تو پھر؟"
زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔۔معلوم نہیں یہ گل محمد کون تھا؟"آپ جانتے ہیں کیا؟"
"ادب کیا ہے ؟"
بات بنانا یا پھر بات بڑھانا
حیران ہونا یا پھر حیرتیں جگانا
دھوپ کی کہانی یا پھر درد کی روانی
اپنی مرضی کے زمین و آسماں بنانے کی ایک طفلانہ حرکت یا جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خوابوں کی تماشا گاہ۔
دیکھو تو کچھ بھی نہیں ، سوچو تو بہت کچھ
ادب انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے بھی نہیں
ادب بنیادی حقوق کا مسئلہ بھی نہیں
"تو پھر یہ سب بکھیڑا کیا ہے ؟"
"شاعری ایک صدا ہے یا کہ سزا؟"
"بند دروازوں پر دستکیں کیوں ؟"
روزنِ دیوار سے در آنے والی کرنوں کی پذیرائی کس لئے ؟
کس لئے یہ تجسس؟کس لئے یہ جستجو؟
جاننے اور جانے جانے کی یہ خواہش کیوں ؟
ادب تجسس کو تجسیم کرتا ہے ۔
ادب حدوں سے اِدھر اور سرحدوں سے اُدھر کے منظر نامے بناتا ہے ۔
ادب سروں اور سرمدوں کا تعین کرتا ہے ۔
لفظ کا لکھا جانا اس بات کی شعوری کوشش ہے کہ کمزور سماعت والے بھی جان لیں کہ ہو کیا رہا ہے ؟
مصور تصویر بنا کر رنگوں کو اعتبار عطا کرتا ہے ۔
شاعری لفظوں کی مناسب ترتیب و تناسب سے ایک غیر مرئی قوس و قزح ایجاد کرتی ہے ۔
رنگ اور سنگ صوتی اعتبار سے ایک جیسے مگر صفاتی سطح پر متضاد ہیں مگر تاثیر دونوں کی بھر پور ہے ۔
لفظوں میں تاثیر کی تلاش شاعری ہے ۔
کوئی جذبے کو متاع مانتا ہے تو کوئی ضیاع، بات اپنی اپنی اُڑان کی ہے ۔اور پھر لفظوں کا قصہ بھی عجیب ہے کہ کچھ لفظ نصاب بن جاتے ہیں تو کچھ نصیب۔حالات و تجربات کچھ لفظوں کو واجب الاحترام بنا دیتے ہیں ۔یہی لفظ سوچوں کو ٹھنڈک عطا کرتے ہیں ۔ٹھنڈک کا احساس دلاتے ہیں ۔ پیڑ کہیں بھی اُگا ہو، کچھ نہ کچھ سایہ ضرور دیتا ہے ۔ناروائی اور نارسائی کی دھوپ میں سائے اور خوبصورتی کا نام شاید شاعری ہے ، زندگی ہے ۔
زندگی دھوپ اور چھاؤں دونوں سے عبارت ہے ۔
اسلام عظمی ؔ کو کسی نے مجبور نہیں کیا تھا کہ وہ لکھے ۔اس طرح اسلام عظمیؔ یہ حق نہیں رکھتا کہ کوئی اسے پڑھے ۔سننا، پڑھنا اور لکھنا اختیاری افعال ہیں ۔
بہار کی ہوا اگرچہ اپنا تعارف خود کراتی ہے مگر ائر کنڈیشنگ نے جس کلچر کو جنم دیا ہے ، اس میں کھڑکی اور دریچہ بے معنی استعارے ٹھہرتے ہیں ۔
ادب اعداد و شمار کا کھیل نہیں کہ کچھ مروجہ اور مقررہ طریقوں سے خاطر خواہ نتائج حاصل کر لئے جائیں ۔پیدائش سے لے کر موت تک کے مراحل ایک جیسے سہی مگر ثانیوں ، گھنٹوں ، دنوں ، مہینوں اور سالوں کی جمع ، تفریق، ضرب اور تقسیم کی چھلنی سے گزرنے کے بعد زندگی ایک جیسی کب رہتی ہے ۔سفر ایک مثبت استعارہ سہی مگر موسم، جہت اور دھن اس کی نوعیت کو بدلتی رہتی ہے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ "کلام کرو تاکہ تم پہچانے جاؤ"
مگر ہوتا یہ کہ چپ رہو تاکہ تم برقرار رہو۔
مت سنو تاکہ تم محفوظ رہو۔
مت دیکھو کہ تم دوسروں کی نظر میں آنے سے بچے رہو۔
اسلام عظمیؔ لکھنے کا پنگا لے کر تم کس بکھیڑے میں پڑ گئے ہو؟
تصدیق کی خواہش
تکذیب کا ڈر
اور تم جو کہتے ہو کہ" ہو سکتا ہے کہ کوئی ناقد با امرِ مجبوری کسی گئے گزرے شعر کی تعریف پر مجبور ہو جائے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی اچھے شعر کی داد نہ دے ۔"تو کیا ضروری ہے کہ یہ مفروضہ محض ایک مفروضہ ہی نہ ہو۔خوب صورتیاں اور بد صورتیاں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہمیشہ سے محوِ سفر رہی ہیں اور رہیں گی۔
شاعری کے حوالے سے ایک بات یاد آئی کہ زندگی میں ڈھنگ کا ایک شعر بھی ہو جائے تو غنیمت ہے ۔یہ بات بجا مگر ایک سے زیادہ بھی اچھے شعر ہو جائیں تو کیا مضائقہ ہے ۔جستجو کامل ہو اور جذبہ صادق تو کیا میرؔ کے ہاں ۔۔۔۔۔

