داغ آزمایا ہے مدام آپ کو بس بس اجی بس ۔ داغ دہلوی

فاتح

لائبریرین
آزمایا ہے مدام آپ کو، بس بس، اجی بس
دونوں ہاتھوں سے سلام آپ کو، بس بس، اجی بس

آپ کی بندہ نوازی ہے جہاں میں مشہور
جانتا ہے یہ غلام آپ کو، بس بس، اجی بس

منہ نہ کھلوائیے میرا یونھی رہنے دیجے
یاد بھی ہے وہ کلام آپ کو، بس بس، اجی بس

کوچۂ غیر ہی میں زورِ نزاکت بھی ہوا
وہیں کرنا تھا قیام آپ کو، بس بس، اجی بس

کیا برے ڈھنگ میں کوئی نہیں اچھا کہتا
غیر بھی رکھتے ہیں نام آپ کو، بس بس، اجی بس

ہم نے کل دیکھ لیا، دیکھ لیا، دیکھ لیا
کہیں جاتے سرِ شام آپ کو، بس بس، اجی بس

طالبِ وصل ہو کیوں کوئی جو دشنام سنے
کون بھیجے یہ پیام آپ کو، بس بس، اجی بس

حیلۂ مہر و وفا پر نہ تامّل نہ درن
اور وعدے میں کلام آپ کو، بس بس، اجی بس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (1)
پیجیے ساغر و جام، آپ کو بس بس، اجی بس

کیجیے ہاتھ لگا کر جو مرا کام تمام
یہ بھی آتا نہیں کام آپ کو، بس بس، اجی بس

یہ تو کہیے کہ نشان اس کا مٹایا کس نے
یاد ہو داغؔ کا نام آپ کو، بس بس، اجی بس​
(داغ دہلوی)​
(1) یہ مصرع دیوان میں مٹا ہوا ہے۔۔۔
 

طارق شاہ

محفلین
آزمایا ہے مدام آپ کو، بس بس، اجی بس​
دونوں ہاتھوں سے سلام آپ کو، بس بس، اجی بس​
آپ کی بندہ نوازی ہے جہاں میں مشہور​
جانتا ہے یہ غلام آپ کو، بس بس، اجی بس​
منہ نہ کھلوائیے میرا یونھی رہنے دیجے​
یاد بھی ہے وہ کلام آپ کو، بس بس، اجی بس​
کوچۂ غیر ہی میں زورِ نزاکت بھی ہوا​
وہیں کرنا تھا قیام آپ کو، بس بس، اجی بس​
کیا برے ڈھنگ میں کوئی نہیں اچھا کہتا​
غیر بھی رکھتے ہیں نام آپ کو، بس بس، اجی بس​
ہم نے کل دیکھ لیا، دیکھ لیا، دیکھ لیا​
کہیں جاتے سرِ شام آپ کو، بس بس، اجی بس​
طالبِ وصل ہو کیوں کوئی جو دشنام سنے​
کون بھیجے یہ پیام آپ کو، بس بس، اجی بس​
حیلۂ مہر و وفا پر نہ تامّل نہ درن​
اور وعدے میں کلام آپ کو، بس بس، اجی بس​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ (1)​
پیجیے ساغر و جام، آپ کو بس بس، اجی بس​
کیجیے ہاتھ لگا کر جو مرا کام تمام​
یہ بھی آتا نہیں کام آپ کو، بس بس، اجی بس​
یہ تو کہیے کہ نشان اس کا مٹایا کس نے​
یاد ہو داغؔ کا نام آپ کو، بس بس، اجی بس​
(داغ دہلوی)​
(1) یہ مصرع دیوان میں مٹا ہوا ہے۔۔۔
کیا برے ڈھنگ میں کوئی نہیں اچھا کہتا
غیر بھی رکھتے ہیں نام آپ کو، بس بس، اجی بس
کیا کہنے صاحب !
جناب فاتح صاحب
داغ دہلوی کی اِس عنایتِ خوب پر بہت سی داد قبول کیجیے
داغ کا دیوان اِس وقت دسترس میں نہیں، ورنہ مٹا ہوا مصرع اُس میں دیکھتا، کہ آیا میرے پاس جو دیوان ہے، یہ اُس میں ہے یا نہیں۔


