شاعری بہانہ ہے
(شاعری کی کتاب "اُڑانوں کا ہرا موسم" کا دیباچہ)
"جوگ سنجوگ" اور بہت پرانی کہانی کے بعد اسلام عظمی نے شاعری بھی شروع کر دی ہے"
"تو پھر؟"
"اُڑانوں کا ہرا موسم" اُس کی شاعری کی کتاب ہے"
"تو پھر؟"
"اچھی شاعری ہے"
"تو پھر؟"
" بس ایسے ہی ہے"
"تو پھر؟"
زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔۔معلوم نہیں یہ گل محمد کون تھا؟"آپ جانتے ہیں کیا؟"
"ادب کیا ہے ؟"
بات بنانا یا پھر بات بڑھانا
حیران ہونا یا پھر حیرتیں جگانا
دھوپ کی کہانی یا پھر درد کی روانی
اپنی مرضی کے زمین و آسماں بنانے کی ایک طفلانہ حرکت یا جاگتی آنکھوں سے دیکھے جانے والے خوابوں کی تماشا گاہ۔
دیکھو تو کچھ بھی نہیں ، سوچو تو بہت کچھ
ادب انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے بھی نہیں
ادب بنیادی حقوق کا مسئلہ بھی نہیں
"تو پھر یہ سب بکھیڑا کیا ہے ؟"
"شاعری ایک صدا ہے یا کہ سزا؟"
"بند دروازوں پر دستکیں کیوں ؟"
روزنِ دیوار سے در آنے والی کرنوں کی پذیرائی کس لئے ؟
کس لئے یہ تجسس؟کس لئے یہ جستجو؟
جاننے اور جانے جانے کی یہ خواہش کیوں ؟
ادب تجسس کو تجسیم کرتا ہے ۔
ادب حدوں سے اِدھر اور سرحدوں سے اُدھر کے منظر نامے بناتا ہے ۔
ادب سروں اور سرمدوں کا تعین کرتا ہے ۔
لفظ کا لکھا جانا اس بات کی شعوری کوشش ہے کہ کمزور سماعت والے بھی جان لیں کہ ہو کیا رہا ہے ؟
مصور تصویر بنا کر رنگوں کو اعتبار عطا کرتا ہے ۔
شاعری لفظوں کی مناسب ترتیب و تناسب سے ایک غیر مرئی قوس و قزح ایجاد کرتی ہے ۔
رنگ اور سنگ صوتی اعتبار سے ایک جیسے مگر صفاتی سطح پر متضاد ہیں مگر تاثیر دونوں کی بھر پور ہے ۔
لفظوں میں تاثیر کی تلاش شاعری ہے ۔
کوئی جذبے کو متاع مانتا ہے تو کوئی ضیاع، بات اپنی اپنی اُڑان کی ہے ۔اور پھر لفظوں کا قصہ بھی عجیب ہے کہ کچھ لفظ نصاب بن جاتے ہیں تو کچھ نصیب۔حالات و تجربات کچھ لفظوں کو واجب الاحترام بنا دیتے ہیں ۔یہی لفظ سوچوں کو ٹھنڈک عطا کرتے ہیں ۔ٹھنڈک کا احساس دلاتے ہیں ۔ پیڑ کہیں بھی اُگا ہو، کچھ نہ کچھ سایہ ضرور دیتا ہے ۔ناروائی اور نارسائی کی دھوپ میں سائے اور خوبصورتی کا نام شاید شاعری ہے ، زندگی ہے ۔
زندگی دھوپ اور چھاؤں دونوں سے عبارت ہے ۔
اسلام عظمی ؔ کو کسی نے مجبور نہیں کیا تھا کہ وہ لکھے ۔اس طرح اسلام عظمیؔ یہ حق نہیں رکھتا کہ کوئی اسے پڑھے ۔سننا، پڑھنا اور لکھنا اختیاری افعال ہیں ۔
بہار کی ہوا اگرچہ اپنا تعارف خود کراتی ہے مگر ائر کنڈیشنگ نے جس کلچر کو جنم دیا ہے ، اس میں کھڑکی اور دریچہ بے معنی استعارے ٹھہرتے ہیں ۔
ادب اعداد و شمار کا کھیل نہیں کہ کچھ مروجہ اور مقررہ طریقوں سے خاطر خواہ نتائج حاصل کر لئے جائیں ۔پیدائش سے لے کر موت تک کے مراحل ایک جیسے سہی مگر ثانیوں ، گھنٹوں ، دنوں ، مہینوں اور سالوں کی جمع ، تفریق، ضرب اور تقسیم کی چھلنی سے گزرنے کے بعد زندگی ایک جیسی کب رہتی ہے ۔سفر ایک مثبت استعارہ سہی مگر موسم، جہت اور دھن اس کی نوعیت کو بدلتی رہتی ہے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ "کلام کرو تاکہ تم پہچانے جاؤ"
مگر ہوتا یہ کہ چپ رہو تاکہ تم برقرار رہو۔
مت سنو تاکہ تم محفوظ رہو۔
مت دیکھو کہ تم دوسروں کی نظر میں آنے سے بچے رہو۔
اسلام عظمیؔ لکھنے کا پنگا لے کر تم کس بکھیڑے میں پڑ گئے ہو؟
تصدیق کی خواہش
تکذیب کا ڈر
اور تم جو کہتے ہو کہ" ہو سکتا ہے کہ کوئی ناقد با امرِ مجبوری کسی گئے گزرے شعر کی تعریف پر مجبور ہو جائے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی اچھے شعر کی داد نہ دے ۔"تو کیا ضروری ہے کہ یہ مفروضہ محض ایک مفروضہ ہی نہ ہو۔خوب صورتیاں اور بد صورتیاں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہمیشہ سے محوِ سفر رہی ہیں اور رہیں گی۔
شاعری کے حوالے سے ایک بات یاد آئی کہ زندگی میں ڈھنگ کا ایک شعر بھی ہو جائے تو غنیمت ہے ۔یہ بات بجا مگر ایک سے زیادہ بھی اچھے شعر ہو جائیں تو کیا مضائقہ ہے ۔جستجو کامل ہو اور جذبہ صادق تو کیا میرؔ کے ہاں ۔۔۔۔۔
اسلام عظمیؔ
۸ ، اگست ۱۹۹۷ء العین ۔متحدہ عرب امارات۔