اسلام عظمیؔ
۸ ، اگست ۱۹۹۷ء العین ۔متحدہ عرب امارات۔
 

الف عین

لائبریرین
**
اس تواتر سے ہوا ہے بستیوں کا ٹوٹنا
اب خبر بنتا نہیں ہے کچھ گھروں کا ٹوٹنا

زلزلوں کا زندگی سے اک تعلق یہ بھی ہے
منظروں کو کھولتا ہے منظروں کا ٹوٹنا

خواب ہی کی بات ہے لیکن شگون اچھا نہیں
گرمی ء عکسِ دروں سے آئینوں کا ٹوٹنا

موت سے بڑھ کر تھا لیکن حادثہ لکھا گیا
ربطِ نا محسوس کے اُن سلسلوں کا ٹوٹنا

ایک خلقت جمع تھی احوال لینے کے لئے
جیسے یہ کوئی تماشا تھا پروں کا ٹوٹنا

شہر کی تعمیر کوئی مسئلہ عظمیؔ نہ تھا
ساتھ میں ہوتا نہ گر اِن ہمتوں کا ٹوٹنا
 

الف عین

لائبریرین
**
شہرِ خشت و سنگ میں رہنے لگا
میں بھی اُس کے رنگ میں رہنے لگا

پہلے تو آسیب تھا بستی کے بیچ
اب وہ اک اک انگ میں رہنے لگا

اپنی صلح دوستی لائی یہ رنگ
وہ مسلسل جنگ میں رہنے لگا

تب جدا ہوتے نہ تھے اب فاصلہ
درمیاں فرسنگ میں رہنے لگا

اس سے ترکِ گفتگو کرنے کے بعد
سوز ، اک آہنگ میں رہنے لگا

شہر خوش پوشاں کو عظمیؔ چھوڑ کر
وادی ء بے رنگ میں رہنے لگا
 

الف عین

لائبریرین
**
اِک بجھ گیا اِک اور دیا لے کے آ گئی
ملنے کی آس کچا گھڑا لے کے آ گئی
کن منزلوں کو شوقِ مسافت میں کھو دیا
کن راستوں پہ لغزشِ پا لے کے آ گئی
ٹک کر نہ بیٹھ پائے اسیرانِ رنگ و بو
خواہش فریبِ آب و ہوا لے کے آ گئی
اک آہوئے خیال بھی صحرا میں ساتھ ہے
خوشبوئے شہرِ یار صبا لے کے آ گئی
ورنہ تو بستیوں کی طرف چل پڑے تھے ہم
صحرا کی شام رنگِ حنا لے کے آ گئی
بدلا نہیں ہوا نے بھی مدت سے اپنا رُخ
خلقت عجیب باد نما لے کے آ گئی
دیتا رہے جواب کوئی تو سوال کا
یوں پتھروں میں ہم کو صدا لے کے آ گئی
اک پل میں کون دل کی رتیں ہی بدل گیا
بادِ شمال کس کا پتہ لے کے آ گئی
 