ہم نے کل دیکھ لیا، دیکھ لیا، دیکھ لیا​
کہیں جاتے سرِ شام آپ کو، بس بس، اجی بس​
بالا شعر کے دوسرے مصرع پر تردّد ہے کہ ' کہیں' بر وزنِ زمیں یا کمی ہی بستگی میں ہے، جبکہ تقاضائے بحر 'فاع' کے وزن کا متقاضی ہے
اگر کوئی اور شعر اِس طرح کی بستگی میں، آپ یا کوئی اور صاحب پیش کرینگے تو ممنون ہونگا
محض اپنے علم میں اضافے کے لئے ملتمس ہوں
ایک بار پھر سے داداور تشکّر
 

فاتح

لائبریرین
کیا برے ڈھنگ میں کوئی نہیں اچھا کہتا
غیر بھی رکھتے ہیں نام آپ کو، بس بس، اجی بس
کیا کہنے صاحب !
جناب فاتح صاحب
داغ دہلوی کی اِس عنایتِ خوب پر بہت سی داد قبول کیجیے
جناب طارق شاہ صاحب! بہت ممنون ہوں۔
داغ کا دیوان اِس وقت دسترس میں نہیں، ورنہ مٹا ہوا مصرع اُس میں دیکھتا، کہ آیا میرے پاس جو دیوان ہے، یہ اُس میں ہے یا نہیں۔
منتظر رہوں گا قبلہ۔
ہم نے کل دیکھ لیا، دیکھ لیا، دیکھ لیا
کہیں جاتے سرِ شام آپ کو، بس بس، اجی بس​
بالا شعر کے دوسرے مصرع پر تردّد ہے کہ ' کہیں' بر وزنِ زمیں یا کمی ہی بستگی میں ہے، جبکہ تقاضائے بحر 'فاع' کے وزن کا متقاضی ہے
اگر کوئی اور شعر اِس طرح کی بستگی میں، آپ یا کوئی اور صاحب پیش کرینگے تو ممنون ہونگا
محض اپنے علم میں اضافے کے لئے ملتمس ہوں
ایک بار پھر سے داداور تشکّر
جناب آپ کا نکتہ بجا ہے کہ یہ بحر فاع سے شروع ہوتی ہے اور "کہیں" بر وزن فاع نہیں۔
یہ غزل بحر رمل مثمن مخبون مقصور یا محذوف (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن یا فعلات) میں ہے۔ اور اس بحر کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے پہلے رکن "فاعلاتن" کو "فعلاتن" بھی باندھا جا سکتا ہے اور ہر شاعر نے اس اجازت کو استعمال کیا ہے۔غالب کے چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جن میں قبلہ نے رکن اول کو فاعلاتن کی بجائے فعِلاتن باندھا ہے:

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
 

طارق شاہ

محفلین
جناب طارق شاہ صاحب! بہت ممنون ہوں۔

منتظر رہوں گا قبلہ۔

جناب آپ کا نکتہ بجا ہے کہ یہ بحر فاع سے شروع ہوتی ہے اور "کہیں" بر وزن فاع نہیں۔
یہ غزل بحر رمل مثمن مخبون مقصور یا محذوف (فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن یا فعلات) میں ہے۔ اور اس بحر کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے پہلے رکن "فاعلاتن" کو "فعلاتن" بھی باندھا جا سکتا ہے اور ہر شاعر نے اس اجازت کو استعمال کیا ہے۔غالب کے چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جن میں قبلہ نے رکن اول کو فاعلاتن کی بجائے فعِلاتن باندھا ہے:

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
جناب من!
بہت ممنون ہوں جواب کے لئے، جو باعث تقویت اور اضافہٴ علم ہوا
بہت شکریہ!
بہت خوش رہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت کلام آپکی بدولت پڑھنے کو مل گیا۔ بہت شکریہ فاتح بھائی
اور ادبی بحث مجھ غریب کے سر سے گذر گئی۔:idontknow: امید ہے کہ آپ احباب کی بدولت کبھی وہ بھی سمجھ آنے لگے گی۔:rolleyes:
 
Top