الف عین

لائبریرین
**
سنگ آتا ہے کوئی جب مرے سر کی جانب
دیکھ لیتا ہوں ثمر بار شجر کی جانب

اس مسافت کا کوئی انت نہیں ہے لیکن
دن نکلتے ہی میں چل پڑتا ہوں گھر کی جانب

کس نے آواز مجھے ساحلِ جاں سے دی ہے
ناؤ کیوں دل کی لپکتی ہے بھنور کی جانب

قصۂ شوق کو اس تشنہ لبی کا لکھنا
کر کے اک اور سفر شہرِ ہنر کی جانب

پھر سے انگاروں کا موسم مرے اندر اترا
پھر بڑھا ہاتھ مرا لعل و گہر کی جانب

یہ جو ہے صورتِ حالات بدل سکتی ہے
کاش! کر پاؤں سفر خیر سے شر کی جانب

عین ممکن ہے کہ پتھراتا نہ کوئی عظمیؔ
تو نے دیکھا ہی نہیں مڑکے نگر کی جانب
 

الف عین

لائبریرین
**
بگولے رہنما ہیں ، بادِ صحرائی سفر میں ہے
رکیں کیسے ؟ ہمارے ساتھ رسوائی سفر میں ہے
خبر بھی تو نہیں ہے ، اب کدھر کو جا رہے ہیں ہم
سرابوں کا سفر ہے ، آبلہ پائی سفر میں ہے
یہ بستی ہے کہ زنداں کچھ بھی تو پلے نہیں پڑتا
تھے کب پچھوا کے دن اور کب سے پروائی سفر میں ہے
کہاں سے آئیں کانوں کے لئے رم جھم سی آوازیں
جرس اک لفظِ پارینہ ہے ، شہنائی سفر میں ہے
ازل سے تا ابد ہے کار فرما گردشِ دوراں
کہ نادانی حضر میں اور دانائی سفر میں ہے
اُسے صدیاں لگیں گی نیند سے بیدار ہونے میں
ابھی آغاز کا موسم ہے انگڑائی سفر میں ہے
کوئی آہٹ بناتی ہی نہیں اُمید کا موسم
کچھ ایسی چپ لگی ہے جیسے گویائی سفر میں ہے

اکیلے پن کا عظمیؔ ہو بھی تو احساس کیسے ہو
تسلسل سے ہماری شامِ تنہائی سفر میں ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
بظاہر رنگ، خوشبو، روشنی یک جان ہوتے ہیں
مگر یہ شہر اندر سے بہت ویران ہوتے ہیں

کوئی مانے نہ مانے گفتگو کرتی ہے خاموشی
پس دیوارِ حسرت بھی کئی طوفان ہوتے ہیں

اُلجھ جائیں تو سلجھانے کو یہ عمریں بھی ناکافی
تعارف کے اگرچہ سلسلے آسان ہوتے ہیں

سرابوں کی خبر رکھنا گھروں کو چھوڑنے والوں
کئی اک بے در و دیوار بھی زندان ہوتے ہیں

یہاں ساری کی ساری رونقیں ریگِ رواں سے ہیں
بگولے ہی تو ریگستان کی پہچان ہوتے ہیں

پلٹ آنے کا رستہ اور ہی کوئی بناتا ہے
مسافر سب کے سب انجام سے انجان ہوتے ہیں

تو پھر آنکھوں میں سپنے ایک سے کیونکر نہیں اگتے
لکیروں کے اگر دونوں طرف انسان ہوتے ہیں

سفر تو چلتے رہنے کی لگن سے شرط ہے عظمیؔ
جنہیں چلنا بہت ہو ، بے سر و سامان ہوتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
**
جو چا ہوں بھی تو اب خود کو بدل سکتا نہیں ہوں
سمندر ہوں کناروں سے نکل سکتا نہیں ہوں

میں یخ بستہ فضاؤں میں اسیرِ زندگی ہوں
تری سانسوں کی گرمی سے پگھل سکتا نہیں ہوں

مرے پاؤں کے نیچے جو زمیں ہے گھومتی ہے
تو یوں اے آسماں ! میں بھی سنبھل سکتا نہیں ہوں

خود اپنے دشمنوں کے ساتھ سمجھوتا ہے ممکن
میں تیرے دشمنوں کے ساتھ چل سکتا نہیں ہوں

وہ پودا نفرتوں کا ہے جہاں چاہے اُگا لو
محبت ہوں میں ہر مٹی میں پھل سکتا نہیں ہوں

انہیں لڑنا پڑے گا مجھ سے جب تک ہوں میں زندہ
حصارِ دشمناں سے گو نکل سکتا نہیں ہوں

کھلے ہیں راستے کتنے مرے رستے میں عظمیؔ
مگر میں ہوں کہ ہر سانچے میں ڈھل سکتا نہیں ہوں
 

الف عین

لائبریرین
**
خود کو زیرِ بارِ احسانِ سفر کرتے نہیں
ہم بہت آسان رستوں پر سفر کرنے نہیں

بند کرنا بھول جاتے ہیں درِ غم کھول کر
مختصر سی بات کو بھی مختصر کرتے نہیں

اس طرح سے ہم سرابوں کی نگہداری میں ہیں
ہم کہاں پر ہیں کسی کو بھی خبر کرتے نہیں

اُس کے رستے میں بچھے رہتے ہیں رستے کی طرح
مدتوں سے جانبِ منزل سفر کرتے نہیں

کب منڈیروں کے حوالے ہم دئیے کرتے نہیں
کب چراغوں کے حوالے بام و در کرتے نہیں

کچھ سفر ایسے بھی ہیں جن کی نہیں منزل کوئی
معتبر کرتے ہیں لیکن معتبر ہوتے نہیں

مانگتا ہے وقت عظمیؔ اب مسلسل شوخیاں
غم کے افسانے کسی پر اب اثر کرتے نہیں
 

الف عین

لائبریرین
**
خوشی خوشی سے مرے ساتھ تو چلے موسم
اُداس اور پریشاں مگر رہے موسم

کہاں رکے ہیں کسی سے بھی سر پھرے موسم
دھنک مثال فضا میں بکھر گئے موسم

یہ کون شعلہ نفس آیا سوئے دل زدگاں
کہ چند لمحوں میں جیسے بدل گئے موسم

اُمید وارِ بہاراں رہی ہے کشتِ بہار
نصیب اپنا بھی ٹھہریں ہرے بھرے موسم

ہوں من کے اُجلے بھی یہ لوگ جو ہیں تن آسودہ
کہاں سے لاؤں ، مری جان ! وہ کھرے موسم

وہی تماشا دکھائے گی اُن کو یہ دنیا
نہ مڑکے آتے کبھی، جو یہ جانتے موسم

تغیرات سے کوئی نہ بچ سکا عظمیؔ
جو ریگ زاروں میں آئے تو جل اُٹھے موسم
 

الف عین

لائبریرین
**
کوئی ہے خوش یہاں کوئی رنجور ہے میاں
ایسا ہی اِس جہان کا دستور ہے میاں

اِک دوڑ ہے بقا و فنا میں لگی ہوئی
دو چار دن کی زندگی مقدور ہے میاں

چہرے سے کیسے تازگی ٹپکے تمہی کہو
جی خوش ہو جس کو دیکھ کر وہ دور ہے میاں

حسنِ بتاں سے کوئی علاقہ نہیں ہمیں
دل اب کسی کی مانگ کا سیندور ہے میاں

اِذنِ کلام ہی نہیں ملتا کسی کو اب
ورنہ تو اب بھی کوئی سرِ طور ہے میاں

مفلس کو اِس جہاں میں کوئی پوچھتا نہیں
پیسہ ہے جس کے پاس وہ مشہور ہے میاں

کچھ سوچ کر ہی اُس سے لگائی ہے ہم نے لو
دل سے قریب ، آنکھ سے مستور ہے میاں

عظمیؔ کسی کے بس میں کہاں طرز میرؔ کی
یعنی زمین آسماں سے دور ہے میاں
 

الف عین

لائبریرین
**
جو چا ہوں بھی تو اب خود کو بدل سکتا نہیں ہوں
سمندر ہوں ، کناروں سے نکل سکتا نہیں ہوں

میں یخ بستہ فضاؤں میں اسیرِ زندگی ہوں
تری سانسوں کی گرمی سے پگھل سکتا نہیں ہوں

مرے پاؤں کے نیچے جو زمیں ہے گھومتی ہے
تو یوں اے آسماں ! میں بھی سنبھل سکتا نہیں ہوں

خود اپنے دشمنوں کے ساتھ سمجھوتا ہے ممکن
تمہارے دشمنوں کے ساتھ چل سکتا نہیں ہوں

وہ پودا نفرتوں کا ہے جہاں چاہے اُگا لو
محبت ہوں میں ہر مٹی میں پھل سکتا نہیں ہوں

اُنہیں لڑنا پڑے گا مجھ سے جب تک ہوں زندہ
حصارِ دشمناں سے گو نکل سکتا نہیں ہوں

کھلے ہیں راستے کتنے مرے رستے میں عظمیؔ
مگر میں ہوں کہ ہر سانچے میں ڈھل سکتا نہیں ہوں
 

الف عین

لائبریرین
**
فصل نیساں مانگتے ہیں کشتِ بارانی سے ہم
تھک نہیں پاتے سرابوں کی نگہبانی سے ہم
عمریں لگ جاتی ہیں کہنے میں بنانے میں جنہیں
بھول جاتے ہیں وہ باتیں کتنی آسانی سے ہم
تیری قربت سے کھلے ہیں آج اپنے آپ پر
کب میسر خود کو تھے اتنی فراوانی سے ہم
گھل رہا تھا عکس تیرا رقص کرتی جھیل میں
کس طرح خود کو بچاتے نیلگوں پانی سے ہم
اور بھی کچھ چیز تھی اُس دانۂ گندم کے ساتھ
دام میں آتے کہاں تھے اتنی آسانی سے ہم
جو سمجھتے ہیں کہ ان کے دم سے ہے بزمِ جہاں
دیکھتے رہتے ہیں اُن لوگوں کو حیرانی سے ہم
یوں تو ناواقف نہیں تھے وقت کے بازار سے
سر گرانی میں بکے ہیں کتنی ارزانی سے ہم
آپ اپنے روبرو ہونے کی اک خواہش بھی ہے
تنگ بھی آئے ہوئے ہیں آئینہ خوانی سے ہم
لفظ لو دینے لگے ہیں ، آتشی ہے روشنی
بات کر بیٹھے ہیں عظمیؔ کس مہارانی سے ہم
 

الف عین

لائبریرین
**
شعلۂ رنج سمٹنا ہے نہ کم ہونا ہے
صرف دو چار دنوں کا یہ کہاں رونا ہے

لاکھ کوشش پہ بھی یہ بھید نہیں کھل پاتا
کاٹنا دکھ ہے کسے رنج کسے بونا ہے

ہم نے رسوائی کمائی ہے بہے مشکل سے
اپنی چاندی بھی یہی اور یہی سونا ہے

قرض باقی ہی نہیں رکھنا کوئی دنیا کا
جو بھی پایا ہے یہاں ہم نے یہیں کھونا ہے

اتنی جلدی نہ چھڑا ہاتھ مرے ہاتھوں سے
تیری یادوں نے مرا زادِ سفر ہونا ہے

یاس کے زہر کو تریاق بنا کر عظمیؔ
یاد کی راکھ کے بستر پہ ہمیں سونا ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
پسِ دیوارِ زنداں زندگی موجود رہتی ہے
اندھیرا لاکھ ہو کچھ روشنی موجود رہتی ہے

سرِ دربار و مقتل ایک سا موسم انا کا ہے
گراں سر میں ہمیشہ سر کشی موجود رہتی ہے

رواں رکھتے ہیں ہم کو دشت دریا، دھوپ دروازے
سرابوں سے سفر میں تشنگی موجود رہتی ہے

نظر سے جوڑ رکھتا ہے یہ دل ایسے بھی نظارے
کہ بعد از مرگ بھی حیرانگی موجود رہتی ہے

بہت آسان راہیں بھی بہت آساں نہیں ہوتیں
سبھی رستوں میں تھوڑی گمرہی موجود رہتی ہے

تلاطم میں سدا رہتیں ہیں کرنیں حسنِ تاباں کی
نصیبِ دشمناں کچھ برہمی موجود رہتی ہے

مری سوچوں میں یوں رچ بس گئے ہیں شبنمی موسم
تواتر سے تہہ مژگاں نمی موجود رہتی ہے

نکل پاتا نہیں میں کوچۂ بے نام سے عظمیؔ
کہ اسبابِ سفر میں کچھ کمی موجود رہتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
**
آنکھوں سے کوئی خواب بچا کر نہیں رکھا
کل کے لئے کچھ بھی تو بچا کر نہیں رکھا

خود کو بھی خبر ہونے نہیں دی کبھی اپنی
خواہش کو سرِ بزم سجا کر نہیں رکھا

دو گام ہٹی پیچھے تو سو گام ہٹے ہم
دنیا کو تری دل سے لگا کر نہیں رکھا

اِس آب و ہوا ہی میں کوئی عیب ہے ورنہ
ہر شخص کو ہم نے تو خفا کر نہیں رکھا

کتنے ہی دنوں بعد چلا ہوں اُسے ملنے
اچھا سا بہانہ بھی بنا کر نہیں رکھا

پھر کہنا کہ پتھر ہے ترے سینے میں ، نہیں دل
اِس کو اگر روگ لگا کر نہیں رکھا

کس منہ سے ہے اب دشت نوردی کی شکایت
بستی ہی کو جب تو نے بسا کر نہیں رکھا

کب اُس کے لئے چشم براہ ہم نہ تھے عظمیؔ
کب سلسلۂ صوت و صدا کر نہیں رکھا
 

الف عین

لائبریرین
**
اُس شام تک تو کوئے ملامت میں ہم نہ تھے
سچ بولنے سے پیشتر آفت میں ہم نہ تھے

سچ لکھ دیا تھا جس نے بہت ہی خلوص سے
اپنا ضمیر تھا وہ حقیقت میں ہم نہ تھے

عہدِ وصال میں بھی رہے تشنۂ سکوں
بچھڑے تو پھر بھی عرصۂ راحت میں ہم نہ تھے

اک خلق ہم کو دیکھ کے ششدر ہوئی مگر
اِک دوسرے کو دیکھ کر حیرت میں ہم نہ تھے

لے کر پھرے ہیں کشتیِ جاں کو بھنور بھنور
کس لمحہ دائروں کی حراست میں ہم نہ تھے

در ہردہ کچھ تو کہ بہت سوچ میں تھا وہ
گو فیصلے کے وقت عدالت میں ہم نہ تھے

سارے دریچے کھول کر رکھے شبِ دعا
پھر بھی سحر کو شہرَ بشارت میں ہم نہ تھے

اپنی خوشی سے خود کو کیا آشنائے غم
اے وقت! ورنہ تیری کفالت میں ہم نہ تھے
 

الف عین

لائبریرین
**
تلخ حالات کو جیسے بھی ہو بہتر کر دے
مجھ کو چھوٹا یا اُسے میرے برابر کر دے

بازیابی کے سبھی ہنر سکھا دے اُس کو
بھول جانے کا ہنر میرا مقدر کر دے

اے مرے شہر! مجھے خواب دکھا مت اتنے
گھر کی خواہش نہ کہیں پھر مجھے بے گھر کر دے

خواب دیکھے ہیں جو میں نے اِنہیں دے دے تعبیر
کشتِ خواہش ہی وگرنہ مری بنجر کر دے

جب بھی نکلوں میں یہی سوچ کے گھر سے نکلوں
جو بھی چا ہوں مری آنکھوں کو میسر کر دے

برف قْطبین کی ہو یا کہ لہو مقتل کا
جب پگھل جائے تو صحرا کو سمندر کر دے
 
Top